بلاتکار کا ہاہاکار
بھارتی قائدین کا دہرا معیار اور دوغلاپن اب پوری دنیا پر اس کے نام نہاد سیکولرزم کی طرح پوری طرح آشکار ہوچکا ہے۔
نِربھے ایک مرکب لفظ ہے جو ہندی زبان نے سنسکرت بھاشا سے مستعار یعنی ادھار لیا ہوا ہے۔ ''نِر'' کے معنی ہیں ''بے'' اور ''بھے'' کے معنی ''خوف''۔ اس طرح لفظ ''نربھے'' کے مجموعی معنی ہوئے بے خوف یا نڈر۔ یہ اس 23 سالہ بدنصیب فزیوتھراپی کی بھارتی طالبہ کے نام کی تشریح ہے جو ہندوستان کی راجدھانی دہلی میں وحشیانہ اجتماعی زیادتی کے بعد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے سنگاپور میں علاج کے دوران چل بسی۔
اس سانحے پر پورے ہندوستان میں مچنے والے ہاہاکار کی گونج نہ صرف سرحد کے اس پار بلکہ اس جانب بھی آج تک سنائی دے رہی ہے۔ اس عظیم سانحے کے بعد سارے بھارت میں ایک بھونچال کی سی کیفیت برپا ہے۔ دہلی اب صرف ملک کی راجدھانی ہونے کی وجہ سے ہی نہیں بلکہ ریپ کی راجدھانی کے نام سے بھی مشہور ہے۔ تاہم یہ خبر باعث اطمینان ہے کہ پولیس نے دن رات کی تگ و دو کے بعد چھ کے چھ آبروریزی کرنے والے ملزمان کو گرفتار کرلیا ہے۔
بھارت میں خواتین کے ساتھ زیادتی کا یہ واقعہ کوئی پہلا یا انوکھا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے چند روز قبل یعنی 18 دسمبر کو منی پور میں جب 22 سالہ ایکٹریس اور ماڈل ایک کنسرٹ میں اپنے فن کا مظاہرہ کر رہی تھی تو ایک وحشی نے اسے اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کی کوشش کی تھی مگر وہ خوش نصیب بچ کر نکل جانے میں کامیاب ہوگئی تھی۔ گیتا گنیش نامی 52 سالہ خاتون کو جو ایک بینک میں ملازم تھی اب سے چار سال قبل دہلی میں زیر تعلیم اپنی بیٹی کی مدد کے لیے بھوپال سے بھاگ کر راجدھانی جانا پڑا تھا جہاں ان کی صاحبزادی کو پارک میں جوگنگ کے دوران چار اوباشوں نے گھیر لیا تھا۔
شمالی ہندوستان کے مشہور تاریخی شہر آگرہ کی ایک خاتون وکیل سندھیا کا کہنا ہے کہ ''میں جوں ہی گھر سے باہر قدم رکھتی ہوں، مجھے ستانے اور ہراساں کرنے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے''۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرتے وقت مرد مسافر بے بس خواتین کے ساتھ شرمناک سلوک کرتے ہیں جس میں فحش کلامی سے لے کر دست درازی تک ہر قسم کی غیراخلاقی حرکات شامل ہیں۔ سندھیا کو سب سے زیادہ دکھ اس بات کا ہے کہ بس میں بیٹھے ہوئے دیگر تمام حضرات ان نازیبا حرکات کے دوران محض خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔ خاتون وکیل کا کہنا ہے کہ صرف عدالت کا احاطہ ہی وہ جگہ ہے جہاں وہ خود کو قطعی محفوظ محسوس کرتی ہیں۔
