قصہ خوانی بازار میں بیٹھے یہ ناصحین

اپنے ذاتی گروہی مفادات پر زد پڑتی ہو تو ہمارا مُلّا خاموش رہتا ہے


Tanveer Qaisar Shahid July 31, 2012
[email protected]

ایکسیڈنٹ کی خبر سُن کر اسلام آباد کی بیورو کریسی کے ایک سینئر رکن میری عیادت کرنے آئے۔ اکیسویں گریڈ کے میرے یہ بیورو کریٹ دوست شکل و صورت اور چال ڈھال میں کسی ہائی اسکول کے ہیڈ ماسٹر لگتے ہیں۔ طنطنے اور بدمزاجی سے دُور لیکن نہایت دیانتدار اور متدین بیٹھتے ہی میرا قصہ سُنا اور پھر مسکرا دیے۔

حسبِ معمول تھوڑی دیر خاموش رہے اور پھر اپنا ایک قصہ سنایا۔ کہنے لگے: ''تقریباً دو ماہ قبل سہ پہر کے وقت دفتر بیٹھا تھا کہ میری (اکلوتی) بیٹی کا فون آیا۔ وہ روتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ ایک شخص ہمیں نہایت غلیظ گالیاں دے رہا ہے اور ہماری گاڑی کو مکے بھی مار رہا ہے۔ میرا داماد بھی اس کے ساتھ تھا۔ چونکہ داماد صاحب، جو ایک اعلیٰ سرکاری افسر ہیں، بھی خاصے شریف ہیں، مجبوراً بیٹی کو مجھے فون کرنا پڑا تھا۔

میَں نے گاڑی نکالی اور دس پندرہ منٹ میں وہاں پہنچ گیا جس مقام سے فون آیا تھا۔ وہاں ماجرا یہ تھا کہ میرے داماد کی گاڑی نے اگلی گاڑی کو عقب سے تھوڑا سا ہٹ کیا تھا۔ گاڑی کی بائیں طرف کی ایک بتّی ٹوٹی تھی اور بہت معمولی سا ڈنٹ پڑا تھا۔ ساتھ کھڑا ایک طویل القامت شخص، جس کی گاڑی کے اندر غالباً اس کی اہلیہ بیٹی تھیں، ابھی تک غصے میں مغلظات بک رہا تھا اور میری بیٹی سہمی ہوئی اپنی گاڑی میں بیٹھی تھی۔''

میرا دوست بتا رہا تھا: ''میَں نے اُس نوجوان کو گزارش کی کہ گالیاں دینا بند کرو۔ کیا آپ کو اپنی خاتون اور میری بیٹی کی عزت کا بھی پاس نہیں ہے؟ اُس نے تقریباً میرے منہ کے سامنے آ کر گلا پھاڑ کر اپنا تعارف کرایا۔ وہ کسی طاقتور سرکاری ادارے کا درمیانے درجے کا افسر تھا اور بہت بُری طرح رعب جھاڑ رہا تھا۔ میَں نے اپنا کارڈ اُسے تھمایا جسے پڑھ کر فوراً اُس پر اوس پڑ گئی لیکن اُس کی آنکھیں غصے و طیش میں مسلسل شعلے برساتی رہیں۔ میَں نے اسے کہا: دیکھو برخوردار، آپ کی گاڑی کو جو نقصان پہنچا ہے، میَں یہ پورا کرنے کو تیار ہوں۔

آپ یوں کیجیے کہ یہ سامنے ہی کھڈا مارکیٹ میں کاریں، موٹریں ٹھیک کرنے والے بیٹھے ہیں۔ آپ گاڑی وہاں لے جایے۔ وہ مان گیا۔ میَں آگے آگے اور وہ میرے پیچھے پیچھے تھا۔ اُس نے گاڑی وہیں چھوڑی۔ میَں نے ایک ٹیکسی بلائی، اُن دونوں میاں بیوی کو اندر بٹھایا اور کرایہ دے کر وہاں سے روانہ کر دیا۔ دوسرے روز گاڑی شاندار انداز میں ٹھیک ہو گئی تو میَں شام کے وقت اپنے ڈرائیور کے ساتھ گاڑی چھوڑنے اُس کے گھر گیا۔ گھنٹی دی تو وہ باہر نکلا۔ اُس نے کشیدہ اور غصے سے بھرے ہوئے چہرے سے گاڑی کا معائنہ کیا۔ قدرے مطمئن چہرے اور لہجے میں مجھے OK کہا اور گاڑی کی چابی طلب کی۔

میَں نے گاڑی کی چابی اُس کے حوالے کی اور پھر اپنی گاڑی سے کیک کا ڈبہّ نکالا اور اُسے پیش کیا۔ وہ ناں ناں کرتا رہا لیکن آخر کار قبول کر لیا۔ پھر میَں نے اُسے بتایا کہ جس لڑکے کو آپ نے بے شمار گالیاں دیں اور اُس کی گاڑی کو مکے اور لاتیں ماریں، اُس کا باپ فلاں شخص ہے۔ آپ کے رویے کی بنیاد پر وہ نہایت آسانی سے آپ کو ملازمت سے فارغ کر سکتا تھا لیکن وہ کل سے خاموش ہے۔ تعارف سُن کر وہ شخص تقریباً زمیں بوس ہو گیا اور معذرتیں کرنے لگا۔ میَں نے اُسے معاف کیا اور گھر چلا آیا۔'' پھر انھوں نے میرے چہرے پر نظریں گاڑھتے ہوئے کہا کہ: ''جس شخص آپ کو سخت ایذا اور نقصان پہنچایا ہے، اسے دل سے معاف کر دو۔''

میرے اس متدین دوست نے وہی کام کیا جو ہمیں اُسوۂ رسول میں ملتا ہے۔ معاف کرنے کا اعلیٰ ترین نمونہ ہمیں فتح مکہ کے روز اپنے اوجِ کمال کو پہنچا ہوا نظر آتا ہے۔ حضور نبی کریم کے کردار کا یہ بے مثل پہلو جب کسی غیر مسلم کی نظر سے بھی گزرتا ہے تو وہ بھی ڈھے جاتا ہے لیکن آج ہم میں سے کتنے مسلمان ہیں جو اﷲ کے آخری نبی کی اِس سنتِ کریمہ پر عمل کرتے ہیں؟

حضورؐ نے اپنے آخری خطبے میں واضح طور پر ارشاد فرمایا جس کا مفہوم کچھ یوں ہے دو چیزیں تمہیں محفوظ رکھیں گی۔ اللہ کی کتاب اور میری سُنت۔ یہ حکم ہمارے ہاتھوں سے چھوٹ گیا اور ذلت ہمارے سروں پر مسلط کر دی گئی ہے۔ البتہ، قصہ سنانے والے بہت سے موجود ہیں۔ ہم لکھنے والوں میں سے بھی بعض نے کالم سجانے کے لیے یہ طریقہ اختیار کر لیا ہے کہ حضور نبی پاک کے ارشاداتِ عالیہ کو کثرت سے استعمال کیا جائے لیکن خود کو عمل سے دُور رکھا جائے۔

محراب و منبر کے ''وارث'' بھی اِسی شکل میں نظر آ رہے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پورا عالمِ اسلام ایک قصہ خوانی بازار بن گیا ہے جس میں اپنی اپنی پسند کے قصے سنائے جا رہے ہیں۔ لیکن عمل کا اظہار کہیں کہیں نظر آتا ہے۔ ابھی کل کی بات ہے۔ پاکستان کے ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں ایک شخص ''محمد اکرم گجر'' شریک تھا۔ وہ لاکھوں دیکھتی آنکھوں کے سامنے دیدہ دلیری سے کہہ رہا تھا کہ ہاں، میَں دودھ میں بکثرت پانی ملاتا ہوں اور ڈھیر سارا منافع بھی کماتا ہوں۔

اُس نے نہایت ''سفاک جرأت'' سے نہ صرف یہ اعتراف کیا بلکہ دھڑلے سے یہ بھی کہا کہ میَں اکیلا ہی بدعنوانی نہیں کر رہا بلکہ ملک کے دیگر ''بڑے بڑے لوگ'' بھی یہی کام کر رہے ہیں۔ پروگرام میں شریک سب لوگ ہنس رہے تھے۔ بہت سے ناظرین بھی ہنس رہے ہوں گے حالانکہ اِس ارتکابِ جرم پر ہمیں رونا چاہیے تھا اور اس شخص پر پھٹکار بھیجنی چاہیے تھی۔ کیا اِس بدعنوان اور بے حس شخص کے کھلے بندوں اعترافِ جرم کے بعد ملک کے قانون کو حرکت میں نہیں آنا چاہیے تھا؟

اُس پر ملاوٹ کے حوالے سے حد جاری نہیں ہونی چاہیے تھی؟ دھوکہ دہی اور ارشادِ رسول سے انحراف پر یہ شخص یقینی سزا کا مستحق ہے لیکن نہ کوئی محراب و منبر سے اٹھا اور نہ ہی قانون حرکت میں آیا۔ کیا دودھ میں ملاوٹ کرنے والے شخص کو پیارے نبی کا یہ حکم یاد نہیں تھا: جس نے ملاوٹ کی، وہ ہم میں سے نہیں۔ کیا اب یہ شخص ملتِ اسلامیہ سے خارج کیا جا چکا ہے یا اُسے خارج نہیں کیا جانا چاہیے؟

پاکستان بھر کے قصہ خوانی بازار میں بیٹھے بے شمار قصہ خواں اور ناصحین خاموش کیوں ہیں؟ اپنے ذاتی گروہی مفادات پر زد پڑتی ہو تو ہمارا مُلّا خاموش رہتا ہے اور جب کسی غیر کا معاملہ ہو تو یہ طبقہ فتووں کی تلواروں اور خنجروں سے لیس ہو کر مخالفین پر پل پڑتا ہے تاکہ دین کی خدمت کا ڈھونگ بھی رچایا جائے، اپنا حلقہ بھی مضبوط بنایا جائے اور شہرت بھی حاصل کی جائے۔

لاہور کے ایک محلّے کا ''بھونڈ پورہ'' چوک خاصا مشہور ہے۔ مدتوں میری رہائش یہاں رہی ہے۔ وہیں دودھ دہی کی بہت سی دکانوں میں ایک مشہور دکان بھی ہے۔ موسم گرما میں نماز فجر کے بعد اِس کا پہلا گاہک میَں ہوا کرتا تھا۔ ہمارے محلّے کی مسجد کے خطیب صاحب میرے بعد وہاں تشریف لاتے۔ میری موجودگی میں سیکڑوں بار بیرونِ لاہور سے آنے والا دودھ یہاں اُترتا۔ یہ لوہے کی ڈرمیوں کی شکل میں ہوتا۔

دودھ لانے والے ہمارے سامنے ڈرمیوں کے ڈھکن ایک ایک کر کے کھولتے، اکٹھی ہوئی غلاظت صاف کرتے اور اپنے گندے ہاتھ اور بازو دودھ سے بھری ڈرمیوں میں ڈالتے اور ملاوٹ بھرے دودھ سے پتھر وغیرہ باہر نکال کر پھینکتے جاتے۔ یہ نہایت کریہہ اور اُبکائی لانے والا منظر ہوتا۔ میَں نے کئی بار ساتھ بیٹھے خطیب صاحب سے عرض کیا: علامہ صاحب،

آپ اِن لوگوں کو ملاوٹ نہ کرنے اور صفائی رکھنے کے حوالے سے اﷲ کے رسول کی احادیثِ مبارکہ سُنا کر اِنہیں اِس گندے فعل سے منع فرما سکتے ہیں؟ لیکن وہ ہمیشہ اپنی ریشمی دھوتی کو کھجاتے، رانوں پر ہاتھ پھیرتے اور مختصر سا جملہ ارشاد فرما دیتے: ''بھئی، کیا کریں؟'' علامہ صاحب بھی کیا کرتے کیونکہ وہ بھی عالم اسلام کے قصہ خوانی بازار کے لاتعداد قصہ خوانوں میں سے ایک قصہ خواں بن چکے تھے۔

زباں سے کہہ بھی دیا لا الٰہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں