مُسلمانوں کے مہربان
مغرب نے اپنی پالیسیاں ہمیشہ مسلمانوں کے خلاف ہی بنائیں اور ان پر شد و مد سے عمل بھی کیا۔
KARACHI:
بدنیت امریکا نے پہلے معاشی جارحیت کے ذریعے عرب ممالک کی معاشی حالت کو اس مقام پر پہنچا دیا کہ تیل کی نعمت سے مالا مال یہ ممالک قرض لینے پر مجبور ہو گئے اس کی بنیادی وجہ وہ حکمران جو کہ ان ممالک پر قابض تھے اور وہ بیرونی دنیا کے لوگوں کو اپنے ہاں کاروبار، ملازمت یا مزدوری کے لیے تو بلا لیتے تھے لیکن ان کو وہ مقام نہیں دیا گیا اور نہ ہی ان کے حقوق کی حفاظت کا اس طرح بندوبست کیا گیا جو کہ دوسرے ممالک میں مقیم غیر ملکیوں کو حاصل ہوتے ہیں۔
اس کا نقصان ان کو تب ہونا شروع ہوا جب ان کے اندر سے ہی امریکا بہادر نے باغی پیدا کیے اور ان ممالک کو پہلے پہل اندرونی جارحیت کا شکار کیا اور ان کے اندر خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہوگئی، ان عرب ممالک نے چونکہ سماجی رابطوں کے فقدان کی وجہ سے اپنے آپ کو دنیا سے الگ تھلگ کر رکھا تھا اس لیے ان کے اندرونی حالات کے بارے میں دنیا اورخاص طور پر مسلمان ممالک میں وہ آگاہی نہ ہوئی جس کی ان ممالک کے عوام کو خاص طور پر اس وقت شدید ضرورت تھی ۔
مغرب نے اپنی پالیسیاں ہمیشہ مسلمانوں کے خلاف ہی بنائیں اور ان پر شد و مد سے عمل بھی کیا لیکن ہمارے مسلمان حکمرانوں کو اس بات کی کبھی عقل نہ آئی کہ کافر کبھی مسلمانوں کا دوست نہیںہو سکتا اور ہم نے پہلے تو اپنی خلافت کا خاتمہ کیا اور پھر ان غیر مسلم طاقتوں کی بالادستی قبول کر لی جو کہ ہم سے ہمیشہ خوفزدہ رہتے تھے وہ اب کیونکر ہمارے دوست ہوں گے اور ہمارا ساتھ دیں گے بلکہ ہم سے بدلے لیں گے اور اپنی پرانی دشمنیاں نکالیں گے۔
امریکا نے عرب ممالک کو اپنا ہدف بنا رکھا ہے اور وہ ان کے باہمی اختلافات سے فائدہ اٹھا کر اپنی طاقت کے ذریعے ان کو مسلسل کمزور کر رہا ہے ۔ شام پر تازہ ترین حملہ کا حکم امریکی صدر نے خود جاری کیا اور کہا کہ ہم آئندہ بھی اس طرح کے حملے کرتے رہیںگے اس کے نتیجہ میں معصوم جانوں کے ضیاع کے علاوہ اس عمل کا اظہار بھی ہو رہا ہے کہ مسلمانوں کو کمزور کر کے ختم کرنا ان مغربی طاقتوں کی ہمیشہ خواہش رہی ہے۔
عرب حکمرانوں کو اگر ابھی تک امریکا نوازی کی سمجھ نہیں تو ان کا اﷲ ہی حافظ ہے کیونکہ ان کے ساتھ حکمران پہلے ہی امریکی جارحیت کا شکار ہو چکے ہیں ان میں سے کچھ کو تو عدالتی نظام کے ذریعے قتل کر دیا گیا اور باقیوں کی سرکوبی کے لیے بھی ان کے ملکوں میں اندرونی انتشار پیدا کر دیا گیا ہے اور بدقسمتی سے ہم مسلمان ہی اس انتشار کو بڑھانے میں ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔
غیر مسلموں کا یہ کہنا ہے کہ مسلمان جب تک لسانی گروہوں میں تقسیم رہیں گے ان کو آپس میں لڑانا آسان ترین کام ہے کیونکہ وہ لسانیت کی بنیاد پر ایک دوسرے کو مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں اور یہ بات ہمارا دشمن اچھی طرح جانتا ہے اور اس نے مسلمان عرب ملکوں کو اس کا شکار بنا دیا ہے۔ پہلے تو عراق میں ایک ایسی جنگ چھیڑی گئی جس کی بنیاد کیمیائی ہتھیاروں کو بنایا گیا اور ایک خودمختار ملک میں اپنی فوجیں اتار کر اس کو تباہ و برباد کر کے بعد میں اس بات کی معافی مانگ لی گئی کہ ہمیں ان ہتھیاروں کی غلط اطلاع ملی تھی اور یہ غلط اطلاع لاکھوں مسلمانوں کے خون سے رنگی گئی اور ایک شاندار ملک تباہ کر دیا گیا اور امریکا وہاں سے واپسی کے وقت حسب سابق وہاں ایک خانہ جنگی کی صورتحال چھوڑ گیا جس کو عراقی عوام اب تک بھگت رہے ہیں۔
اسی طرح مصر میں بغاوت اور نفرت کا بیج بو کر اس نے وہاں کی حکومت کو ختم کردیا اور بعد میں وہاں پر بھی اقتدار ایسے لوگوں کے حوالے کیا گیا جو کہ اب تک اپنے ان زخموں کا مداوا کرنے سے قاصر ہیں جو کہ امریکا نے ان کو دیے ہیں۔ شام کے صدر نے جب اس کا آلہ کار بننے سے انکار کیا تو وہاں پر وہی پرانا شیعہ سنی کا حربہ استعمال کیا اور پورے عالم اسلام کو اس خطرناک جنگ میں جھونکنے کا منصوبہ بنایا تا کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری اور مسلمان آپس میں کٹ مر جائیں اور ان کا ناپاک ایجنڈا پورا ہو جائے ۔
امریکا نے خود سے شام میں جنگ چھیڑ دی ہے اور اس کا تازہ ترین حملہ شامی ائر بیس پر بحری بیڑے سے میزائل داغ کر کیا گیا ہے جس سے وسیع پیمانے پر تباہی ہوئی، اس موقع پر روس نے اس کی مذمت کرتے ہوئے امریکا کو آیندہ حملہ کرنے سے خبردار کیا ہے اور کہا کہ وہ حملے کی صورت میں اس کا سخت جواب دے گا۔ اس کے جواب میں امریکا نے ایک بار پھر اعلان کیا ہے کہ اس کا مقصد شام میں ایرانی اثر و رسوخ کو ختم کرنا، بشارالاسد کی حکومت کا خاتمہ اور داعش کو شکست دینا ہے، اس موقع پر روس نے بھی اپنا بحری بیڑہ شام بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اس صورتحال پر عرب لیگ نے بھی اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے اور حالات کی کشیدگی کی بات کی ہے ۔
اس تمام صورتحال میں پاکستان کا کردار انتہائی اہم اور نازک ہے کیونکہ پاکستان کے دانشمند سیاستدانوں نے واحد اسلامی ایٹمی طاقت ہونے کے ناطے اپنے آپ کو ابھی تک اس آگ سے نہ صرف محفوط رکھا بلکہ اپنے اتحادی دوستوںکو بھی اس سے حتی الامکان دور رہنے کا مشورہ دیا کیونکہ عالم اسلام پاکستان کو دفاعی لحاظ سے اپنا لیڈر مانتے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ کسی بھی مشکل کی صورت میں ایٹمی پاکستان ان کا بھر پور ساتھ دے گا۔اس موقع پر بھی پاکستان نے کسی عالمی طاقت کے لیے استعمال نہ ہونے کا فیصلہ کیا۔
مسلمان ملکوں کی بدقسمتی دیکھئے کہ وہ آپس کے اختلافات کی بنا پر دنیا کی طاقت ور طاقتوں کے لیے میدان جنگ بنے ہوئے ہیں اور وہ طاقتیں ایک دوسرے کے ممالک پر حملہ کے بجائے مسلمان ملکوں کو ہی تخت مشق بنائے ہوئے ہیں ۔جب سے اسلامی فوجی اتحاد کے قیام کا فیصلہ کیا گیا اور اس کی سربراہی کے لیے ہمارے سابق فوجی سربراہ راحیل شریف کو چنا گیا تو اس کے خلاف بھی سازشوں کا جال بچھا دیا گیا اور راحیل شریف کی ذات کو بدنام کرنے کی مذموم کوشش کرکے اس اسلامی فوجی اتحاد کو اس کے فعال ہونے سے پہلے ہی متنازع بنانے کی سازش کا آغاز کر دیا گیا جو کہ عالمی طاقتوں کو ابھی کھٹک رہا ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک ایسا فورم بننے جا رہا ہے جو کہ امت مسلمہ کے اتحاد کی جانب پہلا قدم ہو گا اور وہ اس قدم کو حرف غلط کی طرح مٹانے کی کوششوں میں ہمارے اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو استعمال کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں جو کہ آنے والے وقت میں بہت جلد ظاہر ہونا شروع ہو جائیں گے۔
یہ کھیل کھیلنے کی منصوبہ بندی کیوں کی جا رہی ہے اس کا جواب آنے والا وقت دے گا اور ہم سب اس کے گواہ ہوں گے ۔ اس وقت مسلم حکمرانوں اور خاص طور پر عرب عوام کو اس سازش کو سمجھنا ہو گا کہ ان کے قیمتی ذخائر کو ہتھیانے کے لیے یہ سارا کھلواڑ کیا جا رہا ہے اور وہ جانتے بوجھتے اس کے لیے نہ صرف استعمال ہو رہے بلکہ اپنے ہاتھ اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خون سے رنگ رہے ہیں ، لیکن اس سمجھا سمجھی کے معاملے میں ہم مسلمانوں کی تاریخ کچھ اچھی نہیں ہے۔ ہم نے ہمیشہ دھوکا کھایا اور اس پر خوش بھی ہیں۔