اسٹیٹس کو مسٹ گو
حکومتی اتحاد اور ان کے نمایندگان عوام کی تائید کھو چکے ہیں اب وقت ان کے پاس نہیں ہے۔
ISLAMABAD:
پاکستان بدعنوانی، رشوت ستانی، لوٹ مار، ہر قسم کی کرپشن اور ٹارگٹ کلنگ کی لاشیں، 5 برسوں سے اٹھانے میں مصروف ہے اور یہ سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ جمہوریت کے ان نتائج کے علاوہ ٹریڈ انڈسٹری اور سرمایہ کاری کرنے والوں کو اغوا برائے تاوان نے پریشان کررکھا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں کو مسلسل نظرانداز کیا جارہا ہے۔ ادھر وزیر اعظم رینٹل پاور کیس میں پھنسے ہوئے ہیں۔ حکومتی پالیسیوں نے ملک میں ایسے حالات پیدا کیے جس کی وجہ سے علامہ طاہر القادری لانگ مارچ پر مجبور ہوئے، لاکھوں کے اس قافلے کو بعض ایسے اینکر پرسن جو ان کرپٹ پریکٹس کے ہمنوا تھے وہ یہی شور کرتے رہے کہ یہ قافلہ چند ہزار نفوس پر مشتمل ہے جب کہ اس قافلے میں ایسا شور بپا تھا کہ
قافلے میں صبح کے اک شور ہے
یعنی غافل ہم چلے سوتا ہے کیا؟
بیداری کا یہ مارچ جمہوریت سے عوام کے عشق کے علاوہ کچھ نہیں۔ 65 برسوں سے پاکستانی عوام پر ظلم، ناانصافی کے علاوہ عوام کو کچھ نہ ملا، یہاں تک کہ قائداعظم کا پاکستان جمہوریت کی تشریحات پر دولخت ہوا، '' ادھر ہم ادھر تم'' کا نعرہ بلند ہوتا رہا۔ اس قافلے کے متعلق اب کہنا درست ہوگیا کہ لانگ مارچ ایک بڑے تغیر کی جانب فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوگیا۔
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
یہ مائیں، بہنیں، بچے بوڑھے، جوان اس عزم کے ساتھ باہر نکلے ہیں کہ Change یعنی تبدیلی ناگزیر ہے۔ اگر یہ پروفیشنل سیاستدان نوشتہ دیوار نہیں پڑھ سکتے تو پھر ان کو سیاست داں نہیں بلکہ ان کو حماقت دان کہا جاسکتا ہے۔ وہ مجمع جو اسلام آباد میں بیٹھا ہے اور ڈاکٹر صاحب کی تقریر سن کر پرجوش نعرے لگا رہا ہے اس کے علاوہ جو مردوزن گھروں میں بیٹھے ہیں وہ بھی ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر اسی پرجوش انداز میں نعرے لگا رہے ہیں اب اس قیاس کو یہ تقویت حاصل ہورہی ہے کہ جب چند ہزار لوگ بلوچستان کی اسمبلی کو تحلیل کرسکتے ہیں تو پھر اسلام آباد میں عوام کا سمندر کراچی تک کے عوام پر اثرانداز ہورہا ہے۔ گھر گھر سے لوگ ڈاکٹر طاہر القادری کی تقریر پر ایسے ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں جیسے وہ جلسہ گاہ میں ہیں، ڈاکٹر صاحب کی جلسہ گاہ کا فرش اب اسلام آباد میں نہیں بلکہ یہ ملک کے طول وعرض میں بچھا ہوا ہے۔
اگر حکومت نے طاقت کی زبان اور ہوشیاری کی تو پھر یہ پرامن انقلاب، انقلاب چین اور روس کی شکل اختیار کرلے گا اور تطہیر کا یہ عمل ایک بڑے ردعمل کی شکل اختیار کرلے گا۔ اب حکمرانوں کے پاس کوئی اخلاقی جواز باقی نہیں رہا جس سے وہ اس مارچ کے منطقی انجام سے بچ سکیں، عوام کی اکثریت پر اب رفتہ رفتہ بعض اینکر پرسن کی اڑائی ہوئی گرد اور شبہات جو پیدا کیے تھے وہ دھول صاف ہوگئی ہے اور موازنے کی کیفیت نے تصویر انقلاب صاف کردی ہے۔ یہ اسمبلی ہاؤس جلد یا دیر ان سے چھوٹ جائے گا، عین تقریر کے درمیان جب ملک کے وزیراعظم کی گرفتاری کی خبر آئی تو اسلام آباد کی جلسہ گاہ میں قنوطیت کی رہی سہی کیفیت کو یقین نے بدل ڈالا اور علامہ اقبال کے اس خیال کو مزید پرعزم کردیا کہ ''ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی'' یعنی زندگی کبھی تو بچانے اور کبھی یہ جان گنوانے سے، اندیشہ افروز و فردا سے اس کا وزن نہیں کیا جاسکتا۔
اگر صاحبان نقد و نظر ڈاکٹر صاحب کی تقریر کا جائزہ لیں تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ وہ کسی اور ملک کا ایجنڈا لے کر نہیں آئے بلکہ یہ ایجنڈا ارض پاکستان کا ہی ہے۔ ورنہ انھیں 15 یا 20 منٹ اپنی تقریر کے کلیدی بیان کو انگریزی زبان میں واضح کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ انھوں نے ملک میں کسی مذہبی نظام کی ترویج نہیں کی بلکہ عوام کو بلاتفریق مذہبی عقائد تمام لوگوں کو یکساں حقوق کا اعلان کیا ہے اور انھوں نے کرپشن کی مثال دیتے ہوئے یہ بھی واضح کردیا کہ نیوزی لینڈ کی ایک کمپنی نے جب پاکستان میں انوسٹمنٹ کے لیے اربوں ڈالر کی بات کی تو حکومت کے وزیراعظم نے (Kick Back) کمیشن کی بات کی۔ انھوں نے باب ہاک کی گفتگو کو پیش کیا۔ ظاہر ہے جب ملک کا یہ عالم ہو تو پھر کون بچائے گا پاکستان۔ اور یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی ہے کہ سیاست کی موجودہ مکر کی چالوں سے ریاست بچانے کی منزل قریب آپہنچی ہے اور ان کا خطاب درست ہے کہ جس کی روح ہے ؎
اے خاک نشینوں اٹھ بیٹھو، وہ وقت قریب آپہنچا ہے
جب تاج اچھالے جائیں گے جب تخت گرائے جائیں گے
انھوں نے جس بات پر زور دیا ہے وہ یہ ہے کہ 65 برسوں سے جاری اقتدار کا یہ تسلسل جو عوام کو لوٹنے کا سبب ہے اس کو تبدیل کیے بغیر انتخابات بے معنی ہیں، موجودہ الکٹرول لسٹ میں تین کروڑ سے زائد لوگوں کا غلط اندراج ہے۔ الیکشن کمیشن میں 4 سیاسی پارٹیوں کے نامزد ارکان اور پانچواں الیکشن کمشنر جسٹس فخرالدین جی ابراہیم جو 4 ووٹوں کے خلاف کیا کرسکیں گے جب کہ ان کا ووٹ ویٹو پاور نہیں رکھتا لہٰذا آئین کی روح کو نکال کر انتخاب کا اعلان بے معنی ہے۔ لہٰذا تمام اپوزیشن پارٹیاں اب متحد ہوگئی ہیں کہ تمام کو اس لوٹ مار میں حصہ بقدر جثہ مل رہا ہے۔
