الیکشن تو ہو گا مگر کیا اور کیسے ہو گا

عمران قوم کے لیے ایک امید بھی بن سکتے ہیں اور ایک پچھتاوا بھی لیکن پچھتاوے لاتعداد ہیں اور امیدیں نہ ہونے کے برابر


Abdul Qadir Hassan July 31, 2012
[email protected]

ہماری پوری قومی سیاست اس امید بلکہ اس مفروضے پر چل رہی ہے کہ موجودہ اسمبلیوں کی مدت چونکہ پوری ہو رہی ہے اس لیے قاعدے کے مطابق آیندہ برس یعنی 2013ء میں قومی الیکشن ہوں گے۔ الیکشن کے لیے تیاریاں جاری ہیں لیکن تعجب ہوتا ہے کہ خلاف توقع سیاسی گروہ الیکشن کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔

جیسے انھیں شبہ ہو کہ الیکشن ہوں گے یا نہیں ورنہ موجودہ حکومت نے اپنی تباہ کن قومی پالیسیوں سے مخالف جماعتوں کے لیے کامیابی کے لاتعداد مواقع پیدا کر دیے ہیں۔ عوام احتجاجاً سڑکوں پر ہیں اور مسائل کا ایک ہجوم ان کے آگے پیچھے منڈلا رہا ہے جس نے عوام کو دبوچ رکھا ہے لیکن اس کے باوجود اپوزیشن پارٹیاں چپ ہیں ان پارٹیوں کو جماعتیں نہیں سیاسی گروہ کہنا زیادہ صحیح ہو گا

کیونکہ جماعتیں تو اپنے اندر ایک جماعتی نظم رکھتی ہیں، الیکشن کراتی ہیں اور عہدہ دار منتخب کرتی ہیں لیکن ہمارے ہاں سوائے جماعت اسلامی کے اور کوئی جماعت موجود نہیں ہے، اس لیے انھیں سیاسی گروہ کہنا زیادہ درست ہے یا چند سیاستدانوں کے ڈیرہ دار کہنا بھی کچھ غلط نہیں ہو گا۔ یہ سیاسی گروہ ہیں جو ان دنوں جماعتوں کا روپ دھار کر الیکشن کی مہم چلا رہے ہیں لیکن تعجب ہوتا ہے کہ سوائے ایک آدھ جماعت کے ان میں سب کے سب امریکا کے اطاعت گزار ہیں اور امریکی اس قدر بدلحاظ ہیں کہ وہ اپنے ان فرمانبرداروں کا پردہ بھی نہیں رکھتے،

برسر بازار اور اعلیٰ ترین سطح پر اس کا اعلان کرتے ہیں اور لطف یا المیہ یہ ہے کہ پاکستانی امریکی اس سے انکار نہیں کرتے، زیادہ سے زیادہ کوئی بہت شرم دلائے تو ذرا سی آئیں بائیں شائیں کر کے رہ جاتے ہیں۔ اس درپردہ اور امریکا کی حد تک بے پردہ اتحادواتفاق کا ایک نمونہ قوم نے گزشتہ دنوں ملتان میں دیکھا جہاں پیپلز پارٹی نے بڑا ہی اہم الیکشن لڑا یعنی کرپشن کے الزامات کے حوالے سے بدنام سابق وزیراعظم کے بیٹے کا الیکشن۔

ملتان کے اس مبینہ الیکشن میں ن لیگ، عمران لیگ اور بعض دوسری پارٹیوں نے پیپلز پارٹی کی مخالفت کا اعلان کیا لیکن ان میں سے کوئی بھی مخالفانہ انتخابی مہم میں کہیں بھی موجود نہیں تھا اور یہ الیکشن حکومت جیت گئی، اسی لیے میں نے اسے مبینہ الیکشن کہا ہے جو مخالف امیدوار تھا اس نے کسی سیاسی امداد کے بغیر خوب مقابلہ کیا،

کوئی تحقیق کرے تو شاید یہ الیکشن مشکوک ہو جائے اور میں یہ بات الیکشن پر ایک سند اور اتھارٹی جناب کنور دلشاد کے حوالے سے کہہ رہا ہوں۔ بہرکیف کوئی بھی ہو گیلانی ہو یا زرداری ہو کیا فرق پڑتا ہے۔ میں اور آپ بدستور بجلی سے محروم ہیں۔

