ہمارے الیکٹرانک میڈیا کی اچھی روایت
میرا سر فخر سے اس وقت بلند ہوجاتا ہے، جب ہمارا میڈیا بلاامتیاز مذہب و ملت، اہل قلم، اہلِ فن کی پذیرائی کرتا ہے
مجھے اس بات کی بے حد خوشی ہے کہ سر پیر کا زور لگانے کے باوجود اس ملک کے 18 کروڑ عوام مذہبی شدّت پسندی کی طرف جانے کے بجائے انسان دوستی کے راستے پر رواں دواں ہیں۔ میرا سر فخر سے اس وقت بلند ہوجاتا ہے، جب ہمارا میڈیا بلاامتیاز مذہب و ملت، اہل قلم، اہلِ فن کی پذیرائی کرتا ہے۔
آج میری آنکھوں میں امید کے دیے جل رہے ہیں کہ ہمارے تمام چینلز ہندوستان کے ایک نامور فلمی لیجنڈ راجیش کھنہ کی وفات پر اس کی فنکارانہ زندگی پر گھنٹوں خصوصی پروگرام پیش کررہے ہیں۔ اس کی فلمی زندگی، اس کے فن پر دوستانہ تبصرے کررہے ہیں۔ میں ایک طویل عرصے سے بے خوابی کا شکار ہوں، اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا کے بھیانک منظرنامے نے میرا سکون چھین لیا ہے۔ میرا عزیز دوست معراج محمد خان ہمیشہ مجھے بے چین روح کہتا رہتا ہے۔
بلاشبہ میری روح بے چین رہتی ہے۔ میرے اپنے دکھوں پر نہیں، میرے اپنی پریشانیوں پر نہیں، میرے اپنے مسائل کی وجہ سے نہیں بلکہ اس دنیا میں پھیلی ہوئی معاشی ناانصافیوں پر اس دنیا میں جگہ جگہ بھڑکتی ہوئی جنگوں کی آگ دیکھ کر اس دنیا کے انسانوں میں مختلف حوالوں سے پھیلی ہوئی نفرتوں کو محسوس کرکے۔
ایسی بے چینی کردینے والی دنیا میں اگر انسان دوستی کا کوئی منظر سامنے آتا ہے تو دل کو ایک اطمینان ہوتا ہے کہ انسان ابھی زندہ ہے، انسانیت ابھی تابندہ ہے، مایوسی کی کوئی ضرورت نہیں، دیر ہی سے سہی انسان محبت اور بھائی چارے سے رہنا سیکھ لے گا۔
میں بہت کم سوتا ہوں۔ آج بھی کوئی تین بجے رات میں نیند سے بیدار ہوا تو ٹی وی کے ہر چینل پر راجیش کھنہ کی فلمی زندگی کی جھلکیاں، مختلف فلموں میں گائے ہوئے اس کے گانے دِکھائے جارہے تھے۔ اسکرین پر بار بار یہ بھی دکھایا جارہا تھا کہ راجیش کھنہ پنجاب کے ایک شہر بورے والا میں پیدا ہوا تھا۔ بورے والا پاکستان کا ایک چھوٹا سا شہر ہے۔ چینل بار بار بتارہے تھے کہ راجیش کھنہ بورے والا کے کس اسکول میں پڑھتا رہا تھا۔
اس کے پتا جی کس اسکول میں ہیڈماسٹر تھے اور یہ بھی بتایا جارہا تھا کہ راجیش کھنہ کا خاندان 1948 میں بورے والا سے ہندوستان چلا گیا۔ میں سوچ رہا تھا کہ 1947، 1948 میں راجیش کھنہ بورے والا سے ہندوستان کیوں چلا گیا۔ میں سوچ رہا تھا ایل کے ایڈوانی سمیت لاکھوں ہندو پاکستان سے ہندوستان کیوں چلے گئے۔ میں سوچ رہا تھا کہ ہندوستان سے کروڑوں مسلمان پاکستان کیوں آگئے۔ میں اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان کیوں آیا۔
1947 میں 22 لاکھ کے لگ بھگ انسانوں کو کیوں قتل کردیا گیا۔ میری نظروں میں دریائے مانجرا میں بہتی ہوئی پھولی ہوئی لاشیں گھوم رہی تھیں۔ میری آنکھوں میں وہ بے شمار کنویں گردش کررہے تھے جو خواتین اور بچّوں کی لاشوں سے اٹ گئے تھے۔ میں سوچ رہا تھا سندھ، پنجاب، سرحد میں رہنے والے لاکھوں ہندو اور سکھ ہندوستان کیوں چلے گئے۔
ہندوستان میں مسلمان اقلیت میں رہتے تھے، ان کی تعداد دس بارہ فیصد تھی، ہندو بھاری اکثریت میں تھے، ان کی تعداد 88 فیصد کے لگ بھگ تھی۔ 12 فیصد 88 فیصد کے ساتھ ایک ہزار سال تک بھائی بندی کے ساتھ کیوں رہتے آئے تھے۔ 88 فیصد ہندو قوم میں مسلم حکمران جو باہر سے آئے تھے، ایک ہزار سال تک کس طرح حکومت کرتے رہے۔ رانی جھانسی اور چاند بی بی کس کے خلاف لڑتی رہیں۔
آزادی سے کچھ پہلے ایک ہزار برسوں سے محبت کے ساتھ رہنے والے ہندوؤں اور مسلمانوں میں اچانک نفرت کی وہ آگ کیوں بھڑک اٹھی، جس نے 22 لاکھ انسانوں کو جلادیا، جس نے ہزاروں سال سے دنیا کے نقشے پر موجود متحدہ ہندوستان کو دو ملکوں میں کیوں تقسیم کردیا؟ کہا جاتا ہے کہ ملک اس لیے تقسیم ہوگیا کہ 12 فیصد مسلمانوں کو 88 فیصد ہندوئوں سے خطرہ تھا۔ متحدہ ہندوستان میں ان کی جان، مال، عزت و آبرو محفوظ نہ تھی؟ میں سوچ رہا تھا کہ ہندو اکثریت سے خوف زدہ رہنے والے مسلمان آج پاکستان میں ایک دوسرے سے کیوں خوف زدہ ہیں۔
ایک دوسرے سے اتنی شدید نفرت کیوں کررہے ہیں، جتنی متحدہ ہندوستان میں ہندوئوں سے بھی نہیں کرتے تھے۔ پاکستان میں رہنے والے مسلمان سندھی، مہاجر، پنجابی، پٹھان، بلوچ، سرائیکی اور ہزاروال کیوں بن گئے۔ میں سوچ رہا ہوں شیعہ سنّی ایک دوسرے کو انتہائی سفّاکی سے کیوں قتل کرتے ہیں۔ مساجد، امام بارگاہوں، مندروں، گرجائوں کو جلانے والے کون لوگ ہیں۔
پاکستان کے ہر علاقے میں خودکش حملوں اور بارودی گاڑیوں کے دھماکوں میں مارے جانے والے مسلمانوں کا گناہ کیا ہے اور انھیں اس سفّاکی سے قتل کرنے والے کیا سکھ اور ہندو ہیں؟ میں سوچ رہا ہوں کشمیر پر بھارت کی جارحانہ قبضے کے خلاف لڑنے والے قبائلی آج ایک دوسرے کو کیوں قتل کررہے ہیں۔ تعلیمی اداروں، اولیاء اور بزرگوں کے مزارات کو بموں سے اڑانے والے کون لوگ ہیں۔ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ سے ہر روز درجنوں بے گناہوں کو مارنے والے کون ہیں؟ اور بلوچستان میں نفرتوں کے بیج بونے والے اور آگ اور خون کا کھیل کھیلنے والے کون ہیں۔
وہ اس ملک کو کیوں تباہ کرنا چاہتے ہیں۔دہشت گردوں کا ایجنڈا کیا ہے اور ہماری منزل کا راستہ کہاں سے نکلتا ہے۔ میں کبھی کبھی یہ بھی سوچتا ہوں کہ آیا یہ وہی پاکستان ہے جس کا خواب اس کے قیام کی تحریک میں حصہ لینے والوں نے اور پھر ہجرت کا دکھ سہنے والوں نے دیکھا تھا۔
پچھلے دنوں ایک بھارتی چینل پر پیش کیے جانے والے موسیقی کے پروگرام میں برصغیر کی مشہور لیجنڈ گلوکارہ لتا منگیشکر سے سوال کیا گیا کہ وہ مہدی حسن کے بارے میں کچھ کہیں۔ لتا نے آنکھوں سے آنسو پونچھتے ہوئے کہا، ''مہدی حسن دنیائے غزل کا تاج محل ہیں۔'' اسی ہندوستان میں بال ٹھاکرے، نریندر مودی جیسے شیطان بھی ہیں، جن کی ساری زندگی مسلمانوں سے نفرت میں گزری۔ راشٹریہ سیوک سنگھ، بجرنگ دل،بی جے پی جیسی انتہا پسند مذہبی جماعتیں بھی ہیں، جن کا واحد منشور مذہبی منافرت کو پھیلانا ہے۔ لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ عوام کی بھاری اکثریت ان جماعتوں کو پسند نہیں کرتی۔ ہندوستان میں ایسے بے شمار ہندو موجود ہیں جو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری، دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان محبت کے رشتے استوار کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
ان میں آنجہانی نرملا دیش پانڈے تھیں۔ بھارتی بحریہ کے سابق سربراہ رام داس ہیں، سجاد ظہیر کی صاحبزادی ہیں۔ یہاں میں ہمارے مذہبی انتہا پسند دوستوں کو ایک دلچسپ بات بتاناچاہتا ہوں۔ ایئر ایڈمرل رام داس کی بیٹی ایک مغربی ملک کی یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھیں، جہاں ان کی ملاقات ایک مسلمان اور پاکستانی لڑکے سے ہوئی اور دونوں ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے اور شادی کرنے کا فیصلہ کیا۔
بیٹی نے باپ کو بتایا کہ وہ اس پاکستانی مسلمان لڑکے سے شادی کرنا چاہتی ہے۔ یہ قصّہ ایک دن رام داس نے ڈیفنس میں ڈاکٹر افتخار کے گھر پر ہمیں سنایا جو ان کا سمدھیانہ تھا۔ رام داس اس وقت بھارتی بحریہ کے سربراہ تھے، وہ بڑے پریشان ہوئے، انھوں نے اپنی پریشانی کا ذکر اپنے وزیراعظم سے کیا۔ وزیراعظم نے اطمینان سے کہا آپ کی بیٹی عاقل و بالغ ہے، وہ اپنے ذاتی فیصلے کرنے میں آزاد ہے، ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ بھارت کے مشہور ادیب کرشن چندر کی شریکِ حیات مسلمان خاتون تھیں۔ پنڈت نہرو کی بہن نے ایک مسلمان سے شادی کی تھی۔
یہ تفصیل ہم نے اس لیے پیش کی کہ آج کی دنیا مذہبی نفرتوں کی پرخار وادیوں سے نکل کر محبت، بھائی چارے کے مرغ زاروں میں آرہی ہے۔ راجیش کھنہ کی وفات پر ہمارے میڈیا نے جس محبت کا اظہار کیا ہے، ہوسکتا ہے کہ میڈیا کے اس انسان دوست، فنکار دوست رویے پر ہمارے انتہا پسند حلقوں کو اعتراض ہو لیکن اب اس انسان دوست کلچر کو روکا نہیں جاسکتا۔ میرے خیال میں روکا جانا چاہیے بھی نہیں کیونکہ اسی سے محبت اور بھائی چارے کے نئے چراغ جلتے ہیں۔