پُرخطر خارجہ پالیسی

امریکا کے میزائل حملے نے مطلع صاف کر دیا اور دنیا دو حصوں میں تقسیم ہوتی نظر آئی


Anis Baqar April 14, 2017
[email protected]

BEIRUT: آج ان سطور کو تحریر کرتے وقت جوانی کے وہ دن یاد آرہے ہیں جب طلبا نہ صرف اپنے مسائل بلکہ دنیا بھر کے مظلوموں کے لیے آواز اٹھایا کرتے تھے جس کے نتیجے میں پاکستان نے امریکی معاہدوں سے ظاہری طور پر نجات پا لی مگر جس نے براہ راست ان معاہدوں کو طاق نسیاں برد کیا اس کو اسی ملک کے حاکموں سے پھانسی دلوا دی، مگر کسی نہ کسی طریقے سے امریکا نے ان معاہدوں میں پاکستان کو پھنسانے کی سازش تیار کر لی، وہ بھی اسلام کے نام پر۔ ابھی پورے طور سے شام کی جنگ ختم بھی نہ ہوئی تھی کہ اسرائیل کی آہ و زاری نے امریکا کو سوتے سے جگا دیا۔

بقول نیتن یاہو کے شام نے ان علاقوں میں زہریلی گیس سے20 بچوں کو موت کی نیند سلا دیا مگر اسرائیل خود اپنے وہ حملے بھول گیا جس میں اس نے سیکڑوں بچوں اور عورتوں کو ہلاک کیا۔ شام کی سرزمین پر امریکا نے جو میزائل داغے ان میں شامی فوج کا بڑا جانی نقصان ہوا اور اس طرح امریکا نے وہ تمام وعدے توڑ ڈالے جن کا اس نے انتخابات کے دوران وعدہ کیا تھا۔ اس کی وجہ سے امریکا کے طول و عرض میں عوامی مظاہروں نے جنم لیا۔ یہ مظاہرے اپنی نوعیت میں ان مظاہروں جیسے تھے جو جنگ ویتنام کے خلاف ہوا کرتے تھے۔

اس طرح ٹرمپ نے نہ صرف انتخابی معاہدوں کی خلاف ورزی کی بلکہ جو ٹرمپ نے داعش کے خلاف جنگ کرنے کا دعویٰ کیا تھا جب کہ یہ حملے داعش اور ان کے انتہا پسند حامیوں کی حمایت میں کیے گئے۔ اس طرح اس جنگ کے نقصانات تو جو ہونے تھے وہ ہوئے مگر دنیا کی سیاست کے موقف سامنے آگئے اور جو چیزیں اب تک نمایاں نہ تھیں روشن ہوگئیں۔ امریکا کے میزائل حملے نے مطلع صاف کر دیا اور دنیا دو حصوں میں تقسیم ہوتی نظر آئی۔ ایک موقف جو امریکا کے ساتھ تھا ان میں اسرائیل، سعودی عرب، ترکی اور امریکا ایک آواز تھے جب کہ روس، چین، ایران دوسری جانب کھڑے تھے۔ اس موقف پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آگے چل کر اگر امریکا نے کوئی بڑا قدم اٹھایا تو امریکی اتحادی پاکستان کو بڑے مخمصے میں ڈال سکتے ہیں۔ جیساکہ عمران خان اس موقف کو واضح طور پر بیان کر رہے ہیں۔

یہاں پر عالمی سطح پر گوکہ بھارت نے امریکی موقف کی تائید نہ کی مگر اصولی طور پر چونکہ اسرائیلی لابی کے ساتھ ہے اس طرح ہم بھارت کے موقف کی ہاں میں ہاں کے قریب تر ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم خود سی پیک کی نفی پر مامور ہیں اور ہم امریکی موقف کے ساتھ ہیں۔ اس میزائل حملے کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں چینی مندوب کی گفتگو اگر آپ نے پڑھی ہو یا سنی ہو تو صورتحال مزید واضح ہو جائے گی۔ اقوام متحدہ میں چینی مندوب نے برطانیہ کے مبصر کے متعلق فرمایا کہ تم جھوٹے اور مکار ہو اس طرح چین نے روس کے موقف کی پرزور تائید کی۔

اس گفتگو سے یہ ظاہر ہوا کہ چین کھل کر روس کے موقف کی تائید میں ہے، لہٰذا کسی اور بڑے تصادم میں روس اور چین کا موقف یکساں ہوگا اور ایران ان کا طرفدار ہوگا۔ اس کے علاوہ ایک اور پُرخطر بات یہ ہے کہ ایران نے یمن کے باغیوں کی حمایت کر ڈالی ہے اور شام میں روس نے اپنی ٹیکنالوجی نصب کر ڈالی ہے۔ گویا یمن ایک نئی پراکسی جنگ کا میدان بننے کو ہے۔ جب کہ ابھی بھی شام جنگ کی زد میں ہے۔ امریکا کا تازہ حملہ جو شام پر ہوا وہ ایک قسم کی نئی جنگ کا پیش خیمہ ہے جس کے واضح اشارے یمن جنگ سے مل رہے ہیں۔ جہاں سعودی عرب اور اس کے حمایتیوں کے درمیان جنگ پھیلتی نظر آرہی ہے۔ مگر اس مسئلے پر پی ٹی آئی کے علاوہ تمام سیاسی جماعتیں خاموش ہیں جب کہ چین اور روس زبردست مخالفت میں یکجا ہیں اور ان دونوں ملکوں نے پاکستان میں سی پیک کے بنیادی ستونوں کے انداز میں اپنے پنجے گڑا رکھے ہیں۔

سی پیک میں چین اور روس کی توجہ ایک نہایت طویل المعیاد منصوبوں کا حصہ معلوم ہوتے ہیں۔یہ بات واضح نظر آتی ہے کہ روسی اور امریکی بلاک دونوں پاکستان کے اقتصادی میدان میں دلچسپی لے رہے ہیں اور دونوں بلاک ایک دوسرے کے شدید مخالف ہیں۔ اس لیے پاکستان کو خصوصاً بڑی احتیاط سے کام لینا ہوگا ورنہ پاکستان کو نہ صرف اقتصادی مشکلات بلکہ جنگی صورتحال کا بھی سامنا ہوسکتا ہے۔ عمران خان نے کئی مرتبہ اس جانب اشارہ کیا ہے۔

پاکستان کے مفادات کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ اور ذرا سی غلطی ملک کو پڑوس میں ایک مشکل میں ڈال سکتی ہے۔ 1965ء کی جنگ میں ایران نے پاکستان کی عملی اور سیاسی مدد کی تھی لہٰذا پاکستان کو اپنی اس سرحد کو بھی اہمیت دینے کی ضرورت ہے۔ خصوصاً ایسی صورت میں جب کہ افغانستان اور بھارت سے پاکستان کے تعلقات اپنے پڑوسی ملکوں سے خاصے کشیدہ ہیں اور ایسی صورت میں پاکستان ترکی پر انحصار کیے بیٹھا ہے۔ ماضی میں تو اس قدر کشیدگی سعودی عرب اور ایران میں نہ تھی مگر حالیہ دنوں میں امریکی کروز میزائل حملے نے نئی کشیدگی کو جنم دیا ہے جس سے ایران اور سعودی عرب میں کشیدگی میں خاصا اضافہ ہوگیا ہے۔

روسی ٹیلی ویژن نے صدر ٹرمپ کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ مستقبل کی شامی حکومت میں صدر اسد کا کوئی مقام نہ ہوگا، یہ بیان بالکل ایسا ہی ہے کہ جیسا صدر بش نے صدام حسین کے لیے دیا تھا۔ یہ عجیب مذاق ہے کہ دنیا میں ایک ملک دوسرے ملک کے لیے اپنی پسند کی حکومت کا چناؤکرے مگر صدام حسین کے لیے عراقی عوام میں نرم گوشہ نہ تھا مگر صدر اسد کی حکومت کو شامی میں کافی حمایت حاصل ہے۔ اس جنگ میں لاکھوں لوگ اپنی جان سے گئے، اپاہج ہوئے اور مغربی ممالک میں پناہ لی پھر بھی یہ جنگ اپنے انجام کو نہ پہنچی اور النصرہ داعش اور دیگر جہادیوں کو امریکی حمایت حاصل ہے۔ اور ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ دونوں طرف پھر ایک نئی جنگ کی تیاری ہو رہی ہے اور پاکستان موجودہ صورتحال میں اس جنگ کا حصہ بن سکتا ہے۔

حالانکہ وزارت خارجہ کی جانب سے ایسے بیانات جاری ہو رہے ہیں کہ پاکستان، ایران اور سعودی عرب کے مابین ایک مثبت کردار ادا کرے گا۔ مگر عملی طور پر سی پیک میں چین اور روس کا کلیدی کردار ہے اس لیے اس بات کا امکان موجود ہے کہ پاکستان کو واضح کردار ادا کرنا پڑے گا کیونکہ عالمی سطح پر چین نے روس کی خارجہ پالیسی پر صاد کردیا ہے۔ لہٰذا پاکستان کی وزارت خارجہ کے مشیران ایسی صورتحال میں کیا بیان دیں گے۔ اس وقت یمن اور شمالی کوریا دو ایسے مقامات ہیں جہاں کی صورت حال تشویش ناک ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں