حیراں ہوں دل کو روؤں…
اضطراب کی کیفیت دلوں کو ایسے مسل رہی ہے کہ تبدیلی کے سوا جس کا کچھ علاج نہیں۔
ایک چیز ہوتی ہے حد ہونا اور ایک چیز ہوتی ہے حد کا پار ہوجانا، شہر کوئٹہ میں چھیاسی میتوں کے ساتھ لواحقین اور سوگواروں کے دھرنے نے اسی صورتحال کی غمازی کی ہے۔ مردہ وجود کا بڑا بوجھ ہوتا ہے، موت سے ہمکنار زندگی جب تک دھرتی کی آغوش میں نہیں اترتی، دھرتی، فضاؤں اور دلوں سے بوجھل پن نہیں ہٹتا، صبر آجانے کا مرحلہ شروع نہیں ہوتا، فنا کے راستے پر چل پڑے نفوس زندہ آنکھوں میں کیسے کھبے جاتے ہیں اس کی اذیت کا اظہار ممکن نہیں۔ایک دو نہیں چھیاسی بے گور لاشوں کے ساتھ بیٹھے سوگواران کے دکھ نے پورے ملک ہی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
بے آسرے پن کی انتہا یہ ہوئی کہ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ جانیوالوں کے لواحقین کو اپنے پیاروں کے لیے حکومت کی سطح سے مذہب کے نام پر تدفین کی اپیل اور تعزیت تک میسر نہیں آئی۔ ظلم کے خلاف مظلومیت کا جو دلخراش احتجاج رونما ہوا، احتجاج کے اس دل چھید نظارے نے شاید حکومتی صفوں میں بیٹھے حواریوں کے حوصلے بھی ساکت کردیے ہیں سو وہ زندوں اور مردوں کے اس مظلوم اجتماع کا سامنا کرتے بھی تو کیسے کرتے؟ جمہوری حکومت کے ڈسے ہوئے لوگوں کی آہ و بکا نے جمہوریت کے شہ سواروں کی سیاسی چالبازیوں کو بنجر بنا ڈالا ہے۔
عوامی حکومت کی دردمندی اور مستعدی کی مثال دیکھیے کہ ایک جانب سخت سردی میں کھلے آسمان تلے شہدا کی میتیں، لواحقین اور سوگواران ہیں اور دوسری جانب آتشدان سے بدن سینکتے، حرارت لیتے دبیز صوفوں میں دھنسے عوامی نمایندے، ان کے صلاح مشورے اور صورت حال پر ''غور''۔ چھیاسی بے گور میتیں بھی ان عوامی اقتدار نشینوں کی سیاسی دانائی میں لچک اور سیاسی حوصلوں کو پست نہ کرسکیں اور شہدا کی قبور کے سڑسٹھ گھنٹے بھی یہ ہڑپ گئے۔ کوئٹہ شہر کی صورت حال نے حکومتی نااہلی کا ایسا عکس دکھایا ہے کہ جسے جھٹلانا اور جس کی تاویلیں گھڑنا اب بڑے بڑے سیاسی ہرکاروں کے بس میں بھی نہیں رہا۔
ان لاشوں کے جواب میں کون سا سیاسی نکتہ اٹھایا جاسکتا ہے اور معاملے کی کس باریک تہہ میں اترا جائے؟ چھیاسی مردہ نفوس کے اس بے زبان خاموش احتجاج پر انسانی ضمیر کی غیرت کے تقاضے کیمطابق اب سیاسی بیان بازی کی بساط لپیٹ دی جانی چاہیے۔اس سارے کڑوے منظرنامے میں حکومت کی بے حسی اور سیاسی مصلحتوں کے گھناؤنے روپ نے ''سیاست نہیں ریاست'' کے نعرے کی بڑی واضح تشریح کردی ہے اور عملی طور پر عدم شرکت کے باوجود عوام کے دل بڑی شدت سے اس پکار پر لبیک کہہ رہے ہیں۔ حکومت کی مدت پوری ہونے کی آزمائش میں عوام کا ٹوٹا ہوا صبر لانگ مارچ میں ابل رہا ہے۔
اس لانگ مارچ کے حوالے سے حکومت کا سرد مہر رویہ یہ ظاہر کر رہا ہے کہ وہ یہ باور کرانے کی کوشش میں مصروف ہے کہ لانگ مارچ کی حیثیت سیاسی تماشے سے زیادہ نہیں، محسوس یہ ہوتا ہے حکومت سمیت کچھ دیگر سیاسی بڑی جماعتوں اور غیر حکومتی حلقوں نے سیاسی منظرنامے میں دخیل اس نئے فیکٹر کو سیاسی بصیرت سے نہیں لیا۔ یہ سب اب تک اسے مبہم اندازوں اور الزام تراشیوں پر مبنی تبصروں تجزیوں کی مدد سے ڈیل کر رہے ہیں تاہم لانگ مارچ کے حوالے سے عوام کی شرکت، رویہ اور انداز کچھ اور ہی کہانی سنا رہا ہے۔ ایک عام ذہن بھی بخوبی یہ اندازہ قائم کرسکتا ہے کہ لانگ مارچ کا نظم و ضبط اور شرکا کا عزم راتوں رات کا قصہ اور محض ایک جلسے کا ردعمل نہیں بلکہ یہ ایک بھرپور ذہنی تربیت اور تیاری کا باقاعدہ پروگرام نظر آرہا ہے۔
پچھلے دنوں رونما ہونے والا ایک سانحہ شاہ زیب قتل کیس بھی ان حالات میں بڑی نتیجہ خیز اہمیت کا حامل ہے۔ ہمارے آقا تاجدار مدینہ نے قوموں کی تباہی کا ایک سبب یہ بھی بیان فرمایا کہ ان میں جرم جب کسی طاقتور کی جانب سے کیا جاتا تو اسے چھوڑ دیا جاتا لیکن جرم جب کسی کمزور سے سرزد ہوتا تو اس کی گرفت کی جاتی۔ اس قتل کیس نے پاکستانی معاشرے میں انتظامیہ، قانون اور انصاف کی جو نقاب کشائی کی ہے اس کے مطابق اپنے حق کی بات کرنیوالے کو ظلم کی طاقت سے خاموش کردیا جاتا ہے، قاتل دندناتا ہوا بیرون ملک فرار ہوجاتا ہے اور ہمارے یہ ادارے خاموش ہو جاتے ہیں۔
طاقتور کو اس کی دولت اور حیثیت کی ہیبت کے مارے ہتھکڑی نہیں لگائی جاسکتی۔ پیسے اور طاقت کی گرمی جب خون کی گرمی کے ساتھ ملتی ہے تو حدت کی یہ بدمستی درندگی اور بربریت کے ایسے ہی قصے رقم کرتی ہے۔ یہاں بھی عوام نے سوشل میڈیا کا سہارا لے کر خود اپنے حق میں انصاف حاصل کرنے کی کوشش کی، گو حتمی نتیجہ ابھی دور ہے کہ آیا خون کے بدلے خون کا بدلہ لیا جائے گا یا پھر کچھ اور؟ اس واقعے نے بہت کچھ سوچنے اور سمجھنے پر مجبور کردیا ہے کہ آخر ہمارے معاشرے میں عام آدمی کی اوقات کیا ہے؟
بات بہرحال اب غم و غصے کی حد سے بہت آگے ہے۔ اضطراب کی کیفیت دلوں کو ایسے مسل رہی ہے کہ تبدیلی کے سوا جس کا کچھ علاج نہیں، جس حقیقت پر لڑتے جھگڑتے صفائیاں پیش کرتے حکومت اپنی پانچ سال کی مدت پوری کرنے کو آرہی تھی اسے حالات کی نزاکت نے بڑی بے رحمی سے کھرچ کر آشکار کردیا ہے۔ سیاسی شعبدہ بازیوں کا یہ مکروہ رخ کسی مخصوص پارٹی کی نسبت نہیں بلکہ نظام کے اس سقم کی جانب اشارہ کرتا ہے جو خائن لوگوں کو خیانت کے مواقع فراہم کرتا ہے انھیں امین کے دائرے میں نہیں رکھ پاتا۔ بھرے پیٹ کو بھوکے کی اور بھوکے کو بھرے پیٹ کی سمجھ نہیں آسکتی۔
انسانی معاشرے کی یہ دو انتہائیں اس وقت پاکستانی قوم کی المناک سچائی ہیں ایک جانب وہ بچے ہیں جن کی مائیں بے نظیر ہیں اور حکمرانی سے کم کا معیار جن کی گھٹی کے لیے ناقابل قبول ہے لیکن اس زخم زخم بستی کے مکینوں کا مسیحا ہمیشہ لہو کے اس پار سے ہی کیوں آتا ہے جن کی کوئی قدر بھی مشترک نہیں ہوتی۔ کس کروفر سے حکمرانوں کی نئی نسل میدان میں اتر رہی ہے ان کے صحت مند اور حسین چہرے سیاسی منظر نامے کو تو حسین بنا دیں گے مگر عوام کے بچوں کی قسمت اور ان کے مستقبل کا کیا ہوگا؟ کیا انھوں نے عوام کے گھروں میں پیدا ہوکر ازلی بدبختی اپنے مقدر میں لکھ ڈالی ہے؟جب کہ ان تاجوروں اور قوم کے بچوں کے بیچ صرف محل و منبر کا ہی تو فرق ہے۔
سوال یہ ہے کہ عوام کی خدمت کی یہ سعادت چند خاندانوں تک ہی محدود کیوں ہے؟ خدا کا یہ فضل کروڑوں گھروں میں کیوں نہیں اترتا؟ پاکستانی عوام کو اس سچائی کو مان لینا چاہیے کہ جمہوری حکومت کا پہلا مکمل مگر بدترین ناکام دور کا تجربہ انھیں بہت کچھ سکھا گیا ہے۔ حالات کی ستم شعاری اور وقت کی اس چال نے پاکستانی عوام کو ایک انتہائی موقع اور فیصلہ کن موڑ پر لاکھڑا کیا ہے کہ اس بار پنڈال میں بھرے ہجوم سے بڑھ کر کردار اپناؤ، جو سیاسی برج اپنی پالیسیوں اور اقدامات سے پرامید اور مطمئن ہیں کہ عوامی شعور جیالوں اور متوالوں کی سطح سے آگے نہیں بڑھ سکتا انھیں اپنے فیصلے کی حیرانیوں میں غرق کردو۔