پاکستان میں سیاسی اشرافیہ کا عروج
اشرافیہ کسی بھی وقت اپنے اقتدار کو مذہب، جمہوریت، آئین ، وطن پرستی، قوم پرستی یا نظریہ پرستی کا ٹائٹل دے سکتی ہے
ہم خود ڈاکٹر خلیل احمد کو نہیں جانتے، ان کی یہ کتاب ہمارے مرید اول وآخر شاہد گل کے ہاں پڑی ہوئی تھی۔ ہم نے موضوع کو دلچسپ پا کر اٹھائی تو مرید اول و آخر نے فوراً عطا کر دی۔
پڑھنے کے بعد خوشی ہوئی کہ ملک میں ''بازاری دانش'' اور تجارتی علم و ادب کے علاوہ بھی کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جو نہ صرف مسائل کا ادراک رکھتے ہیں بلکہ ان کا گہرائی سے مطالعہ بھی کرتے ہیں۔ کتاب کی ماہیت کے بارے میں منصف نے ابتداء ہی میں یہ وضاحت کی ہے کہ ''یہ تحریر کسی انقلاب کا پیغام نہیں، نہ ہی یہ کسی انقلاب کا پیش خیمہ بننا چاہتی ہے،
اس کا واحد مقصد آئین و قانون کی حکم رانی کے لیے رائے مجتمع کرنا ہے ۔آئین و قانون کی بالادستی کے لیے رائے کو تقویت دینا اور اس رائے کو ایک فلسفیانہ بنیاد مہیا کرنا ہے۔ لکھنے والا چونکہ بنیادی طور پر ایک شائستہ دانشور اور فلسفی ہے، اس لیے اس نے بات کو مخصوص علمی شائستگی تک محدود رکھا ہے اور پاکستان میں اشرافیہ کے کردار کو شائستہ علمی انداز میں بحث کا موضوع بنایا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں ''اشرافیہ کے عروج'' کا سوال تب پیدا ہوگا
جب کبھی اس ملک میں ''اشرافیہ'' کو زوال کا سامنا بھی کرنا پڑا ہو، کیونکہ یہ ملک بنایا بھی اشرافیہ نے ہے اور بنا بھی اشرافیہ کے لیے ہی ہے چنانچہ عروج و زوال سے قطع نظر روز اول ہی اس پر اشرافیہ کی گرفت قائم ہے، سہولت کے لیے آپ اسے ڈاکٹر خلیل احمد کی طرح سیاسی اشرافیہ بھی کہہ سکتے ہیں، اس ملک کی بنیاد ہی اشرافیہ کے اس خدشے پر تھی کہ اگر ہندوستان نامی یہ ملک آزاد ہو گیا تو وہ پرانا اور تلوار کے زور پر قائم شدہ نظام تو قائم ہو گا جس میں وسطی ایشیاء سے مٹھی بھر تلوار باز آ کر سیاہ و سفید کے مالک ہو جاتے تھے کیوں کہ نئے دور میں طاقت تلوار کے بجائے ''ووٹ'' کی شکل میں ہو گی،
ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں ایک خاص قسم کی اقلیتی اشرافیہ کو اپنا منصب چھوڑ کر اکثریتی اشرافیہ کا دست نگر ہونا پڑے گا۔ ادھر انگریز بھی اپنے مستقبل کے بارے میں فکر مند تھے چنانچہ ایک مخصوص اشرافیہ کے لیے اور اس کی بلا شرکت غیرے تگ و تاز کے لیے بندوبست کیا گیا، اگر غور سے مطالعہ کیا جائے تو یہ واحد موقع نہیں تھا جب ایک مخصوص اشرافیہ کو مسابقت کے بجائے اجارہ داری کی بنیاد پر کھڑا کیا گیا چنانچہ ایک بہت بڑی ''کاغذی تبدیلی'' کے باوجود ''عملی تبدیلی'' کچھ بھی نہیں آئی۔ وہی اشرافیہ جو مغلوں، پھر سکھوں اور پھر انگریزوں کے زیر سایہ برسر اقتدار تھی،
اب بھی بدستور اپنے منصب پر قائم رہ گئی۔ اس فرق کے ساتھ کہ ایک بڑے میدان میں لمبی دوڑ کے بجائے چھوٹے میدان کی مختصر دوڑ میں اسے پہلے ہی سے آگے رکھ کر دوڑایا گیا، اس کے بعد بھی جب کوئی خطرناک موڑ آیا اور خطرہ پیدا ہو ا کہ کہیں ''ووٹ'' اور اکثریت کی بنیاد پر اقتدار اس اشرافیہ کے ہاتھ سے نکل کر عوامیہ کے پاس نہ چلا جائے، تو اکثریت کا وزن کم کر کے اشرافیہ کو نہایت آرام اور آسانی سے آگے رہنے کا موقع دیا گیا، گویا ایک ایسی دوڑ کا اہتمام کیا گیا جس میں صرف ''اکیلی'' اشرافیہ ہی دوڑ رہی تھی۔
ظاہر ہے کہ اسے ''اول'' تو آنا ہی تھا اور محترم ڈاکٹر خلیل احمد نے اشرافیہ کی اس ''دوڑ'' کا حال اس کتاب میں بیان کیا ہے۔ جہاں تک اقتدار اور حکمرانی کے لیے ٹائٹل کا تعلق ہے تو یہ چنداں اہمیت نہیں رکھتا، کوئی بھی اشرافیہ کسی بھی وقت اپنے اقتدار کو مذہب، جمہوریت، آئین و قانون، وطن پرستی، قوم پرستی یا نظریہ پرستی کا ٹائٹل دے سکتی ہے۔ یہ تو نام ہوتے ہیں جو رکھے بھی جا سکتے ہیں، بدلے بھی جا سکتے ہیں اور ترک بھی کیے جا سکتے ہیں۔ اس مخصوص پندرہ فیصد اشرافیہ کی پوری تاریخ طریقہ ہائے واردات اور ہتھیاروں کا ذکر ہم نے اپنی کتاب عسکریت اور رعیت میں تفصیل سے کیا ہے۔
اس وقت سے لے کر جب انسان کے ہاتھ میں ان گھڑ پتھر کا ہتھیار تھا آج کے اس انسان تک جس کی انگلی جوہری ہتھیار کے بٹن پر ہے بظاہر بہت کچھ بدلا ہے لیکن حقیقت میں کچھ بھی نہیں بدلا ۔ وہی دو طبقے ہیں ایک وہ جو پندرہ فیصد ہو کر پچاسی فیصد وسائل کو ہڑپ کرتا رہتا ہے اور دوسرا وہ جو پچاسی فیصد ہوتا ہے کماتا ہے، اگاتا ہے بناتا ہے لیکن اسے بھوکا، پیاسا اور دربدر رہنا پڑتا ہے۔ دنیا میں بہت کچھ ہو گیا، انقلابات مذاہب برپا ہوئے، بڑے بڑے خوب صورت نظریات پیش کیے گئے، قوانین اور دساتیر کے نام پر بے شمار خوب صورت اور ہمرنگ زمین دام بچھائے گئے، زمین کو انسانی خون سے نہلایا گیا،
انسانی سروں کے مینار کھڑے کیے گئے لیکن اگر نہیں بدلا تو پندرہ اور پچاسی کا تناسب نہیں بدلا۔ پندرہ پچاسی کے اس حساب کو ففٹی ففٹی تک لانے کے لیے جب بھی کوئی مذہب، کوئی تحریک، کوئی انقلاب برپا ہوا، اس پندرہ فیصد چالاک ترین اشرافیہ نے روپ اور نام بدل کر اس پر پھر سے قبضہ جمایا ہے۔ دنیا میں آج تک کوئی بھی مذہب کوئی بھی تحریک اور کوئی بھی انقلاب اس اشرافیہ کے خلاف اگر اٹھا بھی ہے تو پہلی پیڑھی کے بعد دوسری پشت میں اسی اشرافیہ کا اس پر قبضہ ہو گیا ہے کیوں کہ وقتی طور پر دب کر اور روپ بدل کر ہر نئی تحریک میں شامل ہونا، کمال عیاری سے ہر اول میں پہنچنا اور اس پر قبضہ کر کے اپنی مرضی کے مطابق بنانا اس پندرہ فیصد طبقہ اشرافیہ کا کمال ہنر ہوتا ہے۔ دور جانے کی کیا ضرورت ہے، اپنے پاکستان کی مثال ہمارے سامنے ہے جنہوں نے اسے بنایا،حاصل کیا، وہ درکنارہ کر دیے گئے اور پھر وہی سلسلہ ،وہی اشرافیہ وہی خاندان جو ہمیشہ سے اشراف تھے،نئی ''اشرافیہ'' میں ڈھل گئے
شد آں کہ اہل نظر درکنارہ می رفتند
ہزار گونہ سخن درد ہان و لب خاموش
14 اور 15 اگست رات بارہ بجے تک جو لوگ انگریز کو سیلوٹ مار کر اپنوں پر گولیاں چلانے کو تیار تھے، تحریک پاکستان کے مخلص کارکنوں کو ''غدار'' بنا رہے تھے، مطلب کہنے کا یہ ہے کہ طبقہ اشراف کبھی زوال میں ہوتا ہی نہیں البتہ ایک مخصوص مختصر سے وقفے کے لیے نیا رنگ روپ اختیار کرتے ہوئے تھوڑا سا دب جاتا ہے، جاگیرداری، خان بہادری، سرداری اور کوتوالی سے ممتاز قومی رہنما بننے میں تھوڑا سا وقت تو لگ ہی جاتا ہے، بہرحال ڈاکٹر خلیل احمد نے ایک نہایت ہی اہم موضوع پر نہایت ہی مسبوط انداز میں روشنی ڈالی ہے۔