خواتین کے ساتھ بدسلوکی دراصل ہندوستان کا ایک بہت بڑا اور سنگین معاشرتی مسئلہ بن گیا ہے جس کا ایک ثقافتی پس منظر بھی ہے اور مذہبی و تاریخی بیک گراؤنڈ بھی۔ ہندوستانی کلچر جس کا قدیم اور روایتی نام ''بھارتیہ سنسکرتی'' ہے اس کا بھی اس معاملے میں اپنا ایک رول ہے۔ اجنتا اور ایلورا کے تاریخی مجسمے جنسی ترغیب کی کھلی علامات ہیں، ''کھاجو راہو'' کے مجسمے تو اس سے بھی آگے کی چیز ہیں جن پر اہل ہند کو بڑا ناز ہے اور جو ملکی اور غیرملکی سیاحوں کے لیے انتہائی کشش کا مرکز سمجھے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ شیو (ہندوؤں کے ایک معروف دیوتا) کے لنگ کی پوجا ہندوؤں کی عبادت میں شامل ہے۔
جنوبی ہندوستان کے ایک تاریخی شیو مندر میں پتھر کا تراشا ہوا شیولنگ آج بھی موجود ہے جہاں بے اولاد ہندو خواتین اولاد کی مراد پوری کرنے کی خواہش میں دور دراز سے پوجا کے لیے آتی ہیں، بہرحال یہ تذکرہ محض برسبیل تذکرہ ہی ہے۔ اگرچہ یہ حقیقت بہت تلخ ہے مگر ناقابل تردید ہے کہ بھارت (اور اب تو پاکستان میں بھی) میں جنسی بے راہ روی کے فروغ میں بھارتی فلموں کا بھی کافی حد تک عمل دخل ہے جس میں ''رام تیری گنگا میلی'' جیسی بے شمار فلمیں شامل ہیں۔ بالی وڈ میں جس قسم کی عریاں اور نیم عریاں فلمیں ایک عرصے سے بنائی جارہی ہیں اور نمائش کے لیے پیش کی جارہی ہیں ان کا معاشرے پر اثرانداز ہونا ایک فطری امر ہے۔ اب چونکہ وطن عزیز میں بھی ان فلموں کی نمائش جاری ہے تو اس کے اثرات ہمارے معاشرے پر بھی مرتب ہورہے ہیں۔
قابل اعتراض فلمی مناظر کے علاوہ بھارتی فلموں میں اخلاق باختہ اور ذومعنی مکالمے اور گانے بھی شامل ہوتے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ مدت دراز قبل بالی وڈ کا ایک فلمی گانا بہت پاپولر ہوا تھا جس کے بول تھے ''چولی کے پیچھے کیا ہے'' ابھی چند روز قبل بھارت کے ایک پنجابی ریپ گلوکار ہنی سنگھ کے محزب الاخلاق گانوں کا بھارت میں بڑا چرچا رہا جو بالی وڈ کا شاید سب سے مہنگا نغمہ نگار مانا جاتا ہے۔ سچ پوچھیے تو بھارتی Culture کے Vulture نے ہندوستانی معاشرے میں بہت تباہی مچائی ہے جس کے اثرات بھارتی فلموں کے وائرس کے ذریعے اب ہمارے پاکستانی معاشرے میں بھی سرائیت کر رہے ہیں۔ بھارتی فلموں کے ساتھ ساتھ بھارتی ڈرامے بھی اس تباہی میں برابر کے شریک ہیں۔
16 دسمبر کی شب چھ شیطانوں نے ایک معصوم طالبہ کے ساتھ جس طرح اپنے منہ کالے کیے تھے اس نے ہندوستانی معاشرے کی چولیں ہلاکر رکھ دی ہیں جس پر آنسو بہانے والوں میں ہندوستانی اداکارہ شبانہ اعظمی اور بنگلہ دیشی قلم کارہ تسلیمہ نسرین بھی شامل ہیں۔ بھارت کے نام ور اداکار امیتابھ بچن کا کہنا ہے کہ اجتماعی آبرو ریزی کا شکار ہونے والی مظلوم طالبہ کی روح ہمارے دلوں کو جھنجھوڑتی رہے گی، اس سانحے پر رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ نے کہا ہے کہ ''میں پورے عوام کے ساتھ مل کر اس (مظلومہ) لڑکی کے گھر والوں اور احباب سے اظہار افسوس کرتا ہوں''۔
