جھوٹ کے پاؤں
ہمارا آج کا موضوع پانامہ لیکس کا سپریم کورٹ میں لگا ہوا مقدمہ نہیں بلکہ اس کا فیصلہ ہے جو کسی بھی وقت متوقع ہے۔
بچپن سے سنتے آئے تھے کہ ''پوت کے پاؤں پالنے میں'' لیکن آج ''جھوٹ کے پاؤں پارلیمنٹ میں دیکھ رہے ہیں۔ جو ملک کا آزاد، خودمختار اور مقدس ترین ادارہ ہوتا ہے۔ جہاں آئین کے آرٹیکل 63-62 کو چھلنی کے چھنے صادق اور امین ارکان اسمبلی سچ بولنے کا حلف اٹھا کر عزت مآب بن جاتے ہیں۔ حلف اٹھانے کا صرف ایک ہی مطلب ہوتا ہے ''میں خدا کو حاضر ناظر جان کر جو کہوں گا سچ کہوں گا، پورا سچ کہوں گا، سچ کے علاوہ کچھ نہیں کہوں گا۔''
ہمارا آج کا موضوع پانامہ لیکس کا سپریم کورٹ میں لگا ہوا مقدمہ نہیں بلکہ اس کا فیصلہ ہے جو کسی بھی وقت متوقع ہے۔ جس کی روشنی میں یہ طے کرنا ہے کہ کیا ریاست کے سیاسی، مالیاتی، انتظامی، عدالتی، احتسابی اداروں کو کرپشن کی دیمک مکمل طور پر چاٹ چکی ہے یا ان کو سفاک ترین انقلابی اقدامات سے بچانے کا ایک موقعہ دستیاب ہے۔
پاکستان کی بناسپتی اشرافیہ نے تو کامیاب جمہوریت کے پھٹے ہوئے ڈھول کی تھاپ پر قومی خزانے اور ریاستی اثاثوں پر اپنا ہاتھ صاف کر چکی تھی۔ اپنے خاندانوں کو دبئی، لندن کے لگژری فلیٹوں میں شفٹ کر چکی تھی اور پاکستان پر حکمرانی کے لیے اپنی باریاں بھی طے کر چکی تھی۔ لیکن خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ پردہ غیب سے پانامہ لیکس خدا کا قہر بن کر بناسپتی اشرافیہ پر ٹوٹ پڑی۔ پانامہ لیکس دراصل دنیا کے مختلف ممالک کی مالیاتی پائپ لائن میں کرپشن، نجی لیکج کی نشاندہی کرتی ہیں۔ جب کہ پاکستان میں کرپشن کی گٹر لائن کے برسٹ ہونے کے دھماکے سناتی ہے۔
یہ نوبت سال دو سال میں نہیں آئی بلکہ ستر سال کے دوران سیاسی بیانات کی آڑ میں جھوٹ کے فروغ، ڈپلومیسی کی آڑ میں منافقت کے چلن اور جمہوریت کی آڑ میں سول آمریت کے تسلط کا نتیجہ ہے۔ مثلاً
A: پاکستان میں 70 سال سے غیر نمایندہ اسمبلیاں کام کر رہی ہیں۔ اسمبلیوں میں جاگیرداروں وڈیروں کی اکثریت ہے، کیا 18 کروڑ عوام کی اکثریت وڈیرے جاگیرداروں پر مشتمل ہے؟
B: یہ گن پوائنٹ پر نہیں بلکہ منتخب ہو کر آتے ہیں تو کیا یہی الیکشن کمیشن آف پاکستان کی 70 سالہ کارکردگی ہے؟
C: یاد رہے ECP آئین کے آرٹیکل 63-62 سے 65 سال تک غافل رہا۔ دعا دیجیے طاہر القادری کو جنھوں نے پہلی مرتبہ 2013ء کے الیکشن میں اس کا چرچا کیا۔
