گرمی کے دنوں کا تعمیری اثر
خزاں کے دنوں میں بہار کا تعمیری اثر محسوس کیا جاسکتا ہے
خزاں کے دنوں میں بہار کا تعمیری اثر محسوس کیا جاسکتا ہے۔ بے جان زمین ہریالی کے خواب دیکھتی ہے۔ بہار، تعبیر کی صورت زمین کی تھکن پر دستک دیتی ہے۔ یہ رنگ ذہن و روح کو تازگی عطا کرتے ہیں۔ پھر دھیرے دھیرے رنگوں کا حسین امتزاج گرمی کے دنوں میں جذب ہوجاتا ہے۔ یہ دن سبزے کی تازگی سے مہکتے ہیں۔ زمین مستقل تغیر سے گزرتے ہوئے گرمی کے موسم میں پرسکون ہوجاتی ہے۔ ماحول میں ٹھہراؤ آجاتا ہے۔ زمین کی یہ توانائی صبر، تعاون اورعطائے جوہر سے سرشار ہوتی ہے۔ یہ جذب کرتی ہوئی برداشت سے بہرہ ور ہوتی ہے۔ تمام تر تبدیلیوں کے لیے کشادگی سمیٹے ہوئے اس موسم میں ہرے بھرے درخت فضاؤں کو تحرک عطا کرتے ہیں۔ درخت ماحول میں اعتدال قائم رکھتے ہیں۔
سردیوں کے موسم میں خود کلامی کی کیفیت خزاں میں اداسی میں بدل جاتی ہے۔ لہٰذا گرمیوں کے دن اظہار، ہلچل اور رابطے کا تسلسل بن جاتے ہیں۔ فطرت کی روح جاگ جاتی ہے۔ آپ جتنا اس کے قریب جاتے ہیں یہ مزید کشادہ ہوجاتی ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ موسموں کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔ 2016 اگر گرم ترین سال تھا تو 2017 گرمی کی شدت کے حوالے سے 132 سال سے پڑتی ہوئی گرمی سے بھی سبقت لے جائے گا۔
زمین کی حدت میں اضافے کے باعث دھرتی انسان کے تنگ ہوتی جارہی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2015 میں انڈیا اور پاکستان میں 4100 افراد لقمہ اجل بنے۔ یہ فطرت کا تخریبی اثر ہے۔ جس کی لپیٹ میں پورا کرۂ ارض آیا ہوا ہے۔ قدرتی آفات بھی شاید فطرت کے غصے کا شدید اظہار ہے۔ جس کے نتیجے میں انسانی مزاج متاثر ہوتا ہے۔ قدرتی حادثات کے بعد اکثر لوگ PTSD (شدید ذہنی دباؤ) کا شکار ہوجاتے ہیں۔ گرمی کی شدت، فضائی آلودگی اور ہوا میں غیر صحت بخش اجزا کی وجہ سے ذہنی امراض میں اضافہ ہوا ہے، انسانی فطرت سکھ اور سکون کے احساس سے جڑی ہوئی ہے یہی وجہ ہے کہ غیر یقینی موسم اسے پریشان کرکے رکھ دیتے ہیں۔
گرمی کا مقابلہ کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں۔ ماحولیاتی آلودگی سے لڑنے کا یہ واحد ہتھیار ہیں۔ درختوں اور جنگلات کی کٹائی سے مکمل گریز کرنا چاہیے۔
سب سے پہلے اسکول جانے والے بچوں کو ماحول کا شعور دینا چاہیے تاکہ وہ موسموں کی شدت سے خود کو محفوظ رکھ سکیں۔ انھیں چھتری، کیپ یا اسکارف وغیرہ استعمال کرنا چاہیے۔ اس موسم میں ہلکے رنگ کے کپڑے اور سر پر سفید تولیہ (خشک یا گیلا) استعمال کرنا چاہیے تاکہ وہ گرمی کی شدت سے بچ سکیں۔کل ہی آفس سے آتے ہوئے میں نے کئی لوگوں کو دیکھا جو موٹر سائیکل پر سوار تھے اور اسکول کے بچے ان کے ساتھ تھے۔ شدید دوپہر میں کسی کے سر پر کوئی کپڑا یا ٹوپی وغیرہ نظر نہیں آئی۔ یہ سنگین غلطیاں ہیں جن کا خمیازہ انسانی جانوں کے زیاں کے طور پر بھگتنا پڑتا ہے۔ دنیا بھر میں لوگ سردی ہو یا گرمی اپنی حفاظت خود کرتے ہیں۔ موسم کی مناسبت سے کپڑے و چھتریاں لیتے ہیں اور اسی مناسبت سے غذا کا انتخاب کرتے ہیں لیکن ہماری سماجی زندگی ان اصولوں سے بالکل بے بہرہ ہے۔ ہم گرمی کے اوقات میں باہر بلا ضرورت نکلتے ہیں۔ شدید گرمی میں خواتین اکثر بازاروں میں نظر آتی ہیں جن کے ساتھ چھوٹے بچے بھی ساتھ ہوتے ہیں کیونکہ شادی یا تقریبات کی تیاری کے موسم سدا بہار ہیں۔
کچھ احتیاطی تدابیر اختیار کرلینے سے گرمی سے مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ گھروں میں اسکول و کالج جانے والے بچوں کے لیے صاف پانی کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ انھیں باہر پریشانی نہ ہو۔ بچے گرمی سے واپس آئیں تو انھیں فوری طور پر ٹھنڈا پانی یا شربت دینے سے گریز کرنا چاہیے جب تک جسم کا درجہ حرارت معمول پر نہیں آجاتا گرمیوں میں ٹھنڈے پانی پینے کے لا تعداد نقصانات ہیں ۔ ٹھنڈا پانی جسم کے مدافعتی نظام کو کمزور کرنے کے ساتھ کئی امراض میں مبتلا کردیتا ہے، ایشیا کے کئی ملکوں میں گرمیوں کے دوران بھی نیم گرم پانی پیا جاتا ہے۔
گرمیوں میں باہر دستیاب مشروبات بھی ناقص برف و پانی کے استعمال کی وجہ سے مضر صحت ثابت ہوتے ہیں۔ اس موسم میں پائی جانے والی سبزیوں اور پھلوں کے بے شمار فائدے ہیں جن کے استعمال سے جسم میں پانی کی مقدار توازن میں رہتی ہے۔ ایشیا کی کئی قومیں اپنی زندگی کے معیار کو بہتر بناچکی ہیں۔ وہ آسائشوں اور دکھاؤے پر صحت مند زندگی کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہاں زیادہ تر لوگ اپنا پیسہ، تعلیم، گھروں کی دیکھ بھال اور صحت مند غذا پر استعمال کرتے ہیں۔
موجودہ دور میں شفاف پانی کی فراہمی سنگین نوعیت اختیارکرچکی ہے۔ عام پانی کے مقابلے میں بازار میں بوتلوں میں فروخت ہونے والے پانی میں ایسے اجزا پائے جاتے ہیں جنھیں جسم قبول نہیں کر پاتا۔ جس کی بنا پر ہائی بلڈ پریشر، دل کی بیماریاں اور فالج کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں بازاری پانی کی جگہ ہوم فلٹر پلانٹس کو ترجیح دی جاتی ہے مثال کے طور پر بازاری بوتلوں میں بند پانی میں سوڈیم زیادہ ہے تو وہ پانی بلڈ پریشر کو بڑھا سکتا ہے۔
گرمی کی حشر سامانیاں ایک طرف تو لوڈ شیڈنگ کے طویل اوقات دوسری طرف عوامی زندگی کو مفلوج کرکے رکھ دیتے ہیں۔ گھر ہوں یا حکومت کے ادارے حد درجہ بجلی ضایع کی جاتی ہے۔ آپ اوپر کی سطح سے مثال قائم کریں۔ عوام کو لفظوں کی نہیں اس ثبوت کی ضرورت ہے جو عمل کے ذریعے دیا جاتا ہے لیکن لفظوں کی فضول خرچی قومی مزاج بن چکی ہے۔ اگر صبح جلدی بازاریں کھل جائیں اور شام میں جلدی لوگ اپنے گھروں کو لوٹ جائیں تو نہ فقط بجلی کی بچت ہوگی بلکہ سونے اور جاگنے کے اوقات میں ترتیب پیدا ہوگی۔ گھر اور بچے بھی نظر انداز نہیں ہوں گے۔
درخت ہمارے دوست ہیں مگر ہم درختوں سے ذہنی و روحانی رابطہ قائم نہیں کرسکے کل ہی میں نے اپنے علاقے میں ایک ہرا بھرا درخت کٹتے دیکھا۔ بے حد افسوس ہوا۔ کٹتے ہوئے درخت کی شاخوں کی چیخیں رات بھر پریشان کرتی رہیں۔ اس درخت کی چھاؤں میں بہت سے لوگوں کو بیٹھے دیکھا تھا۔ کئی پرندوں کے گھونسلے، سرسبز شاخوں کے درمیان ہوں گے۔ ماضی کے کئی لمحوں کا چشم دید گواہ یہ درخت اپنے ساتھ، کئی ادوارکی یادیں بھی لے گیا۔ اپنے شہر میں جابجا درختوں کو کٹتے دیکھا ہے۔ متعلقہ شعبے کو کوئی ایسا مربوط قانون بنا لینا چاہیے، تاکہ مزید درخت اور جنگلات محفوظ رہ سکیں۔
درخت لگانے کی ملک گیر مہم کی ضرورت ہے۔ جس کا آغاز تعلیمی اداروں سے ہونا چاہیے۔ ہم اپنے بچوں کو ماحولیاتی شعور عطا کریں۔ تاکہ وہ ماحول میں موجود پھولوں، درختوں اور سبزے کی اہمیت کو سمجھ سکیں۔
اس موسم میں باہر جاتے ہوئے اپنے ساتھ ٹھنڈی پانی کی بوتلیں ضرور لے کر جائیے۔ ایک اپنے لیے اور دوسری کسی ضرورت مند کو دینے کے لیے۔ پرندوں کے لیے بھی پانی کا اہتمام کیا جانا چاہیے۔ یہ اچھی باتیں ہم اپنے بچوں کو سکھائیں۔ اور ان پر ذمے داری ڈالیں کہ وہ اس شدید گرمی میں انسانوں، پرندوں اور جانوروں کا خاص خیال رکھیں۔
یہ دن سماجی رابطے کے دن ہیں۔ ان دنوں میں باغات سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ باغ میں فطرت کی توانائی رقص کرتی ہے۔ سبزہ نہ فقط خیال کو تحرک عطا کرتا ہے بلکہ یہ مثبت رویے بھی بانٹتا ہے۔ سبزے کے درمیان وقت گزارنے سے ذہنی دباؤ سے بھی نجات ملتی ہے۔ اور توانائی سے بھرپور یہ سانسیں جسم میں زندگی کی روح پھونک دیتی ہیں۔
ایشیا کی قدیم تہذیبیں، ہمیشہ بدلتے موسموں سے ذہنی، جسمانی اور روحانی تحرک حاصل کرتی ہیں۔ خاص طور پر سبزہ، ان کے لیے رکی اور منجمد توانائی کو بحال کرنے کا اہم ذریعہ ہے۔ گرمیوں کی شدت کے بعد موسلا دھار بارشیں شروع ہوجاتی ہیں ان بارشوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے ہمارے پاس کبھی کوئی منصوبہ بندی یا حل نہیں ہوتا۔ نہ لوکل اداروں کو فعال پایا ہے اور نہ ہی عوامی زندگی کو اپنے محلوں کی دیکھ بھال کرتے دیکھا۔ آپ گھر کا کچرا اٹھا کر باہر پھینک دیں اس کے بعد آپ کی ذمے داری ختم ہوجاتی ہے۔ اداروں کی ناقص کارکردگی اور عوامی غفلت کی وجہ سے ہم موسموں سے لطف اندوز ہونے سے اکثر غافل رہتے ہیں۔ گرمی سے سماجی زندگی بدحال ہوجاتی ہے اور بارشوں سے بدترین۔ بارشوں کے آتے ہی کچی چھتیں خوفزدہ ہوجاتی ہیں۔ معلوم نہیں ہم کب موسموں کے خوف سے باہر نکل کر فطرت کی توانائی سے لطف اندوز ہوسکیں گے۔
سردیوں کے موسم میں خود کلامی کی کیفیت خزاں میں اداسی میں بدل جاتی ہے۔ لہٰذا گرمیوں کے دن اظہار، ہلچل اور رابطے کا تسلسل بن جاتے ہیں۔ فطرت کی روح جاگ جاتی ہے۔ آپ جتنا اس کے قریب جاتے ہیں یہ مزید کشادہ ہوجاتی ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ موسموں کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔ 2016 اگر گرم ترین سال تھا تو 2017 گرمی کی شدت کے حوالے سے 132 سال سے پڑتی ہوئی گرمی سے بھی سبقت لے جائے گا۔
زمین کی حدت میں اضافے کے باعث دھرتی انسان کے تنگ ہوتی جارہی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2015 میں انڈیا اور پاکستان میں 4100 افراد لقمہ اجل بنے۔ یہ فطرت کا تخریبی اثر ہے۔ جس کی لپیٹ میں پورا کرۂ ارض آیا ہوا ہے۔ قدرتی آفات بھی شاید فطرت کے غصے کا شدید اظہار ہے۔ جس کے نتیجے میں انسانی مزاج متاثر ہوتا ہے۔ قدرتی حادثات کے بعد اکثر لوگ PTSD (شدید ذہنی دباؤ) کا شکار ہوجاتے ہیں۔ گرمی کی شدت، فضائی آلودگی اور ہوا میں غیر صحت بخش اجزا کی وجہ سے ذہنی امراض میں اضافہ ہوا ہے، انسانی فطرت سکھ اور سکون کے احساس سے جڑی ہوئی ہے یہی وجہ ہے کہ غیر یقینی موسم اسے پریشان کرکے رکھ دیتے ہیں۔
گرمی کا مقابلہ کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں۔ ماحولیاتی آلودگی سے لڑنے کا یہ واحد ہتھیار ہیں۔ درختوں اور جنگلات کی کٹائی سے مکمل گریز کرنا چاہیے۔
سب سے پہلے اسکول جانے والے بچوں کو ماحول کا شعور دینا چاہیے تاکہ وہ موسموں کی شدت سے خود کو محفوظ رکھ سکیں۔ انھیں چھتری، کیپ یا اسکارف وغیرہ استعمال کرنا چاہیے۔ اس موسم میں ہلکے رنگ کے کپڑے اور سر پر سفید تولیہ (خشک یا گیلا) استعمال کرنا چاہیے تاکہ وہ گرمی کی شدت سے بچ سکیں۔کل ہی آفس سے آتے ہوئے میں نے کئی لوگوں کو دیکھا جو موٹر سائیکل پر سوار تھے اور اسکول کے بچے ان کے ساتھ تھے۔ شدید دوپہر میں کسی کے سر پر کوئی کپڑا یا ٹوپی وغیرہ نظر نہیں آئی۔ یہ سنگین غلطیاں ہیں جن کا خمیازہ انسانی جانوں کے زیاں کے طور پر بھگتنا پڑتا ہے۔ دنیا بھر میں لوگ سردی ہو یا گرمی اپنی حفاظت خود کرتے ہیں۔ موسم کی مناسبت سے کپڑے و چھتریاں لیتے ہیں اور اسی مناسبت سے غذا کا انتخاب کرتے ہیں لیکن ہماری سماجی زندگی ان اصولوں سے بالکل بے بہرہ ہے۔ ہم گرمی کے اوقات میں باہر بلا ضرورت نکلتے ہیں۔ شدید گرمی میں خواتین اکثر بازاروں میں نظر آتی ہیں جن کے ساتھ چھوٹے بچے بھی ساتھ ہوتے ہیں کیونکہ شادی یا تقریبات کی تیاری کے موسم سدا بہار ہیں۔
کچھ احتیاطی تدابیر اختیار کرلینے سے گرمی سے مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ گھروں میں اسکول و کالج جانے والے بچوں کے لیے صاف پانی کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ انھیں باہر پریشانی نہ ہو۔ بچے گرمی سے واپس آئیں تو انھیں فوری طور پر ٹھنڈا پانی یا شربت دینے سے گریز کرنا چاہیے جب تک جسم کا درجہ حرارت معمول پر نہیں آجاتا گرمیوں میں ٹھنڈے پانی پینے کے لا تعداد نقصانات ہیں ۔ ٹھنڈا پانی جسم کے مدافعتی نظام کو کمزور کرنے کے ساتھ کئی امراض میں مبتلا کردیتا ہے، ایشیا کے کئی ملکوں میں گرمیوں کے دوران بھی نیم گرم پانی پیا جاتا ہے۔
گرمیوں میں باہر دستیاب مشروبات بھی ناقص برف و پانی کے استعمال کی وجہ سے مضر صحت ثابت ہوتے ہیں۔ اس موسم میں پائی جانے والی سبزیوں اور پھلوں کے بے شمار فائدے ہیں جن کے استعمال سے جسم میں پانی کی مقدار توازن میں رہتی ہے۔ ایشیا کی کئی قومیں اپنی زندگی کے معیار کو بہتر بناچکی ہیں۔ وہ آسائشوں اور دکھاؤے پر صحت مند زندگی کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہاں زیادہ تر لوگ اپنا پیسہ، تعلیم، گھروں کی دیکھ بھال اور صحت مند غذا پر استعمال کرتے ہیں۔
موجودہ دور میں شفاف پانی کی فراہمی سنگین نوعیت اختیارکرچکی ہے۔ عام پانی کے مقابلے میں بازار میں بوتلوں میں فروخت ہونے والے پانی میں ایسے اجزا پائے جاتے ہیں جنھیں جسم قبول نہیں کر پاتا۔ جس کی بنا پر ہائی بلڈ پریشر، دل کی بیماریاں اور فالج کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں بازاری پانی کی جگہ ہوم فلٹر پلانٹس کو ترجیح دی جاتی ہے مثال کے طور پر بازاری بوتلوں میں بند پانی میں سوڈیم زیادہ ہے تو وہ پانی بلڈ پریشر کو بڑھا سکتا ہے۔
گرمی کی حشر سامانیاں ایک طرف تو لوڈ شیڈنگ کے طویل اوقات دوسری طرف عوامی زندگی کو مفلوج کرکے رکھ دیتے ہیں۔ گھر ہوں یا حکومت کے ادارے حد درجہ بجلی ضایع کی جاتی ہے۔ آپ اوپر کی سطح سے مثال قائم کریں۔ عوام کو لفظوں کی نہیں اس ثبوت کی ضرورت ہے جو عمل کے ذریعے دیا جاتا ہے لیکن لفظوں کی فضول خرچی قومی مزاج بن چکی ہے۔ اگر صبح جلدی بازاریں کھل جائیں اور شام میں جلدی لوگ اپنے گھروں کو لوٹ جائیں تو نہ فقط بجلی کی بچت ہوگی بلکہ سونے اور جاگنے کے اوقات میں ترتیب پیدا ہوگی۔ گھر اور بچے بھی نظر انداز نہیں ہوں گے۔
درخت ہمارے دوست ہیں مگر ہم درختوں سے ذہنی و روحانی رابطہ قائم نہیں کرسکے کل ہی میں نے اپنے علاقے میں ایک ہرا بھرا درخت کٹتے دیکھا۔ بے حد افسوس ہوا۔ کٹتے ہوئے درخت کی شاخوں کی چیخیں رات بھر پریشان کرتی رہیں۔ اس درخت کی چھاؤں میں بہت سے لوگوں کو بیٹھے دیکھا تھا۔ کئی پرندوں کے گھونسلے، سرسبز شاخوں کے درمیان ہوں گے۔ ماضی کے کئی لمحوں کا چشم دید گواہ یہ درخت اپنے ساتھ، کئی ادوارکی یادیں بھی لے گیا۔ اپنے شہر میں جابجا درختوں کو کٹتے دیکھا ہے۔ متعلقہ شعبے کو کوئی ایسا مربوط قانون بنا لینا چاہیے، تاکہ مزید درخت اور جنگلات محفوظ رہ سکیں۔
درخت لگانے کی ملک گیر مہم کی ضرورت ہے۔ جس کا آغاز تعلیمی اداروں سے ہونا چاہیے۔ ہم اپنے بچوں کو ماحولیاتی شعور عطا کریں۔ تاکہ وہ ماحول میں موجود پھولوں، درختوں اور سبزے کی اہمیت کو سمجھ سکیں۔
اس موسم میں باہر جاتے ہوئے اپنے ساتھ ٹھنڈی پانی کی بوتلیں ضرور لے کر جائیے۔ ایک اپنے لیے اور دوسری کسی ضرورت مند کو دینے کے لیے۔ پرندوں کے لیے بھی پانی کا اہتمام کیا جانا چاہیے۔ یہ اچھی باتیں ہم اپنے بچوں کو سکھائیں۔ اور ان پر ذمے داری ڈالیں کہ وہ اس شدید گرمی میں انسانوں، پرندوں اور جانوروں کا خاص خیال رکھیں۔
یہ دن سماجی رابطے کے دن ہیں۔ ان دنوں میں باغات سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ باغ میں فطرت کی توانائی رقص کرتی ہے۔ سبزہ نہ فقط خیال کو تحرک عطا کرتا ہے بلکہ یہ مثبت رویے بھی بانٹتا ہے۔ سبزے کے درمیان وقت گزارنے سے ذہنی دباؤ سے بھی نجات ملتی ہے۔ اور توانائی سے بھرپور یہ سانسیں جسم میں زندگی کی روح پھونک دیتی ہیں۔
ایشیا کی قدیم تہذیبیں، ہمیشہ بدلتے موسموں سے ذہنی، جسمانی اور روحانی تحرک حاصل کرتی ہیں۔ خاص طور پر سبزہ، ان کے لیے رکی اور منجمد توانائی کو بحال کرنے کا اہم ذریعہ ہے۔ گرمیوں کی شدت کے بعد موسلا دھار بارشیں شروع ہوجاتی ہیں ان بارشوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے ہمارے پاس کبھی کوئی منصوبہ بندی یا حل نہیں ہوتا۔ نہ لوکل اداروں کو فعال پایا ہے اور نہ ہی عوامی زندگی کو اپنے محلوں کی دیکھ بھال کرتے دیکھا۔ آپ گھر کا کچرا اٹھا کر باہر پھینک دیں اس کے بعد آپ کی ذمے داری ختم ہوجاتی ہے۔ اداروں کی ناقص کارکردگی اور عوامی غفلت کی وجہ سے ہم موسموں سے لطف اندوز ہونے سے اکثر غافل رہتے ہیں۔ گرمی سے سماجی زندگی بدحال ہوجاتی ہے اور بارشوں سے بدترین۔ بارشوں کے آتے ہی کچی چھتیں خوفزدہ ہوجاتی ہیں۔ معلوم نہیں ہم کب موسموں کے خوف سے باہر نکل کر فطرت کی توانائی سے لطف اندوز ہوسکیں گے۔