نوجوان عمران خان کے ساتھ کیوں
محمد علی جناحؒ نے اپنی زندگی میں کہا تھا کہ میں اپنی جس جیب میں ہاتھ ڈالتا ہوں، کھوٹا سکہ نکلتا ہے
MIRANSHAH:
محمد علی جناحؒ نے اپنی زندگی میں کہا تھا کہ میں اپنی جس جیب میں ہاتھ ڈالتا ہوں، کھوٹا سکہ نکلتا ہے، یہ بات قائد اعظم کی وفات کے بعد درست ثابت ہوئی، جب ابتدائی دنوں میں ہی ''مسلم لیگ'' پاکستان کو اس مقام پر لے آئی کہ ایک فوجی آمر کو عنان حکومت سنبھالنے کا موقع مل گیا۔ ملک کے ''وسیع تر مفاد'' میں جب فیلڈ مارشل ایوب خان نے مارشل لاء کا نفاذ کیا تو عوام کی اکثریت یا تو خاموش رہی یا پھر انھوں نے ایک آمر کا خیر مقدم کیا۔
پھر عوام کے پر زور اسرار پر 1965ء میں جب محترمہ فاطمہ جناح نے ایوب خان کے مقابلے پر صدارتی الیکشن لڑا تو اس میں دھاندلی کر کے نہ صرف محترمہ فاطمہ جناح کو ہرایا گیا بلکہ ان کے کردار پر کیچڑ بھی اچھالا گیا ، پھر رہی سہی کسر موروثی سیاست نے لے لی، جس نے پارلیمنٹ میں مناپلی، مافیا، اجارہ داری اور بعض اوقات کارٹل کا روپ دھار لیا ہے۔ ''لوگ ملک و قوم کے بجائے افراد کے مفادات کے لیے سرگرم ہو چکے ہیں، پاکستان کی سیاسی تاریخ موروثی سیاست کی لمبی چوڑی فہرستوں سے بھری پڑی ہے۔
صرف پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف نگاہ دوڑائیں تو ہمیں ذوالفقار علی بھٹو، نصرت بھٹو، ممتاز بھٹو، بے نظیر بھٹو، مرتضیٰ بھٹو، غنویٰ بھٹو اور بلاول بھٹو جیسے نام دکھائی دیتے ہیں، زرداری فیملی میں حاکم علی زرداری، آصف علی زرداری، فریال تالپور، عذرا پیچھوہو اور منور تالپور وغیرہ نمایاں ہیں، ن لیگ کو دیکھ لیں کئی افراد آپ کو حکومت میں نظر آئیں گے، حقیقت میں پاکستانی سیاست، لغاری، جتوئی، رانا، کھوسہ، چیمہ، مخدوم، بھروانہ، کھر، جتوئی، راجہ، جونیجو، نوانی اور اس طرح کے کئی دوسرے خاندانوں کے نرغے میں رہی ہے۔ خیر ا ن خاندانوں کا مزید ذکر چھیڑا تو کئی کالم لکھے جا سکتے ہیں، مگر ہم آج یہاں ''آزمائے ہوؤں'' کی بات کریں گے اور پھر احاطہ کریں گے کہ ہماری نوجوا ن نسل کیوں ان روایتی سیاستدانوں سے متنفر ہو کر عمران خان کو کیوں پسند کر رہی ہے ۔
یہاں اگر پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پی ایم ایل این اور پیپلز پارٹی کے اقتدار کی تاریخ پر طائرانہ نظر دوڑائیں تو یقیناً حیرت ہوتی ہے کہ عوام نے جنھیں بار بار آزمایا ان جماعتوں نے انھیں بار بار دھوکا دیا۔ 1990ء میں ن لیگ کی حکومت آئی جسے 1993ء میں بی بی نے لانگ مارچ کر کے میاں صاحب سے استعفٰی لیا، اور بعدازاں میاں صاحب کے احتجاج پر بے نظیر کی حکومت تحلیل کی گئی اور پھر 1997ء کے دھاندلی زدہ الیکشن ہوئے۔ ن لیگ جیت گئی، 1999ء میں ڈکٹیٹر نے حکومت ختم کر دی، 2008ء میں بی بی کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی برسراقتدار آئی اور 2013ء میں اپنا دور مکمل کرنے کے بعد ن لیگ اقتدار میں آئی، اب موجودہ حکومت اقتدار کی مدت پوری کرنے والی ہے، اس دوران ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے ،کمزور پالیسیوں کی وجہ سے دنیا کا ہر چھوٹا بڑا ملک ہمیں آنکھیں دکھا رہا ہے، ہمارا پالا ہوا ملک افغانستان آج ہمیں امداد دینے کی باتیں کر رہا ہے۔
آج اس ملک کے نوجوان عمران خان کو آخری امید سمجھ کر دیکھ رہا ہے، میں نے ایک نوجوان سے بات کی کہ آپ عمران خان کو کیوں پسند کرتے ہیں، تو اس کی باتیں سن کر مجھے اچھا لگا۔ اُس نے کہا کہ وہ عمران خان کو اس لیے پسند کرتے ہیں کہ وہ کرپٹ نہیں ہے، وہ کرپٹ افراد کے خلاف ہے، وہ پاکستان کو کرپشن سے پاک کرنا چاہتاہے، وہ سمجھتا ہے کہ لیڈر کو ہر حال میں صادق اور امین ہونا چاہیے۔ وہ سچا پاکستانی ہے، پاکستان سے پیار کرتا ہے، پاکستان کے نام پر ووٹ لیتا ہے، انڈیا سے دوستی کے نام پر نہیں۔ اس کی یہی باتیں اسے نوجوان نسل کا ہر دلعزیز رہنما بنا دیتی ہیں۔ بقول اقبالؒ
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
عمران خان پورے یقین سے کہتا ہے کہ ''میں نے پاکستان کے کرپٹ ترین لیڈرز کو بے نقاب کر دیا ہے۔ کرپٹ لیڈرز کچھ بھی کرلیں وہ ایک صاف ستھرے پاکستان کا راستہ نہیں روک سکتے۔ وقت آنے والا ہے جب ہم اپنی آزاد خارجہ پالیسی بنائیں گے۔ سبز پاسپورٹ کی دنیا سے قدر کروائیں گے'' آج حقیقت اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ عمران خان کا ایک متبادل قیادت کے طور پر ابھر کر سامنے آنا موجودہ حکومت کی نااہلی کا ثبوت ہے۔گو عمران خان اور تحریک انصاف سول نا فرمانی اور پارلیمنٹ کی طرف پیش قدمی جیسے اقدامات کے باعث متنازعہ ہو چکے ہیں لیکن عوام کی ایک بڑی تعداد انھیںدیگر سیاستدانوں سے بہتر اور دیانتدار سمجھتی ہے، عمران خان اس وقت مقبول ترین سیاسی رہنما ہیں۔
اس مقبولیت کی کئی ایک وجوہات ہیں مثلاً جس دور میں پاکستانی سیاست کرپشن سے آلودہ ہے اور کئی اراکین اسمبلی اپنے اپنے مہا کرپٹ لیڈروں کے تحفظ کے لیے میدان میں اترے ہوئے ہیں، عمران خان نے کرپشن کے خلاف علم بلند کر رکھا ہے۔ ملک میں سفارش کا دور دورہ ہے اور اس عہد میں عمران خان سفارش کے خلاف باتیں کررہا ہے۔ پاکستان کے بڑے سیاستدانوں کی دولت ملک سے باہرہے مگر عمران خان کا بیرون ملک ایک مرلہ بھی نہیں۔ اسی لیے ''چوروں کی بارات'' اس کی مخالفت کررہی ہے۔ عمران خان پاکستان کو آگے لے جانے کی باتیں کرتا ہے جب کہ ہمارے باقی بڑے بڑے لیڈر پاکستان کی پروا ہی نہیں کررہے، ہمارے کرپٹ سیاستدانوں نے عام آدمی کے لیے بہت سے دروازے بند کر رکھے ہیں۔
عمران خان بند دروازوں کو کھولنے کی باتیں کررہا ہے۔ ہمارے کرپٹ نظام کے بڑے مگر مچھ مہنگائی، بیروزگاری اور غربت کو نظر انداز کرکے اپنی تجوریاں بھرنے کے چکر میں ہیں، عمران خان ملک کو مہنگائی، بیروزگاری اور غربت سے نکال کر ایک خوشحال پاکستان کا خواہشمند ہے۔ عمران خان پاکستان کی عظمت کا قائل ہے جب کہ پچھلے کئی سال کی سیاسی قیادت نے پاکستان کو دلدل میں پھنسایا ہوا ہے۔ دیگر لیڈروں کے پاس کل آبادی کے ساٹھ فیصد یعنی نوجوانوں کے لیے کوئی پروگرام ہی نہیں، ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت ملک میں پڑھے لکھے بیروزگاروں کی تعداد چالیس لاکھ کے لگ بھگ ہے جب کہ عمران خان نوجوانوں کو ایڈریس کررہا ہے اسی لیے عمران خان نوجوانوں میں مقبول ترین ہے۔ 2013ء میں مک مکا سیاست کے ٹھیکیداروں نے نظام کے اہم پرزوں کو خرید کر عمران خان کو الیکشن ہرایا تھا۔
عمران خان تعلیمی اداروں اور میدانوں کو آباد دیکھنا چاہتا ہے جب کہ دوسرے بیرونی ملکوں میں ا پنی دولت کے انبار دیکھنا چاہتے ہیں۔ اب تو معاملہ یہاں تک آن پہنچا ہے کہ ایک طرف اکلوتا عمران خان ہے اور دوسری طرف لٹیروں کا ایک ہجوم نظر آرہا ہے۔شیخ سعدی ؒنے فرمایا تھا کہ''اگر چڑیوں کا اتحاد ہو جائے تو وہ شیر کی کھال اتار سکتی ہیں''
یعنی اگر ان پرائز بانڈ سیاستدانوں کے سامنے نوجوان اکٹھا ہوگئے تو ان کو بھاگنے کی راہ نہیں ملے گی۔ میں پی ٹی آئی کا سپورٹر نہیں ہوں مگر سسٹم کو بہتر بنانے کے لیے اس ملک کی خاطر ہر اُس شخص کاساتھ دوں گا جو اس ملک میں ایک ایسا نظام وضع کرے گا جو اس ملک کے لیے بہتر ہو، آخر میں میں اتنا ہی کہوں گا کہ حکمرانوں کو بدلتے رہنا چاہیے، جینوئن لیڈرشپ کو آگے آنے کا موقع ملنا چاہیے۔ مہذب ملکوں میں بارک اوباما جیسے لوگ بھی اقتدار کی بلندیوں تک پہنچ جاتے ہیں لیکن ہمارے ہاں اہم عہدے بااثر سیاسی خاندانوں میں ہی گھومتے رہتے ہیں۔