معاشی استحکام کے دعوے کہاں گئے
عوام کو ان گنجلک اعدادو شمار سے زیادہ شغف نہیں، وہ تو صرف یہ چاہتے ہیں کہ ملک مستقل ترقی کی راہ پر گامزن رہے۔
کہاں تو ایک جانب حکومتی سطح پر معاشی استحکام کے ہزار ہا دعوے تواتر کے ساتھ کیے جارہے تھے اور کہاں یہ صورتحال ہے کہ تجارتی خسارہ ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔
پاکستان بیورو آف شماریات کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے نو ماہ کے دوران برآمدات 15 ارب 11 کروڑ 90 لاکھ ڈالرز رہیں جب کہ درآمدات کا حجم 38 ارب 50 کروڑ 40 لاکھ ڈالر رہا۔ رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے نو ماہ کے دوران تجارتی خسارہ 23 ارب 38 کروڑ 50لاکھ ڈالر کی ریکارڈ سطح سے تجاوز کرگیا ہے۔
عوام کو ان گنجلک اعدادو شمار سے زیادہ شغف نہیں، وہ تو صرف یہ چاہتے ہیں کہ ملک مستقل ترقی کی راہ پر گامزن رہے اور اس ترقی کے ثمرات عوام کو بلاتخصیص نچلے درجے تک ملتے رہیں، عوام کو اس بات سے بھی غرض نہیں کہ تجارتی خسارے میں گزشتہ سال کی نسبت 38.80 فیصد اضافہ ہوا ہے اور رواں مالی سال کے پہلے نو ماہ کے دوران برآمدات میں 3.6 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی ہے، بلکہ عوام کا آئیڈیل میزانیہ یہی ہے کہ تجارت اور معاشی انڈیکس ان کی بہتر زندگی کی نوید دے۔
واضح رہے کہ 2013ء میں جب موجودہ حکومت برسراقتدار آئی اس وقت یہ تجارتی خسارہ 20.435 بلین ڈالر تھا، بلاشبہ ابتدائی عرصے میں ایک مصنوعی استحکام نظر آیا لیکن اس کے بعد مستقل بڑھتی ہوئی درآمدات اور کم ہوتی ہوئی برآمدات کے باعث تجارتی خسارہ بڑھ گیا ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اگر یہ صورتحال برقرار رہتی ہے تو تجارتی خسارہ اس مالی سال کے اختتام پر یعنی جون میں 30 بلین ڈالر تک پہنچ سکتا ہے جو کہ ملک کی تاریخ میں سب سے بڑا تجارتی خسارہ ہوگا۔
کامرس منسٹر خرم دستگیر کا کہنا ہے کہ درآمدات کی نوعیت سے محسوس ہوتا ہے کہ سرمایہ کاری اور صنعت میں اضافہ ہوا ہے، اسی لیے یہ ایک مثبت اشارہ ہے، لیکن انھوں نے اس بات سے بھی اتفاق کیا کہ ادائیگیوں میں توازن رکھنا لازم ہے اور حکومت اس سہ ماہی کے دوران اس مسئلے کے حل کے لیے کوشش کر رہی ہے۔
ایک عام شخص ریاست سے یہ مطالبہ کرنے میں بجا ہے کہ عالمی سطح پر چاہے کچھ بھی ہورہا ہو، ریاست اسے بنیادی سہولتوں کے ساتھ 'سہل زندگی' فراہم کرے، اس لیے تجارتی معاملات ہوں یا معاشی استحکام پر مبنی اسٹرٹیجی، حکومت کو عام آدمی کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
پاکستان بیورو آف شماریات کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے نو ماہ کے دوران برآمدات 15 ارب 11 کروڑ 90 لاکھ ڈالرز رہیں جب کہ درآمدات کا حجم 38 ارب 50 کروڑ 40 لاکھ ڈالر رہا۔ رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے نو ماہ کے دوران تجارتی خسارہ 23 ارب 38 کروڑ 50لاکھ ڈالر کی ریکارڈ سطح سے تجاوز کرگیا ہے۔
عوام کو ان گنجلک اعدادو شمار سے زیادہ شغف نہیں، وہ تو صرف یہ چاہتے ہیں کہ ملک مستقل ترقی کی راہ پر گامزن رہے اور اس ترقی کے ثمرات عوام کو بلاتخصیص نچلے درجے تک ملتے رہیں، عوام کو اس بات سے بھی غرض نہیں کہ تجارتی خسارے میں گزشتہ سال کی نسبت 38.80 فیصد اضافہ ہوا ہے اور رواں مالی سال کے پہلے نو ماہ کے دوران برآمدات میں 3.6 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی ہے، بلکہ عوام کا آئیڈیل میزانیہ یہی ہے کہ تجارت اور معاشی انڈیکس ان کی بہتر زندگی کی نوید دے۔
واضح رہے کہ 2013ء میں جب موجودہ حکومت برسراقتدار آئی اس وقت یہ تجارتی خسارہ 20.435 بلین ڈالر تھا، بلاشبہ ابتدائی عرصے میں ایک مصنوعی استحکام نظر آیا لیکن اس کے بعد مستقل بڑھتی ہوئی درآمدات اور کم ہوتی ہوئی برآمدات کے باعث تجارتی خسارہ بڑھ گیا ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اگر یہ صورتحال برقرار رہتی ہے تو تجارتی خسارہ اس مالی سال کے اختتام پر یعنی جون میں 30 بلین ڈالر تک پہنچ سکتا ہے جو کہ ملک کی تاریخ میں سب سے بڑا تجارتی خسارہ ہوگا۔
کامرس منسٹر خرم دستگیر کا کہنا ہے کہ درآمدات کی نوعیت سے محسوس ہوتا ہے کہ سرمایہ کاری اور صنعت میں اضافہ ہوا ہے، اسی لیے یہ ایک مثبت اشارہ ہے، لیکن انھوں نے اس بات سے بھی اتفاق کیا کہ ادائیگیوں میں توازن رکھنا لازم ہے اور حکومت اس سہ ماہی کے دوران اس مسئلے کے حل کے لیے کوشش کر رہی ہے۔
ایک عام شخص ریاست سے یہ مطالبہ کرنے میں بجا ہے کہ عالمی سطح پر چاہے کچھ بھی ہورہا ہو، ریاست اسے بنیادی سہولتوں کے ساتھ 'سہل زندگی' فراہم کرے، اس لیے تجارتی معاملات ہوں یا معاشی استحکام پر مبنی اسٹرٹیجی، حکومت کو عام آدمی کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