انفرادی و ادارتی جرم کا فرق

کراچی میں رہنے والے افراد اپنے پیاروں کے مرنے کا ماتم بھی نہیں کرسکتے اور نہ دیت یا قصاص لے سکتے ہیں۔


Muhammad Ammar Faizan January 17, 2013

ISLAMABAD: گزشتہ دنوں شاہ زیب قتل کا چرچا میڈیا پر ہر سمت نظر آیا، جس میں جاگیردارانہ نظام کے پروردہ شاہ رخ جتوئی کو قاتل ٹھہرایا گیا، امکان اغلب ہے کہ گذشتہ روز قاتل کو دبئی سے گرفتار کرنے کے بعد اب قرار واقعی سزا دے دی جائے گی۔ ملک میں کسی کو بھی اس طرح کے اعمال کی اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ معصوم لوگوں کو قتل کرتے پھریں اور پھر ملک سے فرار ہوجائیں، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ اس طرح کے واقعات سے بھری پڑی ہے جس کی وجہ سے آج ہر فرد ذہنی انتشار اور پریشانی کا شکار نظر آتا ہے۔

ہمارے ملک میں قاتل آزاد گھومتے نظر آتے ہیں، نا صرف یہ بلکہ حکمرانی اور اقتدار کے مزے لیتے بھی پائے جاتے ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ شاہ رخ جیسے قاتل کیوں پکڑے جاتے ہیں؟ جب کہ کچھ 'خاص قسم' کے قاتل معصوم محسوس ہوتے ہیں، اس کی وجوہات پر غور کرنے ضرورت ہے۔

شاہ زیب کے قتل کے بعد ایک مجموعی رویہ جو سامنے آیا، خاص طور پر سوشل میڈیا اور ٹاک شوز میں، وہ یہ کہ وڈیروں اور جاگیرداروں کے بچے ہمیشہ ایسا ہی کرتے ہیں، یا ہوتے ہی درندے ہیں، ان کو انسانیت کی پہچان تک نہیں ہوتی ہے یا اپنی جائیداد، پیسے اور طاقت کے نشے میں اسی طرح معصوم لوگوں کو قتل کرتے ہیں اور فرار ہوجاتے ہیں، کوئی قانون نافذ کرنے والا ادارہ ان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا، اس طرح کے بیانات اور comments کے ساتھ ساتھ کچھ وڈیوز بھی منظر عام پر آگئیں جس میں کسی وڈیرے اور جاگیردار کو کسی نوجوان پر تشدد کرتے ہوئے دکھایا جا تا ہے، اس کے بعد لعن طعن کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، جس میں وڈیروں اور جاگیرداروں کے 'حقیقی' چہروں سے نقابیں کھینچی جاتی ہیں اور پھر دنیا کو بتایا جاتا ہے کہ اگر ان سے نجات حاصل نہ کی گئی تو ہمارا ملک کبھی ترقی نہیں کرسکے گا۔

اگر جاگیرداری نظام کا خاتمہ اور وڈیرہ شاہی کو جڑ سے اکھاڑا نہ گیا تو ہم ہمیشہ اسی طرح کی ذلت کا شکار رہیں گے، جس کے ہم پاکستان بننے کے بعد سے آج تک ہیں۔ یہی ظالم لوگ ہیں جو بچوں کی تعلیم کے دشمن ہیں کیوں کہ اگر نسل پڑھ لکھ گئی تو ان کے کھیتوں، گھروں میں کام کون کرے گا، ان کی نجی جیلوں میں برسوں کون سڑے گا؟ اس طرح کے کئی ہزار اعتراض اٹھا کر عوام کو یہ بتادیا جاتا ہے کہ پاکستان کے تمام تر مسائل کی وجہ یہ جاگیردارانہ اور وڈیرانہ ذہنیت ہے، ہم سب مل کر اس سے ملک اور قوم کو نجات دلائیں گے۔

مجھے ان باتوں میں سے کسی ایک سے بھی اختلاف نہیں ہے، یہ تمام الزامات کیوں لگائے جاتے ہیں اور اس کے پیچھے کیا سوچ کارفرما ہوتی ہے؟ دوسرا سوال یہ کہ شاہ رخ کیوں پکڑا گیا، جب کہ ہزاروں لوگوں کے قاتل دندناتے پھر رہے ہیں؟ کوئی بھی وڈیرہ یا جاگیردار جو بھی عمل کرتا ہے وہ اس کی ذات سے وابستہ ہو تا ہے۔ مطلب یہ کہ اس کام کو کرنے کے لیے باقاعدہ اس کی کوئی منصوبہ بندی نہیں ہوتی اور نہ ہی وہ اپنے جیسے تمام لوگوں کو اعتماد میں لے کر وہ ''بدمعاشی'' انجام دیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے اس عمل کی وجہ سے پکڑا بھی جا تا ہے تو اس قسم کی پکڑائی سے بچنے کے لیے کیا طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے؟

ہر سال ہزاروں بچے، نوجوان، مرد و عورتیں اسپتالوں میں غلط دوائیں دینے سے جاں بحق ہوجاتے ہیں جس میں کبھی ڈاکٹروں کا قصور ہوتا ہے تو کبھی ناقص دوائوں کا، ہر سال ہزاروں افراد، پولیس اور رینجرز کے ہاتھوں کتنے ہی معصوم لوگ ظلم اور زیادتی کا نشانہ بن جاتے ہیں، خروٹ آباد میں جھوٹی اطلاع پر چند غیر ملکی مرد اور خواتین بے بسی کی موت مار دیے جاتے ہیں، ان تمام چیزوں کے باوجود کبھی یہ اعتراض نہیں اٹھایا جاتا کہ بنیادی طور پر ڈاکٹری کی تعلیم میں ہی کوئی نقص موجود ہے، جس کی وجہ سے ہزاروں لوگ اپنی جان سے جاتے ہیں، اگر ڈاکٹر کی غلطی ثابت ہو بھی جائے تو سب سے پہلے اس کی ڈگری جعلی قرار دی جاتی ہے، اس کی ذات میں موجود کسی خرابی کی تلاش کی جاتی ہے، اس کا ذاتی عمل قرار دیا جاتا ہے، اور پھر ایک اکیلے فرد کو ذمے دار ٹھہرایا جاتا ہے نا کہ پو رے میڈیکل سسٹم کو۔

ہزاروں مریض کبھی دل کے امراض کی غلط ادویات سے مرتے ہیں تو کبھی کھانسی کے سیرپ سے لیکن کبھی ایسا نہیں ہوتا ہے کہ دوائوں کی انڈسٹری پر کوئی اعتراض اٹھایا جائے، بلکہ ہوتا تو یہ آیا ہے کہ ایک اسپتال کمپنی پر الزام لگاتا ہے، کمپنی کیمیکل فراہم کرنے والی فیکٹری پر، اور فیکٹری کسی غیر ملکی ادارے پر... اور نتیجتاً کوئی ہاتھ نہیں آتا۔ رینجرز نے معصوم شخص کو کیمرے کی آنکھ کے سامنے بھون ڈالا، تحقیقات کے بعد چند سپاہی سزا کے مستحق ٹھہرے، بجائے ادارے کے۔ کراچی میں کئی برس سے ہزاروں لوگ قتل کیے جاتے ہیں، کوئی پکڑا نہیں جاتا، کیوں کہ الزام سیاسی اور کالعدم جماعتوں پر لگتا ہے کسی فرد پر نہیں، تو پھر کس کو پکڑا جائے؟ اس لیے آسان حل یہ ہے کہ کسی ایک کو بھی نہ پکڑا جائے۔

مطلب صاف ظاہر ہے وہ یہ کہ موجود جدید نظام حکومت، معاشرت، معیشت صرف اور صرف ایک خاص قسم کے Organizational Structure (ادارتی صف بندی) کو تو قبول کرتا ہے، اس کے علاوہ کسی بھی قسم کے تہذیبی، روایتی، ثقافتی نظام کو برداشت تک نہیں کر تا۔ وہ بڑے خوبصورت نظر آنے والے فیصلے جو بہت عدل پر مبنی اور عوام کے دلوں کی آواز نظر آتے ہیں بنیادی طور پر ایک دوسرا نظام نافذ کررہے ہوتے ہیں، وڈیرہ یا جاگیردار جو بھی کام کرتا ہے اس کے بعد وہ اپنے عمل کے اچھے یا برے ہر طرح کے نتائج بھگتنے کے لیے لوگوں کے سامنے جسمانی طور پر موجود ہوتا ہے۔

اسپتال میں مرنے والا کسی کو نہیں پکڑ سکتا، رینجرز، پولیس کے ہاتھوں مرنے والے ہزاروں بے گناہوں کو نہیں پتہ کس کے خلاف کارروائی کرنی ہے، کراچی میں رہنے والے افراد اب اس حال میں ہیں کہ اپنے پیاروں کے مرنے کا ماتم بھی نہیں کرسکتے اور نہ مذہبی تعلیمات کے مطابق دیت یا قصاص لے سکتے ہیں کیونکہ یہاں بھی ہر مرنے والے کے قاتل کسی نہ کسی مافیا کے لوگ ہوتے ہیں جن کا ایک مضبوط نیٹ ورک ہوتا ہے اور ان کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہیں ہوسکتی۔ اس جدید جمہوری نظام کا کمال ہی یہ ہے، اس نے اس نوعیت کے ادارے ترتیب دیے ہیں جن کا اندرونی نظام اتنا پیچیدہ ہے کہ عام آدمی کی سمجھ سے باہر ہوتا ہے۔

دنیا کی معلوم تاریخ میں کبھی اس طرح سے انسانوں کو بیوقوف نہیں بنایا گیا، کیوں کہ اس دور کے جدید آدمی میں اور قدیم آدمی میں زمیں آسمان کا فرق تھا۔ تین چار سو سال سے جاری نظام نے فرد کو فرد کی سطح پر ختم کردیا ہے۔ ہر علاقے کا وڈیرہ یا جاگیردار اپنے لوگوں کا محافظ بھی ہوتا ہے اور وقت پڑنے پر سب سے پہلے جان بھی دیتا ہے، جب کسی ملک کو شکست ہوتی تھی تو سب سے پہلے بادشاہ مارا جاتا تھا۔، بڑی بڑی سلطنتیں اپنے حکمران کے مرتے ہی تباہ ہوجاتی تھیں۔ ہمارے دور کا المیہ ہی یہ ہے کہ جو جرم ادارتی صف بندی میں ہو اس کا مجرم آزاد گھومتا ہے اور جو فرد کی سطح پر ہو وہ پکڑا جاتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