D: 70 سال سے شفاف دھاندلی ہو رہی ہے لیکن ECP ناواقف ہے۔ مثلاً فرض کیجیے کہ 100 ووٹ ڈالے گئے۔ 10 امیدوار الیکشن میں کھڑے ہوئے، ہر ایک کو اوسطاً 10 ووٹ آتے ہیں ان میں اگر ایک امیدوار اپنا ایک جعلی ووٹ لگا کر گیارہ ووٹ حاصل کر لیتا ہے تو وہ کامیابی ضرور پاتا ہے کیونکہ اس نے اپنے دیگر 9 امیدواروں کے مقابلے میں ایک ووٹ زیادہ حاصل کیا یعنی 11 ووٹ۔ حالانکہ اس کو ڈالے گئے سو ووٹوں کی اکثریت جو 51 ووٹوں سے شروع ہوتی ہے حاصل کرنا چاہیے تھا۔ اس کے لیے دوسرے مرحلے میں پولنگ ہوتی ہے۔ جس میں پہلے اور دوسرے نمبر پر آنے والے امیدوار حصہ لیتے ہیں اور اکثریتی ووٹوں پر کامیاب قرار پاتے ہیں۔ یہ شفاف دھاندلی 70 سال سے جاری ہے جب کہ 3D ٹیکنالوجی (دھن، دھونس اور دھاندلی) الگ ہے۔ E: بے شک مغربی معاشرہ ترقی یافتہ ہے لیکن اخلاق باختہ بھی کم نہیں ہے۔ لیکن کیونکہ تعلیم یافتہ بھی ہے اس لیے انھوں نے اپنے سیاسی رہنماؤں پر دو شرطیں لاگو کر رکھی ہیں۔ (1)۔قوم سے جھوٹ نہیں بولیں گے۔ (2)۔ ان کی ساری زندگی کھلی کتاب کی طرح ہو گی خانگی زندگی / پرائیویسی کو طاقچہ پر دھر دینا پڑے گا۔ فرض کیجیے وہ قتل کر دیتا ہے اور قوم سے جھوٹ بولتا ہے کہ میں معصوم ہوں۔ قتل کا معاملہ وہ جانے یا ملکی عدالت لیکن جھوٹ بولنے کی پاداش میں قوم اسے گھر تک پہنچا کر ہی دم لیتی ہے۔
کرپشن کے تعلق سے جب حکمرانوں کی طرف انگلیاں اٹھنے لگیں، لاڈلوں کا چرچا عام ہو، درباریوں پر لعنت اور چاچوں ماموں پر ملامت بھیجی جانے لگے تو سمجھ لیں کہ حکومت خطرے میں ہے۔ جب ریاستی اداروں میں ہی کرپشن بے حساب ہو جائے تو حساب کتاب بے لگام ہو جاتا ہے اور ادارے کی کارکردگی صفر اور ریاست کا وجود ڈاؤن ہو جاتا ہے۔ مثلاً
وزیر اعظم نے اسمبلی کے فلور پر پانامہ لیکس کے تعلق سے وضاحت پیش کی کہ لندن میں خریدے گئے چار لگژری فلیٹس کے لیے فنڈز جدہ کی فیکٹری بیچ کر حاصل کیے گئے۔ اس کے کچھ عرصے بعد سپریم کورٹ کے فلور پر پانامہ لیکس کی سماعت کے دوران قطری شہزادے کا خط پیش کیا گیا کہ لندن کے فلیٹس کی خریداری کے لیے فنڈز قطری شہزادے نے مہیا کیے۔ تفصیلات اہم نہیں ہیں، اہمیت اس بات کی ہے کہ ملک کے چیف ایگزیکٹو کے دو اہم ریاستی اداروں (قومی اسمبلی اور سپریم کورٹ) کے فلور پر دیے گئے بیانوں میں کھلا تضاد ہے۔ اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ تاحال تین متعلقہ احتسابی اداروں تک یہ بات نہیں پہنچی۔ (FIA, NAB, ECP) حالانکہ الیکشن کمیشن کو تو صرف ایک وضاحتی خط دینا تھا کہ وزیر اعظم بتائیں وہ اپنے کس بیان کو سچ سمجھتے ہیں۔ اس وقت ملک میں جمہوریت اور مارشل لا، سول اور فوجی عدالتیں، رینجرز کے ٹارگیٹڈ آپریشنز اور پولیس کے چھاپے سانجھ سانجھ چل رہے ہیں یعنی دبنگ فوجی قیادت، اڑیل سیاسی قیادت، بے لچک عدلیہ، شعبدہ باز انتظامیہ سب کے سب ایک پیچ پر ہیں۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرے خونی انقلاب کا راستہ دیکھنے کی بجائے کمیون انقلابی اقدامات سے کام لے کر ملک پر 70 سال سے مسلط Status Quo کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے۔ چند قابل غور تجاویز پیش خدمت ہیں۔
1۔ تمام اسٹیک ہولڈر کا مشترکہ موٹو ''سب سے پہلے پاکستان'' ہو گا۔
2۔ ملک کی چار بڑی منتخب پارٹیوں کی تین سال کے لیے قومی حکومت تشکیل دی جائے گی۔
3۔ قومی حکومت کی کابینہ کے سارے وزیر غیر سیاسی، تجربہ کار، اپنے اپنے شعبوں کے ماہر ٹیکنوکریٹ ہوں گے۔
4۔ A: ایجنڈا: مستحکم فول پروف انتخابی اصلاحات۔ B۔ بے رحم احتساب۔ C۔ دہشتگردی کا خاتمہ۔ D۔ تعلیم کا فروغ۔ E۔ کرپشن پر کنٹرول۔
اگر قانون ساز اسمبلیوں میں عوامی نمایندوں کی اکثریت ہو گی تو پھر قانون سازی بھی عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کی جائے گی اس کے برخلاف اگر بناسپتی اشرافیہ کی اکثریت ہو گی تو پھر قانون سازی عزت مآب کے لیے صوابدیدی فنڈز اور صوابدیدی اختیارات میں مسلسل اضافے، استحقاق کو مجروح ہونے سے بچانے اور مراعات کے انبار لگانے کے لیے ہو گی۔
تاریخ کے کھنڈرات میں جا بجا عظیم الشان سلطنتوں کے عبرت انگیز اہرام بھی نظر آتے ہیں۔ جو اپنے دوغلے نظام انصاف کی وجہ سے تاراج ہوئیں۔قانون طاقتور کی حفاظت کے لیے اور سزا کمزور کو دبانے کے لیے۔
ہمارا آج کا موضوع پانامہ لیکس کا سپریم کورٹ میں لگا ہوا مقدمہ نہیں بلکہ اس کا فیصلہ ہے جو کسی بھی وقت متوقع ہے۔ جس کی روشنی میں یہ طے کرنا ہے کہ کیا ریاست کے سیاسی، مالیاتی، انتظامی، عدالتی، احتسابی اداروں کو کرپشن کی دیمک مکمل طور پر چاٹ چکی ہے یا ان کو سفاک ترین انقلابی اقدامات سے بچانے کا ایک موقعہ دستیاب ہے۔
پاکستان کی بناسپتی اشرافیہ نے تو کامیاب جمہوریت کے پھٹے ہوئے ڈھول کی تھاپ پر قومی خزانے اور ریاستی اثاثوں پر اپنا ہاتھ صاف کر چکی تھی۔ اپنے خاندانوں کو دبئی، لندن کے لگژری فلیٹوں میں شفٹ کر چکی تھی اور پاکستان پر حکمرانی کے لیے اپنی باریاں بھی طے کر چکی تھی۔ لیکن خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ پردہ غیب سے پانامہ لیکس خدا کا قہر بن کر بناسپتی اشرافیہ پر ٹوٹ پڑی۔ پانامہ لیکس دراصل دنیا کے مختلف ممالک کی مالیاتی پائپ لائن میں کرپشن، نجی لیکج کی نشاندہی کرتی ہیں۔ جب کہ پاکستان میں کرپشن کی گٹر لائن کے برسٹ ہونے کے دھماکے سناتی ہے۔
