شعور اور ادراک کی دولت
کسی بھی ملک کی ترقی میں تعلیم انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہے
کسی بھی ملک کی ترقی میں تعلیم انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ جس ملک کی شرح خواندگی جتنی زیادہ ہو، اس ملک کی ترقی کے امکانات اسی قدر روشن ہوتے ہیں۔ بد قسمتی سے ہمارے ملک میں تعلیم کی شرح بمشکل پچاس فیصد کے لگ بھگ ہے پھر جو لوگ تعلیم یافتہ ہیں وہ بھی صرف اپنی نصابی کتب پڑھنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔
نئی نسل کی تخلیقی سرگرمیوں کو نکھارنے کے لیے لازم ہے کہ انھیں ہم نصابی اور غیر نصابی کتب کے مطالعے کی طرف بھی مائل کریں تاکہ ان میں مثبت تعمیری اور معلوماتی شعور اجاگر ہو اور اس کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں لائبریریوں کے وجود کو فعال اور موثر کیا جائے ان کی تعداد بڑھائی جائے تاکہ نوجوان نسل میں مطالعے کی عادت عام ہو اور ہم سب خود کوعصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق ڈھال سکیں ویسے بھی معاشرے میں کتب بینی کی اہمیت و افادیت کا اندازہ لگانا کوئی کاردارد نہیں۔
پاکستان کو ورثے میں انگریز دور میں قائم متعدد کتب خانے ملے تھے اور دور جدید کے وسائل اور محاسن کے باوجود کتب خانوں کی اہمیت سے قطعی ر ممکن نہیں اور اس بات میں قطعی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ کسی بھی معاشرے میں سماجی، معاشی، روایتی، علمی اور فکری اقدار کے فروغ کے لیے کتب خانے کلیدی کردار ادا کرتے ہیں اور اکیسویں صدی میں ان کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے تاہم ان کتب خانوں کا مستقبل حکمرانوں اور شہریوں کے ہاتھ میں ہے۔
افسوس کے ساتھ یہ تحریرکرنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے ملک میں آخری کتب خانہ پنجاب حکومت نے 1973 میں ملتان میں قائم کیا اور اس کے بعد سے اب تک کوئی نیا کتب خانہ وجود میں نہیں آیا۔ اور لے دے کر جو کتب خانے ہیں ان کی حالتیں نہایت خستہ ہیں اور ان لائبریریوں کے معیار کو انفارمیشن، کمیونی کیشن اور کیٹلاگ کی کسوٹی پر پرکھا جائے تو مناسب درجہ بندی کی کمی نمایاں دکھائی دے گی، ٹیکنالوجی انفرا اسٹرکچر اور ڈیولپمنٹ پر کتابیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ لائبریریوں کی اکثریت کا فرنیچر انتہائی بوسیدہ،گردوغبار سے اٹا ملتا ہے پیشہ ورانہ عملہ، تکنیکی امور اورجدید سہولتوں کی کمی اور ناکافی فنڈز وغیرہ الگ شمار قطار ہوتے ہیں۔
کتابوں کے حوالے سے یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ کتابیں انسان کی سب سے زیادہ بہترین لیکن بے زبان رفیق ہوتی ہیں، کتابوں سے ایک بار رشتہ جڑ جائے تو پھر یہ خونی رشتوں کی طرح ٹوٹے سے بھی نہیں ٹوٹتا، لیکن برسہا برس سے ہمارے ہاں اہل ذوق کم سے کم بلکہ ناپید ہوتے جا رہے ہیں اور لوگوں کی دلچسپی کتابوں سے ہٹتے ہٹتے تقریباً قریب الختم ہے لیکن باوجود اس کے یہ اٹل سچائی ہے کہ مستند ادیبوں کی کتابیں اب بھی کروڑوں کی تعداد میں قارئین کے ہاتھوں تک پہنچتی رہتی ہیں۔
