قوم پرستی مسائل کا حل نہیں

سندھی قوم پرست دوستوں کو اس صورتحال پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔


Zaheer Akhter Bedari April 15, 2017
[email protected]

ISLAMABAD: مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد پنجاب اپنی آبادی کے حوالے سے سیاسی طاقت کا مالک بن گیا، پنجاب کی آبادی پاکستان کی کل آبادی کا 63 فیصد ہے۔ پنجاب کے ہاتھوں میں سیاسی طاقت کے ارتکاز کی وجہ سے پاکستان کے چھوٹے صوبوں میں بے چینی پیدا ہوئی جس نے قوم پرستی کی سیاست کی شکل اختیارکرلی۔ بلوچستان میں قوم پرستی کی سیاست تشدد کی طرف جا نکلی اور بلوچستان لبریشن فرنٹ جیسی تنظیمیں بننے لگیں۔

بھارت ایک بار پھر سرگرم ہوگیا اور بلوچستان کی علیحدگی پسند طاقتوں کی مدد کرنے لگا لیکن بلوچستان کا حال مشرقی پاکستان سے مختلف ہے، مشرقی پاکستان مغربی پاکستان سے ہزاروں میل دور تھا اور وہاں پہنچنے کے لیے خشکی کا ہر راستہ بھارت سے ہوکر گزرتا تھا ، صرف سمندر کے راستے مغربی پاکستان مشرقی پاکستان سے جڑا ہوا تھا۔ متحدہ پاکستان کو جوڑے رکھنے کا وسیلہ مذہبی رشتہ تھا لیکن جہاں سیاسی اوراقتصادی ناانصافیاں ہوتی ہیں وہاں مذہب سمیت تمام رشتے پانی کے بلبلے ثابت ہوتے ہیں اور یہی مشرقی پاکستان میں ہوا۔

بلاشبہ بلوچستان مشرقی پاکستان جیسی جغرافیائی پوزیشن کا حامل صوبہ نہیں ہے لیکن وہ صوبے جو سیاسی اور معاشی ناانصافیوں کا شکار رہتے ہیں وہاں سیاسی اختلافات روئی کی آگ بنے رہتے ہیں۔ سندھ میں بھی احساس محرومی ہے اور سندھو دیش کے نعرے اسی احساس محرومی کا نتیجہ ہیں۔ خیبر پختونخوا کو پنجاب سے دوسرے صوبوں سے زیادہ شکایتیں تھیں اور ولی خان اس حوالے سے بہت شدید جذبات رکھتے تھے لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ولی خان ضیا الحق کے دور حکومت سے بوجوہ قوم پرستی کی سیاست سے بڑی حد تک دستبردار ہوگئے ۔

پاکستان میں صوبوں کے حوالے سے آبادی کی تقسیم اس قدر غیر معتدل ہے کہ کم آبادی والے صوبوں میں احساس محرومی پیدا ہونا ایک فطری بات ہے جب تک مشرقی پاکستان بنگلہ دیش نہیں بنا تھا مشرقی پاکستان کی آبادی مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں کی مجموعی آبادی سے زیادہ تھی جس کی وجہ سے سیاسی طاقت مشرقی پاکستان کے ہاتھوں میں آگئی تھی۔ مشرقی پاکستان کے ہاتھوں میں فیصلہ کن سیاسی طاقت کا آجانا مغربی پاکستان کی اشرافیہ کو قبول نہ تھا۔ اس کا حل مغربی پاکستان کی اشرافیہ نے یہ نکالا کہ مغربی پاکستان کو ون یونٹ میں بدل دیا۔

اس حکمت عملی کے باوجود 1970 کے الیکشن میں مشرقی پاکستان کی عوامی لیگ کو مرکز میں حکومت بنانے کا اختیار حاصل ہوگیا۔ المیہ یہ ہے کہ مغربی پاکستان میں اکثریت حاصل کرنیوالی جماعت پیپلز پارٹی، شیخ مجیب الرحمن کو وزارت عظمیٰ کے عہدے پر دیکھنا نہیں چاہتی تھی اور یہی سائیکی یحییٰ خان کی تھی وہ بھی جمہوری اختیار مشرقی پاکستان کے ہاتھوں میں دیکھنا نہیں چاہتے تھے اور حکومت میں حصے داری کی آس لگائے بیٹھے تھے، اس ناانصافی کا نتیجہ یہ نکلا کہ شیخ مجیب الرحمن نے مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کا فیصلہ کرلیا ، مکتی باہنی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔

ادھر بھارت اس موقعے سے فائدہ اٹھانا چاہتا تھا سو اس نے اپنی فوجیں مشرقی پاکستان میں داخل کر دیں جو ڈھاکا تک آگئیں چونکہ مشرقی پاکستان کے عوام مغربی پاکستان کی کالونی بن کر نہیں رہنا چاہتے تھے سو انھوں نے بھارتی فوج کا استقبال کیا، یوں مشرقی پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک میں بدل گیا اور بالواسطہ طور پر تقسیم ہندکا نظریاتی جواز ختم ہوگیا۔

سندھی قوم پرستوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ اردو بولنے والوں ہی کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے رہے خاص طور پر کراچی کی سیاسی طاقت پر متحدہ کے قبضے کی وجہ سے سندھی قوم پرستوں کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ اردو بولنے والے ہی ان کے سیاسی حریف ہیں لیکن خاموشی منصوبہ بند طریقوں سے نقل آبادی کا سلسلہ اس طرح جاری رہا کہ کراچی کی اقتصادی طاقت اور کاروبار میں دوسرے صوبوں سے آنے والوں کا تسلط بڑھتا گیا خاص طور پر افغان مہاجرین کی کراچی میں تیزی سے بڑھتی ہوئی طاقت نے کراچی کی سیاسی صورتحال میں ایک جوہری تبدیلی پیدا کردی۔ متحدہ کو تین ٹکڑوں میں بانٹ کر اس کی سیاسی طاقت کو توڑنے کی کوشش کی گئی لیکن اردو بولنے والی نئی نسل سے ہونے والی ناانصافیوں کو ختم کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی اردو بولنے والوں کی نئی نسل اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں سے نالاں ہے اور ان کا احساس محرومی روئی کی آگ بنا ہوا ہے۔

سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت بننے سے سندھی دوستوں کو بہت ریلیف ملا ہے خاص طور پر سروسز کے شعبے میں سندھی دوستوں کو بہت سہولتیں حاصل ہیں لیکن سندھ کے دیہی علاقوں میں رہنے والے ہاریوں اور کسانوں کے شب و روز میں کوئی فرق نہیں آیا۔ جیساکہ ہم نے نشان دہی کی ہے افغان مہاجرین اور خیبر پختونخوا سے حصول روزگار کے لیے کراچی آنیوالوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے کراچی کی سیاسی صورتحال میں بھی بامعنی تبدیلی آرہی ہے۔

سندھی قوم پرست دوستوں کو اس صورتحال پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے اور فکری کج روی سے نکل کر اس پورے مافیا سیٹ اپ کو تبدیل کرنے کی طرف توجہ دینا چاہیے جو ان سارے مسائل اور محرومیوں کی جڑ ہے۔ اس جدوجہد میں بلوچستان کے قوم پرستوں کو شامل کیا جائے تو بلوچستان میں بیرونی سازشیں خودبخود ختم ہوجائیں گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