عظیم انقلابی شہید صوفی عنایت اللہ

مسائل کا مکمل حل ایک کمیونسٹ سماج یا صوفی شاہ عنایت کی امداد باہمی کے آزاد سماج میں ہی مضمر ہے


Zuber Rehman April 13, 2017
[email protected]

18ویں صدی انقلابات کی صدی تھی۔ 8 جنوری 1718 کو جھوک ٹھٹہ میں صوفی عنایت اللہ شاہ فقیر کی اشتراکی بستی کو نیست و نابود کرنے کے لیے مغل بادشاہ کے کارندوں نے صلح کے نام پہ دھوکا دے کر شاہ صاحب کو شہید کیا ، اس کے بعد ٹھٹہ کے شہر میں انسانیت کی بھلائی اور شعور سے لیس کرنے والے سر مبارک کو نیزے پر گھمایا گیا اور دہلی کے مغل شہنشاہ کے دربار میں پیش کیا گیا۔ 9 جنوری 1718 کو ٹھٹہ شہر میں 24000 کسانوں کا قتل کیا گیا، تو اسی صدی میں جرمنی میں 30000 کسانوں کا قتل ہوا۔ ان کے عظیم کسان رہنما کامریڈ جیمز، جو کہ ملک سے باہر تھے، کو صلح کے نام پر بلاکر قتل کیا گیا۔ اور اسی صدی میں 1789 میں فرانس میں بادشاہت کے خلاف عوامی انقلاب آیا تو لوئس دہم کا سر قلم کرکے پیرس کی گلیوں میں نیزے پر گھمایا گیا۔

عنایت اللہ شاہ نے لوگوں کو آزاد کرانے کی خاطر ''جو بوئے، وہ کھائے'' کا نعرہ بلند کرکے پہلی مثال خود اپنے خاندان کی جاگیر میں قائم کی، جہاں رنگ و نسل، ذات اور مذہب سے بالاتر سب انسان برابر تھے، جو پیداوار ہوتی تھی وہ کمیون کے انتظام کے لیے تھوڑا حصہ دینے کے علاوہ سب کسان خود بانٹ لیتے تھے۔ جاگیرداروں کے ظلم کے ستائے ہوئے مظلوم انسانوں نے جھوک کا رخ کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے جھوک میں ہزاروں خاندان بس گئے۔ عنایت اللہ شاہ کی یہ اشتراکی بستی جاگیرداروں کو نہ بھائی، اس لیے کہ ان کی عقیدہ پرستی، خانقاہ شاہی اور پیر پرستی کی جڑیں اکھڑنے لگیں اور ان کے تخت و تاج ہلنے لگے۔ 1716 میں نواب اعظم خان کو ٹھٹہ کا ناظم بنادیا گیا، جو شاہ عنایت اللہ کا سخت دشمن تھا۔

ایک طرف ملاؤں سے کافر کا فتویٰ جاری کروایا تو دوسری طرف اپنی اور علاقے کے جاگیرداروں کی ہتھیار بند فوج کو اکٹھا کرکے 12 اکتوبر 1716 کو جھوک پر حملہ کردیا۔ اس وقت دہلی کے پایہ تخت پہ مغل سلطنت کے بادشاہ فاروق سیار تخت نشین تھے۔ جب بادشاہ کے آلہ کاروں نے جھوک پر حملہ کیا تو عنایت اللہ شاہ کے مسلح تربیت یافتہ محافظین خندقیں کھود کر اس میں محفوظ ہوتے تھے اور حملہ آوروں پر شب خون مارتے تھے۔ وہ مسلسل اس طرح شب خون مار کر دشمنوں کو بھاری مالی اور جانی نقصان پہنچاتے رہے، جس کے نتیجے میں ان کے حوصلے پست ہوگئے۔

تین ماہ تک کسانوں کے خلاف مغل شاہی کی فوج مسلسل جنگ کرکے جب جھوک کو فتح نہ کرسکی تو سازش کا سہارا لیا۔ بادشاہ کے مسلح غنڈے سفید جھنڈے کے ساتھ قرآن شریف کو ضامن بنا کر صلح کرنے کے بہانے دھوکے اور فریب سے شاہ عنایت اللہ کو جھوک سے ناظم کے دربار میں لائے جہاں عہد شکنی کرتے ہوئے گرفتار کرکے شاہ صاحب کو ہتھکڑیاں اور بیڑیاں پہنا دی گئیں۔ انھوں نے شاہ صاحب کو حکومت میں حصہ دینے اور بیش بہا فوائد دینے کی پیش کش کی، جسے صوفی عنایت نے ٹھکرا دیا۔ اس کے بعد سید عنایت اللہ شاہ فقیر کے سامنے بھائی اور بھتیجے کو قتل کیا گیا، پھر بھی وہ جھکنے اور بکنے کو تیار نہ ہوئے، اس کے بعد شاہ صاحب نے دلیری سے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا کہ ''میرے نظریات اور اصول مجھے اپنی زندگی سے زیادہ عزیز ہیں، میں موقع پرستی، بے اصولی اور بزدلی کی زندگی سے دکھوں، عذابوں اور بہادری کی موت کو سو بار بہتر سمجھتا ہوں''۔

بالآخر کسانوں کے عظیم رہنما صوفی عنایت شاہ کا 8 جنوری 1718 کو سر مبارک قلم کر کے ٹھٹہ شہر کی گلیوں میں گھمانے کے بعد سر کو نیزے پر چڑھا کر دہلی کے شہنشاہ فاروق سیار کو بھیجا گیا۔ دوسرے دن 9 جنوری کو جھوک پر بادشاہ اور وڈیروں کے آلہ کاروں نے حملہ کر کے اسے جلا کر نیست و نابود کردیا اور تقریباً 24000 بے قصور انسانوں کو قتل کرکے خون کی ندیاں بہادی گئیں۔ صوفی عنایت اللہ سندھی اور مسلمان تھے، جب کہ قاتل بھی سندھی اور مسلمان تھے، اور ٹھٹہ میں جن چوبیس ہزار کسانوں کو شہید کیا گیا ان میں سب ہی سندھی اور زیادہ تر مسلمان ہی تھے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ طبقاتی لڑائی رنگ، نسل، ذات پات، مذہب اور قوم سے بالاتر ہوتی ہے، باقی تمام لڑائیاں انسانوں کو تقسیم کرنے، فرقہ واریت میں بانٹنے اور طبقاتی لڑائی سے دور کرنے کی مذموم سازشیں ہوتی ہیں۔

اسی قسم کی بستی آج سے تین سو سال قبل پنجاب میں ''پریم نگری'' کے نام سے بسائی گئی تھی۔ 1973 میں پختونخوا ہشت نگر میں کسانوں کی زمین پر قبضے کی تحریک -78 1977 میں بلوچستان میں پٹ فیڈر کے کسانوں کی زمین کی حفاظت کی تحریک قابل ذکر ہیں۔ اس کے باوجود برصغیر میں جاگیرداری کی باقیات عوام پر مسلط ہے، خاص کر سندھ اور بلوچستان میں۔

یورپ میں تو سولہویں صدی سے اٹھارہویں صدی تک کسانوں، کھیت مزدوروں اور کارخانوں کے مزدوروں نے عظیم تحریکیں چلا کر جاگیرداری کا خاتمہ کردیا تھا۔ مگر آج یورپ اور امریکا سمیت دنیا بھر میں جاگیرداری کی جگہ عالمی سرمایہ داری عوام پر مسلط ہوگئی ہے۔ جاگیرداری کے خلاف سندھ کی ہاری تحریک (کسان تحریک) بہت پرانی ہے۔ یہاں 1930 میں ہاری کمیٹی تشکیل پائی، جس کے روح رواں سید جمال الدین بخاری، جی ایم سید، کامریڈ سائیں عزیز اللہ، سوبھوگیان چندانی، عزیزسلام بخاری، کامریڈ حیدر بخش جتوئی اور رسول بخش پلیجو ہیں۔ سندھ کی تاریخ میں پہلی بار 2017 کی شروعات میں تھرپارکر میں سندھ ہاری کمیٹی کے تحت ''صوفی شاہ عنایت شہید'' کی یاد میں تھر میوزیم اسلام کوٹ میں کانفرنس ''جو کھیڑے سو کھائے'' منعقد ہوا۔ اس کانفرنس کی صدارت گلاب پیرزادہ نے کی، جب کہ مہمان خصوصی کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے سیکریٹری جنرل کامریڈ امداد قاضی تھے۔

اس کانفرنس میں دیگر لوگوں کے علاوہ تاریخ رگستان کے مصنف رائے چند میگھواڑ، نامور ادیب عثمان ڈیپلائی، پروفیسر نور احمد جنجھی، اور کامریڈ جام ساقی نے بھی شرکت کی۔ یہ سب لوگ سرفروش صوفی شاہ عنایت شہید کی یاد میں آئے ہوئے تھے۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ آج بھی سندھ کے چند وڈیروں اور پیروں کے پاس لاکھوں ایکڑ زمین ہیں، جب کہ کروڑوں ہاری بے زمین ہیں۔ جب ہاری زمین سے بے دخل ہوتے ہیں تو اپنی جگہ کو خیر باد کہہ کر دبئی، عرب دنیا، یورپ، حیدرآباد، کراچی، اسلام آباد میں مزدوری کرنے کے لیے جانے پر مجبور ہوتے ہیں۔

یہاں وڈیروں نے نجی جیلیں بنا رکھی ہیں۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ عدالتی حکم پہ اکثر ہاریوں کی نجی جیل سے آزادی ملتی ہے جو کہ زیادہ تر بلکہ سبھی ہندو (کولھی، بھیل، میگھواڑ) ہوتے ہیں۔ مگر قید میں رکھنے والے وڈیروں کو کوئی سزا نہیں ملتی۔ کسان اپنے حقوق کے لیے تو لڑ رہے ہیں، لیکن اس کے مسائل کا مکمل حل ایک کمیونسٹ سماج یا صوفی شاہ عنایت کی امداد باہمی کے آزاد سماج میں ہی مضمر ہے۔ سچے جذبوں کی قسم وہ دن جلد آنے والا ہے، جب سب مل کر کام کریں گے اور مل کر پیداوار کو بانٹ لیں گے۔ کوئی ہاری ہوگا اور نہ کوئی وڈیرہ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں