لفظوں کا ہیر پھر
یہ زبان اردو ہے یا ہندی، اتنا جانتا ہوں کہ ہماری مین پوری میں جو زبان بولی جاتی ہے اسی زبان میں اپنی کہانیاں لکھی ہیں۔
ISLAMABAD:
اس وقت ہمارے پیش نظر ایکسپریس ٹری بیون میں چھپنے والا ایک کالم ہے۔ اس کالم میں ایک ایسی پاکستانی ماں کا ذکر ہے جو پریشان ہے کہ اس کے بچے ایسی زبان بولتے ہیں جس میں ہندی لفظ بہت آتے ہیں اور وجہ یہ سمجھ میں آئی کہ ٹی وی کے کارٹون چینلوں پر جو کارٹون چلتے ہیں وہ تو ہندی کے پروگرام ہوتے ہیں اور بچے یہ کارٹون بہت شوق سے دیکھتے ہیں۔ پٹیل صاحب کہتے ہیں کہ بعض ادبی شخصیتوں نے ان مائوں کو یہ مشورہ دیا ہے کہ اگر اپنی تہذیب کی بقا چاہتی ہو تو بچوں کو گھر پہ اردو کے سبق دیا کرو۔
اس کے بعد آ کر پٹیل صاحب نے یہ کہا کہ اردو کے کتنے کالم نگاروں اور افسانہ نگاروں نے کتنے لفظ چنے ہیں اور بتایا ہے کہ کس طرح ان کی تحریروں میں ہندی کے ایسے لفظ استعمال ہوتے ہیں جیسے آئو بھگت، ستیاناس، نچنت اور منٹو کی ایک تحریر میں وہ یہ فقرہ پڑھ کر کتنا خوش ہوئے کہ ''ہم نچنت ہو گئے۔''
وہ تو شکر کیجیے کہ کالم کی تحریر مختصر ہوتی ہے۔ کوئی تفصیلی مقالہ ہوتا تو وہ اردو سے چن چن کر الفاظ نکال کر ایک قطار لگا دیتے اور ثابت کر دیتے کہ اردو کے دامن میں اپنے الفاظ تو ہیں ہی نہیں۔ کچھ عربی اور فارسی الفاظ ہیں باقی سب ہندی کے الفاظ ہیں۔
مگر اس کا الٹ بھی ہو سکتا ہے۔ کوئی اردو والا ہندی زبان کے روزمرہ سے ستیاناس اور آئوبھگت کی قسم کے لفظ چن کر سامنے لائے اور دعوے کرے کہ یہ لفظ تو اردو کا روزمرہ ہیں۔ ہندی والوں نے یہ اردو سے مستعار لیے ہیں۔
اصل میں ایسی بحث کا تقاضا یہ ہے کہ ہمیں ایک طرف اردو زبان کی تھوڑی جانکاری ہونی چاہیے۔ دوسری طرف ہندی زبان سے بھی تھوڑی واقفیت ہونی چاہیے اور پھر دونوں زبانوں میں جو لسانی رشتہ ہے، اس سے تھوڑا آگاہ ہونا چاہیے۔ یہ لسانی رشتہ اس طرح کا ہے کہ ہندی والے اردو کو الگ زبان نہیں مانتے۔ کہتے ہیں کہ ہندی زبان ہی کی ایک شکل ہے جو فارسی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے۔ ادھر اردو والے کہتے ہیں کہ ہندی کوئی الگ زبان تھی ہی نہیں۔ فورٹ ولیم کالج نے یہ کمال دکھایا کہ پرانی قصہ کہانیوں کی کتابوں کے متعلق منصوبہ بنایا کہ مفرس زبان کو خارج کر کے آسان زبان میں کہانی لکھی جائے۔ ادھر ہندی کے منشی رکھے گئے کہ ان کہانیوں کو ناگری رسم الخط میں اس طرح لکھو کہ ہندی آسان ہو۔ اس طرح وہ زبان جو ملی جلی چل رہی تھی، کچھ ناگری رسم الخط میں ،کچھ فارسی رسم الخط میں، وہ دو زبانیں اس طرح الگ الگ ہو گئیں کہ ایک دوسرے کی حریف بن گئیں۔
خیر اب یہ ماہرین لسانیات کے قصے قضیے ہیں۔ مطلب کہنے کا یہ ہے کہ ہماری پاکستانی ماں تو اس پس منظر سے بے خبر ہے۔ مگر ہمیں آپ تو اس پاکستانی ماں کے طریقے سے نہیں سوچنا چاہیے۔
اصل صورت حال یہ ہے کہ ایسے زمانے میں بھی جب ہندی اور اردو دو قطعی الگ الگ زبانیں بن گئیں اور دو زبانوں میں سے ہر زبان والوں کا دعویٰ یہ تھا کہ ان کی ہندی یا ان کی اردو ہندوستان کی لنگوافرینکا ہے۔ ایک زبان سے دوسری زبان میں ہجرت بہت آسان تھی۔ منشی پریم چند اردو مختصر افسانے کے قبلہ و کعبہ سمجھے جاتے ہیں۔ مگر جب انھوں نے ہندی فکشن کی دنیا میں قدم رکھا تو وہاں بھی انھیں یہی شرف حاصل ہو گیا۔ ان کا ایک ناول گئودان، جو ان کا نمایندہ ناول مانا جاتا ہے، اردو اور ہندی والوں کے درمیان وجہ تنازعہ چلا آتا ہے۔ ہندی والے سمجھتے ہیں کہ یہ خاص ہندی ناول ہے۔ اردو والے کہتے ہیں کہ پہلے تو یہ اردو میں لکھا گیا تھا بعد میں پریم چند نے اسے ہندی میں یعنی ناگری رسم الخط میں منتقل کیا تھا۔
ہاں یاد آیا۔ کملیشور کی کہانیوں کو اردو رسم الخط میں منتقل کر کے بمبئی کے ایک رسالے نے ایک ضخیم کملیشور نمبر نکال ڈالا۔ ہم نے وہ کہانیاں پڑھیں تو اس کی زبان کو دیکھ کر ہم چکنم میں پڑ گئے۔ خیال گزرا کہ ضرور اردو ایڈیٹروں نے کملیشور کی ہندی کے ساتھ کوئی کارستانی کی ہے۔ جب کملیشور سے ہماری ملاقات ہوئی تو ہم نے ان سے پوچھا کہ اردو میں آپ کی کہانیاں ہندی سے جوں کی توں لی گئی ہیں۔ یا اس میں کسی اردو مترجم نے قلم لگایا ہے۔ بولے کہ نہیں، یہ کہانیاں جوں کی توں اردو میں چھپی ہیں۔ ہم نے کہا مگر یہ زبان تو اردو ہے۔ بولے کہ پتہ نہیں یہ زبان اردو ہے یا ہندی میں اتنا جانتا ہوں کہ ہماری مین پوری میں جو زبان بولی جاتی ہے اسی زبان میں میں نے اپنی کہانیاں لکھی ہیں۔
اصل معاملہ یہ ہے کہ ناول افسانہ لکھنے والا اردو والا ہو یا ہندی والا اسے تو بول چال کی زبان پر زیادہ بھروسہ کرنا پڑتا ہے اور ہندوستان کی بول چال کی زبان بالخصوص شمالی ہند کی ایسی ہے کہ اردو ہندی دونوں کی مشترکہ میراث ہے۔ اس لیے فکشن میں آ کر اردو اور ہندی ایک دوسرے کے بہت قریب آ جاتی ہیں۔ جب ہی تو ہندی والوں کو اس میں سہولت نظر آئی کہ اردو افسانے کو جتنا بس چلے ناگری میں منتقل کر کے ہندی میں اپنا لو۔ سب سے بڑھ کر یہ عمل منٹو کے ساتھ ہوا۔
شاعری کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔ اردو شاعری نے فارسی شعری روایت سے بہت فیض پایا ہے۔ اس لیے فارسی کا شعری زبان میں بہت عمل دخل ہے۔ مگر وہاں بھی نئی شعری روایت میں بڑا فرق پڑ گیا ہے۔ میرا جی ایسے شاعر بھی ہیں جو بالکل ہندی رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔
ہاں جب ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ لفظ ہندی الاصل ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ یہ لفظ ہم نے ہندی زبان سے لیا ہے۔ مطلب یہ ہوتا ہے کہ سر زمین ہند میں اس کی جڑیں ہیں۔ وہ کھڑی کا ہو سکتا ہے، برج کا ہو سکتا ہے، بھوجپوری کا ہو سکتا ہے۔
آئو بھگت کے لیے ایک فارسی لفظ بھی اردو میں رائج ہے۔ خاطر تواضع۔ مگر آئو بھگت جب ہم کہتے ہیں تو اس میں ایک پہلو اور پیدا ہو جاتا ہے۔ خوشامد کا پہلو۔ سو آئو بھگت کے استعمال میں طنز کا بھی ایک پہلو چھپا ہوا ہے۔ اور ستیاناس سے بڑھ کر بھی اردو میں ایک لفظ ہے، سوا سیاناس، اور عورت جب بیٹے پوتے پر برہم ہوتی ہے تو کہتی ہے ناس پیٹا۔ مطلب یہ ہے کہ یہ اردو ہے۔ ہندی الاصل لفظ ہو یا فارسی الاصل اردو میں آ کر اس میں معنی کے اعتبار سے نئی نئی شکلیں ابھری ہیں اور نئے نئے پہلو پیدا ہو گئے ہیں۔ مطلب یہ کہ جو ہندی الاصل لفظ اردو روزمرہ کا حصہ بن گئے وہ اردو کے اپنے لفظ ہیں۔ ہندی الاصل وہ لفظ جو ہندی میں مروج ہیں مگر اردو میں ان کا چلن نہیں مثلاً ادھیکار، وشال وہ بیشک ہندی کے لفظ ہیں۔ مگر ہم اپنی کہانیوں میں کرداروں کے حساب سے یہ لفظ استعمال کریں تو وہ اس صورت میں اردو کے لفظ بن جائیں گے۔
اس وقت ہمارے پیش نظر ایکسپریس ٹری بیون میں چھپنے والا ایک کالم ہے۔ اس کالم میں ایک ایسی پاکستانی ماں کا ذکر ہے جو پریشان ہے کہ اس کے بچے ایسی زبان بولتے ہیں جس میں ہندی لفظ بہت آتے ہیں اور وجہ یہ سمجھ میں آئی کہ ٹی وی کے کارٹون چینلوں پر جو کارٹون چلتے ہیں وہ تو ہندی کے پروگرام ہوتے ہیں اور بچے یہ کارٹون بہت شوق سے دیکھتے ہیں۔ پٹیل صاحب کہتے ہیں کہ بعض ادبی شخصیتوں نے ان مائوں کو یہ مشورہ دیا ہے کہ اگر اپنی تہذیب کی بقا چاہتی ہو تو بچوں کو گھر پہ اردو کے سبق دیا کرو۔
اس کے بعد آ کر پٹیل صاحب نے یہ کہا کہ اردو کے کتنے کالم نگاروں اور افسانہ نگاروں نے کتنے لفظ چنے ہیں اور بتایا ہے کہ کس طرح ان کی تحریروں میں ہندی کے ایسے لفظ استعمال ہوتے ہیں جیسے آئو بھگت، ستیاناس، نچنت اور منٹو کی ایک تحریر میں وہ یہ فقرہ پڑھ کر کتنا خوش ہوئے کہ ''ہم نچنت ہو گئے۔''
وہ تو شکر کیجیے کہ کالم کی تحریر مختصر ہوتی ہے۔ کوئی تفصیلی مقالہ ہوتا تو وہ اردو سے چن چن کر الفاظ نکال کر ایک قطار لگا دیتے اور ثابت کر دیتے کہ اردو کے دامن میں اپنے الفاظ تو ہیں ہی نہیں۔ کچھ عربی اور فارسی الفاظ ہیں باقی سب ہندی کے الفاظ ہیں۔
مگر اس کا الٹ بھی ہو سکتا ہے۔ کوئی اردو والا ہندی زبان کے روزمرہ سے ستیاناس اور آئوبھگت کی قسم کے لفظ چن کر سامنے لائے اور دعوے کرے کہ یہ لفظ تو اردو کا روزمرہ ہیں۔ ہندی والوں نے یہ اردو سے مستعار لیے ہیں۔
اصل میں ایسی بحث کا تقاضا یہ ہے کہ ہمیں ایک طرف اردو زبان کی تھوڑی جانکاری ہونی چاہیے۔ دوسری طرف ہندی زبان سے بھی تھوڑی واقفیت ہونی چاہیے اور پھر دونوں زبانوں میں جو لسانی رشتہ ہے، اس سے تھوڑا آگاہ ہونا چاہیے۔ یہ لسانی رشتہ اس طرح کا ہے کہ ہندی والے اردو کو الگ زبان نہیں مانتے۔ کہتے ہیں کہ ہندی زبان ہی کی ایک شکل ہے جو فارسی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے۔ ادھر اردو والے کہتے ہیں کہ ہندی کوئی الگ زبان تھی ہی نہیں۔ فورٹ ولیم کالج نے یہ کمال دکھایا کہ پرانی قصہ کہانیوں کی کتابوں کے متعلق منصوبہ بنایا کہ مفرس زبان کو خارج کر کے آسان زبان میں کہانی لکھی جائے۔ ادھر ہندی کے منشی رکھے گئے کہ ان کہانیوں کو ناگری رسم الخط میں اس طرح لکھو کہ ہندی آسان ہو۔ اس طرح وہ زبان جو ملی جلی چل رہی تھی، کچھ ناگری رسم الخط میں ،کچھ فارسی رسم الخط میں، وہ دو زبانیں اس طرح الگ الگ ہو گئیں کہ ایک دوسرے کی حریف بن گئیں۔
خیر اب یہ ماہرین لسانیات کے قصے قضیے ہیں۔ مطلب کہنے کا یہ ہے کہ ہماری پاکستانی ماں تو اس پس منظر سے بے خبر ہے۔ مگر ہمیں آپ تو اس پاکستانی ماں کے طریقے سے نہیں سوچنا چاہیے۔
اصل صورت حال یہ ہے کہ ایسے زمانے میں بھی جب ہندی اور اردو دو قطعی الگ الگ زبانیں بن گئیں اور دو زبانوں میں سے ہر زبان والوں کا دعویٰ یہ تھا کہ ان کی ہندی یا ان کی اردو ہندوستان کی لنگوافرینکا ہے۔ ایک زبان سے دوسری زبان میں ہجرت بہت آسان تھی۔ منشی پریم چند اردو مختصر افسانے کے قبلہ و کعبہ سمجھے جاتے ہیں۔ مگر جب انھوں نے ہندی فکشن کی دنیا میں قدم رکھا تو وہاں بھی انھیں یہی شرف حاصل ہو گیا۔ ان کا ایک ناول گئودان، جو ان کا نمایندہ ناول مانا جاتا ہے، اردو اور ہندی والوں کے درمیان وجہ تنازعہ چلا آتا ہے۔ ہندی والے سمجھتے ہیں کہ یہ خاص ہندی ناول ہے۔ اردو والے کہتے ہیں کہ پہلے تو یہ اردو میں لکھا گیا تھا بعد میں پریم چند نے اسے ہندی میں یعنی ناگری رسم الخط میں منتقل کیا تھا۔
ہاں یاد آیا۔ کملیشور کی کہانیوں کو اردو رسم الخط میں منتقل کر کے بمبئی کے ایک رسالے نے ایک ضخیم کملیشور نمبر نکال ڈالا۔ ہم نے وہ کہانیاں پڑھیں تو اس کی زبان کو دیکھ کر ہم چکنم میں پڑ گئے۔ خیال گزرا کہ ضرور اردو ایڈیٹروں نے کملیشور کی ہندی کے ساتھ کوئی کارستانی کی ہے۔ جب کملیشور سے ہماری ملاقات ہوئی تو ہم نے ان سے پوچھا کہ اردو میں آپ کی کہانیاں ہندی سے جوں کی توں لی گئی ہیں۔ یا اس میں کسی اردو مترجم نے قلم لگایا ہے۔ بولے کہ نہیں، یہ کہانیاں جوں کی توں اردو میں چھپی ہیں۔ ہم نے کہا مگر یہ زبان تو اردو ہے۔ بولے کہ پتہ نہیں یہ زبان اردو ہے یا ہندی میں اتنا جانتا ہوں کہ ہماری مین پوری میں جو زبان بولی جاتی ہے اسی زبان میں میں نے اپنی کہانیاں لکھی ہیں۔
اصل معاملہ یہ ہے کہ ناول افسانہ لکھنے والا اردو والا ہو یا ہندی والا اسے تو بول چال کی زبان پر زیادہ بھروسہ کرنا پڑتا ہے اور ہندوستان کی بول چال کی زبان بالخصوص شمالی ہند کی ایسی ہے کہ اردو ہندی دونوں کی مشترکہ میراث ہے۔ اس لیے فکشن میں آ کر اردو اور ہندی ایک دوسرے کے بہت قریب آ جاتی ہیں۔ جب ہی تو ہندی والوں کو اس میں سہولت نظر آئی کہ اردو افسانے کو جتنا بس چلے ناگری میں منتقل کر کے ہندی میں اپنا لو۔ سب سے بڑھ کر یہ عمل منٹو کے ساتھ ہوا۔
شاعری کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔ اردو شاعری نے فارسی شعری روایت سے بہت فیض پایا ہے۔ اس لیے فارسی کا شعری زبان میں بہت عمل دخل ہے۔ مگر وہاں بھی نئی شعری روایت میں بڑا فرق پڑ گیا ہے۔ میرا جی ایسے شاعر بھی ہیں جو بالکل ہندی رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔
ہاں جب ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ لفظ ہندی الاصل ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ یہ لفظ ہم نے ہندی زبان سے لیا ہے۔ مطلب یہ ہوتا ہے کہ سر زمین ہند میں اس کی جڑیں ہیں۔ وہ کھڑی کا ہو سکتا ہے، برج کا ہو سکتا ہے، بھوجپوری کا ہو سکتا ہے۔
آئو بھگت کے لیے ایک فارسی لفظ بھی اردو میں رائج ہے۔ خاطر تواضع۔ مگر آئو بھگت جب ہم کہتے ہیں تو اس میں ایک پہلو اور پیدا ہو جاتا ہے۔ خوشامد کا پہلو۔ سو آئو بھگت کے استعمال میں طنز کا بھی ایک پہلو چھپا ہوا ہے۔ اور ستیاناس سے بڑھ کر بھی اردو میں ایک لفظ ہے، سوا سیاناس، اور عورت جب بیٹے پوتے پر برہم ہوتی ہے تو کہتی ہے ناس پیٹا۔ مطلب یہ ہے کہ یہ اردو ہے۔ ہندی الاصل لفظ ہو یا فارسی الاصل اردو میں آ کر اس میں معنی کے اعتبار سے نئی نئی شکلیں ابھری ہیں اور نئے نئے پہلو پیدا ہو گئے ہیں۔ مطلب یہ کہ جو ہندی الاصل لفظ اردو روزمرہ کا حصہ بن گئے وہ اردو کے اپنے لفظ ہیں۔ ہندی الاصل وہ لفظ جو ہندی میں مروج ہیں مگر اردو میں ان کا چلن نہیں مثلاً ادھیکار، وشال وہ بیشک ہندی کے لفظ ہیں۔ مگر ہم اپنی کہانیوں میں کرداروں کے حساب سے یہ لفظ استعمال کریں تو وہ اس صورت میں اردو کے لفظ بن جائیں گے۔