پاک بھارت تعلقات کا سرد و گرم

بھارت اپنی صفوں میں موجود شدت پسندوں سے چھٹکارا حاصل کرے جو پاکستان کیلیے جارحانہ عزائم رکھتے ہیں۔


Ashar Najmi January 17, 2013

پاکستان میں کون ہے جو نہیں جانتا کہ بھارت نے ہمارے آزادانہ و خود مختارانہ وجود کو آج تک تسلیم نہیں کیا۔ بھارت نے پہلے ہی دن سے اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنیوالے کروڑوں مسلمانوں کے اس وطن عزیز کو صفحہ ہستی سے مٹادینے کے ناپاک عزائم اپنے سینے میں پال رکھے ہیں۔ یہ تلخ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ ہماری اپنی غفلتوں، کوتاہیوں اور اس سے بڑھ کر نافرمانیوں کی وجہ سے ہمارا یہ ازلی دشمن 1971 میں سوویت یونین کی مدد سے ہمیں دولخت کرکے ایک لحاظ سے اپنے ناپاک عزائم میں بہت حد تک کامیاب بھی ہوچکا ہے۔

بھارت ابھی بھی پاکستان کے خلاف کسی بھی محاذ پر جارحیت کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ اس کے باوجود ہمارے ہاں کے بعض دانشوروں نے آج کل پاکستان اور بھارت کے درمیان پر امن بقائے باہمی کے امکانات کو روشن تر بنانے کے لیے حکیمانہ اقدامات شروع کر رکھے ہیں اور عوام کو پروپیگنڈا یہ سنایا جا رہا ہے کہ بھارت پاکستان کی طرف دوستی اور گفت و شنید کا ہاتھ بڑھانے کے لیے تیار ہے لیکن اصل صورت حال جسے چشم بینا دیکھ سکتی ہے زبان حال سے پکار پکار کر کہہ رہی ہے۔

نہ وہ بدلے، نہ دل بدلا، نہ دل کی آرزو بدلی
میں کیسے اعتبار انقلاب آسماں کرلوں

ایک ایسے وقت جب بھارت کے اسلحہ ساز کارخانے دن رات نت نئے مہلک ہتھیار تیار کرنے اور انھیں پاکستانی سرحدوں پر استعمال کرنے میں مصروف ہیں، امن کے ان دانشورانہ مشوروں کی کیا اہمیت ہوسکتی ہے۔ بھارت کی پاکستان کے ساتھ ازلی نفرت ہمیں اکثر دیکھنے کو ملتی رہتی ہے۔ ابھی جب تک بھارتی کرکٹ ٹیم پاکستان کے ساتھ بھارت کے مختلف شہروں میں کرکٹ سیریز کھیلنے میں مصروف رہی اور بین الاقوامی میڈیا کوریج کے لیے بھارت میں موجود رہا تو پاکستان اور بھارت کی حکومتوں کے درمیان شیر و شکر والا معاملہ دکھائی دے رہا تھا لیکن فاتح پاکستان کرکٹ ٹیم کے بھارت سے رخت سفر باندھتے ہی لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج نے وحشیانہ فائرنگ و گولہ باری شروع کردی جس سے ہمارے دو بہادر سپاہی شہید ہوگئے۔

ادھر بھارت نے عالمی سطح پر شور مچادیا کہ پہلے پاکستان نے سرحدی خلاف ورزی کی جس پر بھارتی فوج نے جوابی کارروائی کی۔ ہمارے ملک کے ایک مایہ ناز شاعر نے گزشتہ دنوں بھارتی متعصبانہ ذہنیت کی بالکل درست عکاسی کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو لوگ پاکستان اور بھارت کے درمیان دوستی پروان چڑھانے کی کوشش کررہے ہیں وہ بھارتی متعصبانہ ذہنیت اور پاکستان سے بھارتیوں کی ازلی نفرت دیکھنا چاہتے ہیں تو حالیہ کھیلے جانے والا پاک بھارت کرکٹ سیریز کا دوسرا ایک روزہ میچ دیکھ لیں، جس میں بھارتی ٹیم کی ممکنہ شکست نظر آتے ہی بھارتی تماشائی مقابلہ ختم ہونے سے قبل ہی اسٹیڈیم سے جاچکے تھے کیونکہ وہ پاکستانی کھلاڑیوں کو میدان میں بھارت سے جیت کی خوشی مناتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے تھے۔

اسی طرح کے اور دیگر چیدہ چیدہ مناظر سے بھارت اور بھارتیوں کی متعصبانہ ذہنیت عیاں ہوتی ہے۔ حالانکہ گزشتہ کافی عرصے سے پاکستان اور بھارت کے درمیان دوستی اور تعاون بڑھانے کی باتیں ہورہی تھیں۔ دونوں ممالک کے ذمے دار حکومتی زعما اور اعلی حکام ایک دوسرے کے ہاں خیر سگالی دوروں پر آجارہے تھے۔ پاکستان بھارت کو تجارت کے معاملے میں پسندیدہ ترین ملک قرار دینے کے اقدامات کررہا تھا۔ باہمی دلچسپی اور مفاد کے دوسرے معاملات پر بھی گفت وشنید کا عمل جاری تھا کہ اچانک بھارت کی رگ شرارت پھڑک اٹھی اور لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کا معاملہ پیش آگیا۔ ایٹمی طاقت کے حامل دو ہمسایہ ملکوں میں کشیدگی بڑھ کر برصغیر کے پائیدار امن کی کوششوں کو سبوتاژ کر سکتی ہے۔

پاکستان نے امن کے لیے بہت سے اقدامات کیے ہیں، فن و ثقافت سے وابستہ افراد کو بھارت جاکر اپنے فن کے ذریعے دونوں ممالک کے درمیان فاصلوں کو گھٹانے کا ٹاسک دیا، دونوں ممالک کے گلوکاروں کے درمیان سنگیت مقابلوں، کبڈی اور ہاکی کے مقابلے بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ یہی نہیں ممبئی حملوں کے حوالے سے پاکستان نے بھارت کے ساتھ بھر پور تعاون کیا۔ دہشت گردی کی وارداتوں کی پرزور مذمت بھی کی۔ مگر دوسری طرف بھارت نے مستقل غیر سنجیدہ رویہ اختیار کر رکھا ہے جس کی ایک واضح مثال صرف گزشتہ برس 2012 میں پچھتر بار بھارتی فوج کی طرف سے جموں و کشمیر کی کنٹرول لائن پر حدود کی خلاف ورزی ہے، اس پر مستزاد یہ کہ الزام پاکستان پر لگایا جارہا ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ مسئلہ کشمیر سمیت دونوں ملکو ں کے درمیان تمام مسائل کا پر امن حل تلاش کرنے، امن و سیکیورٹی کے لیے مزید اقدامات کرنے، لائن آف کنٹرول کے نئے راستے کھولنے، باہمی اعتماد کی بحالی، ایک دوسرے کے خلاف منفی پروپیگنڈہ بند کرنے، انسداد دہشت گردی کے لیے تعاون بڑھانے، ایٹمی اور روایتی ہتھیاروں کے بارے میں اعتماد سازی کے اقدامات پر ماہرین سے مشاورت جیسے امور طے کیے جائیں۔

بھارتیوں کو اپنی سوچ کے زاویے تبدیل کرنے ہوں گے۔ ہر واقعے کا الزام پاکستان کے سر تھوپ دینے کی روش کو ترک کرنا ہوگا۔ بھارت میں رونما ہونیوالے کسی بھی واقعے پر بھارتی حکمران پاکستان کو مورد الزام ٹھہرا دیتے ہیں حالانکہ سمجھوتہ ایکسپریس سمیت دہشت گردی کے متعلقہ واقعات میں بھارتی دہشت گرد ملوث پائے گئے تھے۔ ہمارے حکمرانوں کی غلط پالیسی، کمزوری اور بعض بیرونی طاقتوں کے دبائو کے باعث آج تنازع کشمیر پر مذاکرات کا عمل مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ بھارت جب چاہتا ہے مذاکرات سے انکارکرکے کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دینے کی رٹ لگانا شروع کردیتا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ اس غیر ذمے دارانہ روش سے مذاکرات کا عمل کبھی کامیاب نہیں ہوگا۔

کیونکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان سنگین کشیدگی کی ایک بہت بڑی وجہ مسئلہ کشمیر ہے۔ جہاں تک دو طرفہ مذاکرات کا تعلق ہے تو بھٹو اور بھارتی وزیر خارجہ سورن سنگھ سے لے کر اب تک وزرائے خارجہ اور سیکریٹریز خارجہ کی سطح پر مذاکرات کے درجنوں دور ہوچکے ہیں، کئی کانفرنسیں بلائی جاچکی ہیں لیکن مذاکرات کے ہر دور میں پاکستان اپنے تاریخی اور اصولی موقف سے پسپا ہوتا ہی دکھائی دیتا ہے۔ تنازع کشمیر ہی نہیں بلکہ سر کریک اور سیاچن ایسے مسائل بھی ہنوز حل طلب ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس سلسلے میں حکومت بامقصد مذاکرات کرے اور بھارت کو مجبور کرے کہ وہ کنٹرول لائن کی خلاف ورزیوں سے باز آجائے کیونکہ صرف یہی ایک صورت ہے جس سے برصغیر میں امن و استحکام اور تعمیر و ترقی کا خواب پورا ہوسکتا ہے۔

پاکستان، بھارت اور افغانستان اس خطے کے ایسے ممالک ہیں جن کا امن، سلامتی اور معاشی مستقبل ایک دوسرے سے وابستہ ہے، اس لیے بدلتے ہوئے بین الاقوامی حالات اور تقاضوں کے پیش نظر اس خطے کے ممالک کو بھی اب اپنی ترجیحات پر ازسرنو غورکرنا اور اپنے تعلقات کو بقائے باہمی، امن اور مفاہمت کے اصولوں پر استوار کرنا ہوگا۔ ہم دوست بدل سکتے ہیں لیکن پڑوسی نہیں بدل سکتے۔ بھارتی رائے عامہ پاکستان سے تعلقات بہتر بنانے کی حامی ہے تاہم غلطیوں سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ احتیاط اور خودداری کے ساتھ آگے بڑھا جائے۔ دونوں ممالک کے لیے آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر چلنا اور باہمی اعتماد کی بحالی ہے، اس کے بغیر وہ عالمی مارکیٹ پر اثر انداز نہیں ہوسکتے۔

بھارت کے لیے بہت ضروری ہے کہ اب وہ اپنی صفوں میں موجود شدت پسندوں سے چھٹکارا حاصل کرے جو پاکستان اور پاکستانی عوام کے لیے جارحانہ عزائم رکھتے ہیں۔ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے اور پاکستانی عوام محب وطن اور تمام انسانوں سے محبت کرنے والے لوگ ہیں، اس لیے اگر بھارت واقعی خطے میں امن و استحکام کا خواہشمند ہے تو سرحدوں پر بے معنی محاذ آرائی کے بجائے مفاہمت کا حقیقی اور سنجیدہ راستہ اختیار کرے اور ہمارے ارباب اقتدار کو بھی چاہیے کہ مسئلے کا مستقل حل تلاش کرکے اپنی بالادستی اور معاشی ترقی کے لیے ایک پائیدار لائحہ عمل تیار کرکے اس پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں