مریضوں پہ مشق سخن
گزشتہ دنوں مارچ کے مہینے میں جس طرح اپنی بیماری سے میں لڑی ہوں، وہ ایک نہایت ہولناک تجربہ تھا
گزشتہ دنوں مارچ کے مہینے میں جس طرح اپنی بیماری سے میں لڑی ہوں، وہ ایک نہایت ہولناک تجربہ تھا۔ بس اللہ میاں نے اپنے بہت قریب بلا کر زمین پر نہ جانے کیوں واپس بھیج دیا۔ میں نے کبھی اپنی ذات یا بیماری کے حوالے سے کالم نہیں لکھا لیکن آج جب تھوڑی طبیعت بہتر ہوئی ہے تو جی چاہتا ہے کہ کچھ احساسات اور تجربات شیئر کروں۔
16 مارچ کو PFCC کی دعوت پر تقریباً بارہ لوگوں کے ساتھ لاہور روانہ ہوئے۔ سینئر صحافی حمیرا اطہر بھی ہمراہ تھیں۔ معروف ادیب اور محقق عقیل عباس جعفری بھی ہمراہ تھے۔ جو اب ماشاء اللہ اردو لغت بورڈ کے سربراہ ہیں۔ مجھے اور احباب کو یقین ہے کہ اردو لغت بورڈ کے تن مردہ میں نئی روح پھونکی جا رہی ہے۔ یہ دعوت PFCC کے مزمل فیروزی اور منصورمانی کی جانب سے ملی تھی۔ میں خالی پیٹ رہی۔ ہوٹل پہنچتے ہی اٹیک ہوا کہ ادھ موئی ہوگئی۔ تینوں دن کمرے میں پڑی رہی۔ زندگی میں ایسی تکلیف کبھی نہیں اٹھائی۔
خیر قصہ مختصر کرتے ہوئے بتانا یہ چاہتی ہوں کہ یوں تو پورا ملک تباہی کے کنارے کھڑا ہے لیکن سب سے زیادہ جس شعبے کو نظرانداز کیا گیا ہے اور نقصان پہنچایا گیا ہے اس میں صحت کا شعبہ سرفہرست ہے۔ ایک ڈاکٹر کی تشخیص دوسرے سے الگ۔ حمیرا اطہر اور منصور مانی کہیں سے ڈھونڈ ڈھانڈ کر ایک ایمرجنسی کلینک لے کر گئے۔ گروپ کے سارے لوگ میری وجہ سے پریشان تھے اور میں خود ان سب کی وجہ سے۔ بہرحال کسی نہ کسی طرح 19 مارچ کی رات جب گھر پہنچے تو رات کا ایک بج چکا تھا۔ تن تنہا، دروازے کا لاک چوکیدار نے کھولا اور اندر داخل ہوتے ہی الٹیاں شروع۔ آدھی رات کو کس کو مدد کو بلاتی۔
بہرحال کسی طرح صبح ہوئی تو میری بھانجی کی بیٹی اسپتال لے کر دوڑی۔ مجھے کچھ پتہ نہیں تھا کہ کہاں لے کر جا رہی ہے لیکن اسے بھی اور مجھے بھی اس وقت جھٹکا لگا جب کریم آباد پہ واقع پرائیویٹ اسپتال میں ایمرجنسی میں نہایت گندے دو لڑکے بیٹھے تھے۔ ڈاکٹر کا وجود ہی نہیں تھا۔ بیڈ پر میلی اور بوسیدہ چادریں بچھی تھیں۔ میں نے وہاں رکنے سے انکار کیا، عجیب ماحول تھا۔ میلی سی ٹی شرٹ پہنے ڈاکٹر کی کرسی پہ بیٹھا تھا۔ ہمیں آئے ہوئے 20 منٹ سے زیادہ ہو چکے تھے۔ میں نے ہمت کرکے پوچھا کہ ڈاکٹر کہاں ہے تو وہ بولا۔ ''یہاں کوئی ڈاکٹر نہیں ہوتا۔ ضرورت پڑنے پر اسپتال سے کسی بھی ڈاکٹر کو بلا لیتے ہیں جو ڈیوٹی پر موجود ہو۔
بڑی دیر بعد ایک خاتون ڈاکٹر آئیں۔ میرا حال سنا اور سن کر بولیں۔ ''دیکھیں میں تو گائنی کی ہوں، آپ الحمد شریف اور درود پڑھیے۔'' یہ کہہ کر جانے لگیں تو میری نواسی صدف نے کہا کہ ہم تو یہاں ایمرجنسی کی وجہ سے لے آئے کم ازکم کوئی دوا ایسی تو دے دیں جس سے ان کا پیٹ کا درد کم ہو۔ تب انھوں نے دو انجکشن لکھ کر انھیں میلے کپڑے والوں کو دے دیے۔ ایک نس میں لگنے والا تھا اور ایک بازو میں۔ جو نرس آئی وی (i.v) کا انجکشن لگانے آئی اس کے ہاتھ کپکپا رہے تھے۔
نسیں ہاتھ کی پشت پر ابھری ہوئی صاف نظر آرہی ہیں لیکن وہ لگا نہیں پا رہی تھی۔ میں نے اس سے انجکشن لگوانے سے انکار کردیا اور ڈاکٹر کو بلانے کو کہا تو جواب ملا ''انھیں ہم نہیں بلا سکتے، وہ اب نہیں آئیں گی۔'' پھر شاید اس لڑکے کو میری حالت دیکھ کر رحم آگیا، کہیں اور سے ایک شخص کو بلاکر لایا جس نے دونوں انجکشن دیے۔ میں گھر آئی لیکن آرام نام کو نہیں۔ میں جس بات کی طرف اشارہ کرنا چاہتی ہوں وہ یہ کہ ہمارے مسیحا اور گلی گلی کھلنے والے اسپتال اور کلینک صرف پیسہ کمانے کا دھندہ بن کر رہ گئے ہیں۔ بعد میں دو مزید اسپتالوں میں جاکر دکھایا۔ ٹھیک ٹھاک ڈاکٹروں نے مشق سخن کی، ہر بار ڈرپ اور چیمبر لگ رہے ہیں، مہنگے سے مہنگے ٹیسٹ ہوگئے اور کوئی یہ بتانے کو تیار نہیں کہ میرے پیٹ میں اتنا شدید درد کیوں تین دن سے ہو رہا ہے۔ حال سنا نسخہ تھمایا، ڈرپ لگائی اور بات ختم۔
سب سے زیادہ غلط بات یہ ہے کہ ہر ڈاکٹر پہلے ڈاکٹر کے کرائے ہوئے ٹیسٹ مسترد کردیتا ہے۔ الٹراساؤنڈ کی رپورٹ سے بھی مطمئن نہیں ہوتا بلکہ بعض دفعہ تو مجھے سو فیصد یقین ہوگیا کہ رپورٹ پڑھنی ہی نہیں جا رہی ہے۔ ظاہر ہے جب جعلی ڈگریوں اور نقل کا کاروبار عروج پر ہو تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ اچھے ڈاکٹروں کی سمجھ میں اگر بیماری نہیں آتی ہے تو وہ کسی دوسرے ڈاکٹر یا اسپتال کو ریفر کردیتے ہیں۔ میری دوست اور نہایت مخلص اور مشفق ڈاکٹر حفیظ شیخ نے جو ایک بڑا نام ہے جب انھوں نے میری حالت دیکھی تو کہا ''فوراً فلاں ہاسپٹل جاؤ۔ میں تجربوں کی قائل نہیں ہوں۔''
بہرحال جب گلشن اقبال میں ایک پرائیویٹ اسپتال میں پہنچے اور میری باری آئی تو خوش مزاج ڈاکٹر نے پوری ہسٹری سنی اور ایک سوال کیا کہ ''کیا مجھے کوئی پریشانی ہے۔ ذہنی دباؤ یا اور ایسی وجہ ایسی سوچ جو آپ کو ہمہ وقت پریشان رکھتی ہے'' انھوں نے یہ بھی پوچھا کہ ''گھر میں کتنے افراد ہیں، کوئی صدمہ تو ایسا نہیں جو آپ سہہ نہیں پا رہیں؟'' میں بغور ڈاکٹر کی طرف دیکھتی رہی تو وہ بولے ''میڈم! اگر آپ میرے سوال کا جواب نہیں دیں گی تو میں کیسے تشخیص کروں گا اور دوائیں تجویز کروں گا؟'' تب میں نے انھیں بتایا کہ میری صحت ہمیشہ بہت اچھی رہی، لیکن 4 دسمبر 2015ء کو میرے شریک حیات مجھے اکیلا چھوڑ کر اللہ میاں کے پاس چلے گئے۔ اس دن سے میں ایک دن بھی ٹھیک نہیں رہی۔
بس یہی تنہائی مجھے مارے ڈال رہی ہے۔ پھر اس نے ایک اور سوال کیا ''بچے ہیں؟''... ''جی ہاں، اللہ اسے زندگی دے اور صحت دے، وہ اسلام آباد میں اپنی فیملی کے ساتھ رہتا ہے۔'' انھوں نے ہنس کر کہا ''تو آپ چند دن کے لیے وہاں کیوں نہیں چلی جاتیں۔ آپ کا ڈپریشن اتنا بڑھ چکا ہے جس نے آپ کے معدے اور جگر پہ بھی منفی اثر ڈالا ہے۔ بچوں کے پاس جائیے، آپ خود کو بہتر محسوس کریں گی، ورنہ یہ ڈپریشن کبھی خطرناک بھی ہوسکتا ہے یا پھر کوئی مصروفیت ایسی تلاش کیجیے جس کے لیے روز کچھ دیر کے لیے آپ کو گھر سے باہر نکلنا پڑے۔'' ڈاکٹر صاحب کی بات سن کر اچانک میر تقی میرؔ کا یہ شعر میرے ذہن میں گونجنے لگا:
وہ صورتیں الٰہی کس دیس بستیاں ہیں
کہ دیکھنے کو جن کے آنکھیں ترستیاں ہیں
بہت کم ڈاکٹر ایسے ہوتے ہیں جو پوری تفصیل سننے کے بعد نسخہ لکھتے ہیں۔ ورنہ یہ عام مشاہدہ ہے کہ ابھی مریض نے بات شروع کی اور انھوں نے نسخہ ہاتھ میں تھما دیا۔ ''اسپیشلسٹ'' کے نام پر جو لوٹ مار کا بازار گرم ہے وہ ایک الگ مافیا ہے۔ پندرہ پندرہ سو روپے فیس لے کر وہی نسخہ لکھ دیتے ہیں جو ایک جنرل فزیشن دیتا ہے۔ لیبارٹری ٹیسٹ کے نام پر الگ لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے۔ نزلہ ہوگیا تو ٹیسٹ کرواؤ۔ بدہضمی ہوگئی تو فوراً LFT ٹیسٹ کرواؤ۔ ساتھ ساتھ یہ عذاب بھی کہ ایک ایک مہینہ دوائیں کھا کر آرام نہیں آرہا۔
دوسرے ڈاکٹر کے پاس گئے تو وہ فرماتے ہیں ''آپ کو دوائیں ہی غلط دی گئی ہیں۔'' کہاں تک لکھوں اور کیا کیا بتاؤں۔ ان پندرہ بیس دنوں میں جو جو مشاہدات اور تجربات سے گزری ہوں اس میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ اکثریت ان ڈاکٹروں کی ہے جو تعلقات، سفارش اور نقل کی بنیاد پر دکانیں سجائے بیٹھے ہیں۔ بس آپ تجربوں کی بھینٹ چڑھتے رہیے اور اپنی جیبیں خالی کرکے ڈاکٹروں کی جیبیں بھرتے رہیے۔ آخر میں ان تمام قارئین کا شکریہ ادا کرتی ہوں جنھوں نے میری خیریت دریافت کی اور صحت یابی کی دعا دی۔