مایوس اور دل گرفتہ قوم کا فرد
ایک بدحال اور اپنے آپ سے برسرپیکار قوم کے کھلاڑی ذہنی طور پر منتشر ہیں
قوموں پر زوال آتا ہے تو اس کے آثار چہارسو نظر آتے ہیں۔ ایسی قوم کے ہر فرد کے چہرے پر مایوسی صاف پڑھی جا سکتی ہے۔ مورخ اور دانشور قوموں کے زوال کی داستانیں لکھتے ہوئے اس کی وجوہات بھی بیان کرتے ہیں۔ ان میں معاشی، سیاسی اور معاشرتی عوامل کا ذکر ہوتا ہے۔
اشرافیہ کی بداعمالیاں زیر بحث آتی ہیں۔ میں مورخ ہوں نہ دانشور کہ اپنی قوم کے بارے میں کوئی علمی بحث کر سکوں لیکن ایک عام پاکستانی ہونے کے ناتے مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ میں اب ایک ایسی قوم کا فرد ہوں جو زوال کی راہ پر سرپٹ دوڑ رہی ہے۔ میرے محسوسات علم نہیں مشاہدے کی بنا پر ہیں۔ میں اپنے یہ محسوسات شاید ابھی نہ لکھتا، اپنے زوال کو تسلیم کرنے کے لیے دل گردہ چاہیے لیکن کیا کیا جائے،
حقیقت تو چہروں سے عیاں ہو جاتی ہے۔ ٹی وی اسکرین پر نمودار ہونے والے ایک نامور لیکن بے رونق چہرے نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ آپ میں سے بہت سوں نے جمعہ کی رات لندن اولمپکس کی رنگا رنگ ابتدائی تقریب ٹی وی اسکرینوں پر براہ راست دیکھی ہو گی۔ مجھے بھی یہ تقریب دیکھنے کا بہت اشتیاق تھا۔ اولمپکس کی ہر تقریب میں پوری دنیا کے کھلاڑی حصہ لیتے ہیں۔ کھیلوں کی دنیا کی یہ سب سے بڑی تقریب ہوتی ہے۔ اولمپئن بننا ہر اتھلیٹ کا خواب ہوتا ہے۔ گولڈ میڈل مل جائے تو کیا کہنے، برونز میڈل لے کر وطن لوٹنے والے کھلاڑی بھی پھولے نہیں سماتے۔
ہر چار سال بعد ہونے والے اولمپک مقابلوں کے باقاعدہ آغاز سے پہلے اس تقریب کا اہتمام ہر میزبان ملک کرتا ہے۔ اس تقریب کو یادگار بنانے کے لیے سر توڑ کوششیں کی جاتی ہیں۔ اس تقریب میں اور تو بہت کچھ ہوتا ہے لیکن اس کا اصل حسن شرکت کرنے والے تمام ملکوں کے کھلاڑیوں کے دستوں کی میدان میں آمد ہوتی ہے۔ ہر ملک کے کھلاڑی اپنے قومی پرچم اٹھائے اسٹیڈیم میں بڑی شان سے داخل ہوتے ہیں۔
ان کی چال ڈھال دیدنی ہوتی ہے۔ روایتی طور پر اولمپک کے بانی ملک یونان کا دستہ سب سے پہلے اور میزبان ملک کا دستہ سب سے آخر میں میدان میں داخل ہوتا ہے۔ باقی ملکوں کے دستے انگریزی حروف تہجی کے لحاظ سے آتے ہیں۔ اس بار بھی یہی ہوا۔ پاکستان کا 38 رکنی دستہ خاصا انتظار کرانے کے بعد میدان میں داخل ہوا۔ ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی میں نے یہ تقریب شروع سے آخر تک دیکھی۔ کہاوت ہے کہ جب گرائونڈ میں اپنا بچہ کھیل رہا ہو تو سارے کھلاڑی ہی نہیں ہجوم بھی اچھا لگتا ہے۔ مجھے بھی اولمپک گیمز کی یہ افتتاحی تقریب اسی لیے سہانی لگ رہی تھی کہ ہمارے بچے بھی اس میں حصہ لے رہے ہیں۔
یونان کا دستہ جیسے ہی میدان میں داخل ہوا پاکستانی دستے کی آمد کا انتظار شروع ہو گیا۔ اور پھر وہ گھڑی آ گئی جب ہمارے کھلاڑی میدان میں داخل ہوئے۔ اس منظر نے مجھے حیرت کے سمندر میں ڈبو دیا۔ ہماری ہاکی ٹیم کے کپتان سہیل عباس قومی پرچم تھامے ہوئے پاکستانی دستے کی قیادت کر رہے تھے۔ ان کے چہرے پر ناقابل بیان مایوسی تھی۔ ان کی حالت اس کھلاڑی جیسی تھی جس میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ہوتی لیکن وہ اعتماد سے عاری ہوتا ہے۔ ایک ایسی قوم کا نمایندہ جو زوال کی اتھاہ گہرائیوں میں گر چکی ہے۔ دیگر قوموں کے دستوں کی قیادت کرنے والوں کے چہروں پر مسکراہٹ تھی۔
ان کے چہرے اعتماد کی دولت سے مالا مال تھے، ان میں جوش اور جیت کا جذبہ امڈ رہا تھا لیکن سہیل عباس کے چہرے سے صاف جھلک رہا تھا کہ وہ ایک زوال پذیر قوم کی نمایندگی کر رہے ہیں۔ یوں لگ رہا تھا کسی نے انھیں زبردستی قومی پرچم تھما دیا ہے۔ سہیل عباس کو یقیناً یہ معلوم ہوگا کہ وہ جس قوم اور جس ہاکی ٹیم کی نمایندگی کر رہے ہیں، اس نے اپنا پہلا گولڈ میڈل باون برس پہلے جیتا تھا۔
تب اس قوم کے پاس کچھ نہیں تھا لیکن لگتا تھا سب کچھ ہے۔ آج ہمارے پاس بہت کچھ ہے لیکن لگتا ہے کچھ بھی نہیں ہے۔ ہماری حالت یہ ہے کہ قومی دستے کے چیف ڈی مشن عاقل شاہ مقابلے شروع ہونے سے پہلے ہی کہہ دیتے ہیں کہ اپنے کھلاڑیوں سے کسی میڈل کی امید نہ رکھی جائے۔ کیا زمانہ تھا جب ہم راتوں کو جاگ کر اپنی ہاکی ٹیم کے میچ دیکھا کرتے تھے۔ مجھے یقین ہے کہ سہیل عباس بے مثال کھلاڑی ہے، ہمارے دوسرے ہاکی پلیئر بھی اعلیٰ درجے کے کھلاڑی ہیں۔ وہ گولڈ میڈل جیتنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن کیا کریں ، وہ انسان ہیں، پاکستان میں جو حالات ہیں، ان پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
ایک بدحال اور اپنے آپ سے برسرپیکار قوم کے کھلاڑی ذہنی طور پر منتشر ہیں۔ ایسی صورت میں وہ اعلیٰ درجے کا کھیل کیسے پیش کریں گے؟ یہی وہ انتشار ہے جو مایوسی بن کر سہیل عباس کے چہرے پر نقش ہو گیا ہے۔ ممکن ہے میرا چہرہ بھی ایسا ہی ہو۔ اب مجھے لگتا ہے کہ پاکستانی قوم کے لیے اولمپکس مقابلے افتتاحی تقریب کے بعد ہی ختم ہو گئے۔ دوسروں کے مقابلے دیکھیں اور انھیں داد دیں۔
شاید سہیل عباس اور ہمارے دیگر کھلاڑیوں کا زیادہ قصور نہیں ہے۔ وہ جب پاکستان سے روانہ ہوئے تھے تو ان کا ملک اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ تاریخ کی بدترین لوڈ شیڈنگ تب بھی تھی اور اب بھی ہے۔ یہ کس کا کارنامہ ہے؟ ہماری حکمران اشرافیہ کا۔ وہ ہمیں مسلسل اندھیروں میں دھکیل رہے ہیں۔ ہمارے گھر اور گلیاں اندھیرے میں ڈوبی ہوئی ہیں لیکن ان کا اقتدار قائم ہے۔ وہ ہمیشہ اقتدار میں رہنے کے خواب بھی دیکھتے ہیں اور اس طرح کے دعوے کرتے بھی نہیں تھکتے۔
قوم کے ساتھ ہونے والے سلوک کا ایک دوسرے کو ذمے دار قرار دیتے ہیں لیکن خود کچھ نہیں کرتے۔ ان کا اقتدار اور ہمارا زوال طویل تر ہوتا جاتا ہے۔ صدر صاحب فرماتے ہیں آیندہ الیکشن کے بعد تمام وزراء اعلیٰ ان کے ہوں گے یعنی پورے ملک میں ان کی حکومت ہو گی۔ ٹھیک ہے اگر عوام صدر صاحب کی پارٹی کو دوبارہ اقتدار کا حق دیتے ہیں تو ہم اعتراض کرنے والے کون ہوتے ہیں
لیکن کیا کریں بدترین حبس کے موسم میں بجلی کی تباہ کن لوڈ شیڈنگ نے لوگوں کا برا حال کیا ہوا ہے تو انھیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ہمارے لیڈروں کی ساری توجہ اگلے انتخابات پر ہے۔ جو اقتدار میں ہیں وہ ایک اور ٹرم پوری کرنا چاہتے ہیں اور جو انتظار میں ہیں وہ انھیں نکال باہر کرنا چاہتے ہیں۔ بے چارے عوام کے مسائل کا حل تو ان کی ترجیحات میں سرے سے موجود ہی نہیں۔روزہ داروں کی بددعائیں بھی ان کاکچھ نہیں بگاڑتیں۔
اس قوم کی نمایندگی کرتے ہوئے سہیل عباس کا چہر ہ اگر اعتماد سے عاری اور مایوسی سے بھرپور تھا تو اس بے چارے کا کیا قصور۔ اسے معلوم ہے وہ وطن لوٹے گا تو وہی اندھیرے اس کا استقبال کریں گے جنہوں نے اسے رخصت کیا تھا۔ آج میں بھی بہت مایوس اور دل گرفتہ ہوں، بہت زیادہ۔۔۔