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جب گجرات کے بدنام زمانہ وزیر اعلیٰ نریندر مودی کے حکم پر گجرات کی مظلوم مسلمان خواتین اور ہندوستان کی پارلیمان کے مسلمان رکن اقبال احسان جعفری کی معصوم صاحبزادیوں پر ظلم وزیادتی کے پہاڑ توڑے گئے تو اس وقت ہندوستان میں سب کو سانپ سونگھ گیا اور مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی ظالم افواج مسلمان کشمیری خواتین کے ساتھ جو وحشیانہ جنسی زیادتیاں کر رہی ہے اس کے خلاف کوئی آواز بلند نہیں کر رہا۔
بھارتی قائدین اور زعما کا دہرا معیار اور دوغلا پن اب پوری دنیا پر اس کے نام نہاد سیکولرزم کی طرح پوری طرح آشکار ہوچکا ہے اور بھارت کے ایک بزرگ صحافی، سیاست داں، سابق رکن پارلیمان اور سینئر سفارت کار کلدیپ نائر کے بقول ''ایک لڑکی کی اجتماعی آبرو ریزی کا جرم اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوا ہے''۔ بھارت میں خواتین کی آبرو ریزی کا بازار روز بروزگرم ہوتا جارہا ہے جب کہ اس نوعیت کے 400 سے زیادہ مقدمات فرسودہ نظام کے سبب عدالتوں میں سالہا سال سے زیرالتوا پڑے ہوئے ہیں۔ ان حالات میں دہلی گینگ ریپ پر قائم کیا جانے والا کمیشن بھی بھلا کیا کرسکے گا کیونکہ اس طرح کے کمیشنوں کی کارکردگی پر سے عوام کا اعتبار کب کا اٹھ چکا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ قوانین میں خاطر خواہ تبدیلیاں کی جائیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فعال اور موثر بنایا جائے۔
موجودہ حالات میں جب کہ بھارت میں ہر 18 ویں گھنٹے میں خواتین کی آبروریزی کے دو واقعات رونما ہورہے ہیں شاید سزائے موت دینے سے بھی کام نہیں چلے گا۔ اس کا بہترین علاج یہ ہوگا کہ انھیں ان مردانہ صفات ہی سے محروم کردیا جائے ۔ دیگر یہ کہ ان کا سوشل بائیکاٹ کردیا جائے تاکہ نہ صرف انھیں عبرت حاصل ہو بلکہ وہ دوسروں کے لیے بھی نشان عبرت بن جائیں۔ اس کے علاوہ تدارکی تدابیر کے طور پر اخلاق باختہ فلموں اور ڈراموں کی حوصلہ شکنی بھی ضروری ہے۔ یاد دہانی کے طور پر عرض ہے کہ پرانے زمانے کے ایک مشہور و معروف ولن (کھل نائیک) رنجیت جن کا بھارتی فلموں میں طوطی بولتا تھا، پر ریپ کے تقریباً 100 سین فلمائے گئے تھے۔ تب سے آج تک تو پلوں کے نیچے سے نہ جانے کتنا پانی بہہ چکا ہوگا۔
ہندوستان میں 1996 میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق عریاں اور نیم عریاں قسم کے لباس کو بھی دعوت گناہ کا ایک محرک قرار دیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں بھارت کے صوبے راجستھان کے ایک قانون ساز نے لڑکیوں کے اسکولوں میں اسکرٹ پر بطور یونیفارم پابندی لگانے کی تجویز پیش کی تھی۔ تاہم بھارتی معاشرے کی آزاد خیال خواتین کو لباس پر پابندیاں عائد کرنے سے شدید اختلاف ہے۔ ان کا استدلال ہے کہ "What clothes - pulled from what rack / will prevent an attack?"