یہ دھرنا ان تمام پارٹیوں کے معاشی مفادات پر ضرب کاری ہے لہٰذا یہ کہنا کہ کوئی سیاسی جماعت اس مارچ کا حصہ بنے گی یہ قیاس آرائی کے علاوہ کچھ نہ ہوگا۔ کیونکہ سیاسی پارٹیوں میں اکثریت ان رہنماؤں کی ہے جو نوٹ چھاپ رہے ہیں، گورنمنٹ نوکریاں فروخت کر رہے ہیں، ہر چیز پر رقم بٹور رہے ہیں بلکہ ان کا اتحاد اب مزید مضبوط ہوگا، مگر ان پارٹیوں کے پاس کوئی آپشن نہیں ہے لوٹ مار نے ان کا ووٹ بینک توڑ دیا ہے اس کا ثبوت یہ ہے کہ کراچی میں جن لوگوںنے راجہ پرویز اشرف کی گرفتاری کے خلاف ہوائی فائرنگ اور کوشش کی کہ مظاہرہ کیا جائے وہ بھی مخصوس علاقوں تک محدود رہا، حیدرآباد میں یہ بالکل ناکام اور پنجاب میں کوئی ردعمل نہ ہوسکا۔
لہٰذا حکومت کے اتحادی اسلام آباد مارچ کی سکت نہیں رکھتے۔ اگر کچھ احمقوں نے اس اجتماع پر حملے کی کوشش کی تو پھر ان کا حشر ویسا ہی ہوگا جو قاہرہ میں التحریر اسکوائر پر حسنی مبارک کے حامیوں کا ہوا تھا۔ تاریخ شاہد ہے کہ عوام کے جوش کے سامنے کوئی بھی نہیں ٹھہرا جب کہ ڈاکٹر صاحب نے اس منظم اجتماع کو حسینی جذبہ جہاد سے چارج کردیا ہے اور وہ حق کی فتح اور باطل کی شکست کا ورد کر رہے ہیں۔ چوتھے روز بھی یہ دھرنا تروتازہ ہے چند یوم مزید لگ سکتے ہیں اس کا تاریخ خود فیصلہ کرنے کو ہے اور اجتماع مزید طاقتور ہوتا جائے گا۔ حکومتی اتحاد اور ان کے نمایندگان عوام کی تائید کھو چکے ہیں اب وقت ان کے پاس نہیں ہے۔
پاکستان بدعنوانی، رشوت ستانی، لوٹ مار، ہر قسم کی کرپشن اور ٹارگٹ کلنگ کی لاشیں، 5 برسوں سے اٹھانے میں مصروف ہے اور یہ سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ جمہوریت کے ان نتائج کے علاوہ ٹریڈ انڈسٹری اور سرمایہ کاری کرنے والوں کو اغوا برائے تاوان نے پریشان کررکھا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں کو مسلسل نظرانداز کیا جارہا ہے۔ ادھر وزیر اعظم رینٹل پاور کیس میں پھنسے ہوئے ہیں۔ حکومتی پالیسیوں نے ملک میں ایسے حالات پیدا کیے جس کی وجہ سے علامہ طاہر القادری لانگ مارچ پر مجبور ہوئے، لاکھوں کے اس قافلے کو بعض ایسے اینکر پرسن جو ان کرپٹ پریکٹس کے ہمنوا تھے وہ یہی شور کرتے رہے کہ یہ قافلہ چند ہزار نفوس پر مشتمل ہے جب کہ اس قافلے میں ایسا شور بپا تھا کہ
قافلے میں صبح کے اک شور ہے
یعنی غافل ہم چلے سوتا ہے کیا؟
بیداری کا یہ مارچ جمہوریت سے عوام کے عشق کے علاوہ کچھ نہیں۔ 65 برسوں سے پاکستانی عوام پر ظلم، ناانصافی کے علاوہ عوام کو کچھ نہ ملا، یہاں تک کہ قائداعظم کا پاکستان جمہوریت کی تشریحات پر دولخت ہوا، '' ادھر ہم ادھر تم'' کا نعرہ بلند ہوتا رہا۔ اس قافلے کے متعلق اب کہنا درست ہوگیا کہ لانگ مارچ ایک بڑے تغیر کی جانب فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوگیا۔
