لاپتہ افراد اور بلاکڈ شناختی کارڈز کا مسئلہ
ایک جمہوری سسٹم میں اس قسم کے ایشوز کا حل پارلیمان کے بائیکاٹ یا بلاجواز مزاحمتی سیاست میں ہر گز نہیں
QUETTA:
پیپلز پارٹی نے اپنے کارکنوں کو لاپتہ کرنے کے خلاف گزشتہ روز قومی اسمبلی اور سینیٹ میں احتجاج کرتے ہوئے دونوں ایوانوں سے واک آؤٹ کیا۔ ادھر اے این پی نے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر اندازاً 4 لاکھ سے زائد شناختی کارڈ بلاک کرنے پر احتجاجاً بھوک ہڑتالی کیمپ لگا لیا، قومی اسمبلی کے اجلاس میں نکتہ اعتراض پر اظہار خیال کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے سوال کیا کہ ایک ہی پارٹی کے تینوں افراد کو ملک کے مختلف مقامات سے کیوں اٹھایا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ لاپتہ کارکنوں اور شناختی کارڈ بلاک کیے جانے کے معاملات اگرچہ جداگانہ نوعیت کے ہیں لیکن دونوں کا حل متعلقہ صوبائی حکومتوں سے سیاسی مکالمہ میں مضمر ہے، کوئی جمہوری ملک جبری گمشدگی کے الزامات کا متحمل نہیں ہو سکتاتاہم یہ بھی جمہوری طریقہ نہیں کہ سیاستدان صبح شام ایجی ٹیشن اور ہر ایشو پرمحاذ آرائی کریں۔
ایک جمہوری سسٹم میں اس قسم کے ایشوز کا حل پارلیمان کے بائیکاٹ یا بلاجواز مزاحمتی سیاست میں ہر گز نہیں۔ وفاق اور متعلقہ صوبائی حکومتیں اس بات کی آئینی طور پر پابند ہیں کہ لاپتہ افراد کی بازیابی جلد ممکن بنائی جائے، صرف قانون کی حکمرانی کا دعوی کرنا کافی نہیں۔ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے سندھ اسمبلی میں کہا کہ غلام قادر مری سمیت پیپلز پارٹی کے تین افراد اغوا نہیں ہوئے، انھیں سادہ لباس میں افراد لے کر گئے ہیں، مگر سوال ہے کہ سادہ لباس والے کون تھے؟ یہاں تو ''تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے'' والا معمہ ہے۔
ایک خبر کے مطابق غلام قادر مری کے تین ساتھیوں سمیت اغوا کا مقدمہ جام شورو تھانے میں درج کر لیا گیا ہے ادھر وزیرقانون پنجاب راناثناء اللہ کا کہنا ہے لوگوں کو اٹھانے کے حالیہ واقعات میں وفاقی حکومت ملوث ہے نہ سندھ حکومت۔ واضح رہے اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایک لاپتہ شہری کی عدم بازیابی پر اظہار برہمی کرتے ہوئے اسے تکلیف دہ بات قرار دیا ہے۔ جہاں تک بلاکڈ شناختی کارڈوں کا تعلق ہے اس حوالہ سے پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات پر وزارت داخلہ، قانون و انصاف غور کر رہی ہے، سیاسی جماعتوں کو احتجاج سے پہلے افغان مہاجرین کے بارے میں بلوچستان سمیت دیگر صوبوں کے تحفظات کا بھی ادراک کرنا چاہیے ، یہ کوئی لاینحل مسئلہ نہیں، صرف جمہوری اسپرٹ کی بات ہے۔