آکسفورڈ پریس والے ہر سال کراچی میں کتابوں کی نمائش کا اہتمام کرتے ہیں جہاں خریداروں کا رش دیدنی ہوتا ہے۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن نے بھی کتابوں کے حوالے سے قابل قدرکام کیے ہیں ان کی سالانہ کتابوں کی نمائش میں دو تین دنوں میں چار کروڑ روپے کی کتابیں فروخت ہوتی ہیں، اسی طرح دوسرے بہت سے ادارے سال بھر اس نوع کی نمائشوں کا اہتمام کرتے ہیں۔
عصر حاضر چونکہ سوشل میڈیا کے شکنجوں میں پھنسا ہوا ہے لہٰذا ہر شعبہ حیات انٹرنیٹ پر منتقل ہوگیا ہے اب کتابوں کی اکثریت کی قیمتیں عام آدمی کی دسترس سے باہر ہوگئی ہیں لہٰذا لوگ انٹرنیٹ پر انھیں پڑھتے ہیں اسے یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ کتابوں کی فروخت کم ہونے کی وجہ کتب بینی کا رجحان کم ہونا نہیں بلکہ کمپیوٹر ٹیکنالوجی کا عام ہونا ہے۔
عام خیال تاہم یہی ہے کہ لوگ کتاب بینی کی عادت چھوڑ گئے ہیں اور اب یہ کتابیں گوداموں کی گود میں سما گئی ہیں پھر بھی اچھی کتابیں خوشبو کی طرح پھیل جاتی ہیں اور یہ مسلمہ امر ہے کہ کتابیں علم و حکمت کا خزانہ ہوتی ہیں اور شعور و ادراک کی دولت قوموں کو اسی خزانے سے حاصل ہوتی ہے اورکسی بھی معاشرے میں کتب خانوں سے جہاں ایک طرف تو امن و دوستی کی فضا پیدا ہوتی ہے جو لوگوں کے ذہنوں کو تخلیقی اور تعمیری رجحانات دیتی ہے اور وہ تہذیب و تمدن سے آشنا ہوکر اتحاد و اتفاق سے زندگی گزارنے کا ہنر سیکھتے ہیں۔
جس طرح پوری دنیا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کمپیوٹر ٹیکنالوجی نے اسے سکیڑ کر گلوبل ولیج بنادیا ہے اسی طرح وقت کے ساتھ ساتھ ہم نے بہت کچھ کھو بھی دیا ہے۔ لائبریری جیسی عظیم درسگاہ یا ادارے سے بھی ہم ہاتھ دھوتے جارہے ہیں، کوئی بہت زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب کراچی میں بہت سے ریڈنگ روم آباد تھے جن کے ساتھ روایتی لائبریریاں بھی تھیں پر اب یہ روایت بھی تیزی سے دم توڑ رہی ہے۔ کتاب پڑھنے والے اس سے محبت کرنے والے آج بھی موجود ہیں لیکن وہ ادارے شاید نہیں رہے جو اس مالی طور پر غیر منافع بخش کام کو محض علم و ادب کی محبت میں آگے بڑھائیں۔ اسٹیٹ بینک لائبریری اور ڈیفنس لائبریری جیسے کچھ ادارے آج بھی کام کر رہے ہیں۔
ایسے پبلشنگ ہاؤسز جو آج بھی پوری تندہی سے کام میں مصروف ہیں اگر چاہیں تو عام آدمی کے معاملے میں سنجیدگی سے بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ایک بڑی ذمے داری ہمارے میڈیا بطور خاص الیکٹرانک میڈیا پر بھی عاید ہوتی ہے کہ وہ ناظرین میں کتب بینی کا ذوق پیدا کریں اور ان کتابوں پر فوکس کریں جو اپنے اندر مضبوط Content رکھتی ہوں۔ کیونکہ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ادب کا فروغ دہشت گردی کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ بن سکتا ہے کہ آج تک جتنے بھی دہشتگرد گرفتار ہوئے ہیں ان میں ایک بھی ادیب نہیں تھا۔پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر گہری نگاہ کی جائے تو ایک سوال یہ سر ابھارتا ہے کہ کیا انٹرنیٹ ہی آج کے دور میں ''حقیقی علمی آماجگاہ ہے؟'' کیا ہم نے اپنے تمام تعلیمی وظائف الیکٹرانک ٹیکنالوجی کے سپرد کرنے ہیں؟ کیا اب ہمیں واقعی کتب خانوں کی ضرورت باقی نہیں رہی؟
ان تمام سوالات کے جواب دنیا کی ترقی یافتہ اقوام کے کتب خانوں سے ہمیں مل سکتے ہیں، لیکن ہم ایسے غافل، بیزار یا اکتائے ہوئے لوگ ہیں کہ ہمیں اپنی سدھار اپنی ترقی اور اپنی بقا کی ذرہ برابر پرواہ نہیں اس لیے کہ ہم حد درجہ ڈپریشن کی گہرائیوں میں غوطہ زن ہیں۔ ہمارے ترقی پسند حلقوں کے لوگ نئی آبادیوں کی تعمیرکے دوران جم، پارک، کلب، سیمینار اور کارپارکنگ وغیرہ جیسی سہولتوں کا خیال تو کرلیتے ہیں لیکن کتب خانے یا لائبریری کا سرے سے کوئی اہتمام نہیں کرتے۔
دولت کے انبار لگانے یا اسے ٹھکانے لگانے والی اشرافیہ کروڑوں مالیت کے گھر خرید لیتے ہیں لیکن کتب خانوں کے فقدان کو محسوس نہیں کرتے۔ کاش وہ اس روشن حقیقت کو جان پاتے کہ ذاتی لائبریری زندگی کا سب سے بڑا سرمایہ اور دماغی لائبریری بے بہا نعمت ہوتی ہے۔
ہمارے ارباب اختیار ہماری اشرافیہ اور نئی نسل کی باگ ڈور تھامنے والوں کو اس حقیقت کو بھی تسلیم کرلینا چاہیے کہ جن قوموں میں مطالعے کا فقدان ہوجاتا ہے، ان کی ذہنی صلاحیتیں تنزلی کا شکار ہوجاتی ہیں اور وہ کبھی ترقی کی منزلیں طے نہیں کرسکتیں۔کتابوں کو پڑھنے انھیں اہمیت دینے اور انھیں اپنے معمولات میں شامل کرنے سے ذہنوں کے بند دریچے کھلتے ہیں، دنیا کو وسیع النظری سے دیکھنے کی صلاحیت آشکارہ ہوتی ہے۔ آج کے ٹینشن زدہ ماحول اور حالات میں اچھی، موثر، دلچسپ کتاب ذہن سے کثافتیں دورکرنے کا سبب بن سکتی ہے۔
کتب بینی سے صرف انسانی معلومات میں ہی اضافہ نہیں ہوتا بلکہ لفظوں کا ذخیرہ بھی ہمارے ہاتھ لگتا ہے جسے ہم جا بجا، گرد و پیش میں احسن طریقے سے استعمال کرسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زندہ قومیں کتب خانوں کو بہت اہمیت دیتی ہیں۔ کہتے ہیں لائبریری بچے کے دماغ کی بہترین میزبان ہوتی ہے اور وہ اپنے مزاج کے مطابق کتابوں کا انتخاب کرکے اپنی دماغی صلاحیتیں اجاگر کرسکتا ہے۔ نوجوان ویسے بھی کسی بھی قوم کا مستقبل اورکتابیں قومی ترقی کی ضامن ہوتی ہیں، لہٰذا ہم نسل نو کو کتابوں سے قریب کرکے انھیں زندگی میں ایک بہترین دوست فراہم کرسکتے ہیں۔
نئی نسل کی تخلیقی سرگرمیوں کو نکھارنے کے لیے لازم ہے کہ انھیں ہم نصابی اور غیر نصابی کتب کے مطالعے کی طرف بھی مائل کریں تاکہ ان میں مثبت تعمیری اور معلوماتی شعور اجاگر ہو اور اس کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں لائبریریوں کے وجود کو فعال اور موثر کیا جائے ان کی تعداد بڑھائی جائے تاکہ نوجوان نسل میں مطالعے کی عادت عام ہو اور ہم سب خود کوعصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق ڈھال سکیں ویسے بھی معاشرے میں کتب بینی کی اہمیت و افادیت کا اندازہ لگانا کوئی کاردارد نہیں۔
پاکستان کو ورثے میں انگریز دور میں قائم متعدد کتب خانے ملے تھے اور دور جدید کے وسائل اور محاسن کے باوجود کتب خانوں کی اہمیت سے قطعی ر ممکن نہیں اور اس بات میں قطعی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ کسی بھی معاشرے میں سماجی، معاشی، روایتی، علمی اور فکری اقدار کے فروغ کے لیے کتب خانے کلیدی کردار ادا کرتے ہیں اور اکیسویں صدی میں ان کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے تاہم ان کتب خانوں کا مستقبل حکمرانوں اور شہریوں کے ہاتھ میں ہے۔
افسوس کے ساتھ یہ تحریرکرنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے ملک میں آخری کتب خانہ پنجاب حکومت نے 1973 میں ملتان میں قائم کیا اور اس کے بعد سے اب تک کوئی نیا کتب خانہ وجود میں نہیں آیا۔ اور لے دے کر جو کتب خانے ہیں ان کی حالتیں نہایت خستہ ہیں اور ان لائبریریوں کے معیار کو انفارمیشن، کمیونی کیشن اور کیٹلاگ کی کسوٹی پر پرکھا جائے تو مناسب درجہ بندی کی کمی نمایاں دکھائی دے گی، ٹیکنالوجی انفرا اسٹرکچر اور ڈیولپمنٹ پر کتابیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ لائبریریوں کی اکثریت کا فرنیچر انتہائی بوسیدہ،گردوغبار سے اٹا ملتا ہے پیشہ ورانہ عملہ، تکنیکی امور اورجدید سہولتوں کی کمی اور ناکافی فنڈز وغیرہ الگ شمار قطار ہوتے ہیں۔
کتابوں کے حوالے سے یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ کتابیں انسان کی سب سے زیادہ بہترین لیکن بے زبان رفیق ہوتی ہیں، کتابوں سے ایک بار رشتہ جڑ جائے تو پھر یہ خونی رشتوں کی طرح ٹوٹے سے بھی نہیں ٹوٹتا، لیکن برسہا برس سے ہمارے ہاں اہل ذوق کم سے کم بلکہ ناپید ہوتے جا رہے ہیں اور لوگوں کی دلچسپی کتابوں سے ہٹتے ہٹتے تقریباً قریب الختم ہے لیکن باوجود اس کے یہ اٹل سچائی ہے کہ مستند ادیبوں کی کتابیں اب بھی کروڑوں کی تعداد میں قارئین کے ہاتھوں تک پہنچتی رہتی ہیں۔
آکسفورڈ پریس والے ہر سال کراچی میں کتابوں کی نمائش کا اہتمام کرتے ہیں جہاں خریداروں کا رش دیدنی ہوتا ہے۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن نے بھی کتابوں کے حوالے سے قابل قدرکام کیے ہیں ان کی سالانہ کتابوں کی نمائش میں دو تین دنوں میں چار کروڑ روپے کی کتابیں فروخت ہوتی ہیں، اسی طرح دوسرے بہت سے ادارے سال بھر اس نوع کی نمائشوں کا اہتمام کرتے ہیں۔
عصر حاضر چونکہ سوشل میڈیا کے شکنجوں میں پھنسا ہوا ہے لہٰذا ہر شعبہ حیات انٹرنیٹ پر منتقل ہوگیا ہے اب کتابوں کی اکثریت کی قیمتیں عام آدمی کی دسترس سے باہر ہوگئی ہیں لہٰذا لوگ انٹرنیٹ پر انھیں پڑھتے ہیں اسے یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ کتابوں کی فروخت کم ہونے کی وجہ کتب بینی کا رجحان کم ہونا نہیں بلکہ کمپیوٹر ٹیکنالوجی کا عام ہونا ہے۔
عام خیال تاہم یہی ہے کہ لوگ کتاب بینی کی عادت چھوڑ گئے ہیں اور اب یہ کتابیں گوداموں کی گود میں سما گئی ہیں پھر بھی اچھی کتابیں خوشبو کی طرح پھیل جاتی ہیں اور یہ مسلمہ امر ہے کہ کتابیں علم و حکمت کا خزانہ ہوتی ہیں اور شعور و ادراک کی دولت قوموں کو اسی خزانے سے حاصل ہوتی ہے اورکسی بھی معاشرے میں کتب خانوں سے جہاں ایک طرف تو امن و دوستی کی فضا پیدا ہوتی ہے جو لوگوں کے ذہنوں کو تخلیقی اور تعمیری رجحانات دیتی ہے اور وہ تہذیب و تمدن سے آشنا ہوکر اتحاد و اتفاق سے زندگی گزارنے کا ہنر سیکھتے ہیں۔
