تعلیم اور پرائیویٹ تعلیم

تعلیم کا تصور ہی یہ ہے کہ وہ عام ہو، لیکن ہمارے ملک میں یہ سوچ ہی نہیں ہے

تعلیم کا تصور ہی یہ ہے کہ وہ عام ہو، لیکن ہمارے ملک میں یہ سوچ ہی نہیں ہے۔ خواص کے لیے خاص اور عوام کے لیے عام۔ پہلے عام طور پر سرکاری اسکول ہوتے تھے۔ پرائمری اسکولوں میں کوئی فیس نہیں ہوتی تھی،البتہ سیکنڈری اسکولوں میں فیس ہوتی تھی، لیکن غریب بچوں کے لیے آدھی یا پوری فیس معاف ہوتی تھی۔ وہ اسکول یا تو سرکاری ہوتے تھے یا بلدیاتی اداروں کے۔ ان اسکولوں میں غریب خواہ امیر لوگوں کے بچے ساتھ ساتھ پڑھتے تھے۔

پرائیویٹ اسکول خال خال ہوتے تھے۔ان میں اکثر مشنری اسکول ہوتے تھے، جو مری کی گلیات میں،کراچی، لاہور، حیدرآباد میں ہوتے تھے اور صرف بہت بڑے بڑے رؤساء، جن کی طرف دیکھنے سے آدمی کی ٹوپی سر سے گرجاتی تھی، بالکل اس طرح جیسا کہ حبیب بینک پلازہ کی آخری منزل تک دیکھنے سے گرجاتی تھی، اپنے بچوں کو ان اسکولوں میں بھیج پاتے تھے، کیونکہ ان کی فیسیں بہت بھاری ہوتے تھیں اور متوسط طبقے کے لوگوں کو اپنے بچوں کو ان اسکولوں میں بھیجنے کی جسارت ہی نہیں ہوتی تھی۔ کراچی میں مشکل سے 2 یا 3 مشنری اسکول تھے، حیدرآباد میں صرف 1 سینٹ بوناوینچر۔ بے شک ان اسکولوں میں پڑھائی بھی اچھی ہوتی تھی اور discipline بھی۔

سرکاری اسکول بھی اتنے برے نہیں ہوتے تھے۔ میٹرک کے امتحان میں اکثر سندھ کے چھوٹے شہروں کے ہائی اسکولوں کے بچے پہلی، دوسری اور تیسری پوزیشن لیتے تھے۔ مجھے یاد نہیں ہے کہ حیدرآباد کے سینٹ بوناوینچر اسکول کے کسی بچے نے کوئی پوزیشن لی ہو۔

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اسکولوں کا بھی ایک قسم کا تقدس ہوتا تھا۔ عمارتیں نہایت کشادہ، بڑے بڑے ہوا دارکمرے، برآمدہ اور میدان، جن میں بچے تفریح (وقفے) میں بھی کھیلتے کودتے تھے اوراکثر شام کو اسپورٹس میں بھی حصہ لیتے تھے۔ آج کل چند پرائیویٹ اسکولوں کو چھوڑ کر، اکثر پرائیویٹ اسکول بنگلوں اور فلیٹوں میں کھلے ہوئے ہیں۔

میری ہنسی نہیں رک رہی تھی، جب میں نے کراچی میں ایک بلڈنگ کی تیسری منزل کے ایک فلیٹ میں ایک پبلک اسکول دیکھا۔اس پر مجھے حیدرآباد کے پبلک اسکول کا تصوربڑا دھندلا سا نظر آیا۔کہاں وہ اتنا بڑا پبلک اسکول اورکہاں یہ ننھا منا سا پبلک اسکول؟ پتہ نہیں کہ وہ اسکول رجسٹرڈ بھی تھا یا نہیں۔لیکن عام طور پر بااثر لوگ ہی ایسے اسکول کھول سکتے ہیں اور وہ رجسٹر بھی ہو جاتے ہیں۔

سرکاری اسکولوں کے اساتذہ اتنے devoted ہوتے تھے کہ وہ کمزور بچوں کو شام کو بلا معاوضہ اپنے گھروں پر ٹیوشن پڑھاتے تھے۔ ان کا مقصد صرف اورصرف یہ ہوتا تھا کہ ان کی کلاس کے سب بچے پاس ہوں۔اس کے علاوہ ٹیوشن کا تصور ہی نہیں ہوتا تھا۔ اب آتے ہیں پرائیویٹ اسکولوں کی طرف۔ ماشاء اللہ فیسیں بھی بھاری بھرکم اور ٹھاٹھ باٹھ بھی۔ زیادہ زور انگریزی بولنے پر، لیکن بچوں کے لیے سہولتیں ندارد۔ کچھ اسکولوں میں تو پنکھے بھی نہیں ہوتے، جب کہ فیسوں کے اعتبار سے ان اسکولوں میں ایئرکنڈیشن لازمی طور پر ہونے چاہئیں۔ فیسوں کے علاوہ تقریبا ہر دوسرے تیسرے مہینے کسی نہ کسی بہانے donations بھی لیے جاتے ہیں، جن کے استعمال کے بارے میں کوئی explanation نہیں دی جاتی۔

اب تو جتنا اسکول جانا لازمی ہے، اتنا ہی شام کو ٹیوشن سینٹروں میں جانا۔ یہ ٹیوشن سینٹر بھی اکثر ان ہی اساتذہ کے ہوتے ہیں، جو صبح کو ان ہی اسکولوں میں پڑھاتے ہیں۔ ایک ڈرامہ یہ ہوتا ہے کہ بچوں کو صبح کلاس میں اتنا ہوم ورک دے دیا جاتا ہے کہ وہ گھر میں نہیں کر پاتے۔ والدین کے لیے بھی مشکل ہوتا ہے ان کو ہوم ورک کراسکیں۔ اس لیے لازماً انھیں ٹیوشن سینٹروں میں بھیجنا پڑتا ہے یا ان ٹیچر صاحبان کو گھر پر بلایا جاتا ہے۔ ٹیوشن میں زیادہ تر ہوم ورک ہی کرایا جاتا ہے۔ باقی تھوڑا سا کچھ لم ٹھپ پڑھا کرگھر روانہ کردیا جاتا ہے۔


مجھے یاد ہے کہ بحرین میں جہاں میں 5 سال تک رہا، ٹیوشن ممنوع ہوتی تھی اور اسی طرح گلف کے تمام ممالک میں۔ ویسے ترقی یافتہ ممالک میں سب کچھ اسکول میں ہی پڑھایا جاتا ہے،کوئی ہوم ورک نہیں دیا جاتا ہے۔ایک طرف تو ہم دعوے کرتے ہیں کہ کرکٹ، ہاکی اور دیگر اسپورٹس کے لیے ہم اسکولوں،کالجوں اور یونیورسٹیوں سے کھلاڑی لیں گے اور دوسری طرف ہم نے وہاں کے بچوں کو شام ٹیوشن سینٹروں میں مقید کر رکھا ہے۔ان کوکھیلنے کا وقت ہی نہیں دیا جاتا۔

مزے کی بات ہے کہ پچھلے زمانے میں اسکولوں میں ہر سال inspectors آتے تھے جو کلاسوں میں جاکر بچوں سے ان سے نصاب سے متعلق سوالات پوچھتے تھے جس سے وہ اندازہ لگاتے تھے کہ اساتذہ کیسا پڑھاتے ہیں۔ جب کہ، آج کل وہ صاحبان پرنسپل یا ہیڈ ماسٹر کے دفتر میں بیٹھ کر چائے بسکٹ پر ہاتھ صاف کرکے باہر ہی باہر سے روانہ ہوجاتے ہیں یا روانہ کردیے جاتے ہیں۔تعلیم کے متعلق کچھ اورمسائل بھی ہیں، جن کی طرف دھیان دینے کی اشد ضرورت ہے۔وہ نصاب اورکتابوں کے متعلق ہیں۔اسلام آباد خواہ صوبوں کی یونیورسٹیوں، کالج اور اسکولوں کے نصاب اورکتابیں الگ الگ ہیں۔

اگرکوئی طالب علم ایک صوبے کی کسی یونیورسٹی،کالج یا اسکول سے اسلام آباد یا کسی دوسرے صوبے کی یونیورسٹی،کالج یا اسکول میں جاتا ہے تو وہاں کا نصاب اورکتابیں الگ ہوتی ہیں۔ اگرکوئی طالب علم وہاں سے پنجاب یا اسلام آباد کے علاوہ کسی دوسرے صوبے میں جاتا ہے تو وہاں کا نصاب اورکتابیں مختلف ہیں۔ جب کہ پورے ملک میں ایک ہی نصاب اورکتابیں ہونی چاہئیں۔ اکثر باہر کے ملکوں میں پاکستانی اسکول سفارتخانوں کی زیر نگرانی چلائے جارہے ہیں، جہاں انٹر یعنی بارہویں کلاس تک تعلیم دی جاتی ہے اور ان کا نصاب اورکتابیں فیڈرل بورڈ، اسلام آباد کا ہوتا ہے، لیکن اگر کوئی طالب علم وہاں سے کسی بھی صوبے میں جاتا ہے تو اسے مشکل پیش آتی ہے۔

یہاں یہ بھی قابل ذکر ہے کہ کچھ پرائیویٹ اسکولوں کے نصاب اورکتابیں بھی ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ پرائیویٹ اسکولوں میں اسلامیات پڑھائی جاتی ہے، لیکن کچھ میں نہیں۔ ہونا یہ چاہیے کہ تمام یونیورسٹیوں، کالجوں اور اسکول، چاہے وہ سرکاری ہوں یا پرائیویٹ، کا نصاب اورکتابیں یکساں ہونی چاہیے۔

اسلام آباد، پنجاب، کے پی کے اور بلوچستان میں ذریعہ تعلیم اردو ہے، جب کہ سندھ میں سندھی ہے اور سندھی میں سب مضامین کی کتابیں موجود ہیں۔

ٹیوشن کے علاوہ کچھ دوسری بیماریاں بھی ہیں۔ ایک کاپی کلچر اور دوسرا رشوت دے کر نمبر اور ڈویژن بڑھوانا۔یہ بیماری پورے ملک پھیلی ہوئی ہے۔کہنے کو توکہا جاتا ہے کہ حکومت نے کاپی کلچر پرکنٹرول کرلیا ہے، لیکن وہ سب زبانی جمع خرچ ہے،کوئی عملی اقدامات نہیں اٹھائے جا رہے ہیں۔دراصل ہر بیماری کا علاج اس کے پھیلنے سے پہلے حفظ ماتقدم کے طور پر کیا جاتا ہے، لیکن جس طرح ہمارے ہاں بیماریوں کے لیے حفظ ماتقدم کا رواج نہیں ہے، بالکل اسی طرح کاپی کلچر اور نمبر اور ڈویژن بڑھوانے کی بیماری کا کوئی علاج نہیں کیا جاتا، بلکہ ان بیماریوں میں ہر سال ترقی ہو رہی ہے۔

1961 میں جب میں انٹر کا امتحان دے رہا تھا تو میرے پیچھے بیٹھے ہوئے صاحب نے میری امتحانی کاپی میں جھانک کر میری نقل کرنے کی کوشش کی۔ ممتحن نے اسی وقت اس کی امتحانی کاپی لے لی اور اسے کمرہ امتحان سے باہر نکال دیا۔ اس زمانے میں کمرہ امتحان میں بندوق لے جانے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اسے 2 سال کے لیے باہر کردیا گیا۔
Load Next Story