شام سب آمریت کا کیا دھرا ہے
مارچ 2011ء کو دمشق کے مضافات میں رہنے والے 80ہزار شامیوں نے ظلم و استبداد کے خلاف آواز بلند کی۔
لاہور:
سفید کفن میں لپٹی ہوئی لاشیں ہیں، جوانوں کی اور ان کے درمیان ایک چھوٹا سا بچہ ہے، آنکھیں بند ہیں، ابدی نیند نے اسے زندگی کرنے کی مہلت ہی نہ دی۔ ایک ایسا منظر جسے دیکھ کر دل شق ہوجائے۔ جان سے جانے والے یہ وہ لوگ ہیں جو شام کے دارالحکومت دمشق کے نواحی علاقے میں اس وقت ہلاک ہوئے جب ان کے 'مہربان حکمران' بشارالاسد کے اشارے پر شامی فوجوں نے اپنے ہی ہم مذہب لوگوں پر کیمیاوی حملہ کیا۔ ان کی خطا یہ تھی کہ وہ اپنے مطلق العنان صدر کی چیرہ دستیوں سے تنگ آچکے تھے۔
مارچ 2011ء کو دمشق کے مضافات میں رہنے والے 80ہزار شامیوں نے ظلم و استبداد کے خلاف آواز بلند کی۔ ان سب لوگوں نے ایک مظاہرہ کیا تھا۔ سزا یہ ملی کہ چند گھنٹوں کے اندر شامی فوجوں نے علاقے کا محاصرہ کرلیا، ان پر خوراک، پانی اور دواؤں کے دروازے بند ہوئے اور سزاؤں کے نئے در کھلے۔
اس علاقے میں رہنے والا ایک نوجوان قاسم عید چند دنوں پہلے اپنے کالج سے واپس آیا تھا، اس نے اور اس کے ساتھیوں نے 21 اگست 2013ء کو قہر و عذاب کی جو رات گزاری اس کے بارے میں قاسم نے تفصیل سے لکھا ہے۔ یہ وہ رات تھی جب ان لوگوں پر شامی افواج نے سارین گیس سے حملہ کیا۔ وہ لکھتا ہے کہ صبح پونے پانچ بجے تھے جب میری آنکھ کھلی۔ ہر طرف گہرا اندھیرا تھا اور میں دیوانوں کی طرح سانس لینے کی کوشش کررہا تھا۔ میرا حلق بند تھا، سر درد سے پھٹ رہا تھا، آنکھیں جل رہی تھیں اور دم گھٹ رہا تھا۔ میں نے اپنے سینے پر مکے مارے تاکہ سانس لے سکوں لیکن بے سود، یوں محسوس ہورہا تھا جیسے میرا دل پھٹ جائے گا۔
اچانک میری سانس کی نالی کھل گئی۔ ہوا میرے پھیپھڑوں کو چیرنے لگی۔ آنکھوں میں سوئیاں چبھنے لگیں، تیز درد میرے معدے کو کھرچ رہا تھا۔ میں ہوش میں آتے ہی چیخا، انھوں نے کیمیاوی حملہ کیا ہے، تم سب سنبھلنے کی کوشش کرو۔ میرے تین ساتھی جو اس تباہ شدہ کمرے میں میرے ساتھ چھپے ہوئے تھے اور سورہے تھے، وہ نیم بیداری کے عالم میں تڑپ رہے تھے۔ یہ کرب و بلا کی ایک ختم نہ ہونے والی رات تھی۔
وہ لکھتا ہے کہ میرا قصبہ شامی فوجوں کے محاصرے میں آیا تو میری والدہ اور بھائی بہن وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے لیکن میں وہیں رکا رہا۔قاسم نے اپنی ذمے داریاں نباہیں۔ اس نے کچھ دوستوں کو بچانے کی کوشش کی ۔ کچھ کو افواج کے تشدد سے ہلاک ہوتے دیکھا۔ غذا نایاب تھی، شیر خوار بچوں کو دودھ نہیں ملتا تھا۔وہ لکھتا ہے کہ میں نے شیر خوار اور چھوٹے بچوں کو بھوک سے بلکتے اور ہلاک ہوتے دیکھا۔ ان کی ننھی لاشیں اپنے ہاتھوں سے سپرد خاک کیں۔ اس نے لکھا کہ ایک ننھا بچہ جب سانس لینے کے لیے تڑپتا ہوا میری آغوش میں ختم ہوا تو مجھے محسوس ہوا کہ جیسے دنیا میری آنکھوں میں اندھیر ہوگئی ہے۔
قاسم اب برلن میں رہتا ہے اور کوشش کررہا ہے کہ شام میں ہونے والی خانہ جنگی کی بربادیاں لکھے۔ اس کی خواہش ہے کہ دنیا بھر کے لوگ اور خاص طور سے دنیا میں رہنے والے مسلمان جو خود کو 'مسلم امہ' کا حصہ سمجھتے ہیں وہ اس حقیقت سے آگاہ ہوں کہ مسلمان، کس کس طرح مسلمانوں پر ستم کررہے ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ دنیا ایک بہت پیچیدہ جگہ ہوگئی ہے۔ کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ شامیوں پر بشارالاسد کی افواج کا یہ گیس حملہ دراصل اس بات کا اشارہ ہے کہ صدر نے اپنے مخالفین پر فتح حاصل کرلی ہے۔ صدر کی افواج آگے بڑھ رہی ہیں جب کہ ان کے مخالفین اپنی جانیں بچانے کے لیے بھاگ رہے ہیں۔ روس کی طاقت بشارالاسد کی پشت پر ہے۔
امریکا چند لمحوں پہلے تک یہ کہہ رہا تھا کہ شامی صدر کو ان کے عہدے سے ہٹانا، اس کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ بشارالاسد کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کو شامی صدر کی طرف سے یہ کھلا پیغام دیا جاچکا ہے کہ تم ہمارے رحم و کرم پر ہو۔ کوئی تمہاری مدد کو نہیں آئے گا۔ اس کے ساتھ ہی ہر مرحلے پر شامی حکومت کی طرف سے یہ کہا جارہا ہے کہ کیمیاوی ہتھیاروں سے یہ حملہ ہم نے نہیں کیا۔
اسد حکومت کے مخالفین کا خیال تھا کہ اپنی ہی شہری آبادی کے خلاف اس تازہ ترین حملے کے بعد دنیا کے اہم دارالحکومتوں کی طرف سے شام کی مطلق العنان حکومت کی حمایت نہیں کی جائے گی لیکن ہوا اس کے برعکس۔ اس گیس حملے کے فوراً بعد برسلز میں مغربی حکومتوں کے اعلیٰ حکام جمع ہونے لگے۔ ان کا خیال تھا کہ شام کی تعمیر نو کے لیے انھیں اربوں ڈالر کی امدادی رقم بشارالاسد کے حوالے کرنی چاہیے۔ اس پس منظر میں اسد کے مخالفین کا یہ خوف بجا تھا کہ مغربی طاقتیں کسی قسم کے سیاسی لین دین کے بغیر اسد کو برسراقتدار رکھنے پر رضا مند ہوجائیں گی۔
مغربی سفارتکاروں کے درمیان بحث و مباحثہ چل رہا تھا اور کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ جہادی تنظیموں کا خوف مغربی حکومتوں کو کس نوعیت کا فیصلہ کرنے پر مجبور کرے گا۔ عین اس بحث کے بیچ ایک انہونی ہوگئی۔ امریکا نے شامی ہوائی اڈے پر اسکڈ میزائل ماردیے۔
ان سطروں کے لکھے جانے سے چند گھنٹوں پہلے نیویارک ٹائمز کے پیٹر بیکر نے لکھا کہ بشارالاسد کی حکومت نے جب 2013ء میں اپنے ہی لوگوں پر کیمیاوی حملے کیے تو اس وقت کے امریکی صدر براک اوباما نے جوابی حملہ کرنے کے بجائے شامی صدر سے یہ معاہدہ کیا تھا کہ وہ تمام کیمیاوی ہتھیاروں کو امریکا کے سپرد کردیں گے۔ سابق صدر اوباما اس معاہدے سے مطمئین تھے اور اپنے نکتہ چینوں کے اعتراضات کو انھوں نے مسترد کردیا تھا لیکن گزشتہ دس دنوں میں جو کچھ ہوا وہ اس بات کا مظہر ہے کہ 2013ء کا معاہدہ کامیاب نہیں رہا تھا۔
شامی صدر نے غلط بیانی کی تھی اور تمام کیمیاوی ہتھیار انسپکٹروں کے حوالے نہیں کیے تھے یا پھر دوبارہ سے یہ ہتھیار بنا لیے گئے تھے جو بشارالاسد نے اپنے ہی نہتے شہریوں پر استعمال کیے۔ روس میں سابق امریکی سفیر مائیکل میک فال کا کہنا ہے کہ اس الم ناک واقعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ آمروں سے معاہدوں کی کیا اہمیت ہے۔ سابق امریکی سفیر کا یہ بھی کہنا ہے کہ انسانی حقوق کی اتنی بڑی خلاف ورزی روسی صدر پوتن اور روسی اہلکاروں کے علم کے بغیر ممکن نہیں تھی۔ انھیں یقیناً اندازہ تھا کہ بشارالاسد نے کیمیاوی ہتھیار چھپائے ہوئے ہیں۔ کچھ کا یہ بھی خیال ہے کہ یہ ہتھیار 2013ء کے بعد بنائے گئے۔
7 اپریل کو صدر ٹرمپ کے حکم پر شام میں اسکڈ میزائل کے جو حملے ہوئے اور اس میں جو ہلاکتیں ہوئیں، انھوں نے ساری دنیا کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ ایک طرف لوگ اپنے ہی شہریوں پر بشارالاسد کے گیس حملوں پر شدت سے برا فروختہ ہیں، دوسری طرف وہ امریکی میزائل حملوں کو غیر انسانی اور غیر اخلاقی قرار دے رہے ہیں۔صدر ٹرمپ نے شامی ہوائی اڈے پر 59 اسکڈ میزائل مارنے کے لیے اس وقت کا انتخاب کیا جب وہ امریکا آئے ہوئے چینی صدر کے ساتھ سٹیک کھارہے تھے۔
دوسری طرف روس اور ایران ہیں جو صدر بشارالاسد کے ساتھ ہیں اور انھوں نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ اگر امریکا نے آیندہ شام کی سرزمین پر حملہ کیا تو اسے قیمت چکانے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ شام کے شہری کھائی اور خندق کے درمیان پھنسے ہوئے ہیں اور جرم بے گناہی میں مارے جارہے ہیں۔
2011ء میں جب عرب بہار کا شہرہ ہوا تو یہ 'بہار' شام پر بھی آئی۔ شامی جو ایک طویل عرصے سے آمر مطلق کے عذاب بھگت رہے تھے، ان کی ایک بڑی تعداد نے اس عرب بہار میں باغیوں کا ساتھ دیا۔ اس کے نتیجے میں شام آج لہولہان ہے۔ اس کے لاکھوں لوگ مارے جاچکے اور لاکھوں ترک وطن پر مجبور ہوئے۔ خوش حال اور خوش خیال شامی جو ایک پُر مسرت زندگی گذارتے تھے۔ ان کے بچے ملک یا باہر کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھتے تھے، ان کے ہاتھ، دینے والے ہاتھ تھے، آج وہ اور ان کے بچے چھت سے محروم اور نان شبینہ کے محتاج ہیں۔ وہ خطہ جہاں رسم الخط ایجاد ہوا، جس نے اعلیٰ ادب دنیا کو دیا اور جہاں کے ظروف، قالین اور پارچہ جات کی ساری دنیا میں شہرت تھی آج وہ غریب الدیار ہیں۔
ان پر ٹوٹنے والی آفت کے دونوں فریق ایک ہی خدا اور ایک ہی رسول کے ماننے والے ہیں۔ وہ 'مسلم امہ' کا حصہ کہلاتے ہیں۔ کوئی یہ بات کہنے والوں سے پوچھے کہ اس حقیقت پر نظر کیجیے کہ یہ کون سی ملتِ واحدہ ہے جس کا شیرازہ بکھر چکا ہے۔ جن ملکوں پر آمروں، بادشاہوں اور مطلق العنان حکمرانوں کا سکہ چلتا ہے اور جن کے اشارۂ ابرو سے انسان کیڑے مکوڑوں کی طرح روند دیے جاتے ہیں، ان کا مستقبل ہمیشہ تاریک ہوتا ہے، خانہ جنگیاں ان کا مقدر ٹہرتی ہیں اور بیرونی طاقتیں انھیں اپنا تختۂ مشق بناتی ہیں۔ آمریت نہ ہوتی تو آج میرے شام کی یہ حالت نہ ہوتی۔
سفید کفن میں لپٹی ہوئی لاشیں ہیں، جوانوں کی اور ان کے درمیان ایک چھوٹا سا بچہ ہے، آنکھیں بند ہیں، ابدی نیند نے اسے زندگی کرنے کی مہلت ہی نہ دی۔ ایک ایسا منظر جسے دیکھ کر دل شق ہوجائے۔ جان سے جانے والے یہ وہ لوگ ہیں جو شام کے دارالحکومت دمشق کے نواحی علاقے میں اس وقت ہلاک ہوئے جب ان کے 'مہربان حکمران' بشارالاسد کے اشارے پر شامی فوجوں نے اپنے ہی ہم مذہب لوگوں پر کیمیاوی حملہ کیا۔ ان کی خطا یہ تھی کہ وہ اپنے مطلق العنان صدر کی چیرہ دستیوں سے تنگ آچکے تھے۔
مارچ 2011ء کو دمشق کے مضافات میں رہنے والے 80ہزار شامیوں نے ظلم و استبداد کے خلاف آواز بلند کی۔ ان سب لوگوں نے ایک مظاہرہ کیا تھا۔ سزا یہ ملی کہ چند گھنٹوں کے اندر شامی فوجوں نے علاقے کا محاصرہ کرلیا، ان پر خوراک، پانی اور دواؤں کے دروازے بند ہوئے اور سزاؤں کے نئے در کھلے۔
اس علاقے میں رہنے والا ایک نوجوان قاسم عید چند دنوں پہلے اپنے کالج سے واپس آیا تھا، اس نے اور اس کے ساتھیوں نے 21 اگست 2013ء کو قہر و عذاب کی جو رات گزاری اس کے بارے میں قاسم نے تفصیل سے لکھا ہے۔ یہ وہ رات تھی جب ان لوگوں پر شامی افواج نے سارین گیس سے حملہ کیا۔ وہ لکھتا ہے کہ صبح پونے پانچ بجے تھے جب میری آنکھ کھلی۔ ہر طرف گہرا اندھیرا تھا اور میں دیوانوں کی طرح سانس لینے کی کوشش کررہا تھا۔ میرا حلق بند تھا، سر درد سے پھٹ رہا تھا، آنکھیں جل رہی تھیں اور دم گھٹ رہا تھا۔ میں نے اپنے سینے پر مکے مارے تاکہ سانس لے سکوں لیکن بے سود، یوں محسوس ہورہا تھا جیسے میرا دل پھٹ جائے گا۔
اچانک میری سانس کی نالی کھل گئی۔ ہوا میرے پھیپھڑوں کو چیرنے لگی۔ آنکھوں میں سوئیاں چبھنے لگیں، تیز درد میرے معدے کو کھرچ رہا تھا۔ میں ہوش میں آتے ہی چیخا، انھوں نے کیمیاوی حملہ کیا ہے، تم سب سنبھلنے کی کوشش کرو۔ میرے تین ساتھی جو اس تباہ شدہ کمرے میں میرے ساتھ چھپے ہوئے تھے اور سورہے تھے، وہ نیم بیداری کے عالم میں تڑپ رہے تھے۔ یہ کرب و بلا کی ایک ختم نہ ہونے والی رات تھی۔
وہ لکھتا ہے کہ میرا قصبہ شامی فوجوں کے محاصرے میں آیا تو میری والدہ اور بھائی بہن وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے لیکن میں وہیں رکا رہا۔قاسم نے اپنی ذمے داریاں نباہیں۔ اس نے کچھ دوستوں کو بچانے کی کوشش کی ۔ کچھ کو افواج کے تشدد سے ہلاک ہوتے دیکھا۔ غذا نایاب تھی، شیر خوار بچوں کو دودھ نہیں ملتا تھا۔وہ لکھتا ہے کہ میں نے شیر خوار اور چھوٹے بچوں کو بھوک سے بلکتے اور ہلاک ہوتے دیکھا۔ ان کی ننھی لاشیں اپنے ہاتھوں سے سپرد خاک کیں۔ اس نے لکھا کہ ایک ننھا بچہ جب سانس لینے کے لیے تڑپتا ہوا میری آغوش میں ختم ہوا تو مجھے محسوس ہوا کہ جیسے دنیا میری آنکھوں میں اندھیر ہوگئی ہے۔
قاسم اب برلن میں رہتا ہے اور کوشش کررہا ہے کہ شام میں ہونے والی خانہ جنگی کی بربادیاں لکھے۔ اس کی خواہش ہے کہ دنیا بھر کے لوگ اور خاص طور سے دنیا میں رہنے والے مسلمان جو خود کو 'مسلم امہ' کا حصہ سمجھتے ہیں وہ اس حقیقت سے آگاہ ہوں کہ مسلمان، کس کس طرح مسلمانوں پر ستم کررہے ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ دنیا ایک بہت پیچیدہ جگہ ہوگئی ہے۔ کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ شامیوں پر بشارالاسد کی افواج کا یہ گیس حملہ دراصل اس بات کا اشارہ ہے کہ صدر نے اپنے مخالفین پر فتح حاصل کرلی ہے۔ صدر کی افواج آگے بڑھ رہی ہیں جب کہ ان کے مخالفین اپنی جانیں بچانے کے لیے بھاگ رہے ہیں۔ روس کی طاقت بشارالاسد کی پشت پر ہے۔
امریکا چند لمحوں پہلے تک یہ کہہ رہا تھا کہ شامی صدر کو ان کے عہدے سے ہٹانا، اس کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ بشارالاسد کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کو شامی صدر کی طرف سے یہ کھلا پیغام دیا جاچکا ہے کہ تم ہمارے رحم و کرم پر ہو۔ کوئی تمہاری مدد کو نہیں آئے گا۔ اس کے ساتھ ہی ہر مرحلے پر شامی حکومت کی طرف سے یہ کہا جارہا ہے کہ کیمیاوی ہتھیاروں سے یہ حملہ ہم نے نہیں کیا۔
اسد حکومت کے مخالفین کا خیال تھا کہ اپنی ہی شہری آبادی کے خلاف اس تازہ ترین حملے کے بعد دنیا کے اہم دارالحکومتوں کی طرف سے شام کی مطلق العنان حکومت کی حمایت نہیں کی جائے گی لیکن ہوا اس کے برعکس۔ اس گیس حملے کے فوراً بعد برسلز میں مغربی حکومتوں کے اعلیٰ حکام جمع ہونے لگے۔ ان کا خیال تھا کہ شام کی تعمیر نو کے لیے انھیں اربوں ڈالر کی امدادی رقم بشارالاسد کے حوالے کرنی چاہیے۔ اس پس منظر میں اسد کے مخالفین کا یہ خوف بجا تھا کہ مغربی طاقتیں کسی قسم کے سیاسی لین دین کے بغیر اسد کو برسراقتدار رکھنے پر رضا مند ہوجائیں گی۔
مغربی سفارتکاروں کے درمیان بحث و مباحثہ چل رہا تھا اور کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ جہادی تنظیموں کا خوف مغربی حکومتوں کو کس نوعیت کا فیصلہ کرنے پر مجبور کرے گا۔ عین اس بحث کے بیچ ایک انہونی ہوگئی۔ امریکا نے شامی ہوائی اڈے پر اسکڈ میزائل ماردیے۔
ان سطروں کے لکھے جانے سے چند گھنٹوں پہلے نیویارک ٹائمز کے پیٹر بیکر نے لکھا کہ بشارالاسد کی حکومت نے جب 2013ء میں اپنے ہی لوگوں پر کیمیاوی حملے کیے تو اس وقت کے امریکی صدر براک اوباما نے جوابی حملہ کرنے کے بجائے شامی صدر سے یہ معاہدہ کیا تھا کہ وہ تمام کیمیاوی ہتھیاروں کو امریکا کے سپرد کردیں گے۔ سابق صدر اوباما اس معاہدے سے مطمئین تھے اور اپنے نکتہ چینوں کے اعتراضات کو انھوں نے مسترد کردیا تھا لیکن گزشتہ دس دنوں میں جو کچھ ہوا وہ اس بات کا مظہر ہے کہ 2013ء کا معاہدہ کامیاب نہیں رہا تھا۔
شامی صدر نے غلط بیانی کی تھی اور تمام کیمیاوی ہتھیار انسپکٹروں کے حوالے نہیں کیے تھے یا پھر دوبارہ سے یہ ہتھیار بنا لیے گئے تھے جو بشارالاسد نے اپنے ہی نہتے شہریوں پر استعمال کیے۔ روس میں سابق امریکی سفیر مائیکل میک فال کا کہنا ہے کہ اس الم ناک واقعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ آمروں سے معاہدوں کی کیا اہمیت ہے۔ سابق امریکی سفیر کا یہ بھی کہنا ہے کہ انسانی حقوق کی اتنی بڑی خلاف ورزی روسی صدر پوتن اور روسی اہلکاروں کے علم کے بغیر ممکن نہیں تھی۔ انھیں یقیناً اندازہ تھا کہ بشارالاسد نے کیمیاوی ہتھیار چھپائے ہوئے ہیں۔ کچھ کا یہ بھی خیال ہے کہ یہ ہتھیار 2013ء کے بعد بنائے گئے۔
7 اپریل کو صدر ٹرمپ کے حکم پر شام میں اسکڈ میزائل کے جو حملے ہوئے اور اس میں جو ہلاکتیں ہوئیں، انھوں نے ساری دنیا کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ ایک طرف لوگ اپنے ہی شہریوں پر بشارالاسد کے گیس حملوں پر شدت سے برا فروختہ ہیں، دوسری طرف وہ امریکی میزائل حملوں کو غیر انسانی اور غیر اخلاقی قرار دے رہے ہیں۔صدر ٹرمپ نے شامی ہوائی اڈے پر 59 اسکڈ میزائل مارنے کے لیے اس وقت کا انتخاب کیا جب وہ امریکا آئے ہوئے چینی صدر کے ساتھ سٹیک کھارہے تھے۔
دوسری طرف روس اور ایران ہیں جو صدر بشارالاسد کے ساتھ ہیں اور انھوں نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ اگر امریکا نے آیندہ شام کی سرزمین پر حملہ کیا تو اسے قیمت چکانے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ شام کے شہری کھائی اور خندق کے درمیان پھنسے ہوئے ہیں اور جرم بے گناہی میں مارے جارہے ہیں۔
2011ء میں جب عرب بہار کا شہرہ ہوا تو یہ 'بہار' شام پر بھی آئی۔ شامی جو ایک طویل عرصے سے آمر مطلق کے عذاب بھگت رہے تھے، ان کی ایک بڑی تعداد نے اس عرب بہار میں باغیوں کا ساتھ دیا۔ اس کے نتیجے میں شام آج لہولہان ہے۔ اس کے لاکھوں لوگ مارے جاچکے اور لاکھوں ترک وطن پر مجبور ہوئے۔ خوش حال اور خوش خیال شامی جو ایک پُر مسرت زندگی گذارتے تھے۔ ان کے بچے ملک یا باہر کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھتے تھے، ان کے ہاتھ، دینے والے ہاتھ تھے، آج وہ اور ان کے بچے چھت سے محروم اور نان شبینہ کے محتاج ہیں۔ وہ خطہ جہاں رسم الخط ایجاد ہوا، جس نے اعلیٰ ادب دنیا کو دیا اور جہاں کے ظروف، قالین اور پارچہ جات کی ساری دنیا میں شہرت تھی آج وہ غریب الدیار ہیں۔
ان پر ٹوٹنے والی آفت کے دونوں فریق ایک ہی خدا اور ایک ہی رسول کے ماننے والے ہیں۔ وہ 'مسلم امہ' کا حصہ کہلاتے ہیں۔ کوئی یہ بات کہنے والوں سے پوچھے کہ اس حقیقت پر نظر کیجیے کہ یہ کون سی ملتِ واحدہ ہے جس کا شیرازہ بکھر چکا ہے۔ جن ملکوں پر آمروں، بادشاہوں اور مطلق العنان حکمرانوں کا سکہ چلتا ہے اور جن کے اشارۂ ابرو سے انسان کیڑے مکوڑوں کی طرح روند دیے جاتے ہیں، ان کا مستقبل ہمیشہ تاریک ہوتا ہے، خانہ جنگیاں ان کا مقدر ٹہرتی ہیں اور بیرونی طاقتیں انھیں اپنا تختۂ مشق بناتی ہیں۔ آمریت نہ ہوتی تو آج میرے شام کی یہ حالت نہ ہوتی۔