فلاح یا دہشت گردی
حکم ہے کہ مالی کفالت اپنے گھر سے شروع کرو۔
اسلامی کیلنڈرکی رو سے رواں مہینہ ''رجب'' ہے اور رجب کے اختتام پر شعبان اپنا سفر طے کرنے کے بعد رمضان کو خوش آمدید کہہ کر رخصت ہو جاتا ہے۔ امت مسلمہ کے مذہبی اور روحانی اعتبار سے بارہ مہینوں میں سے یہ تین مہینے انفرادی اور خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ رمضان مسلمانوں کے لیے عبادات و ریاضت کا مقدس مہینہ ہے، رجب اور شعبان رمضان کے استقبالی مہینے ہیں۔ بلکہ یوں کہا جا سکتا ہے کہ ان دو مہینوں کا تسلسل حقیقت میں رمضان ہی کی جز وقتی عملی مشق (عبادات) ہے۔
دین اسلام کی تعلیمات کے لحاظ سے خوشنودی خداوندکریم عبادات کے دو پہلو ہیں۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد جو ہمارے کلی ایمان کی نہ صرف پہچان ہیں بلکہ توبہ واستغفار اور نجات کا ذریعہ بھی ہیں۔حقوق اللہ کی ادائیگی کے ساتھ ہی حقوق العبادکی راہوں کا تعین کردیا گیا ہے۔ دولت کی منصفانہ تقسیم کے سلسلے میں معاشی مساوات کا تصور بھی ''قرآن مجید'' میں واضح کر دیا گیا ہے۔
حکم ہے کہ مالی کفالت اپنے گھر سے شروع کرو جس میں سب سے پہلے آپ کے والدین، بہن، بھائی، بیوی اور اپنی اولادشامل ہیں۔ ان کے بعد اپنے قریبی عزیزواقارب آپ کی (حسب توفیق) مالی اعانت کے مستحق ہیں۔ امیروغریب کے فر ق کو مٹانے کے لیے اسلام نے مستحق افراد کو صدقات وخیرات کی ادائیگی کا بھی حکم دیا ہے۔ اسلامی فلاحی ریاست کا واضح تصور پیش کرکے غریب اورصاحب ثروت کا فر ق مٹا دیا ہے۔ معاشرے کو اس انداز میں پیش کیا کہ کوئی فرد دوسرے کا محتاج نہ ہو۔
ضرورت اس امرکی ہے کہ دنیا میں امن قائم ہو اور اس کو فروغ دیا جائے، امن کے لیے بھائی چارگی کا درس لینا ہو گا۔ دہشتگردی جیسی منفی سرگرمیاں دراصل سپرطاقتوں کے ہی مفادات کی جنگ کا حصہ ہیں۔ پراکسی جنگیں اسی بنیاد کا پیش خیمہ ہیں کیونکہ یہ جہاں مفاد ہو گا، وہاں فساد تو لازمی ہو گا۔ دنیا میں غربت وافلاس اورخوف وہراس پھیلاؤ اور اسے دست نگر بناؤ اور اپنی مرضی ومنشا سے استعمال میں لاؤ۔ اب جنگوں کے انداز بدل چکے ہیں، اب ذہنوں میں انقلاب لانے کا وقت ہے۔ خیالات اور سوچ کو بدلنے کا وقت ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اس وقت دنیا میں واحد مسلمان قوم ہی ہے جو میانہ روی کی حدود سے تجاوزکر چکے ہیں۔ دور جدید آمنے سامنے حربی جنگوں کا نہیں بلکہ سول پراکسی جنگوں کا ہے اور دہشتگردی اسی سول پراکسی وار کا حصہ ہے۔ اس وقت ملت اسلامیہ سب سے زیادہ عدم آسودگی کا شکار ہے۔
حالیہ دنوں میں اسلام آباد کی ایک ابلاغی تنظیم ''انڈی ویجول لینڈ'' کے تحت دہشتگردی میں استعمال ہونے والے سرمائے کے ذرایع سے متعلق سیر حاصل فکری نشست کا اہتمام کراچی کے IBAکیمپس میں کیا گیا جس میں معروف دانشوروں، کالم نگاروں، میڈیا سے متعلق افراد کے بڑی تعداد نے شرکت کی۔ موضوع بحث وسعتی نوعیت کا تھا۔ دنیا میں امن کیسے قائم ہوسکتا ہے۔ شکوک و شبہات کے زمرے میں اس امر کا اظہار کیا گیاکہ دہشتگردی میں استعمال ہونے والے مالی ذرایع کیا ہیں۔
''انسانی فلاح کے جذبہ کے تحت دیے گئے عطیات محفوظ ہاتھوں میں'' جو یقینا ان کی لاگت اربوں کھربوں میں بنتی ہے کے عنوان سےNGO کے تحت ملک میں قائم مختلف لاتعداد ویلفیراداروں (مساجد، مدارس، فاؤنڈیشنز، ٹرسٹ، سوسائٹی) کی کارکردگی اور جمع شدہ فنڈز کا درست مصرف، پیشہ ورکاروباری گداگروں کے بڑھتے ہوئے رجحان کی روک تھام جیسے عوامل پر بحث کی گئی۔ اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ کسی بھی ویلفیر ادارے کو مالی اعانت (زکوۃ، فطرہ، صدقات، عطیات) کرتے وقت اس بات کو یقینی بنالیں کہ جو روپے پیسے کی مد میں آپ متعلقہ ادارے کو دے رہے ہیں اس رقم کا استعمال منفی سرگرمیوں کی بجائے انسانی فلاح و بہبود پر خرچ ہوگا، ہورہا ہے یا ہوچکا ہے۔
اکثر وبیشتر اہم کاروباری مراکز، رہائشی مکانات کی گلیوں میں کوئی بھی ایسی جگہ نہیں ملے گی جہاں ایمبولینس میں بیٹھا ہوا شخص لاوڈ اسپیکر پر مالی امداد کی اپیل نہ کررہا ہو۔ ایک چندے کا ڈبہ ایمبولینس کے اگلے حصے پر اور دوسرا شخص ہر فرد کے پاس جا کر اپیل کرتا ہے اور چندہ جمع کرتا ہے جب کہ ہمیں معلوم ہے کہ یہ جعلی ہیں لیکن لوگ عنایت کردیتے ہیں۔
خراب اور ناقص کارکردگی کی بنا پر حکومتی اداروں پر سے عوام کا اعتماد پہلے ہی اٹھ چکا ہے۔ ملک کے تمام بینکوں اور دوسرے مالیاتی اداروں سے کھاتہ داران کے اکاؤنٹس سے منہا کی جانے والی زکوۃ کی مدمیں خطیر رقم کا مصرف کہاں ہورہا ہے کسی کو نہیں معلوم ۔ ظاہر ہے عام آدمی تک ہر ادارے کے بارے میں معلومات کی رسائی ایک کٹھن کام ہے۔ اس ضمن میں ان اداروں کی منفی یا مثبت کارکردگی کے بارے میں مکمل آگاہی کی عوام تک رسائی میں میڈیا وہ واحد ذریعہ ہے جو موثر طریقے سے expected task)) کے عمل کو یقینی بناسکتا ہے۔
دوران سیشن عوام کی آگاہی کے لیے تنظیم کی جانب سے ملک کی 72 کالعدم جہادی تنظیموں کے ناموں کی فہرست بھی پیش کی گئی جو حکومت پاکستان کے نیشنل کرائسز مینجمنٹ سیل نے جاری کی ہے۔ سب سے اہم بات جو قابل غور ہے وہ ہے کہ یہ سیمینار ایسے مہینوں میں کیا جا رہا ہے کہ جب عقیدے کی پیروی کرتے وقت ہم اپنے مال میں سے کچھ حصہ اللہ کی راہ میں عطیات کی نذرکر نے میں پر جوش ہوتے ہیں لیکن ہمیں یہ نہیں معلوم ہوتا کہ آیا ہمارا دیا ہوا پیسہ انسانیت کی تباہی جیسی سرگرمیوں میں خرچ ہوا۔ یہی وہ اہم نکتہ ہے جس کی ضرورت کو انڈی ویجول لینڈ نے محسوس کیا۔
چند گھنٹوں کی اس تحقیقی اور فکری نششت قلمکاروں اور میڈیا سے تعلق رکھنے والے معزز افراد کا ایک پلیٹ فارم پر اس طرح جمع ہونا اور ان کو اپنی منشا اور معلومات کے مطابق قیمتی آرا پیش کر نے کا پورا پورا موقع فراہم کرنا، میں سمجھتا ہوں ملک وقوم کے مفاد میں ایک نہایت ہی صحت مند تعمیری اور خوش آیند عمل ہے۔ عموما بعض کالم نگار لکھنے کے تو ماہر ہوتے ہیں مگر بعض اوقات وہ بولنے میں عار محسوس کرتے ہیں۔ بلاشبہ ایسے سیمینارز، ورکشاپس ، سیشنزکا انعقاد ہماری صحافتی برادری کے لیے ایک مفید عملی درس گاہ ثابت ہو گی۔
ہمارے ساتھ شریک گفتگو تھے صلاح ا لدین، مقتدا منصور، منصورمانی، شبیر احمد ارمان، فرح ناز، محمدابراہیم خان، عارف خٹک کے علاوہ دیگر میڈیا کے افراد کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ تنظیم کی جانب سے معاونت اور میزبانی کے فرائض پروگرام کی کو آرڈینیٹرز سندس سیدہ اورگل مینہ بلال احمد نے انجام دیے۔ہمیں غربت و افلاس، جہالت، بیروز گاری سے نکلنا ہوگا، خود انحصاری کی راہ اختیار کرنی ہوگی، تعلیم کے زیورسے آراستہ ملک کا ہر فرد خواہ اس کا تعلق کسی بھی شعبہ زندگی سے ہو،ایک دوسرے سے محبت اور ایک دوسرے کی تکلیف کا من وعن احساس کے جذ بے کو اجاگرکرنا ہوگا۔
بوڑھے اورعمر رسیدہ بزرگ اور جسمانی طور پر معذور افراد کے لیے معاشی پیکیج بالخصوص مکمل صحت کی سہولیات دینا ہوںگی تب جا کر ایک صحت مند معاشرہ تشکیل ہوگا۔گو کہ آپ کی معمولی سی مالی اعانت کسی ضرورت مند کے خواب کو شرمندہ تعبیر تو نہیں کرسکتی البتہ جز وقتی پریشانی کا سدباب تو کسی حد تک کرسکتی ہے۔
اللہ تعالی کی پاک ذات نے ہمارے خوابوں کی تعمیل ماضی میں کی ہے کہ ہم نادانستہ طور پر ایک مضبوط اسلامی ایٹمی قوت بن چکے ہیں، دنیا کی مانی ہوئی فوج ہمارے پاس ہے، ہمیں وسائل سے مالا مال سر زمیں سے سرفرازکیا ہے، بس صرف کمی ہے تو اچھے لیڈروںکی اور سب سے اہم بات اسلامی فلاحی ریاست Islamic Welfare State)) کے قیام کی اشد ضرورت ہے، انسانوں میں اضطرابی کیفیت خود بخود ختم ہو جائے گی اوردہشتگردی کے گرجتے سیاہ بادل رفتہ رفتہ چھٹ جائیں گے۔ ڈاکٹر علامہ اقبال کے اس شعر سے امیدوں میں جان آ جاتی ہے۔
ملت کے ساتھ رابطۂ استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
دین اسلام کی تعلیمات کے لحاظ سے خوشنودی خداوندکریم عبادات کے دو پہلو ہیں۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد جو ہمارے کلی ایمان کی نہ صرف پہچان ہیں بلکہ توبہ واستغفار اور نجات کا ذریعہ بھی ہیں۔حقوق اللہ کی ادائیگی کے ساتھ ہی حقوق العبادکی راہوں کا تعین کردیا گیا ہے۔ دولت کی منصفانہ تقسیم کے سلسلے میں معاشی مساوات کا تصور بھی ''قرآن مجید'' میں واضح کر دیا گیا ہے۔
حکم ہے کہ مالی کفالت اپنے گھر سے شروع کرو جس میں سب سے پہلے آپ کے والدین، بہن، بھائی، بیوی اور اپنی اولادشامل ہیں۔ ان کے بعد اپنے قریبی عزیزواقارب آپ کی (حسب توفیق) مالی اعانت کے مستحق ہیں۔ امیروغریب کے فر ق کو مٹانے کے لیے اسلام نے مستحق افراد کو صدقات وخیرات کی ادائیگی کا بھی حکم دیا ہے۔ اسلامی فلاحی ریاست کا واضح تصور پیش کرکے غریب اورصاحب ثروت کا فر ق مٹا دیا ہے۔ معاشرے کو اس انداز میں پیش کیا کہ کوئی فرد دوسرے کا محتاج نہ ہو۔
ضرورت اس امرکی ہے کہ دنیا میں امن قائم ہو اور اس کو فروغ دیا جائے، امن کے لیے بھائی چارگی کا درس لینا ہو گا۔ دہشتگردی جیسی منفی سرگرمیاں دراصل سپرطاقتوں کے ہی مفادات کی جنگ کا حصہ ہیں۔ پراکسی جنگیں اسی بنیاد کا پیش خیمہ ہیں کیونکہ یہ جہاں مفاد ہو گا، وہاں فساد تو لازمی ہو گا۔ دنیا میں غربت وافلاس اورخوف وہراس پھیلاؤ اور اسے دست نگر بناؤ اور اپنی مرضی ومنشا سے استعمال میں لاؤ۔ اب جنگوں کے انداز بدل چکے ہیں، اب ذہنوں میں انقلاب لانے کا وقت ہے۔ خیالات اور سوچ کو بدلنے کا وقت ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اس وقت دنیا میں واحد مسلمان قوم ہی ہے جو میانہ روی کی حدود سے تجاوزکر چکے ہیں۔ دور جدید آمنے سامنے حربی جنگوں کا نہیں بلکہ سول پراکسی جنگوں کا ہے اور دہشتگردی اسی سول پراکسی وار کا حصہ ہے۔ اس وقت ملت اسلامیہ سب سے زیادہ عدم آسودگی کا شکار ہے۔
حالیہ دنوں میں اسلام آباد کی ایک ابلاغی تنظیم ''انڈی ویجول لینڈ'' کے تحت دہشتگردی میں استعمال ہونے والے سرمائے کے ذرایع سے متعلق سیر حاصل فکری نشست کا اہتمام کراچی کے IBAکیمپس میں کیا گیا جس میں معروف دانشوروں، کالم نگاروں، میڈیا سے متعلق افراد کے بڑی تعداد نے شرکت کی۔ موضوع بحث وسعتی نوعیت کا تھا۔ دنیا میں امن کیسے قائم ہوسکتا ہے۔ شکوک و شبہات کے زمرے میں اس امر کا اظہار کیا گیاکہ دہشتگردی میں استعمال ہونے والے مالی ذرایع کیا ہیں۔
''انسانی فلاح کے جذبہ کے تحت دیے گئے عطیات محفوظ ہاتھوں میں'' جو یقینا ان کی لاگت اربوں کھربوں میں بنتی ہے کے عنوان سےNGO کے تحت ملک میں قائم مختلف لاتعداد ویلفیراداروں (مساجد، مدارس، فاؤنڈیشنز، ٹرسٹ، سوسائٹی) کی کارکردگی اور جمع شدہ فنڈز کا درست مصرف، پیشہ ورکاروباری گداگروں کے بڑھتے ہوئے رجحان کی روک تھام جیسے عوامل پر بحث کی گئی۔ اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ کسی بھی ویلفیر ادارے کو مالی اعانت (زکوۃ، فطرہ، صدقات، عطیات) کرتے وقت اس بات کو یقینی بنالیں کہ جو روپے پیسے کی مد میں آپ متعلقہ ادارے کو دے رہے ہیں اس رقم کا استعمال منفی سرگرمیوں کی بجائے انسانی فلاح و بہبود پر خرچ ہوگا، ہورہا ہے یا ہوچکا ہے۔
اکثر وبیشتر اہم کاروباری مراکز، رہائشی مکانات کی گلیوں میں کوئی بھی ایسی جگہ نہیں ملے گی جہاں ایمبولینس میں بیٹھا ہوا شخص لاوڈ اسپیکر پر مالی امداد کی اپیل نہ کررہا ہو۔ ایک چندے کا ڈبہ ایمبولینس کے اگلے حصے پر اور دوسرا شخص ہر فرد کے پاس جا کر اپیل کرتا ہے اور چندہ جمع کرتا ہے جب کہ ہمیں معلوم ہے کہ یہ جعلی ہیں لیکن لوگ عنایت کردیتے ہیں۔
خراب اور ناقص کارکردگی کی بنا پر حکومتی اداروں پر سے عوام کا اعتماد پہلے ہی اٹھ چکا ہے۔ ملک کے تمام بینکوں اور دوسرے مالیاتی اداروں سے کھاتہ داران کے اکاؤنٹس سے منہا کی جانے والی زکوۃ کی مدمیں خطیر رقم کا مصرف کہاں ہورہا ہے کسی کو نہیں معلوم ۔ ظاہر ہے عام آدمی تک ہر ادارے کے بارے میں معلومات کی رسائی ایک کٹھن کام ہے۔ اس ضمن میں ان اداروں کی منفی یا مثبت کارکردگی کے بارے میں مکمل آگاہی کی عوام تک رسائی میں میڈیا وہ واحد ذریعہ ہے جو موثر طریقے سے expected task)) کے عمل کو یقینی بناسکتا ہے۔
دوران سیشن عوام کی آگاہی کے لیے تنظیم کی جانب سے ملک کی 72 کالعدم جہادی تنظیموں کے ناموں کی فہرست بھی پیش کی گئی جو حکومت پاکستان کے نیشنل کرائسز مینجمنٹ سیل نے جاری کی ہے۔ سب سے اہم بات جو قابل غور ہے وہ ہے کہ یہ سیمینار ایسے مہینوں میں کیا جا رہا ہے کہ جب عقیدے کی پیروی کرتے وقت ہم اپنے مال میں سے کچھ حصہ اللہ کی راہ میں عطیات کی نذرکر نے میں پر جوش ہوتے ہیں لیکن ہمیں یہ نہیں معلوم ہوتا کہ آیا ہمارا دیا ہوا پیسہ انسانیت کی تباہی جیسی سرگرمیوں میں خرچ ہوا۔ یہی وہ اہم نکتہ ہے جس کی ضرورت کو انڈی ویجول لینڈ نے محسوس کیا۔
چند گھنٹوں کی اس تحقیقی اور فکری نششت قلمکاروں اور میڈیا سے تعلق رکھنے والے معزز افراد کا ایک پلیٹ فارم پر اس طرح جمع ہونا اور ان کو اپنی منشا اور معلومات کے مطابق قیمتی آرا پیش کر نے کا پورا پورا موقع فراہم کرنا، میں سمجھتا ہوں ملک وقوم کے مفاد میں ایک نہایت ہی صحت مند تعمیری اور خوش آیند عمل ہے۔ عموما بعض کالم نگار لکھنے کے تو ماہر ہوتے ہیں مگر بعض اوقات وہ بولنے میں عار محسوس کرتے ہیں۔ بلاشبہ ایسے سیمینارز، ورکشاپس ، سیشنزکا انعقاد ہماری صحافتی برادری کے لیے ایک مفید عملی درس گاہ ثابت ہو گی۔
ہمارے ساتھ شریک گفتگو تھے صلاح ا لدین، مقتدا منصور، منصورمانی، شبیر احمد ارمان، فرح ناز، محمدابراہیم خان، عارف خٹک کے علاوہ دیگر میڈیا کے افراد کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ تنظیم کی جانب سے معاونت اور میزبانی کے فرائض پروگرام کی کو آرڈینیٹرز سندس سیدہ اورگل مینہ بلال احمد نے انجام دیے۔ہمیں غربت و افلاس، جہالت، بیروز گاری سے نکلنا ہوگا، خود انحصاری کی راہ اختیار کرنی ہوگی، تعلیم کے زیورسے آراستہ ملک کا ہر فرد خواہ اس کا تعلق کسی بھی شعبہ زندگی سے ہو،ایک دوسرے سے محبت اور ایک دوسرے کی تکلیف کا من وعن احساس کے جذ بے کو اجاگرکرنا ہوگا۔
بوڑھے اورعمر رسیدہ بزرگ اور جسمانی طور پر معذور افراد کے لیے معاشی پیکیج بالخصوص مکمل صحت کی سہولیات دینا ہوںگی تب جا کر ایک صحت مند معاشرہ تشکیل ہوگا۔گو کہ آپ کی معمولی سی مالی اعانت کسی ضرورت مند کے خواب کو شرمندہ تعبیر تو نہیں کرسکتی البتہ جز وقتی پریشانی کا سدباب تو کسی حد تک کرسکتی ہے۔
اللہ تعالی کی پاک ذات نے ہمارے خوابوں کی تعمیل ماضی میں کی ہے کہ ہم نادانستہ طور پر ایک مضبوط اسلامی ایٹمی قوت بن چکے ہیں، دنیا کی مانی ہوئی فوج ہمارے پاس ہے، ہمیں وسائل سے مالا مال سر زمیں سے سرفرازکیا ہے، بس صرف کمی ہے تو اچھے لیڈروںکی اور سب سے اہم بات اسلامی فلاحی ریاست Islamic Welfare State)) کے قیام کی اشد ضرورت ہے، انسانوں میں اضطرابی کیفیت خود بخود ختم ہو جائے گی اوردہشتگردی کے گرجتے سیاہ بادل رفتہ رفتہ چھٹ جائیں گے۔ ڈاکٹر علامہ اقبال کے اس شعر سے امیدوں میں جان آ جاتی ہے۔
ملت کے ساتھ رابطۂ استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