کرنل حبیب پاکستان کا بیٹا ہے
آخر وہ کون تھا جس نے کرنل حبیب کی شناخت ظاہر کی؟ جس نے کرنل صاحب کو ٹریپ کرنے کا پلاٹ ڈیزائن کیا؟
جس بندے نے ساری عمر کام کیا ہو، وہ ٹِک کر نہیں بیٹھ سکتا ہے۔ آپ آرمی کے کسی بھی ملازم کو دیکھیں، اُس کی کوشش ہوگی کہ وہ آخری عمر تک کچھ نہ کچھ کرتا رہے۔ یہ اُن کی ٹریننگ کا حصہ ہوتا ہے کہ وہ ٹِک کر نہیں بیٹھ سکتے ہیں بلکہ کچھ نہ کچھ کرنے کے عادی ہوتے ہیں اور اِس میں ہی وہ خوش بھی رہتے ہیں۔
کرنل حبیب کا تعلق فوج سے تھا، کرنل صاحب آرٹلری میں اپنی خدمات سر انجام دیتے تھے اور انہوں نے 31 اکتوبر 2014ء کو ریٹائرمنٹ لی۔ اُس کے بعد انہوں نے پرائیوٹ جاب (رفحان ملز فیصل آباد) شروع کی۔ سوشل میڈیا کی ویب سائٹ لنکڈ ان پر اُن کا پروفائل موجود تھا، انہوں نے اقوامِ متحدہ کی ویب سائٹ پر بھی اپنی سی وی اپ لوڈ کر رکھی تھی۔ سی وی کے جواب میں اُنہیں برطانیہ سے کال موصول ہوئی، یہ کال مارک تھامسن نامی فرد نے 00447451203722 سے کی تھی۔ اُن کو careers@startsolutions.biz سے ای میل بھی موصول ہوئی۔ کال کرنے والے نے اُن کو ساڑھے آٹھ ہزار امریکی ڈالرز کی تنخواہ کی پیشکش کی۔
انہیں 6 اپریل 2017ء کو انٹرویو کیلئے نیپال کے شہر کھٹمنڈو آنے کیلئے کہا گیا۔ انٹرویو کرنے والے نے اُن کو بتایا تھا کہ اُن کو اُس کمپنی کیلئے زونل ڈائریکٹر، نائب صدر کیلئے منتخب کیا گیا ہے اور وہ اپنے معاملات طے کرلیں۔ اُن کو لاہور سے عمان اور عمان سے کھٹمنڈو کا بزنس کلاس کا ٹکٹ بھی بھیجا گیا۔ کرنل صاحب نے فلائٹ WY344 کے ذریعے 5 اپریل کو کھٹمنڈو پہنچے۔
انہوں نے گھر رابطہ کرکے بتایا کہ مجھے جاوید انصاری نامی فرد نے ائیرپورٹ سے ریسیو کیا ہے۔ اُس نے کرنل صاحب کو نیپالی نمبر 009779813848689 دیا۔ اس کے بعد انہوں نے بوڈیا ائیر کی فلائٹ لی اور نیپال کے سرحدی علاقے لومبینی پہنچ گئے۔ یہاں پہنچ کر اُنہوں نے اپنی بیگم سے آخری بار رابطہ کیا اور اُن کو اپنی لوکیشن کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ وہ لومبینی ہیں اور اب کمپنی کے دفتر جائیں گے۔ لومبینی بھارتی سرحد سے محض پانچ کلومیٹر دور ہے۔ اہلِ خانہ نے آخری رابطے کے بعد جب کرنل صاحب سے رابطے کی کوشش کی تو اُن کے نیپالی اور پاکستانی فون نمبرز بند تھے۔
اہلِ خانہ نے اُن کی گمشدگی کی اطلاع دی، فوج نے فوراً تحقیقات شروع کی تو معلوم ہوا کہ برطانیہ کے جس نمبر سے کال آئی تھی وہ انٹرنیٹ وائس اوور آئی پی نمبر تھا۔ www.startsolutions.biz کی ویب سائٹ بھارت میں رجسٹرڈ ہے اور فی الوقت شٹ ڈاؤن ہے۔ اِس ویب سائٹ کو آسٹریلیا کی نجی کمپنی کے ذریعے سے پرائیوسی پروٹیکشن فراہم کی گئی ہے۔ کمپنی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بھی بند ہیں یعنی دوسرے الفاظ میں وہ کمپنی ایک گھوسٹ کمپنی ثابت ہوئی۔
پاکستان نے نیپال میں حکام سے رابطہ کیا اور انہوں نے کہا کہ ابھی تک اُن کو کوئی سراغ نہیں ملا ہے۔ دوسری جانب بھارت نے ابھی تک یہ تسلیم نہیں کیا ہے کہ، کرنل صاحب اُس کے پاس ہیں لیکن سارے معاملے کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ کرنل صاحب کو بھارت نے اغواء کیا ہے۔ اِس مفروضے پر یقین کرنے کی ایک وجہ بھارتی اخبار کی ایک رپورٹ ہے۔
بھارتی اخبار کی رپورٹ کہتی ہے کہ لاپتہ کرنل حبیب اُس ونگ کا حصہ تھے جس نے کلبھوشن کو گرفتار کیا تھا۔ اب اگر ہم اِس رپورٹ کو درست مان لیتے ہیں تو معاملہ مزید گھمبیر ہوجاتا ہے۔ آخر وہ کون تھا جس نے کرنل حبیب کی شناخت ظاہر کی؟ جس نے کرنل صاحب کو ٹریپ کرنے کا پلاٹ ڈیزائن کیا؟ کیا یہ کوئی اِن سائیڈ جاب ہے؟ کرنل حبیب کے معاملے میں یہ بات ٹھیک ہے کہ وہ جب سے غائب ہوئے ہیں، اُسی وقت سے پاکستان نے اِس معاملے کو تھام رکھا ہے اور اب بھارت کیلئے خاصا مشکل ہوگا کہ وہ کرنل صاحب کے معاملے پر کوئی ڈیل کرسکے۔
دوسری جانب اگر یہ بات درست ہے کہ کلبھوشن کی گرفتاری میں کرنل صاحب کا کوئی کردار تھا تو ہمیں یہ بھی یقین ہونا چاہیئے کہ وہ پاکستان کا سپوت ہے اور اُس کے سینے میں جتنے بھی راز ہوں گے، وہ اُن کے ساتھ ہی دفن ہوں گے اور بھارت کو اُن کے اغواء سے کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوگی۔ سیکیورٹی ایجنسیاں وقت آنے پر وہ تمام ثبوت متعلقہ اداروں کو بھی فراہم کر دیں گی جو کہ ثابت کریں گی کہ کرنل حبیب کو اپریل 2017ء میں نیپال سے اغواء کیا گیا ہے۔ نیپالی حکام کے پاس وہ سی سی ٹی وی فوٹیج موجود ہے جس میں کرنل صاحب نیپال پہنچنے کے بعد ایک شخص سے گفتگو کر رہے ہیں۔ حکام اُس شخص کی شناخت کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں لیکن تا دمِ تحریر ابھی تک کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔
اگر بھارت اِس معاملے کو کلبھوشن کے ساتھ جوڑنے کی کوشش بھی کرتا ہے تو کلبھوشن کے اعترافات پر مبنی دستاویزات اور ویڈیوز پاکستان کے پاس موجود ہیں۔ دوسری جانب پاکستان کے بھارت میں سفیر عبدالباسط نے بھی کہا ہے کہ بھارت کو علم ہے کہ کلبھوشن کے خلاف کافی سے زیادہ ثبوت پاکستان کے پاس ہیں۔ اب اگر بھارت اِس معاملے کو سیاسی رنگ دیتا ہے تو بھی اُس کا نقصان ہے، کیونکہ اس ہائی لیول جاسوس کیلئے دنیا کی کسی تاریخ میں معافی کی مثال نہیں ملتی ہے۔ باقی جہاں تک معاملہ رہا کرنل صاحب کا، تو وہ شاید بھارت کے کسی کام کا نہیں ہے کیونکہ وہ پہلے قدم پر ہی انتہائی مشکوک ہوگیا ہے۔
کرنل حبیب کا تعلق فوج سے تھا، کرنل صاحب آرٹلری میں اپنی خدمات سر انجام دیتے تھے اور انہوں نے 31 اکتوبر 2014ء کو ریٹائرمنٹ لی۔ اُس کے بعد انہوں نے پرائیوٹ جاب (رفحان ملز فیصل آباد) شروع کی۔ سوشل میڈیا کی ویب سائٹ لنکڈ ان پر اُن کا پروفائل موجود تھا، انہوں نے اقوامِ متحدہ کی ویب سائٹ پر بھی اپنی سی وی اپ لوڈ کر رکھی تھی۔ سی وی کے جواب میں اُنہیں برطانیہ سے کال موصول ہوئی، یہ کال مارک تھامسن نامی فرد نے 00447451203722 سے کی تھی۔ اُن کو careers@startsolutions.biz سے ای میل بھی موصول ہوئی۔ کال کرنے والے نے اُن کو ساڑھے آٹھ ہزار امریکی ڈالرز کی تنخواہ کی پیشکش کی۔
انہیں 6 اپریل 2017ء کو انٹرویو کیلئے نیپال کے شہر کھٹمنڈو آنے کیلئے کہا گیا۔ انٹرویو کرنے والے نے اُن کو بتایا تھا کہ اُن کو اُس کمپنی کیلئے زونل ڈائریکٹر، نائب صدر کیلئے منتخب کیا گیا ہے اور وہ اپنے معاملات طے کرلیں۔ اُن کو لاہور سے عمان اور عمان سے کھٹمنڈو کا بزنس کلاس کا ٹکٹ بھی بھیجا گیا۔ کرنل صاحب نے فلائٹ WY344 کے ذریعے 5 اپریل کو کھٹمنڈو پہنچے۔
انہوں نے گھر رابطہ کرکے بتایا کہ مجھے جاوید انصاری نامی فرد نے ائیرپورٹ سے ریسیو کیا ہے۔ اُس نے کرنل صاحب کو نیپالی نمبر 009779813848689 دیا۔ اس کے بعد انہوں نے بوڈیا ائیر کی فلائٹ لی اور نیپال کے سرحدی علاقے لومبینی پہنچ گئے۔ یہاں پہنچ کر اُنہوں نے اپنی بیگم سے آخری بار رابطہ کیا اور اُن کو اپنی لوکیشن کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ وہ لومبینی ہیں اور اب کمپنی کے دفتر جائیں گے۔ لومبینی بھارتی سرحد سے محض پانچ کلومیٹر دور ہے۔ اہلِ خانہ نے آخری رابطے کے بعد جب کرنل صاحب سے رابطے کی کوشش کی تو اُن کے نیپالی اور پاکستانی فون نمبرز بند تھے۔
اہلِ خانہ نے اُن کی گمشدگی کی اطلاع دی، فوج نے فوراً تحقیقات شروع کی تو معلوم ہوا کہ برطانیہ کے جس نمبر سے کال آئی تھی وہ انٹرنیٹ وائس اوور آئی پی نمبر تھا۔ www.startsolutions.biz کی ویب سائٹ بھارت میں رجسٹرڈ ہے اور فی الوقت شٹ ڈاؤن ہے۔ اِس ویب سائٹ کو آسٹریلیا کی نجی کمپنی کے ذریعے سے پرائیوسی پروٹیکشن فراہم کی گئی ہے۔ کمپنی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بھی بند ہیں یعنی دوسرے الفاظ میں وہ کمپنی ایک گھوسٹ کمپنی ثابت ہوئی۔
پاکستان نے نیپال میں حکام سے رابطہ کیا اور انہوں نے کہا کہ ابھی تک اُن کو کوئی سراغ نہیں ملا ہے۔ دوسری جانب بھارت نے ابھی تک یہ تسلیم نہیں کیا ہے کہ، کرنل صاحب اُس کے پاس ہیں لیکن سارے معاملے کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ کرنل صاحب کو بھارت نے اغواء کیا ہے۔ اِس مفروضے پر یقین کرنے کی ایک وجہ بھارتی اخبار کی ایک رپورٹ ہے۔
بھارتی اخبار کی رپورٹ کہتی ہے کہ لاپتہ کرنل حبیب اُس ونگ کا حصہ تھے جس نے کلبھوشن کو گرفتار کیا تھا۔ اب اگر ہم اِس رپورٹ کو درست مان لیتے ہیں تو معاملہ مزید گھمبیر ہوجاتا ہے۔ آخر وہ کون تھا جس نے کرنل حبیب کی شناخت ظاہر کی؟ جس نے کرنل صاحب کو ٹریپ کرنے کا پلاٹ ڈیزائن کیا؟ کیا یہ کوئی اِن سائیڈ جاب ہے؟ کرنل حبیب کے معاملے میں یہ بات ٹھیک ہے کہ وہ جب سے غائب ہوئے ہیں، اُسی وقت سے پاکستان نے اِس معاملے کو تھام رکھا ہے اور اب بھارت کیلئے خاصا مشکل ہوگا کہ وہ کرنل صاحب کے معاملے پر کوئی ڈیل کرسکے۔
دوسری جانب اگر یہ بات درست ہے کہ کلبھوشن کی گرفتاری میں کرنل صاحب کا کوئی کردار تھا تو ہمیں یہ بھی یقین ہونا چاہیئے کہ وہ پاکستان کا سپوت ہے اور اُس کے سینے میں جتنے بھی راز ہوں گے، وہ اُن کے ساتھ ہی دفن ہوں گے اور بھارت کو اُن کے اغواء سے کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوگی۔ سیکیورٹی ایجنسیاں وقت آنے پر وہ تمام ثبوت متعلقہ اداروں کو بھی فراہم کر دیں گی جو کہ ثابت کریں گی کہ کرنل حبیب کو اپریل 2017ء میں نیپال سے اغواء کیا گیا ہے۔ نیپالی حکام کے پاس وہ سی سی ٹی وی فوٹیج موجود ہے جس میں کرنل صاحب نیپال پہنچنے کے بعد ایک شخص سے گفتگو کر رہے ہیں۔ حکام اُس شخص کی شناخت کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں لیکن تا دمِ تحریر ابھی تک کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔
اگر بھارت اِس معاملے کو کلبھوشن کے ساتھ جوڑنے کی کوشش بھی کرتا ہے تو کلبھوشن کے اعترافات پر مبنی دستاویزات اور ویڈیوز پاکستان کے پاس موجود ہیں۔ دوسری جانب پاکستان کے بھارت میں سفیر عبدالباسط نے بھی کہا ہے کہ بھارت کو علم ہے کہ کلبھوشن کے خلاف کافی سے زیادہ ثبوت پاکستان کے پاس ہیں۔ اب اگر بھارت اِس معاملے کو سیاسی رنگ دیتا ہے تو بھی اُس کا نقصان ہے، کیونکہ اس ہائی لیول جاسوس کیلئے دنیا کی کسی تاریخ میں معافی کی مثال نہیں ملتی ہے۔ باقی جہاں تک معاملہ رہا کرنل صاحب کا، تو وہ شاید بھارت کے کسی کام کا نہیں ہے کیونکہ وہ پہلے قدم پر ہی انتہائی مشکوک ہوگیا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