یاد کرو اللہ کی نعمت

یاد کرو اللہ کی نعمت اور یاد کرو وہ دن کہ تمہارے طور، اطوار، تیور صرف تلوار کو جانتے تھے


[email protected]

فرمان الٰہی ہے ''اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اور اللہ سے ڈرو، جیساکہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔ تم کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو۔ سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور جدا جدا نہ ہو۔ اللہ کے اس احسان کو یاد کرو جو اس نے تم پرکیا ہے۔ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے۔ اس نے تمہارے دل جوڑ دیے اور اس کے فضل و کرم سے تم بھائی بھائی بن گئے۔ تم آگ سے بھرے ہوئے گڑھے کے کنارے کھڑے تھے۔ اللہ نے تم کو اس میں گرنے سے بچالیا۔ اس طرح اللہ اپنی نشانیاں تمہارے سامنے روشن کرتا ہے شاید کہ ان علامتوں سے تمہیں اپنی فلاح کا سیدھا راستہ نظر آئے۔'' (آل عمران، آیات نمبر 103-102)

یاد کرو اللہ کی نعمت اور یاد کرو وہ دن جب بنت حوا کلی بنتی، کلی کی آنکھ تک کھلتی، دنیا میں آتی مگر ایک نظر دنیا کو دیکھنے نہ پاتی کہ زندہ درگور کردی جاتی۔عورت ظلم کی چکی میں دانۂ گندم کی طرح پستی رہی نہ کوئی داد نہ فریاد، نہ حق نہ آواز۔

کیسی جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں بھٹک رہے تھے تم

یاد کرو اللہ کی نعمت اور یاد کرو وہ دن کہ تمہارے طور، اطوار، تیور صرف تلوار کو جانتے تھے۔ انسان سے زیادہ حیوان تمہاری چاہت کا نشان تھا ایک حیوان کے جھگڑے کی خاطر لڑنے مرنے پر اتر آتے تھے۔ انسانی نعشوں کے کشتوں کے پشتے لگ جاتے تھے۔ بات ہی بات میں، کھیل ہی کھیل میں جنگ و جدل کے طبل بجنے لگتے تھے۔ عصبیت کے آتش فشاں جبل پھٹنے لگتے تھے۔ خون ناحق کے ندی نالے بہنے لگتے تھے۔ سرزمین خون سے رنگین ہوجاتی تھی۔ کیسے کیسے آگ اور خون کے کھیل، کھیل رہے تھے تم!

یاد کرو اللہ کی نعمت اور یاد کرو وہ دن کہ زندگی ایک طوفان بنی ہوئی تھی۔ ایسی حالت زار کہ انسان زندگی سے بیزار، موت سے ہمکنار ہونے کا طلبگار، دامن زندگی تار تار، بحر و بر، خشک و تر، فساد و شر کے مد و جزر سے زیر و زبر، کیسی کالی کالی گھٹاؤں میں، گھٹی گھٹی فضاؤں میں جی رہے تھے تم!

یاد کرو اللہ کی نعمت اور یاد کرو وہ دن کہ جہالت، عداوت اور نفرت کی لعنت تمہیں آہستہ آہستہ خراماں خراماں، آپس میں لڑواتی ہوئی آگ سے بھرے ہوئے گھڑے تک لے جا رہی تھی اور تم تھے کہ بس چلے جا رہے تھے۔ اور جب پہنچے وہاں اور جو دیکھا موت کا منظر تو کیسے چیخ رہے تھے تم۔

یاد کرو اللہ کی نعمت اور یاد کرو وہ دن کہ لوگ لگانے میں بڑے پکے تھے اور تم کان کے کچے تھے۔ نہ سوچتے تھے نہ سمجھتے تھے نہ دیکھتے تھے نہ بھالتے تھے، نہ تولتے تھے نہ پرکھتے تھے بھڑ جاتے تھے۔ کچھ لوگ تم میں اچھے بھی تھے۔ جو تمہیں آگ اور خون کا کھیل اس طرح کھیلتے دیکھ کر جس طرح بچے پھلجڑی سے کھیلتے ہیں، دل ہی دل میں کڑھتے تھے۔ تمہاری منت سماجت کرتے، سمجھاتے بجھاتے تو سب کچھ لٹا کر تم ہوش میں آجاتے اور سنبھل جاتے تھے۔ امن کے معاہدے اور سمجھوتے ہوتے۔ لیکن کچھ عرصہ نہ گزرتا کہ تمہاری رگ جہالت پھڑکتی، موج عصبیت جوش میں آتی ۔ ہوش کھو بیٹھتے طیش میں آجاتے۔ جوش میں بہہ جاتے۔ سارے معاہدے اورسمجھوتے ریت کی دیوار کی طرح ڈہ جاتے تھے۔ زخم بھرنے نہ پاتے کہ ناحق ابھر آتے تھے۔

ساری تدبیریں الٹی ہوجاتیں۔ جوں جوں دوا کرتے مرض بڑھتا جاتا ۔ پھر وہی آگ اور خون کے دریا بہنے لگتے۔ عقل کے پجاریوں نے لاکھ جتن کیے لیکن وطن کو امن نصیب نہ ہوا۔ عقل کے ناخن، ناحق خون بہنے کو نہ روک سکے۔

دل خون کے آنسو رونے لگا تھا۔ روح انسان تڑپنے لگی تھی۔ ہاتھ آسمان کی طرف اٹھنے لگے تھے۔ آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے۔ نظریں رحم و کرم کو ترسنے لگی تھیں۔ ہزاروں سال چشم نرگس انسان اپنی بے نوری پہ روتی رہی تھی۔ تب کہیں جاکر اللہ کو تمہاری حالت زار پر رحم آیا تھا۔ اور دعائے خلیل ؑ ثمر بار ہوئی تھی اور چمن میں ایک دیدہ ور بشر بہ اسم محمدؐ جلوہ گر ہوا تھا۔ اور تمہیں سکون اور امن نصیب ہوا تھا۔

سوچ اے انسان تو کس کس کے در کھٹکھٹاتا رہا۔ مگر ہر جگہ ٹھوکریں کھاتا رہا۔ ایک ہی بل سے بار بار ڈسا جاتا رہا۔ سوچ اور بار بار سوچ کہ تجھے امان ملی تو کہاں ملی تھی۔

اب یاد رکھنا اللہ کی نعمت۔ یاد رکھنا اللہ کی رحمت۔ چھوڑنا مت اللہ کی رسی۔ چھوڑنا مت ایمان کا دامن۔ کھونا مت وحدت کی قوت۔ توڑنا مت رشتہ اخوت۔

یہی ہے بس اللہ کی ہدایت۔ یہی ہے بس نبیؐ کی نصیحت کہ ''یاد ہے تو آباد ہے بھولا تو برباد ہے''۔

آخر میں اللہ کا پیغام نوع انسان کے نام!

''لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں۔ تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔'' (حجرات آیت نمبر 13)

آخری نبیؐ کا آخری پیغام اپنی امت کے نام!

''لوگو! تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا رب ایک ہے۔ عربی کو عجمی پر، عجمی کو عربی پر، گورے کو کالے پر، کالے کو گورے پر کوئی برتری نہیں۔ تم میں سے سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔''

اللہ کی عطا کردہ نعمت یعنی وحدت اور اخوت کی قدر کرو، ورنہ وہ قہار اور جبار بن کر احسان فراموشی کی سزا بھی دیتا ہے۔ اللہ ہمیں بصیرت عطا فرمائے اور عبرت پکڑنے کی سعادت نصیب فرمائے (آمین)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں