حقیقی خادم اعلیٰ کون
دراصل یہ تاثر بالکل غلط ہے، پورے پنجاب میں کسی قسم کے ترقیاتی کام نہیں ہورہے۔ ترقیاتی کام صرف لاہور میں ہو رہے ہیں۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان میں سب سے زیادہ دہشت گردی سے متاثر صوبے خیبر پختونخواہ میں دنیا کا بہترین بلدیاتی نظام قائم کردیا گیا ہے، جبکہ اِس کے برعکس پاکستان کے سب سے ترقی یافتہ صوبہ سمجھے جانے والے پنجاب کا لوکل گورنمنٹ ایکٹ کسی بھی طرح جمہوری نظام کا حصہ ہی نہیں ہے۔
سننے میں عجیب لگ رہا ہے نہ؟ یہ سب کیوں کہا جارہا ہے آئیے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
پنجاب کے بلدیاتی نظام نے جہاں کرپشن کو فروغ دیا ہے، وہاں پختونخواہ میں ڈسٹرکٹ گورنمنٹ نظام نے کرپشن کے خلاف احتساب کا نظام قائم کیا ہے۔ اِسی بلدیاتی نظام کی بدولت آج پختونخواہ میں ادارے فرد کے بجائے نظام کے ماتحت کام کر رہے ہیں اور حکومت کے ہر معاملے میں شفافیت واضح ہے۔ آپ پختونخواہ میں ادویات کی خریداری کی مثال ہی لے لیجئے۔ یہ بات میں نہیں بلکہ پنجاب فارماسسٹ ایسوسی ایشن نے خود اپنی رپورٹ پیش کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ کہ پنجاب اور پختونخواہ میں ایک ہی کمپنی سے ایک ہی قسم کی ادویات کی خریداری میں قیمتوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
پختونخواہ حکومت نے DICLOFENAC SODIUM نامی پین کلر 0.31 روپے فی گولی کے حساب سے خریدی جبکہ پنجاب حکومت نے اِسی کمپنی سے وہی گولی 3.94 روپے فی گولی کے حساب سے خریدی۔ اِس کے علاوہ ہیپاٹائٹس سی کی دوائی SOFOSVUVIR کے پی کے حکومت نے جس کمپنی سے صرف 49 روپے فی گولی کے حساب سے خریدی پنجاب حکومت نے یہی گولی اِسی کمپنی سے 54 روپے فی گولی کے حساب سے خریدی۔
اِسی بلدیاتی نظام کی بدولت PILDAT سروے نے پختونخواہ حکومت کی گورننس کو پاکستان کے تمام صوبوں کی نسبت بہتر قرار دیا ہے۔ کے پی کے حکومت نے 28 میں سے 18 پوائنٹس حاصل کئے جبکہ پنجاب حکومت نے 28 میں سے 8 پوائنٹ اور سندھ اور بلوچستان نے 28 میں سے 2 ، 2 پوائنٹ حاصل کئے ہیں۔ آپ ترقیاتی کاموں کی مثال بھی لے لیجئے۔ شہباز شریف صاحب یہ تاثر دے رہے ہیں کہ جو کام بلدیاتی نمائندوں نے کروانے تھے، وزیر اعلیٰ صاحب وہ سارے کام خود ہی کروا رہے ہیں تو پھر جب ترقیاتی کام صوبائی حکومت کررہی ہے تو نچلی سطح پر نمائندوں کو فنڈز اور اختیارات دینے کی کیا ضرورت ہے؟
دراصل یہ تاثر بالکل غلط ہے، پورے پنجاب میں کسی قسم کے ترقیاتی کام نہیں ہورہے۔ ترقیاتی کام صرف لاہور میں ہو رہے ہیں اور وہ بھی جس قیمت پر ہو رہے ہیں وہ کرپشن اور بددیانتی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اورنج لائن منصوبے کے تحت دو لاکھ ستر ہزار لوگوں کو سفری سہولیات مہیا کرنے کیلئے دو سو ارب روپے خرچ کئے جارہے ہیں جو کہ قرض کی صورت میں چین سے لئے گئے ہیں اور یہ پراجیکٹ 17 ارب روپے کی سبسڈی کے بغیر چل ہی نہیں سکتا، جبکہ دوسری طرف کے پی کے میں مضبوط لوکل ڈسٹرکٹ گورنمنٹ نظام کی بدولت لوگوں کے بنیادی مسائل حل کرنے پر کام ہورہا ہے، اور یہ کام صرف پشاور میں ہی نہیں بلکہ برابری کی سطح پر پورے پختوانخوہ میں ہو رہا ہے۔
پختونخواہ حکومت نے سوات موٹروے کا پراجیکٹ اپنی مدد آپ کے تحت مکمل کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کے لئے وہ کوئی قرض بھی نہیں لے رہے بلکہ 5 سے 10 سال کے عرصہ میں یہ منصوبہ منافع بخش پراجیکٹ میں تبدیل ہوجائے گا۔ کے پی کے میں اِس جمہوری نظام کا قیام عمران خان کی نیک نیتی، صوبے میں پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی پر مشتمل مخلوط حکومت اور سیالکوٹ کے سابق ضلعی ناظم، سیالکوٹ چیمبر آف کامرس کے سابق صدر اور پی ٹی آئی سینٹرل پنجاب کے سابق وائس پریزیڈنٹ میاں نعیم جاوید صاحب کی بلدیاتی نظام کے حوالے سے عمران خان کو دی گئی تجاویز کے بغیر ممکن نہیں تھا۔
عمران خان نے میاں نعیم جاوید کی دی گئی تجاویز کو اُن کی اصل شکل اور روح کے ساتھ پختونخواہ میں نافذ کروایا اور آج پوری دنیا اِس نظام کو سرا رہی ہے۔ میں اِن تجاویز کے کچھ نکات وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے سامنے رکھ رہا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ تجاویز صوبہ پنجاب کے لئے بھی اسی طرح سودمند ثابت ہوں گی، جس طرح خیبر پختونخواہ کے لئے فائدہ مند ثابت ہوئی ہیں۔
سب سے بڑھ کر وزیراعلیٰ کے کسی بھی بلدیاتی منتخب نمائندے کو وجہ بتائے بغیر معطل کرنے کے اختیارات کو ختم کیا جائے، کیونکہ اِس کے بغیر عوامی نمائندے عوام کی اُمنگوں اور امیدوں کے مطابق آزادانہ کام نہیں کرسکتے اور جس دن آپ نے اِس ماڈل کو من و عن صوبہ پنجاب میں نافذ کردیا، آپ عوام کے حقیقی خادم اعلیٰ بن جائیں گے اور تاریخ آپ کو عوامی امنگوں کا ترجمان اور جمہوری حکمران کے نام سے ہمیشہ یاد رکھے گی۔
سننے میں عجیب لگ رہا ہے نہ؟ یہ سب کیوں کہا جارہا ہے آئیے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
پنجاب کے بلدیاتی نظام نے جہاں کرپشن کو فروغ دیا ہے، وہاں پختونخواہ میں ڈسٹرکٹ گورنمنٹ نظام نے کرپشن کے خلاف احتساب کا نظام قائم کیا ہے۔ اِسی بلدیاتی نظام کی بدولت آج پختونخواہ میں ادارے فرد کے بجائے نظام کے ماتحت کام کر رہے ہیں اور حکومت کے ہر معاملے میں شفافیت واضح ہے۔ آپ پختونخواہ میں ادویات کی خریداری کی مثال ہی لے لیجئے۔ یہ بات میں نہیں بلکہ پنجاب فارماسسٹ ایسوسی ایشن نے خود اپنی رپورٹ پیش کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ کہ پنجاب اور پختونخواہ میں ایک ہی کمپنی سے ایک ہی قسم کی ادویات کی خریداری میں قیمتوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
پختونخواہ حکومت نے DICLOFENAC SODIUM نامی پین کلر 0.31 روپے فی گولی کے حساب سے خریدی جبکہ پنجاب حکومت نے اِسی کمپنی سے وہی گولی 3.94 روپے فی گولی کے حساب سے خریدی۔ اِس کے علاوہ ہیپاٹائٹس سی کی دوائی SOFOSVUVIR کے پی کے حکومت نے جس کمپنی سے صرف 49 روپے فی گولی کے حساب سے خریدی پنجاب حکومت نے یہی گولی اِسی کمپنی سے 54 روپے فی گولی کے حساب سے خریدی۔
اِسی بلدیاتی نظام کی بدولت PILDAT سروے نے پختونخواہ حکومت کی گورننس کو پاکستان کے تمام صوبوں کی نسبت بہتر قرار دیا ہے۔ کے پی کے حکومت نے 28 میں سے 18 پوائنٹس حاصل کئے جبکہ پنجاب حکومت نے 28 میں سے 8 پوائنٹ اور سندھ اور بلوچستان نے 28 میں سے 2 ، 2 پوائنٹ حاصل کئے ہیں۔ آپ ترقیاتی کاموں کی مثال بھی لے لیجئے۔ شہباز شریف صاحب یہ تاثر دے رہے ہیں کہ جو کام بلدیاتی نمائندوں نے کروانے تھے، وزیر اعلیٰ صاحب وہ سارے کام خود ہی کروا رہے ہیں تو پھر جب ترقیاتی کام صوبائی حکومت کررہی ہے تو نچلی سطح پر نمائندوں کو فنڈز اور اختیارات دینے کی کیا ضرورت ہے؟
دراصل یہ تاثر بالکل غلط ہے، پورے پنجاب میں کسی قسم کے ترقیاتی کام نہیں ہورہے۔ ترقیاتی کام صرف لاہور میں ہو رہے ہیں اور وہ بھی جس قیمت پر ہو رہے ہیں وہ کرپشن اور بددیانتی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اورنج لائن منصوبے کے تحت دو لاکھ ستر ہزار لوگوں کو سفری سہولیات مہیا کرنے کیلئے دو سو ارب روپے خرچ کئے جارہے ہیں جو کہ قرض کی صورت میں چین سے لئے گئے ہیں اور یہ پراجیکٹ 17 ارب روپے کی سبسڈی کے بغیر چل ہی نہیں سکتا، جبکہ دوسری طرف کے پی کے میں مضبوط لوکل ڈسٹرکٹ گورنمنٹ نظام کی بدولت لوگوں کے بنیادی مسائل حل کرنے پر کام ہورہا ہے، اور یہ کام صرف پشاور میں ہی نہیں بلکہ برابری کی سطح پر پورے پختوانخوہ میں ہو رہا ہے۔
پختونخواہ حکومت نے سوات موٹروے کا پراجیکٹ اپنی مدد آپ کے تحت مکمل کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کے لئے وہ کوئی قرض بھی نہیں لے رہے بلکہ 5 سے 10 سال کے عرصہ میں یہ منصوبہ منافع بخش پراجیکٹ میں تبدیل ہوجائے گا۔ کے پی کے میں اِس جمہوری نظام کا قیام عمران خان کی نیک نیتی، صوبے میں پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی پر مشتمل مخلوط حکومت اور سیالکوٹ کے سابق ضلعی ناظم، سیالکوٹ چیمبر آف کامرس کے سابق صدر اور پی ٹی آئی سینٹرل پنجاب کے سابق وائس پریزیڈنٹ میاں نعیم جاوید صاحب کی بلدیاتی نظام کے حوالے سے عمران خان کو دی گئی تجاویز کے بغیر ممکن نہیں تھا۔
عمران خان نے میاں نعیم جاوید کی دی گئی تجاویز کو اُن کی اصل شکل اور روح کے ساتھ پختونخواہ میں نافذ کروایا اور آج پوری دنیا اِس نظام کو سرا رہی ہے۔ میں اِن تجاویز کے کچھ نکات وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے سامنے رکھ رہا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ تجاویز صوبہ پنجاب کے لئے بھی اسی طرح سودمند ثابت ہوں گی، جس طرح خیبر پختونخواہ کے لئے فائدہ مند ثابت ہوئی ہیں۔
- آپ سب سے پہلے پنجاب کے غیر جمہوری لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء کو کالعدم قرار دیں اور اِس کی جگہ لوکل گورنمنٹ آرڈینینس 2001ء کو نافذ العمل کریں۔
- آپ آج ہی لوکل نمائندوں کو مکمل اختیارات دینے کے بعد عوامی مسائل کے حل کیلئے کمیٹیاں تشکیل دے دیں۔ اِن میں سب سے پہلے ڈسٹرکٹ پبلک سیفٹی کمیٹی بنائی جائے جو کہ سرکاری افسروں، ڈسٹرکٹ پولیس افسروں، کوآرڈینٹر افسروں یہاں تک کہ تحصیل اور ضلعی ناظمین کے خلاف شکایات سنے اور اُن شکایات پر رپورٹ بنا کر صوبائی سیفٹی کمیشن کو بھجوائے جو کہ ایک ہفتے کے اندر کیس کو نمٹانے کا پابند ہو۔
- آپ صوبائی فنانس کمیشن کی رہنمائی میں ڈسٹرکٹ فنانس کمیشن بنائیں تاکہ فنڈز نچلی سطح تک عوام کی فلاح پرخرچ ہوسکیں۔ ڈسٹرکٹ احتساب کمیشن کا قیام عمل میں لایا جائے جو کہ ضلعی سطح پر گورنمنٹ افسروں سے متعلق شکایات سُنے اور فوراََ اِس کا فیصلہ سنائے۔
- ہر ضلعے کی پبلک اکاؤنٹس اور آڈٹ کمیٹی بنائی جائے جو کہ ڈسٹرکٹ فنڈز کی رپورٹ ہر ماہ جاری کرے۔ مصالحت انجمن قائم کی جائے جو کہ نچلی سطح پر انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائے گی اور پولیس اور عدالتوں پر کام کا بوجھ بھی کم ہوجائے گا۔
- ڈسٹرکٹ مارکیٹ کمیٹیاں قائم کی جائیں جو کہ عوامی اور فوڈ مارکیٹ کے نمائندوں پر مشتمل ہوں اور یہ سبزی، گوشت، دالوں اور دیگر اشیاء خرد و نوش کی کوالٹی اور قیمتوں کو لوکل گورنمنٹ کی ہدایت کے مطابق چیک کرنے کی پابند ہوں۔
- اِس کے علاوہ ڈسٹرکٹ ہیلتھ، ماحولیاتی کمیٹی، ایجوکیشن کمیٹی، ڈسٹرکٹ اسپورٹس کمیٹی، ٹورزم، کلچرل اور سول ڈیفنس کمیٹیاں بھی قائم کی جائیں۔
سب سے بڑھ کر وزیراعلیٰ کے کسی بھی بلدیاتی منتخب نمائندے کو وجہ بتائے بغیر معطل کرنے کے اختیارات کو ختم کیا جائے، کیونکہ اِس کے بغیر عوامی نمائندے عوام کی اُمنگوں اور امیدوں کے مطابق آزادانہ کام نہیں کرسکتے اور جس دن آپ نے اِس ماڈل کو من و عن صوبہ پنجاب میں نافذ کردیا، آپ عوام کے حقیقی خادم اعلیٰ بن جائیں گے اور تاریخ آپ کو عوامی امنگوں کا ترجمان اور جمہوری حکمران کے نام سے ہمیشہ یاد رکھے گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