دبئی میں ایرانی انٹیلی جنس افسر کو حساس معلومات دیں عزیر بلوچ
فریال تالپور کو ایک کروڑ ماہانہ بھتہ جاتا تھا، ارشد پپو بھائی اور ساتھی کے سروں سے فٹبال کھیلی، اعتراف
KARACHI:
لیاری گینگ وار کے سرغنہ عزیربلوچ نے اعتراف کیا کہ دبئی میں ایرانی انٹیلی جنس افسر کو حساس معلومات دیں جبکہ اہم تنصیبات کے داخلی و خارجی راستوں کی نشاندہی کرائی۔
عدالت کے روبرو ضابطہ فوجداری کی ایکٹ 164کے تحت بیان قلمبند کراتے ہوئے عزیر بلوچ نے اعتراف کیا کہ 2003میں رحمان ڈکیت گروپ میں شمولیت اختیار کی تھی اور 2008 تک اس کے ساتھ مل کر جرائم کیے، اس کے بعد 2008میں رحمان ڈکیت کی ہلاکت کے بعد لیاری گینگ وار گروپ کا مکمل کنٹرول سنبھال لیا اور پیپلزامن کمیٹی بنا کر اس کا چیئرمین بن گیا اپنے دیگر ساتھیوں سے ملکر پشین سے اسلحہ منگوایا اور پولیس افسران کی سرپرستی میں بھتہ خوری، منشیات فروشی اغوا اور قتل جیسے وارداتیں کرتا تھا۔
عزیر بلوچ نے بتایا کہ قادر پٹیل، سینیٹر یوسف بلوچ و دیگر اعلیٰ افسران میرا اور ساتھیوں کا خیال رکھتے تھے اور کسی بھی واردات کے بعد گرفتاری عمل میں نہیں لاتے تھے۔ اگست 2010 میں جیل وارڈن لالہ امین شیر افضل و دیگر دوافراد کو ذاتی انتقام پر قتل کیا اور عارم عرف انڈا کو قتل کیاجبکہ نائب ناظم ملک محمد خان کو امن بلیدی کے ذریعے قتل کروایا تھا مارچ2003میں انسپکٹر یوسف بلوچ چاند خان نیازی و دیگر پولیس افسران کے ذریعے ارشد پپو اسکے بھائی یاسرعرفان، ساتھی شیرا پٹھان کو پولیس موبائل کے ذریعے اغوا کیا تھا اور لیاری کے آدم گودام میں لے جاکر ان کے سر تن سے جدا کرکے انکے سروں سے فٹبال کھیلی اوراجسام کو آگ لگاکر راکھ گٹرمیں بہا دی۔
اس کے علاوہ پولیس افسر اسلم چوہدری سے متعدد پولیس مقابلے کیے، پولیس اہلکاروں کو قتل کیا۔ سرکاری محکموں سے بھتے وصول کیے، فشریز سے 20لاکھ روپے بھتہ ملتا۔ جنرل الیکشن 2013 میں سینیٹر یوسف بلوچ اور فریال تالپور کے رابطے میں تھا۔ 2013 میں کراچی آپریشن میں تیزی آئی تو فریال تالپور نے مجھے قادر پٹیل، یوسف بلوچ کے ذریعے اپنے گھر جو ڈیفنس میں واقع تھا بلوایا، اس موقع پر شرجیل انعام میمن اور نثار میمن بھی موجود تھے، فریال تالپور نے لیاری گینگ وار و دیگر معاملات میں بات چیت کی۔ اس نے ذاتی اسلحہ گولہ بارود چھپانے کو کہا اور انتظامی معاملات شرجیل انعام میمن اور نثار مورائی کے حوالے کرنے جبکہ لیاری کے معاملات قادر پٹیل اور سینیٹر یوسف بلوچ کے حوالے کیا اور مجھے فریال تالپور نے بیرون ملک جانے کو کہا تھا۔
عزیر بلوچ نے مزید بتایا کہ میں نے پارٹی کیلیے متعدد غیرقانونی کام کیے۔ سینیٹر یوسف بلوچ کے کہنے پر 5جرائم پیشہ افراد کو نوکریاں دلوائیں۔ آصف علی زرداری کے کہنے پر 20جرائم پیشہ اورخطرناک افراد بلاول ہاؤس بھیجے جنھوں نے بلاول ہاؤس کے گردو نواح میں لوگوں کو ہراساں کرکے بنگلے اور بلیٹ زبردستی خالی کرائے اور آصف زرداری کے حوالے کیے آصف زرداری نے انکے مالکان کو معمولی رقم دے کربنگلے اپنے نام کرائے۔ مجھے بیرون ملک جانے کو کہا تھا میں نے ایران میں ایرانی خفیہ اداروں کے دوستوں سے رابطے کیے جب کراچی میں میرے لیے مشکلات بڑھ گئیں تو ایرانی ناصر جو ایرانی خفیہ ایجنسی کا نمائندہ تھا اور اس کا پاکستان آنا جانا تھا، کے گرین سگنل پر ایران کا بارڈرکراس کیا اور حاجی ناصر ایران بارڈر سے مجھے اپنے ساتھ لے گیا تھا۔