اس کے بعد ان کا سوال ہے کہ کیا ساڑھی میں ملبوس خواتین کی دہلی کی بسوں میں آبرو ریزی کے واقعات رونما نہیں ہوئے؟ بھارت میں مقبوضہ کشمیر اور چھتیس گڑھ کے علاوہ دلت طبقات سے تعلق رکھنے والی مظلوم خواتین کے ساتھ جبر و زیادتی کے واقعات روزمرہ کا معمول ہیں۔ بھارت ہو یا پاکستان، ضرورت اور وقت کا تقاضا ہے کہ قوانین پر عملدرآمد کو سو فیصد یقینی بنایا جائے، مجرموں کو قرار واقعی سزائیں دی جائیں اور معاشرے کے اجتماعی شعور کو بیدار کیا جائے۔ جب تک ایسا نہیں ہوگا مجرموں کے حوصلے بلند ہوتے رہیں گے۔ بے شک اس معاملے میں میڈیا کا کردار نہایت اہم ہوگا۔
اس سانحے پر پورے ہندوستان میں مچنے والے ہاہاکار کی گونج نہ صرف سرحد کے اس پار بلکہ اس جانب بھی آج تک سنائی دے رہی ہے۔ اس عظیم سانحے کے بعد سارے بھارت میں ایک بھونچال کی سی کیفیت برپا ہے۔ دہلی اب صرف ملک کی راجدھانی ہونے کی وجہ سے ہی نہیں بلکہ ریپ کی راجدھانی کے نام سے بھی مشہور ہے۔ تاہم یہ خبر باعث اطمینان ہے کہ پولیس نے دن رات کی تگ و دو کے بعد چھ کے چھ آبروریزی کرنے والے ملزمان کو گرفتار کرلیا ہے۔
بھارت میں خواتین کے ساتھ زیادتی کا یہ واقعہ کوئی پہلا یا انوکھا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے چند روز قبل یعنی 18 دسمبر کو منی پور میں جب 22 سالہ ایکٹریس اور ماڈل ایک کنسرٹ میں اپنے فن کا مظاہرہ کر رہی تھی تو ایک وحشی نے اسے اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کی کوشش کی تھی مگر وہ خوش نصیب بچ کر نکل جانے میں کامیاب ہوگئی تھی۔ گیتا گنیش نامی 52 سالہ خاتون کو جو ایک بینک میں ملازم تھی اب سے چار سال قبل دہلی میں زیر تعلیم اپنی بیٹی کی مدد کے لیے بھوپال سے بھاگ کر راجدھانی جانا پڑا تھا جہاں ان کی صاحبزادی کو پارک میں جوگنگ کے دوران چار اوباشوں نے گھیر لیا تھا۔
شمالی ہندوستان کے مشہور تاریخی شہر آگرہ کی ایک خاتون وکیل سندھیا کا کہنا ہے کہ ''میں جوں ہی گھر سے باہر قدم رکھتی ہوں، مجھے ستانے اور ہراساں کرنے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے''۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرتے وقت مرد مسافر بے بس خواتین کے ساتھ شرمناک سلوک کرتے ہیں جس میں فحش کلامی سے لے کر دست درازی تک ہر قسم کی غیراخلاقی حرکات شامل ہیں۔ سندھیا کو سب سے زیادہ دکھ اس بات کا ہے کہ بس میں بیٹھے ہوئے دیگر تمام حضرات ان نازیبا حرکات کے دوران محض خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔ خاتون وکیل کا کہنا ہے کہ صرف عدالت کا احاطہ ہی وہ جگہ ہے جہاں وہ خود کو قطعی محفوظ محسوس کرتی ہیں۔
خواتین کے ساتھ بدسلوکی دراصل ہندوستان کا ایک بہت بڑا اور سنگین معاشرتی مسئلہ بن گیا ہے جس کا ایک ثقافتی پس منظر بھی ہے اور مذہبی و تاریخی بیک گراؤنڈ بھی۔ ہندوستانی کلچر جس کا قدیم اور روایتی نام ''بھارتیہ سنسکرتی'' ہے اس کا بھی اس معاملے میں اپنا ایک رول ہے۔ اجنتا اور ایلورا کے تاریخی مجسمے جنسی ترغیب کی کھلی علامات ہیں، ''کھاجو راہو'' کے مجسمے تو اس سے بھی آگے کی چیز ہیں جن پر اہل ہند کو بڑا ناز ہے اور جو ملکی اور غیرملکی سیاحوں کے لیے انتہائی کشش کا مرکز سمجھے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ شیو (ہندوؤں کے ایک معروف دیوتا) کے لنگ کی پوجا ہندوؤں کی عبادت میں شامل ہے۔
جنوبی ہندوستان کے ایک تاریخی شیو مندر میں پتھر کا تراشا ہوا شیولنگ آج بھی موجود ہے جہاں بے اولاد ہندو خواتین اولاد کی مراد پوری کرنے کی خواہش میں دور دراز سے پوجا کے لیے آتی ہیں، بہرحال یہ تذکرہ محض برسبیل تذکرہ ہی ہے۔ اگرچہ یہ حقیقت بہت تلخ ہے مگر ناقابل تردید ہے کہ بھارت (اور اب تو پاکستان میں بھی) میں جنسی بے راہ روی کے فروغ میں بھارتی فلموں کا بھی کافی حد تک عمل دخل ہے جس میں ''رام تیری گنگا میلی'' جیسی بے شمار فلمیں شامل ہیں۔ بالی وڈ میں جس قسم کی عریاں اور نیم عریاں فلمیں ایک عرصے سے بنائی جارہی ہیں اور نمائش کے لیے پیش کی جارہی ہیں ان کا معاشرے پر اثرانداز ہونا ایک فطری امر ہے۔ اب چونکہ وطن عزیز میں بھی ان فلموں کی نمائش جاری ہے تو اس کے اثرات ہمارے معاشرے پر بھی مرتب ہورہے ہیں۔
قابل اعتراض فلمی مناظر کے علاوہ بھارتی فلموں میں اخلاق باختہ اور ذومعنی مکالمے اور گانے بھی شامل ہوتے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ مدت دراز قبل بالی وڈ کا ایک فلمی گانا بہت پاپولر ہوا تھا جس کے بول تھے ''چولی کے پیچھے کیا ہے'' ابھی چند روز قبل بھارت کے ایک پنجابی ریپ گلوکار ہنی سنگھ کے محزب الاخلاق گانوں کا بھارت میں بڑا چرچا رہا جو بالی وڈ کا شاید سب سے مہنگا نغمہ نگار مانا جاتا ہے۔ سچ پوچھیے تو بھارتی Culture کے Vulture نے ہندوستانی معاشرے میں بہت تباہی مچائی ہے جس کے اثرات بھارتی فلموں کے وائرس کے ذریعے اب ہمارے پاکستانی معاشرے میں بھی سرائیت کر رہے ہیں۔ بھارتی فلموں کے ساتھ ساتھ بھارتی ڈرامے بھی اس تباہی میں برابر کے شریک ہیں۔
16 دسمبر کی شب چھ شیطانوں نے ایک معصوم طالبہ کے ساتھ جس طرح اپنے منہ کالے کیے تھے اس نے ہندوستانی معاشرے کی چولیں ہلاکر رکھ دی ہیں جس پر آنسو بہانے والوں میں ہندوستانی اداکارہ شبانہ اعظمی اور بنگلہ دیشی قلم کارہ تسلیمہ نسرین بھی شامل ہیں۔ بھارت کے نام ور اداکار امیتابھ بچن کا کہنا ہے کہ اجتماعی آبرو ریزی کا شکار ہونے والی مظلوم طالبہ کی روح ہمارے دلوں کو جھنجھوڑتی رہے گی، اس سانحے پر رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ نے کہا ہے کہ ''میں پورے عوام کے ساتھ مل کر اس (مظلومہ) لڑکی کے گھر والوں اور احباب سے اظہار افسوس کرتا ہوں''۔
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جب گجرات کے بدنام زمانہ وزیر اعلیٰ نریندر مودی کے حکم پر گجرات کی مظلوم مسلمان خواتین اور ہندوستان کی پارلیمان کے مسلمان رکن اقبال احسان جعفری کی معصوم صاحبزادیوں پر ظلم وزیادتی کے پہاڑ توڑے گئے تو اس وقت ہندوستان میں سب کو سانپ سونگھ گیا اور مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی ظالم افواج مسلمان کشمیری خواتین کے ساتھ جو وحشیانہ جنسی زیادتیاں کر رہی ہے اس کے خلاف کوئی آواز بلند نہیں کر رہا۔
بھارتی قائدین اور زعما کا دہرا معیار اور دوغلا پن اب پوری دنیا پر اس کے نام نہاد سیکولرزم کی طرح پوری طرح آشکار ہوچکا ہے اور بھارت کے ایک بزرگ صحافی، سیاست داں، سابق رکن پارلیمان اور سینئر سفارت کار کلدیپ نائر کے بقول ''ایک لڑکی کی اجتماعی آبرو ریزی کا جرم اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوا ہے''۔ بھارت میں خواتین کی آبرو ریزی کا بازار روز بروزگرم ہوتا جارہا ہے جب کہ اس نوعیت کے 400 سے زیادہ مقدمات فرسودہ نظام کے سبب عدالتوں میں سالہا سال سے زیرالتوا پڑے ہوئے ہیں۔ ان حالات میں دہلی گینگ ریپ پر قائم کیا جانے والا کمیشن بھی بھلا کیا کرسکے گا کیونکہ اس طرح کے کمیشنوں کی کارکردگی پر سے عوام کا اعتبار کب کا اٹھ چکا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ قوانین میں خاطر خواہ تبدیلیاں کی جائیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فعال اور موثر بنایا جائے۔
موجودہ حالات میں جب کہ بھارت میں ہر 18 ویں گھنٹے میں خواتین کی آبروریزی کے دو واقعات رونما ہورہے ہیں شاید سزائے موت دینے سے بھی کام نہیں چلے گا۔ اس کا بہترین علاج یہ ہوگا کہ انھیں ان مردانہ صفات ہی سے محروم کردیا جائے ۔ دیگر یہ کہ ان کا سوشل بائیکاٹ کردیا جائے تاکہ نہ صرف انھیں عبرت حاصل ہو بلکہ وہ دوسروں کے لیے بھی نشان عبرت بن جائیں۔ اس کے علاوہ تدارکی تدابیر کے طور پر اخلاق باختہ فلموں اور ڈراموں کی حوصلہ شکنی بھی ضروری ہے۔ یاد دہانی کے طور پر عرض ہے کہ پرانے زمانے کے ایک مشہور و معروف ولن (کھل نائیک) رنجیت جن کا بھارتی فلموں میں طوطی بولتا تھا، پر ریپ کے تقریباً 100 سین فلمائے گئے تھے۔ تب سے آج تک تو پلوں کے نیچے سے نہ جانے کتنا پانی بہہ چکا ہوگا۔
ہندوستان میں 1996 میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق عریاں اور نیم عریاں قسم کے لباس کو بھی دعوت گناہ کا ایک محرک قرار دیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں بھارت کے صوبے راجستھان کے ایک قانون ساز نے لڑکیوں کے اسکولوں میں اسکرٹ پر بطور یونیفارم پابندی لگانے کی تجویز پیش کی تھی۔ تاہم بھارتی معاشرے کی آزاد خیال خواتین کو لباس پر پابندیاں عائد کرنے سے شدید اختلاف ہے۔ ان کا استدلال ہے کہ "What clothes - pulled from what rack / will prevent an attack?"
اس کے بعد ان کا سوال ہے کہ کیا ساڑھی میں ملبوس خواتین کی دہلی کی بسوں میں آبرو ریزی کے واقعات رونما نہیں ہوئے؟ بھارت میں مقبوضہ کشمیر اور چھتیس گڑھ کے علاوہ دلت طبقات سے تعلق رکھنے والی مظلوم خواتین کے ساتھ جبر و زیادتی کے واقعات روزمرہ کا معمول ہیں۔ بھارت ہو یا پاکستان، ضرورت اور وقت کا تقاضا ہے کہ قوانین پر عملدرآمد کو سو فیصد یقینی بنایا جائے، مجرموں کو قرار واقعی سزائیں دی جائیں اور معاشرے کے اجتماعی شعور کو بیدار کیا جائے۔ جب تک ایسا نہیں ہوگا مجرموں کے حوصلے بلند ہوتے رہیں گے۔ بے شک اس معاملے میں میڈیا کا کردار نہایت اہم ہوگا۔