خبریں مل رہی ہیں کہ جناب صدر نہ صرف قومی انتخابات کو بروقت منعقد کرانے کی بات کر رہے ہیں بلکہ اس کے انعقاد کا یقین بھی دلا رہے ہیں لیکن انھی صدر صاحب سے متعلق ان کے مخالف کہہ رہے ہیں کہ وہ انھی موجودہ اسمبلیوں سے دوبارہ صدر منتخب ہونا چاہتے ہیں،

اس لیے اس مقصد کے لیے الیکشن سال بھر کے لیے موخر بھی ہو سکتے ہیں۔ اگر جناب زرداری صاحب کے لیے یہ تاخیر مفید ہے تو انھیں بلا جھجک اس پر عمل کر کے اپنا صدارتی الیکشن کرا لینا چاہیے۔ یہ ایک بہت اچھا موقع ہے ورنہ اگر قومی الیکشن موجودہ حالات میں ہو گئے تو پھر صدر صاحب کا دوبارہ انتخاب شاید مشکل ہو جائے بشرطیکہ امریکا مداخلت نہ کرے اور حالات کو ان کے قدرتی رخ پر چھوڑ دے۔

صدر صاحب یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان کی پارٹی نہ صرف جیتے گی بلکہ ہر صوبے میں اپنے وزیر اعلیٰ کے ساتھ حکومت بھی بنائے گی۔ اس وقت سیاسی گروہوں اور گروپوں کی جو سیاسی کارکردگی ہے اس سے تو یہی لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی جیت جائے گی۔ قطعہ نظر اس کے کہ یہ ملک کا آخری الیکشن ہو گا لیکن الیکشن ہو گا جیسا کہ اس تیسری سیاسی پسماندہ دنیا میں ہوا کرتا ہے اور ہوتا رہتا ہے۔

ذرا غیرجانبدار ہو کر غور کیجیے، پیپلز پارٹی کے لیڈروں یعنی امیدواروں اور دوسری پارٹی کے لیڈروں میں آخر فرق ہی کیا ہے ۔کسی کا کوئی ایسا کردار کب رہا ہے کہ اسے اس کی وجہ سے دوسروں پر ترجیح دی جا سکے۔ غیر آزمودہ عمران خان کا نام لیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ امیدیں وابستہ کی جاتی ہیں ، داماندگیء شوق تراشے ہے پناہیں لوگ درست طور پر کینسر اسپتال کا ذکر کرتے ہیں جو عمران کا ایک غیر معمولی کارنامہ ہے لیکن غیر معمولی حد تک پُرآسائش زندگی بسر کرنے والے عمران خان اس ملک کے افلاس زدہ عوام کا دل سے کتنا ساتھ دیں گے یہ وقت ہی بتائے گا،

ابھی سے اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ عمران قوم کے لیے ایک امید بھی بن سکتے ہیں اور ایک پچھتاوا بھی لیکن پچھتاوے لاتعداد ہیں اور امیدیں نہ ہونے کے برابر۔ قوم کو امیدوں کی ضرورت ہے۔ طوفانی عوامی جلسوں کے باوجود خدانخواستہ اگر امیدیں بر نہ آئیں تو پھر نہ جانے کیا ہو گا، کہیں وہی نہ ہو جس کا پیپلز پارٹی کے لیڈر کہہ رہے ہیں۔

بات متوقع الیکشن کی ہو رہی ہے اور سیاسی گروہوں کی جو الیکشن میں نبرد آزما ہوں گے الیکشن تو ہوں گے ہی جیسے بھی ہوں گے ہوں گے لیکن کون کیا کرتا ہے اور قسمت اس کا کتنا ساتھ دیتی ہے دیکھا جائے گا، فی الحال آپ تفریح طبع کے لیے بجلی کا مقابلہ کریں اور اپنے اپنے صبر کو آزمائیں، یہ وقت بھی آنا تھا۔ اب تو ہمارے 'دانشور' پاکستان سے ہی بے زار ہو رہے ہیں یا کسی کے حکم پر دوسروں کو بھی بے زار کر رہے ہیں،

مجھے ان کی باتوں پر تعجب ہوتا ہے، کیا ان کو جواب دے کر ان سے الجھنا چاہیے یا وہ سلوک کرنا چاہیے جو سید مودودی روزنامہ امروز کے دانشوروں سے کیا کرتے تھے کہ یہ لوگ چونکہ اپنا کوئی نظریہ اور خیال نہیں رکھتے بلکہ سب کچھ باہر یعنی ماسکو سے آتا ہے اس لیے ان کا جواب دینا وقت ضایع کرنا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں