مقبوضہ کشمیر میں فوج کم کرنے کا بھارتی عندیہ
مقبوضہ کشمیر میں سیکیورٹی فورسز کی تعداد کم ہونا اپنے اندر یہ...
بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں فوج کی تعداد میں نمایاں کمی لانے کا عندیہ دیا ہے تاہم کہا ہے کہ سیکیورٹی پر سمجھوتہ نہ کیا جائے۔ ان خیالات کا اظہار بھارتی وزیر دفاع اے کے انتھونی نے آرمی چیف جنرل بکرم سنگھ کے ہمراہ سری نگر میں سیکیورٹی جائزہ سے متعلق مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ بھارتی حکومت اگر اس حوالے سے کوئی اقدام عمل میں لاتی ہے تو یہ ایک خوش آیند پیش رفت ہو گی
بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ یہ اقدام اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہو گا جس میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ دونوں ملک جموں و کشمیر سے اپنی اپنی سیکیورٹی فورسز واپس بلائیں گے جس کے بعد اقوام متحدہ کی نگرانی میں وہاں استصواب رائے کرایا جائے گا یعنی کشمیری عوام سے یہ پوچھا جائے گا کہ وہ پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا بھارت میں۔ اس طرح بھارتی حکومت کا یہ فیصلہ اچھے نتائج کا حامل ہو سکتا ہے تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ جو عندیہ دیا گیا ہے اس کو عملی شکل بھی دی جائے'
اس حوالے سے خدشہ اس لیے ذہن میں ابھرتا ہے کہ ماضی میں بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں سیکیورٹی فورسز کی تعداد کم کرنے کا اعلان کئی بار کیا گیا لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات والا نکلتا رہا۔ ممکن ہے بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں اپنی سیکیورٹی فورسز کی تعداد کم کرنے کا فیصلہ پاکستان کی جانب سے حال ہی میں کیے گئے خیرسگالی کے متعدد اقدامات کے نتیجے یا ردعمل میں کیا ہو تاہم زیادہ امکان یہ ہے کہ چونکہ مقبوضہ کشمیر میں سیکیورٹی فورسز رکھنے پر بھارتی حکومت کو بھاری اخراجات برداشت کرنا پڑ رہے ہیں اس لیے ایسے کسی اقدام کا مقصد ان اخراجات کو کم کرنا بھی ہو سکتا ہے۔
بہرحال اس کے پس منظر میں وجوہ جو بھی ہوں مقبوضہ کشمیر میں سیکیورٹی فورسز کی تعداد کم ہونا اپنے اندر یہ مثبت پہلو بھی لیے ہوئے ہے کہ اس طرح کشمیری مسلمانوں پر ایک عرصے سے جاری استبداد اور ظلم و ستم میں کمی ہو گی اور وہاں کے قدیمی باشندوں کے لیے حالات قدرے پُرامن و پُرسکون ہو جائیں گے۔ اب جب کہ بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں اپنی سیکیورٹی فورسز کی تعداد کم کرنے کا ارادہ کر لیا ہے تو مناسب ہو گا کہ جہاں دیگر متعدد معاملات پر مذاکرات ہو رہے ہیں ان میں مسئلہ کشمیر کا کور ایشو بھی شامل کر لیا جائے تاکہ اس حوالے سے کچھ پیش رفت ممکن ہو سکے۔
اگرچہ برطانوی میڈیا نے یہ قرار دیا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کے دورہ پاکستان کا انحصار وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا کے ستمبر میں دورہ اسلام آباد کے نتائج اور مقامی یعنی پاکستان کی داخلی سیاسی صورتحال پر ہو گا تاہم امید کی جاتی ہے کہ سبھی معاملات ٹھیک انداز سے آگے چلتے رہیں گے اور ستمبر میں ہونے والی بات چیت کے بھی مثبت نتائج نکلیں گے یوں بھارتی سربراہ حکومت کے دورہ پاکستان کی راستہ ہموار ہو جائے گا۔ یہ بھی امید کی جاتی ہے کہ من موہن سنگھ جب پاکستان تشریف لائیں گے تو وہ نہ صرف مقبوضہ کشمیر سے سیکیورٹی فورسز کے انخلاء کی خوشخبری دیں گے بلکہ دیگر متعدد معاملات میں بھی مناسب پیش رفت ممکن ہو سکے گی۔ اب جب کہ حالات میں سدھار پیدا ہو رہا ہے تو ضروری ہے کہ دونوں ملک خلوص نیت کے ساتھ معاملات طے کرنے اور آگے بڑھنے کا تہیہ کریں کیونکہ حالات میں استقلال اور بہتری لانے کے لیے یہ بہت ضروری ہے۔
بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ یہ اقدام اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہو گا جس میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ دونوں ملک جموں و کشمیر سے اپنی اپنی سیکیورٹی فورسز واپس بلائیں گے جس کے بعد اقوام متحدہ کی نگرانی میں وہاں استصواب رائے کرایا جائے گا یعنی کشمیری عوام سے یہ پوچھا جائے گا کہ وہ پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا بھارت میں۔ اس طرح بھارتی حکومت کا یہ فیصلہ اچھے نتائج کا حامل ہو سکتا ہے تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ جو عندیہ دیا گیا ہے اس کو عملی شکل بھی دی جائے'
اس حوالے سے خدشہ اس لیے ذہن میں ابھرتا ہے کہ ماضی میں بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں سیکیورٹی فورسز کی تعداد کم کرنے کا اعلان کئی بار کیا گیا لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات والا نکلتا رہا۔ ممکن ہے بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں اپنی سیکیورٹی فورسز کی تعداد کم کرنے کا فیصلہ پاکستان کی جانب سے حال ہی میں کیے گئے خیرسگالی کے متعدد اقدامات کے نتیجے یا ردعمل میں کیا ہو تاہم زیادہ امکان یہ ہے کہ چونکہ مقبوضہ کشمیر میں سیکیورٹی فورسز رکھنے پر بھارتی حکومت کو بھاری اخراجات برداشت کرنا پڑ رہے ہیں اس لیے ایسے کسی اقدام کا مقصد ان اخراجات کو کم کرنا بھی ہو سکتا ہے۔
بہرحال اس کے پس منظر میں وجوہ جو بھی ہوں مقبوضہ کشمیر میں سیکیورٹی فورسز کی تعداد کم ہونا اپنے اندر یہ مثبت پہلو بھی لیے ہوئے ہے کہ اس طرح کشمیری مسلمانوں پر ایک عرصے سے جاری استبداد اور ظلم و ستم میں کمی ہو گی اور وہاں کے قدیمی باشندوں کے لیے حالات قدرے پُرامن و پُرسکون ہو جائیں گے۔ اب جب کہ بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں اپنی سیکیورٹی فورسز کی تعداد کم کرنے کا ارادہ کر لیا ہے تو مناسب ہو گا کہ جہاں دیگر متعدد معاملات پر مذاکرات ہو رہے ہیں ان میں مسئلہ کشمیر کا کور ایشو بھی شامل کر لیا جائے تاکہ اس حوالے سے کچھ پیش رفت ممکن ہو سکے۔
اگرچہ برطانوی میڈیا نے یہ قرار دیا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کے دورہ پاکستان کا انحصار وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا کے ستمبر میں دورہ اسلام آباد کے نتائج اور مقامی یعنی پاکستان کی داخلی سیاسی صورتحال پر ہو گا تاہم امید کی جاتی ہے کہ سبھی معاملات ٹھیک انداز سے آگے چلتے رہیں گے اور ستمبر میں ہونے والی بات چیت کے بھی مثبت نتائج نکلیں گے یوں بھارتی سربراہ حکومت کے دورہ پاکستان کی راستہ ہموار ہو جائے گا۔ یہ بھی امید کی جاتی ہے کہ من موہن سنگھ جب پاکستان تشریف لائیں گے تو وہ نہ صرف مقبوضہ کشمیر سے سیکیورٹی فورسز کے انخلاء کی خوشخبری دیں گے بلکہ دیگر متعدد معاملات میں بھی مناسب پیش رفت ممکن ہو سکے گی۔ اب جب کہ حالات میں سدھار پیدا ہو رہا ہے تو ضروری ہے کہ دونوں ملک خلوص نیت کے ساتھ معاملات طے کرنے اور آگے بڑھنے کا تہیہ کریں کیونکہ حالات میں استقلال اور بہتری لانے کے لیے یہ بہت ضروری ہے۔