سول اسپتال میں 3اہم یونٹ بند سیکڑوں مریض متاثر
رگوں، جبڑوں اور چیسٹ سرجری کے یونٹس کی بندش سے مریضوں کو شدیدمشکلات کا سامنا
سول اسپتال میں 3 اہم یونٹ بندکردیے گئے ، ان میں ویسکیولر ( خون کی رگوںکی سرجری کا یونٹ ) جبڑے کی سرجری کا یونٹ اور چیسٹ سرجری یونٹ شامل ہے۔
سیکڑوں مریض متاثر ہونگے،تفصیلات کے مطابق صوبے کے سب سے بڑے ٹیچنگ اسپتال کی انتظامیہ کی عدم توجہی کے باعث تین یونٹس بندکردیے گئے، خون کی رگوں کی سرجری کا یونٹ 2ماہ سے غیر فعال تھا جواب بند کردیا گیا ہے، یہ یونٹ سول اسپتال میں 1990میں قائم کیا گیا تھا ، ویسکیولرسرجری یونٹ میں خون کی رگوںکی سرجری کی جاتی تھی جس کے سربراہ ڈاکٹر سہیل احمد خان تھے، وہ پہلے ایف آر سی ایس ویسکولر سرجن ہیں جو رگوںکے متاثر ہونے کا علاج کرتے تھے۔
2 ماہ قبل ڈاکٹر سہیل احمد خان نے اسپتال سے ایک سال کی رخصت لے کر بیرون ملک ملازمت اختیارکرلی جس کی وجہ سے ویسکولرسرجری یونٹ بندکردیا گیا، اس وارڈ کے دیگر عملے کو مختلف وارڈز میں تبادلہ کردیا، یونٹ کے بند ہونے سے متاثرہ مریضوں کو نجی اسپتال بھیج دیاجاتا ہے، اس شعبے میں زیادہ تر فائرنگ سے رگوں کے کٹنے اور رگوں کے متاثرہونے کے مریض علاج کراتے تھے، اسپتال کے انتظامی ذرائع کے مطابق میگزوفشلری (جبڑے کی سرجری کا یونٹ )کو بھی بندکردیا گیا ہے۔
اس شعبے کے سربراہ ڈاکٹر شاکر مستعفی ہوکر نجی اسپتال کے ڈینٹل کالج کے سربراہ مقرر ہوگئے تھے جس کے بعداسپتال انتظامیہ نے اس شعبے کو بھی بندکردیا ، شعبے میں دانتوں اور مسوڑوں سمیت ٹوٹے جبڑے کا علاج کیا جاتا تھا ، نجی شعبے میں جبڑے کا علاج انتہائی مہنگا ہونے کی وجہ سے متاثرہ مریضوں کو حصول علاج میں شدید دشواریوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، اسپتال کی انتظامیہ نے جبڑے کے یونٹ کے سربراہ کے مستعفی ہونے کے بعدکسی اور ڈاکٹرکو تعینات نہیںکیا جس کی وجہ سے یہ یونٹ بھی بندکردیا گیا۔
ذرائع نے بتایاکہ اسپتال میں چیسٹ سرجری یونٹ کا شعبہ بھی کئی سال سے بند پڑا ہے، اس مرض میں مبتلا آنے والے مریضوں کو بھی نجی اسپتال بھیجا جاتا ہے،سول اسپتال میں تین اہم یونٹس کے بند ہونے سے اسپتال کی ساکھ متا ثر ہوگئی ہے ، دریں اثنا اسپتال میں صفائی وستھرائی کا ٹھیکہ نجی شعبے میں دیے جانے کے باوجود بھی اسپتال میںگندگی وغلاظت کی ڈھیرے لگے ہوئے ہیں ، معلوم ہوا ہے کہ اسپتال کے اے ایم ایس جنرل نے اسپتال کی صفائی کا ٹھیکہ ایک نجی من پسندفرم کودیا ہے جس کوماہانہ 8لاکھ40ہزار روپے ادا کیے جاتے ہیں۔
ٹھیکے کے مطابق 100خاکروبوں نے اسپتال کی صفائی وستھرائی کاکام کرنا تھا ،ذرائع نے بتایا کہ اسپتال میں صرف 30 خاکروبوں سے صفائی وستھرائی کا کام لیا جاتا ہے ،باقی 70خاکروب اسپتال نہیں آتے اوران کی تنخواہ خوردبرد کرلی جاتی ہے، ذرائع نے بتایا کہ اسپتال میں 48 پرائیویٹ سیکیورٹی گارڈز بھی رکھے گئے ہیں،ان میں سے بیشتر اسپتال میں اپنی ڈیوٹیاں نہیں دیتے اور بعض گارڈزاسپتال انتظامیہ کے گھروں پر ڈیوٹیاں دے رہے ہیں، ذرائع نے مزیدبتایا کہ اسپتال کے طبی فضلے کو سائنسی بنیادوں پر ٹھکانے لگانی والی انسلیئرلیٹر مشین بھی گذشتہ دوسال سے خراب پڑی ہیں ،کچرے میں سے انجکشن ودیگراشیا نکال کرفروخت کیے جانے کا بھی انکشاف ہوا ہے جبکہ فالتوکچر ے کو غیر سائنسی بنیادوں پرجلایا جارہا ہے۔
معلوم ہوا ہے کہ اسپتال کے کچرے کو او پی ڈی کینٹن کے سامنے جمع کیاجاتا ہے اور رات کی تاریکی میں کچرے کو مبینہ طور پرفروخت کیا جارہا ہے ، ذرائع نے بتایا کہ اسپتال کی انتظامیہ نے سائنسی بنیادوں پرکچرا جلانے والی مشین کی مرمت کا ٹھیکہ متعددبار من پسند فرموںکودے چکی ہے جس کی مرمت کی مد میں لاکھوں روپے ظاہرکیے جا چکے ہیں لیکن مشین تاحال خراب پڑی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ اسپتال کی متعددگاڑیاں بھی غائب ہیں ان میں سے دوگاڑیاں اسپتال کے اے ایم ایس کے زیراستعمال میں ہیں اور2 ڈرائیورزکی بھی ڈیوٹیاں گھر پرلگادی گئی ہیں،اسپتال کے دیگر ڈاکٹروں اور ملازمین نے بتایا کہ اسپتال کے انتظامی سربراہ کی تعیناتی بھی قواعد کے برخلاف ہے جو گذشتہ 5سال سے کام کررہے ہیں، قواعد کے مطابق اسپتال کا انتظامی سربراہ گریڈ 20 اور جنرل کیڈر کی اسامی ہے لیکن اس اسامی پرگریڈ21کے ٹیچنگ کیڈر کے پروفیسرتعینات ہیں جو ڈاؤیونیورسٹی کے ملازم ہیں، اسپتال ملازمین نے اسپتال میںکی جانیوالی بدعنوانیوں، ٹینڈروں میں ہونیوالے گھپلوں کی تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
سیکڑوں مریض متاثر ہونگے،تفصیلات کے مطابق صوبے کے سب سے بڑے ٹیچنگ اسپتال کی انتظامیہ کی عدم توجہی کے باعث تین یونٹس بندکردیے گئے، خون کی رگوں کی سرجری کا یونٹ 2ماہ سے غیر فعال تھا جواب بند کردیا گیا ہے، یہ یونٹ سول اسپتال میں 1990میں قائم کیا گیا تھا ، ویسکیولرسرجری یونٹ میں خون کی رگوںکی سرجری کی جاتی تھی جس کے سربراہ ڈاکٹر سہیل احمد خان تھے، وہ پہلے ایف آر سی ایس ویسکولر سرجن ہیں جو رگوںکے متاثر ہونے کا علاج کرتے تھے۔
2 ماہ قبل ڈاکٹر سہیل احمد خان نے اسپتال سے ایک سال کی رخصت لے کر بیرون ملک ملازمت اختیارکرلی جس کی وجہ سے ویسکولرسرجری یونٹ بندکردیا گیا، اس وارڈ کے دیگر عملے کو مختلف وارڈز میں تبادلہ کردیا، یونٹ کے بند ہونے سے متاثرہ مریضوں کو نجی اسپتال بھیج دیاجاتا ہے، اس شعبے میں زیادہ تر فائرنگ سے رگوں کے کٹنے اور رگوں کے متاثرہونے کے مریض علاج کراتے تھے، اسپتال کے انتظامی ذرائع کے مطابق میگزوفشلری (جبڑے کی سرجری کا یونٹ )کو بھی بندکردیا گیا ہے۔
اس شعبے کے سربراہ ڈاکٹر شاکر مستعفی ہوکر نجی اسپتال کے ڈینٹل کالج کے سربراہ مقرر ہوگئے تھے جس کے بعداسپتال انتظامیہ نے اس شعبے کو بھی بندکردیا ، شعبے میں دانتوں اور مسوڑوں سمیت ٹوٹے جبڑے کا علاج کیا جاتا تھا ، نجی شعبے میں جبڑے کا علاج انتہائی مہنگا ہونے کی وجہ سے متاثرہ مریضوں کو حصول علاج میں شدید دشواریوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، اسپتال کی انتظامیہ نے جبڑے کے یونٹ کے سربراہ کے مستعفی ہونے کے بعدکسی اور ڈاکٹرکو تعینات نہیںکیا جس کی وجہ سے یہ یونٹ بھی بندکردیا گیا۔
ذرائع نے بتایاکہ اسپتال میں چیسٹ سرجری یونٹ کا شعبہ بھی کئی سال سے بند پڑا ہے، اس مرض میں مبتلا آنے والے مریضوں کو بھی نجی اسپتال بھیجا جاتا ہے،سول اسپتال میں تین اہم یونٹس کے بند ہونے سے اسپتال کی ساکھ متا ثر ہوگئی ہے ، دریں اثنا اسپتال میں صفائی وستھرائی کا ٹھیکہ نجی شعبے میں دیے جانے کے باوجود بھی اسپتال میںگندگی وغلاظت کی ڈھیرے لگے ہوئے ہیں ، معلوم ہوا ہے کہ اسپتال کے اے ایم ایس جنرل نے اسپتال کی صفائی کا ٹھیکہ ایک نجی من پسندفرم کودیا ہے جس کوماہانہ 8لاکھ40ہزار روپے ادا کیے جاتے ہیں۔
ٹھیکے کے مطابق 100خاکروبوں نے اسپتال کی صفائی وستھرائی کاکام کرنا تھا ،ذرائع نے بتایا کہ اسپتال میں صرف 30 خاکروبوں سے صفائی وستھرائی کا کام لیا جاتا ہے ،باقی 70خاکروب اسپتال نہیں آتے اوران کی تنخواہ خوردبرد کرلی جاتی ہے، ذرائع نے بتایا کہ اسپتال میں 48 پرائیویٹ سیکیورٹی گارڈز بھی رکھے گئے ہیں،ان میں سے بیشتر اسپتال میں اپنی ڈیوٹیاں نہیں دیتے اور بعض گارڈزاسپتال انتظامیہ کے گھروں پر ڈیوٹیاں دے رہے ہیں، ذرائع نے مزیدبتایا کہ اسپتال کے طبی فضلے کو سائنسی بنیادوں پر ٹھکانے لگانی والی انسلیئرلیٹر مشین بھی گذشتہ دوسال سے خراب پڑی ہیں ،کچرے میں سے انجکشن ودیگراشیا نکال کرفروخت کیے جانے کا بھی انکشاف ہوا ہے جبکہ فالتوکچر ے کو غیر سائنسی بنیادوں پرجلایا جارہا ہے۔
معلوم ہوا ہے کہ اسپتال کے کچرے کو او پی ڈی کینٹن کے سامنے جمع کیاجاتا ہے اور رات کی تاریکی میں کچرے کو مبینہ طور پرفروخت کیا جارہا ہے ، ذرائع نے بتایا کہ اسپتال کی انتظامیہ نے سائنسی بنیادوں پرکچرا جلانے والی مشین کی مرمت کا ٹھیکہ متعددبار من پسند فرموںکودے چکی ہے جس کی مرمت کی مد میں لاکھوں روپے ظاہرکیے جا چکے ہیں لیکن مشین تاحال خراب پڑی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ اسپتال کی متعددگاڑیاں بھی غائب ہیں ان میں سے دوگاڑیاں اسپتال کے اے ایم ایس کے زیراستعمال میں ہیں اور2 ڈرائیورزکی بھی ڈیوٹیاں گھر پرلگادی گئی ہیں،اسپتال کے دیگر ڈاکٹروں اور ملازمین نے بتایا کہ اسپتال کے انتظامی سربراہ کی تعیناتی بھی قواعد کے برخلاف ہے جو گذشتہ 5سال سے کام کررہے ہیں، قواعد کے مطابق اسپتال کا انتظامی سربراہ گریڈ 20 اور جنرل کیڈر کی اسامی ہے لیکن اس اسامی پرگریڈ21کے ٹیچنگ کیڈر کے پروفیسرتعینات ہیں جو ڈاؤیونیورسٹی کے ملازم ہیں، اسپتال ملازمین نے اسپتال میںکی جانیوالی بدعنوانیوں، ٹینڈروں میں ہونیوالے گھپلوں کی تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا ہے۔