عام انتخابات شفاف اور غیرجانبدارانہ بنانے کا عزم
وزیر اعظم نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ حکومت ملک میں آزادانہ‘ شفاف اور منصفانہ انتخابات منعقد کرائے گی
یہ بات پوری قوم کے لیے نہایت خوش آیند ہے کہ سربراہ مملکت آصف علی زرداری اور سربراہ حکومت راجہ پرویز اشرف دونوں نے ہی اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ اگلے انتخابات صاف اور شفاف کرائے جائیں گے اور ان میں کسی قسم کی دھاندلی نہیں ہونے دی جائے گی۔
صدر مملکت نے خیرپور کی تحصیل کوٹ ڈیجی کے علاقے گوٹھ نواب وسان میں پارٹی رہنمائوں اور کارکنوں کے بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عام انتخابات مقررہ وقت پر شفاف اور منصفانہ ہوں گے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ نہ تو دھاندلی کریں گے اور نہ ہی دھاندلی کرنے دیں گے۔ دوسری جانب وزیر اعظم نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ حکومت ملک میں آزادانہ' شفاف اور منصفانہ انتخابات منعقد کرائے گی۔
انھوں نے کہا کہ فخرالدین جی ابراہیم کی چیف الیکشن کمشنر کے طور پر اتفاق رائے سے تعیناتی سے آیندہ انتخابات کے بارے میں ہر قسم کی قیاس آرائیاں ختم ہوجانی چاہئیں۔ دونوں بڑوں کی جانب سے اس یقین دہانی کے بعد اس حوالے سے شک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی کہ آیندہ عام انتخابات ملک کی تاریخ کے سب سے زیادہ صاف اور شفاف انتخابات ہونے چاہئیں۔ یہی وقت کی ضرورت اور ملک میں جمہوری اقدار و روایات کے فروغ کا تقاضا بھی ہے کہ کوئی ایسا اقدام یا فیصلہ نہ کیا جائے جو یک طرفہ اور اتفاق رائے حاصل کیے بغیر کیا گیا ہو کیونکہ اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے اور ممکن ہے کوئی سیاسی تعطل پیدا ہو جائے۔
یہ بات خوش آیند ہے کہ اس سلسلے میں چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان کی بالاتفاق تقرری کے ساتھ ٹھوس اقدامات کا آغاز کر دیا گیا ہے اور پچھلے دنوں وزیراعظم نے بھی کہا تھا کہ قومی اہمیت کے معاملات پر تمام سیاسی قوتوں کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ حکومت کی جانب سے اگلے انتخابات سے پہلے نگران سیٹ کے حوالے سے اتفاق رائے تک پہنچنے کے لیے تمام سیاسی پارٹیوں کو اعتماد میں لینے کی بات بھی کی جا رہی ہے۔
یہ ساری باتیں' دعوے' وعدے اور بیانات اس امر کے غماز ہیں کہ حکمران نہ صرف حکومت کی آئینی میعاد پوری ہونے پر عام انتخابات کرانے کے ارادے پر کاربند ہیں بلکہ یہ عزم بھی رکھتے ہیں کہ انتخابات ایسے ہوں جن پر کسی کو انگلی اٹھانے کا موقع نہ ملے۔ یہ بات بھی حوصلہ افزاء ہے کہ اتفاق رائے سے متعین ہونے والے چیف الیکشن کمشنر بھی انھی خیالات کے حامل ہیں جن کا اظہار وہ گزشتہ چند روز میں کئی بار کر چکے ہیں۔ صدر و وزیر اعظم کی جانب سے اس دو ٹوک موقف کے بعد یہ افواہیں دم توڑ گئی ہیں کہ حکومت ایک سال میعاد بڑھانے کے بارے میں سوچ رہی ہے۔
خبریں آئی تھیں کہ اعلیٰ سطح پر اس بارے میں سوچ بچار ہوئی ہے تاہم بعد ازاں اسی علیٰ سطح سے اس خبر کی تردید کر دی گئی اور بتایا گیا کہ ایسا کچھ نہیں سوچا جا رہا اور اب صدر مملکت نے واضح کر دیا ہے کہ انتخابات اپنے وقت پر ہی ہوں گے یعنی موجودہ حکومت کی آئینی میعاد ختم ہونے کے بعد۔ ہمارے خیال میں حکومت ایسی کوئی کوشش کرے گی بھی تو اس کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ وہ سیاسی قوتیں جو قبل از وقت انتخابات کی امید لگائے بیٹھی ہیں کبھی نہیں چاہیں گی کہ الیکشن ایک سال کے لیے موخر کر دیا جائے۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو نگران حکومت کے معاملے پر مُک مکا نہیں کرنے دیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ مُک مکا ہونا بھی نہیں چاہیے کیونکہ اس سے جمہوریت کو نقصان پہنچے گا' خالص اور شفاف انتخابات کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ کسی قسم کا کوئی مُک مکا نہ کیا جائے۔ اپنے خطاب میں صدر زرداری نے اس امید کا اظہار کیا کہ آیندہ الیکشن بھی پیپلز پارٹی ہی جیتے گی۔ انھوں نے کہا کہ وہ پنجاب میں خود بیٹھیں گے' انھوں نے جیلوں کی گرمی برداشت کی ہے' سیاست کی گرمی ان کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔
صدر کا یہ کہنا درست ثابت ہو سکتا ہے کہ اگلے عام انتخابات میں بھی پیپلز پارٹی ہی جیتے تاہم ایسا اسی صورت میں ممکن ہو گا جب حکومت اس سے وابستہ عوام کی توقعات پر پورا اترے گی۔ ابھی بہت سے مسائل ہیں جن کے حل کے لیے کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانے کا وقت آ رہا ہے اس سلسلے میں ٹھوس تیاریوں کی ضرورت ہے' ڈرون حملوں کا حل تلاش کرنا ہے' ملکی و غیرملکی سرمایہ کاری بڑھانا ہے' بلوچستان اور کراچی کے حالات کو کنٹرول کرنا ہے' سیاسی و جمہوری استحکام کو یقینی بنانا ہے' بڑھتی ہوئی مہنگائی اور افراط زر کنٹرول کرنے کے لیے اقدامات عمل میں لانا ہے اور حکومت نے بار ہا عوام سے روزگار کے وسائل فراہم کرنے کے جو وعدے کر رکھے ہیں
ان کی پاسداری کے امکانات کا جائزہ لینا ہے۔ یہ سارے اقدامات کر لینے کے بعد ہی حکومت یہ کہنے کے قابل ہو گی کہ وہ ایک بار پھر جیت سکتی ہے بصورت دیگر یہ دعوے زبانی جمع خرچ ثابت ہوں گے۔ یہ بات بڑی خوش آیند ہے کہ حکومت نے لوڈ شیڈنگ پر جلد قابو پانے کا عندیہ دیا ہے' اس حوالے سے تازہ خبر یہ ملی ہے کہ اس سلسلے میں اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ لوڈ شیڈنگ کم ہو گئی تو ملکی معیشت بھی مستحکم ہو جائے گی یوں اگلے عام انتخابات کا انعقاد روشنیوں میں ممکن ہو سکے گا جن کے شفاف اور غیرجانبدارانہ ہونے کا صدر اور وزیر اعظم دونوں نے دعویٰ کیا ہے۔
صدر مملکت نے خیرپور کی تحصیل کوٹ ڈیجی کے علاقے گوٹھ نواب وسان میں پارٹی رہنمائوں اور کارکنوں کے بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عام انتخابات مقررہ وقت پر شفاف اور منصفانہ ہوں گے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ نہ تو دھاندلی کریں گے اور نہ ہی دھاندلی کرنے دیں گے۔ دوسری جانب وزیر اعظم نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ حکومت ملک میں آزادانہ' شفاف اور منصفانہ انتخابات منعقد کرائے گی۔
انھوں نے کہا کہ فخرالدین جی ابراہیم کی چیف الیکشن کمشنر کے طور پر اتفاق رائے سے تعیناتی سے آیندہ انتخابات کے بارے میں ہر قسم کی قیاس آرائیاں ختم ہوجانی چاہئیں۔ دونوں بڑوں کی جانب سے اس یقین دہانی کے بعد اس حوالے سے شک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی کہ آیندہ عام انتخابات ملک کی تاریخ کے سب سے زیادہ صاف اور شفاف انتخابات ہونے چاہئیں۔ یہی وقت کی ضرورت اور ملک میں جمہوری اقدار و روایات کے فروغ کا تقاضا بھی ہے کہ کوئی ایسا اقدام یا فیصلہ نہ کیا جائے جو یک طرفہ اور اتفاق رائے حاصل کیے بغیر کیا گیا ہو کیونکہ اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے اور ممکن ہے کوئی سیاسی تعطل پیدا ہو جائے۔
یہ بات خوش آیند ہے کہ اس سلسلے میں چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان کی بالاتفاق تقرری کے ساتھ ٹھوس اقدامات کا آغاز کر دیا گیا ہے اور پچھلے دنوں وزیراعظم نے بھی کہا تھا کہ قومی اہمیت کے معاملات پر تمام سیاسی قوتوں کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ حکومت کی جانب سے اگلے انتخابات سے پہلے نگران سیٹ کے حوالے سے اتفاق رائے تک پہنچنے کے لیے تمام سیاسی پارٹیوں کو اعتماد میں لینے کی بات بھی کی جا رہی ہے۔
یہ ساری باتیں' دعوے' وعدے اور بیانات اس امر کے غماز ہیں کہ حکمران نہ صرف حکومت کی آئینی میعاد پوری ہونے پر عام انتخابات کرانے کے ارادے پر کاربند ہیں بلکہ یہ عزم بھی رکھتے ہیں کہ انتخابات ایسے ہوں جن پر کسی کو انگلی اٹھانے کا موقع نہ ملے۔ یہ بات بھی حوصلہ افزاء ہے کہ اتفاق رائے سے متعین ہونے والے چیف الیکشن کمشنر بھی انھی خیالات کے حامل ہیں جن کا اظہار وہ گزشتہ چند روز میں کئی بار کر چکے ہیں۔ صدر و وزیر اعظم کی جانب سے اس دو ٹوک موقف کے بعد یہ افواہیں دم توڑ گئی ہیں کہ حکومت ایک سال میعاد بڑھانے کے بارے میں سوچ رہی ہے۔
خبریں آئی تھیں کہ اعلیٰ سطح پر اس بارے میں سوچ بچار ہوئی ہے تاہم بعد ازاں اسی علیٰ سطح سے اس خبر کی تردید کر دی گئی اور بتایا گیا کہ ایسا کچھ نہیں سوچا جا رہا اور اب صدر مملکت نے واضح کر دیا ہے کہ انتخابات اپنے وقت پر ہی ہوں گے یعنی موجودہ حکومت کی آئینی میعاد ختم ہونے کے بعد۔ ہمارے خیال میں حکومت ایسی کوئی کوشش کرے گی بھی تو اس کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ وہ سیاسی قوتیں جو قبل از وقت انتخابات کی امید لگائے بیٹھی ہیں کبھی نہیں چاہیں گی کہ الیکشن ایک سال کے لیے موخر کر دیا جائے۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو نگران حکومت کے معاملے پر مُک مکا نہیں کرنے دیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ مُک مکا ہونا بھی نہیں چاہیے کیونکہ اس سے جمہوریت کو نقصان پہنچے گا' خالص اور شفاف انتخابات کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ کسی قسم کا کوئی مُک مکا نہ کیا جائے۔ اپنے خطاب میں صدر زرداری نے اس امید کا اظہار کیا کہ آیندہ الیکشن بھی پیپلز پارٹی ہی جیتے گی۔ انھوں نے کہا کہ وہ پنجاب میں خود بیٹھیں گے' انھوں نے جیلوں کی گرمی برداشت کی ہے' سیاست کی گرمی ان کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔
صدر کا یہ کہنا درست ثابت ہو سکتا ہے کہ اگلے عام انتخابات میں بھی پیپلز پارٹی ہی جیتے تاہم ایسا اسی صورت میں ممکن ہو گا جب حکومت اس سے وابستہ عوام کی توقعات پر پورا اترے گی۔ ابھی بہت سے مسائل ہیں جن کے حل کے لیے کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانے کا وقت آ رہا ہے اس سلسلے میں ٹھوس تیاریوں کی ضرورت ہے' ڈرون حملوں کا حل تلاش کرنا ہے' ملکی و غیرملکی سرمایہ کاری بڑھانا ہے' بلوچستان اور کراچی کے حالات کو کنٹرول کرنا ہے' سیاسی و جمہوری استحکام کو یقینی بنانا ہے' بڑھتی ہوئی مہنگائی اور افراط زر کنٹرول کرنے کے لیے اقدامات عمل میں لانا ہے اور حکومت نے بار ہا عوام سے روزگار کے وسائل فراہم کرنے کے جو وعدے کر رکھے ہیں
ان کی پاسداری کے امکانات کا جائزہ لینا ہے۔ یہ سارے اقدامات کر لینے کے بعد ہی حکومت یہ کہنے کے قابل ہو گی کہ وہ ایک بار پھر جیت سکتی ہے بصورت دیگر یہ دعوے زبانی جمع خرچ ثابت ہوں گے۔ یہ بات بڑی خوش آیند ہے کہ حکومت نے لوڈ شیڈنگ پر جلد قابو پانے کا عندیہ دیا ہے' اس حوالے سے تازہ خبر یہ ملی ہے کہ اس سلسلے میں اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ لوڈ شیڈنگ کم ہو گئی تو ملکی معیشت بھی مستحکم ہو جائے گی یوں اگلے عام انتخابات کا انعقاد روشنیوں میں ممکن ہو سکے گا جن کے شفاف اور غیرجانبدارانہ ہونے کا صدر اور وزیر اعظم دونوں نے دعویٰ کیا ہے۔