یہ نوبت سال دو سال میں نہیں آئی بلکہ ستر سال کے دوران سیاسی بیانات کی آڑ میں جھوٹ کے فروغ، ڈپلومیسی کی آڑ میں منافقت کے چلن اور جمہوریت کی آڑ میں سول آمریت کے تسلط کا نتیجہ ہے۔ مثلاً
A: پاکستان میں 70 سال سے غیر نمایندہ اسمبلیاں کام کر رہی ہیں۔ اسمبلیوں میں جاگیرداروں وڈیروں کی اکثریت ہے، کیا 18 کروڑ عوام کی اکثریت وڈیرے جاگیرداروں پر مشتمل ہے؟
B: یہ گن پوائنٹ پر نہیں بلکہ منتخب ہو کر آتے ہیں تو کیا یہی الیکشن کمیشن آف پاکستان کی 70 سالہ کارکردگی ہے؟
C: یاد رہے ECP آئین کے آرٹیکل 63-62 سے 65 سال تک غافل رہا۔ دعا دیجیے طاہر القادری کو جنھوں نے پہلی مرتبہ 2013ء کے الیکشن میں اس کا چرچا کیا۔
D: 70 سال سے شفاف دھاندلی ہو رہی ہے لیکن ECP ناواقف ہے۔ مثلاً فرض کیجیے کہ 100 ووٹ ڈالے گئے۔ 10 امیدوار الیکشن میں کھڑے ہوئے، ہر ایک کو اوسطاً 10 ووٹ آتے ہیں ان میں اگر ایک امیدوار اپنا ایک جعلی ووٹ لگا کر گیارہ ووٹ حاصل کر لیتا ہے تو وہ کامیابی ضرور پاتا ہے کیونکہ اس نے اپنے دیگر 9 امیدواروں کے مقابلے میں ایک ووٹ زیادہ حاصل کیا یعنی 11 ووٹ۔ حالانکہ اس کو ڈالے گئے سو ووٹوں کی اکثریت جو 51 ووٹوں سے شروع ہوتی ہے حاصل کرنا چاہیے تھا۔ اس کے لیے دوسرے مرحلے میں پولنگ ہوتی ہے۔ جس میں پہلے اور دوسرے نمبر پر آنے والے امیدوار حصہ لیتے ہیں اور اکثریتی ووٹوں پر کامیاب قرار پاتے ہیں۔ یہ شفاف دھاندلی 70 سال سے جاری ہے جب کہ 3D ٹیکنالوجی (دھن، دھونس اور دھاندلی) الگ ہے۔ E: بے شک مغربی معاشرہ ترقی یافتہ ہے لیکن اخلاق باختہ بھی کم نہیں ہے۔ لیکن کیونکہ تعلیم یافتہ بھی ہے اس لیے انھوں نے اپنے سیاسی رہنماؤں پر دو شرطیں لاگو کر رکھی ہیں۔ (1)۔قوم سے جھوٹ نہیں بولیں گے۔ (2)۔ ان کی ساری زندگی کھلی کتاب کی طرح ہو گی خانگی زندگی / پرائیویسی کو طاقچہ پر دھر دینا پڑے گا۔ فرض کیجیے وہ قتل کر دیتا ہے اور قوم سے جھوٹ بولتا ہے کہ میں معصوم ہوں۔ قتل کا معاملہ وہ جانے یا ملکی عدالت لیکن جھوٹ بولنے کی پاداش میں قوم اسے گھر تک پہنچا کر ہی دم لیتی ہے۔
کرپشن کے تعلق سے جب حکمرانوں کی طرف انگلیاں اٹھنے لگیں، لاڈلوں کا چرچا عام ہو، درباریوں پر لعنت اور چاچوں ماموں پر ملامت بھیجی جانے لگے تو سمجھ لیں کہ حکومت خطرے میں ہے۔ جب ریاستی اداروں میں ہی کرپشن بے حساب ہو جائے تو حساب کتاب بے لگام ہو جاتا ہے اور ادارے کی کارکردگی صفر اور ریاست کا وجود ڈاؤن ہو جاتا ہے۔ مثلاً
وزیر اعظم نے اسمبلی کے فلور پر پانامہ لیکس کے تعلق سے وضاحت پیش کی کہ لندن میں خریدے گئے چار لگژری فلیٹس کے لیے فنڈز جدہ کی فیکٹری بیچ کر حاصل کیے گئے۔ اس کے کچھ عرصے بعد سپریم کورٹ کے فلور پر پانامہ لیکس کی سماعت کے دوران قطری شہزادے کا خط پیش کیا گیا کہ لندن کے فلیٹس کی خریداری کے لیے فنڈز قطری شہزادے نے مہیا کیے۔ تفصیلات اہم نہیں ہیں، اہمیت اس بات کی ہے کہ ملک کے چیف ایگزیکٹو کے دو اہم ریاستی اداروں (قومی اسمبلی اور سپریم کورٹ) کے فلور پر دیے گئے بیانوں میں کھلا تضاد ہے۔ اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ تاحال تین متعلقہ احتسابی اداروں تک یہ بات نہیں پہنچی۔ (FIA, NAB, ECP) حالانکہ الیکشن کمیشن کو تو صرف ایک وضاحتی خط دینا تھا کہ وزیر اعظم بتائیں وہ اپنے کس بیان کو سچ سمجھتے ہیں۔ اس وقت ملک میں جمہوریت اور مارشل لا، سول اور فوجی عدالتیں، رینجرز کے ٹارگیٹڈ آپریشنز اور پولیس کے چھاپے سانجھ سانجھ چل رہے ہیں یعنی دبنگ فوجی قیادت، اڑیل سیاسی قیادت، بے لچک عدلیہ، شعبدہ باز انتظامیہ سب کے سب ایک پیچ پر ہیں۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرے خونی انقلاب کا راستہ دیکھنے کی بجائے کمیون انقلابی اقدامات سے کام لے کر ملک پر 70 سال سے مسلط Status Quo کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے۔ چند قابل غور تجاویز پیش خدمت ہیں۔
1۔ تمام اسٹیک ہولڈر کا مشترکہ موٹو ''سب سے پہلے پاکستان'' ہو گا۔
2۔ ملک کی چار بڑی منتخب پارٹیوں کی تین سال کے لیے قومی حکومت تشکیل دی جائے گی۔
3۔ قومی حکومت کی کابینہ کے سارے وزیر غیر سیاسی، تجربہ کار، اپنے اپنے شعبوں کے ماہر ٹیکنوکریٹ ہوں گے۔
4۔ A: ایجنڈا: مستحکم فول پروف انتخابی اصلاحات۔ B۔ بے رحم احتساب۔ C۔ دہشتگردی کا خاتمہ۔ D۔ تعلیم کا فروغ۔ E۔ کرپشن پر کنٹرول۔
اگر قانون ساز اسمبلیوں میں عوامی نمایندوں کی اکثریت ہو گی تو پھر قانون سازی بھی عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کی جائے گی اس کے برخلاف اگر بناسپتی اشرافیہ کی اکثریت ہو گی تو پھر قانون سازی عزت مآب کے لیے صوابدیدی فنڈز اور صوابدیدی اختیارات میں مسلسل اضافے، استحقاق کو مجروح ہونے سے بچانے اور مراعات کے انبار لگانے کے لیے ہو گی۔
تاریخ کے کھنڈرات میں جا بجا عظیم الشان سلطنتوں کے عبرت انگیز اہرام بھی نظر آتے ہیں۔ جو اپنے دوغلے نظام انصاف کی وجہ سے تاراج ہوئیں۔قانون طاقتور کی حفاظت کے لیے اور سزا کمزور کو دبانے کے لیے۔