عزیر بلوچ نے بتایا کہ وہ ایرانی خفیہ اداروں کے افسران سے ملا جنھوں نے اس کی حفاظت کی ضمانت دی اورانھیں معلومات فراہم کرنے پر رضامندی ظاہر کی اور تجویز دی کی ایران سے بہتر دبئی میں بیٹھ کرکام میں آسانی ہوگی اور دبئی میں بیٹھ کر اس نے ایرانی انٹیلی جنس افسر کو کراچی میں موجود آرمڈ فورسز کے اعلیٰ افسران اور اہم تنصیبات کے نام بتائے۔ 5 کور، کراچی نیول کمانڈر کے نام بتائے آئی ایس آئی، ایم آئی افسران جنھیں میں جانتا تھا ان کے نام بتائے، اس نے ایرانی انٹیلی جنس افسر کو 5کور ہیڈ کواٹر رہائش گاہ کمانڈر 5 کور، نیول ہیڈ کوارٹر، کارساز اورامینشن ہیڈ کواٹر کے نقشے فراہم کیے۔
مزید یہ کہ اس نے اہم تنصیات کے داخلی و خارجی راستوں کی نشاندہی کرائی اور سیکیورٹی پر مامور لوگوں کی تعداد رہائش آمد ورفت کے بارے میں بتایا اور آئندہ کراچی اور کوئٹہ کی آرمی کی اہم تنصیبات فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا اور اس موقع پر عزیر بلوچ نے عدالت کو بتایا کہ جن شخصیات کے نام لیے ہیں وہ اسے اور اسکے گھر والوں کو قتل کرسکتے ہیں جبکہ آصف زرداری اور دیگر سیاسی لوگوں سے قتل کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔
لیاری گینگ وار کے سرغنہ عزیربلوچ نے اعتراف کیا کہ دبئی میں ایرانی انٹیلی جنس افسر کو حساس معلومات دیں جبکہ اہم تنصیبات کے داخلی و خارجی راستوں کی نشاندہی کرائی۔
عدالت کے روبرو ضابطہ فوجداری کی ایکٹ 164کے تحت بیان قلمبند کراتے ہوئے عزیر بلوچ نے اعتراف کیا کہ 2003میں رحمان ڈکیت گروپ میں شمولیت اختیار کی تھی اور 2008 تک اس کے ساتھ مل کر جرائم کیے، اس کے بعد 2008میں رحمان ڈکیت کی ہلاکت کے بعد لیاری گینگ وار گروپ کا مکمل کنٹرول سنبھال لیا اور پیپلزامن کمیٹی بنا کر اس کا چیئرمین بن گیا اپنے دیگر ساتھیوں سے ملکر پشین سے اسلحہ منگوایا اور پولیس افسران کی سرپرستی میں بھتہ خوری، منشیات فروشی اغوا اور قتل جیسے وارداتیں کرتا تھا۔
عزیر بلوچ نے بتایا کہ قادر پٹیل، سینیٹر یوسف بلوچ و دیگر اعلیٰ افسران میرا اور ساتھیوں کا خیال رکھتے تھے اور کسی بھی واردات کے بعد گرفتاری عمل میں نہیں لاتے تھے۔ اگست 2010 میں جیل وارڈن لالہ امین شیر افضل و دیگر دوافراد کو ذاتی انتقام پر قتل کیا اور عارم عرف انڈا کو قتل کیاجبکہ نائب ناظم ملک محمد خان کو امن بلیدی کے ذریعے قتل کروایا تھا مارچ2003میں انسپکٹر یوسف بلوچ چاند خان نیازی و دیگر پولیس افسران کے ذریعے ارشد پپو اسکے بھائی یاسرعرفان، ساتھی شیرا پٹھان کو پولیس موبائل کے ذریعے اغوا کیا تھا اور لیاری کے آدم گودام میں لے جاکر ان کے سر تن سے جدا کرکے انکے سروں سے فٹبال کھیلی اوراجسام کو آگ لگاکر راکھ گٹرمیں بہا دی۔
اس کے علاوہ پولیس افسر اسلم چوہدری سے متعدد پولیس مقابلے کیے، پولیس اہلکاروں کو قتل کیا۔ سرکاری محکموں سے بھتے وصول کیے، فشریز سے 20لاکھ روپے بھتہ ملتا۔ جنرل الیکشن 2013 میں سینیٹر یوسف بلوچ اور فریال تالپور کے رابطے میں تھا۔ 2013 میں کراچی آپریشن میں تیزی آئی تو فریال تالپور نے مجھے قادر پٹیل، یوسف بلوچ کے ذریعے اپنے گھر جو ڈیفنس میں واقع تھا بلوایا، اس موقع پر شرجیل انعام میمن اور نثار میمن بھی موجود تھے، فریال تالپور نے لیاری گینگ وار و دیگر معاملات میں بات چیت کی۔ اس نے ذاتی اسلحہ گولہ بارود چھپانے کو کہا اور انتظامی معاملات شرجیل انعام میمن اور نثار مورائی کے حوالے کرنے جبکہ لیاری کے معاملات قادر پٹیل اور سینیٹر یوسف بلوچ کے حوالے کیا اور مجھے فریال تالپور نے بیرون ملک جانے کو کہا تھا۔
عزیر بلوچ نے مزید بتایا کہ میں نے پارٹی کیلیے متعدد غیرقانونی کام کیے۔ سینیٹر یوسف بلوچ کے کہنے پر 5جرائم پیشہ افراد کو نوکریاں دلوائیں۔ آصف علی زرداری کے کہنے پر 20جرائم پیشہ اورخطرناک افراد بلاول ہاؤس بھیجے جنھوں نے بلاول ہاؤس کے گردو نواح میں لوگوں کو ہراساں کرکے بنگلے اور بلیٹ زبردستی خالی کرائے اور آصف زرداری کے حوالے کیے آصف زرداری نے انکے مالکان کو معمولی رقم دے کربنگلے اپنے نام کرائے۔ مجھے بیرون ملک جانے کو کہا تھا میں نے ایران میں ایرانی خفیہ اداروں کے دوستوں سے رابطے کیے جب کراچی میں میرے لیے مشکلات بڑھ گئیں تو ایرانی ناصر جو ایرانی خفیہ ایجنسی کا نمائندہ تھا اور اس کا پاکستان آنا جانا تھا، کے گرین سگنل پر ایران کا بارڈرکراس کیا اور حاجی ناصر ایران بارڈر سے مجھے اپنے ساتھ لے گیا تھا۔
عزیر بلوچ نے بتایا کہ وہ ایرانی خفیہ اداروں کے افسران سے ملا جنھوں نے اس کی حفاظت کی ضمانت دی اورانھیں معلومات فراہم کرنے پر رضامندی ظاہر کی اور تجویز دی کی ایران سے بہتر دبئی میں بیٹھ کرکام میں آسانی ہوگی اور دبئی میں بیٹھ کر اس نے ایرانی انٹیلی جنس افسر کو کراچی میں موجود آرمڈ فورسز کے اعلیٰ افسران اور اہم تنصیبات کے نام بتائے۔ 5 کور، کراچی نیول کمانڈر کے نام بتائے آئی ایس آئی، ایم آئی افسران جنھیں میں جانتا تھا ان کے نام بتائے، اس نے ایرانی انٹیلی جنس افسر کو 5کور ہیڈ کواٹر رہائش گاہ کمانڈر 5 کور، نیول ہیڈ کوارٹر، کارساز اورامینشن ہیڈ کواٹر کے نقشے فراہم کیے۔
مزید یہ کہ اس نے اہم تنصیات کے داخلی و خارجی راستوں کی نشاندہی کرائی اور سیکیورٹی پر مامور لوگوں کی تعداد رہائش آمد ورفت کے بارے میں بتایا اور آئندہ کراچی اور کوئٹہ کی آرمی کی اہم تنصیبات فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا اور اس موقع پر عزیر بلوچ نے عدالت کو بتایا کہ جن شخصیات کے نام لیے ہیں وہ اسے اور اسکے گھر والوں کو قتل کرسکتے ہیں جبکہ آصف زرداری اور دیگر سیاسی لوگوں سے قتل کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