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
یہ مائیں، بہنیں، بچے بوڑھے، جوان اس عزم کے ساتھ باہر نکلے ہیں کہ Change یعنی تبدیلی ناگزیر ہے۔ اگر یہ پروفیشنل سیاستدان نوشتہ دیوار نہیں پڑھ سکتے تو پھر ان کو سیاست داں نہیں بلکہ ان کو حماقت دان کہا جاسکتا ہے۔ وہ مجمع جو اسلام آباد میں بیٹھا ہے اور ڈاکٹر صاحب کی تقریر سن کر پرجوش نعرے لگا رہا ہے اس کے علاوہ جو مردوزن گھروں میں بیٹھے ہیں وہ بھی ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر اسی پرجوش انداز میں نعرے لگا رہے ہیں اب اس قیاس کو یہ تقویت حاصل ہورہی ہے کہ جب چند ہزار لوگ بلوچستان کی اسمبلی کو تحلیل کرسکتے ہیں تو پھر اسلام آباد میں عوام کا سمندر کراچی تک کے عوام پر اثرانداز ہورہا ہے۔ گھر گھر سے لوگ ڈاکٹر طاہر القادری کی تقریر پر ایسے ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں جیسے وہ جلسہ گاہ میں ہیں، ڈاکٹر صاحب کی جلسہ گاہ کا فرش اب اسلام آباد میں نہیں بلکہ یہ ملک کے طول وعرض میں بچھا ہوا ہے۔
اگر حکومت نے طاقت کی زبان اور ہوشیاری کی تو پھر یہ پرامن انقلاب، انقلاب چین اور روس کی شکل اختیار کرلے گا اور تطہیر کا یہ عمل ایک بڑے ردعمل کی شکل اختیار کرلے گا۔ اب حکمرانوں کے پاس کوئی اخلاقی جواز باقی نہیں رہا جس سے وہ اس مارچ کے منطقی انجام سے بچ سکیں، عوام کی اکثریت پر اب رفتہ رفتہ بعض اینکر پرسن کی اڑائی ہوئی گرد اور شبہات جو پیدا کیے تھے وہ دھول صاف ہوگئی ہے اور موازنے کی کیفیت نے تصویر انقلاب صاف کردی ہے۔ یہ اسمبلی ہاؤس جلد یا دیر ان سے چھوٹ جائے گا، عین تقریر کے درمیان جب ملک کے وزیراعظم کی گرفتاری کی خبر آئی تو اسلام آباد کی جلسہ گاہ میں قنوطیت کی رہی سہی کیفیت کو یقین نے بدل ڈالا اور علامہ اقبال کے اس خیال کو مزید پرعزم کردیا کہ ''ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی'' یعنی زندگی کبھی تو بچانے اور کبھی یہ جان گنوانے سے، اندیشہ افروز و فردا سے اس کا وزن نہیں کیا جاسکتا۔
اگر صاحبان نقد و نظر ڈاکٹر صاحب کی تقریر کا جائزہ لیں تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ وہ کسی اور ملک کا ایجنڈا لے کر نہیں آئے بلکہ یہ ایجنڈا ارض پاکستان کا ہی ہے۔ ورنہ انھیں 15 یا 20 منٹ اپنی تقریر کے کلیدی بیان کو انگریزی زبان میں واضح کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ انھوں نے ملک میں کسی مذہبی نظام کی ترویج نہیں کی بلکہ عوام کو بلاتفریق مذہبی عقائد تمام لوگوں کو یکساں حقوق کا اعلان کیا ہے اور انھوں نے کرپشن کی مثال دیتے ہوئے یہ بھی واضح کردیا کہ نیوزی لینڈ کی ایک کمپنی نے جب پاکستان میں انوسٹمنٹ کے لیے اربوں ڈالر کی بات کی تو حکومت کے وزیراعظم نے (Kick Back) کمیشن کی بات کی۔ انھوں نے باب ہاک کی گفتگو کو پیش کیا۔ ظاہر ہے جب ملک کا یہ عالم ہو تو پھر کون بچائے گا پاکستان۔ اور یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی ہے کہ سیاست کی موجودہ مکر کی چالوں سے ریاست بچانے کی منزل قریب آپہنچی ہے اور ان کا خطاب درست ہے کہ جس کی روح ہے ؎
اے خاک نشینوں اٹھ بیٹھو، وہ وقت قریب آپہنچا ہے
جب تاج اچھالے جائیں گے جب تخت گرائے جائیں گے
انھوں نے جس بات پر زور دیا ہے وہ یہ ہے کہ 65 برسوں سے جاری اقتدار کا یہ تسلسل جو عوام کو لوٹنے کا سبب ہے اس کو تبدیل کیے بغیر انتخابات بے معنی ہیں، موجودہ الکٹرول لسٹ میں تین کروڑ سے زائد لوگوں کا غلط اندراج ہے۔ الیکشن کمیشن میں 4 سیاسی پارٹیوں کے نامزد ارکان اور پانچواں الیکشن کمشنر جسٹس فخرالدین جی ابراہیم جو 4 ووٹوں کے خلاف کیا کرسکیں گے جب کہ ان کا ووٹ ویٹو پاور نہیں رکھتا لہٰذا آئین کی روح کو نکال کر انتخاب کا اعلان بے معنی ہے۔ لہٰذا تمام اپوزیشن پارٹیاں اب متحد ہوگئی ہیں کہ تمام کو اس لوٹ مار میں حصہ بقدر جثہ مل رہا ہے۔
یہ دھرنا ان تمام پارٹیوں کے معاشی مفادات پر ضرب کاری ہے لہٰذا یہ کہنا کہ کوئی سیاسی جماعت اس مارچ کا حصہ بنے گی یہ قیاس آرائی کے علاوہ کچھ نہ ہوگا۔ کیونکہ سیاسی پارٹیوں میں اکثریت ان رہنماؤں کی ہے جو نوٹ چھاپ رہے ہیں، گورنمنٹ نوکریاں فروخت کر رہے ہیں، ہر چیز پر رقم بٹور رہے ہیں بلکہ ان کا اتحاد اب مزید مضبوط ہوگا، مگر ان پارٹیوں کے پاس کوئی آپشن نہیں ہے لوٹ مار نے ان کا ووٹ بینک توڑ دیا ہے اس کا ثبوت یہ ہے کہ کراچی میں جن لوگوںنے راجہ پرویز اشرف کی گرفتاری کے خلاف ہوائی فائرنگ اور کوشش کی کہ مظاہرہ کیا جائے وہ بھی مخصوس علاقوں تک محدود رہا، حیدرآباد میں یہ بالکل ناکام اور پنجاب میں کوئی ردعمل نہ ہوسکا۔
لہٰذا حکومت کے اتحادی اسلام آباد مارچ کی سکت نہیں رکھتے۔ اگر کچھ احمقوں نے اس اجتماع پر حملے کی کوشش کی تو پھر ان کا حشر ویسا ہی ہوگا جو قاہرہ میں التحریر اسکوائر پر حسنی مبارک کے حامیوں کا ہوا تھا۔ تاریخ شاہد ہے کہ عوام کے جوش کے سامنے کوئی بھی نہیں ٹھہرا جب کہ ڈاکٹر صاحب نے اس منظم اجتماع کو حسینی جذبہ جہاد سے چارج کردیا ہے اور وہ حق کی فتح اور باطل کی شکست کا ورد کر رہے ہیں۔ چوتھے روز بھی یہ دھرنا تروتازہ ہے چند یوم مزید لگ سکتے ہیں اس کا تاریخ خود فیصلہ کرنے کو ہے اور اجتماع مزید طاقتور ہوتا جائے گا۔ حکومتی اتحاد اور ان کے نمایندگان عوام کی تائید کھو چکے ہیں اب وقت ان کے پاس نہیں ہے۔