جس طرح پوری دنیا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کمپیوٹر ٹیکنالوجی نے اسے سکیڑ کر گلوبل ولیج بنادیا ہے اسی طرح وقت کے ساتھ ساتھ ہم نے بہت کچھ کھو بھی دیا ہے۔ لائبریری جیسی عظیم درسگاہ یا ادارے سے بھی ہم ہاتھ دھوتے جارہے ہیں، کوئی بہت زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب کراچی میں بہت سے ریڈنگ روم آباد تھے جن کے ساتھ روایتی لائبریریاں بھی تھیں پر اب یہ روایت بھی تیزی سے دم توڑ رہی ہے۔ کتاب پڑھنے والے اس سے محبت کرنے والے آج بھی موجود ہیں لیکن وہ ادارے شاید نہیں رہے جو اس مالی طور پر غیر منافع بخش کام کو محض علم و ادب کی محبت میں آگے بڑھائیں۔ اسٹیٹ بینک لائبریری اور ڈیفنس لائبریری جیسے کچھ ادارے آج بھی کام کر رہے ہیں۔
ایسے پبلشنگ ہاؤسز جو آج بھی پوری تندہی سے کام میں مصروف ہیں اگر چاہیں تو عام آدمی کے معاملے میں سنجیدگی سے بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ایک بڑی ذمے داری ہمارے میڈیا بطور خاص الیکٹرانک میڈیا پر بھی عاید ہوتی ہے کہ وہ ناظرین میں کتب بینی کا ذوق پیدا کریں اور ان کتابوں پر فوکس کریں جو اپنے اندر مضبوط Content رکھتی ہوں۔ کیونکہ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ادب کا فروغ دہشت گردی کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ بن سکتا ہے کہ آج تک جتنے بھی دہشتگرد گرفتار ہوئے ہیں ان میں ایک بھی ادیب نہیں تھا۔پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر گہری نگاہ کی جائے تو ایک سوال یہ سر ابھارتا ہے کہ کیا انٹرنیٹ ہی آج کے دور میں ''حقیقی علمی آماجگاہ ہے؟'' کیا ہم نے اپنے تمام تعلیمی وظائف الیکٹرانک ٹیکنالوجی کے سپرد کرنے ہیں؟ کیا اب ہمیں واقعی کتب خانوں کی ضرورت باقی نہیں رہی؟
ان تمام سوالات کے جواب دنیا کی ترقی یافتہ اقوام کے کتب خانوں سے ہمیں مل سکتے ہیں، لیکن ہم ایسے غافل، بیزار یا اکتائے ہوئے لوگ ہیں کہ ہمیں اپنی سدھار اپنی ترقی اور اپنی بقا کی ذرہ برابر پرواہ نہیں اس لیے کہ ہم حد درجہ ڈپریشن کی گہرائیوں میں غوطہ زن ہیں۔ ہمارے ترقی پسند حلقوں کے لوگ نئی آبادیوں کی تعمیرکے دوران جم، پارک، کلب، سیمینار اور کارپارکنگ وغیرہ جیسی سہولتوں کا خیال تو کرلیتے ہیں لیکن کتب خانے یا لائبریری کا سرے سے کوئی اہتمام نہیں کرتے۔
دولت کے انبار لگانے یا اسے ٹھکانے لگانے والی اشرافیہ کروڑوں مالیت کے گھر خرید لیتے ہیں لیکن کتب خانوں کے فقدان کو محسوس نہیں کرتے۔ کاش وہ اس روشن حقیقت کو جان پاتے کہ ذاتی لائبریری زندگی کا سب سے بڑا سرمایہ اور دماغی لائبریری بے بہا نعمت ہوتی ہے۔
ہمارے ارباب اختیار ہماری اشرافیہ اور نئی نسل کی باگ ڈور تھامنے والوں کو اس حقیقت کو بھی تسلیم کرلینا چاہیے کہ جن قوموں میں مطالعے کا فقدان ہوجاتا ہے، ان کی ذہنی صلاحیتیں تنزلی کا شکار ہوجاتی ہیں اور وہ کبھی ترقی کی منزلیں طے نہیں کرسکتیں۔کتابوں کو پڑھنے انھیں اہمیت دینے اور انھیں اپنے معمولات میں شامل کرنے سے ذہنوں کے بند دریچے کھلتے ہیں، دنیا کو وسیع النظری سے دیکھنے کی صلاحیت آشکارہ ہوتی ہے۔ آج کے ٹینشن زدہ ماحول اور حالات میں اچھی، موثر، دلچسپ کتاب ذہن سے کثافتیں دورکرنے کا سبب بن سکتی ہے۔
کتب بینی سے صرف انسانی معلومات میں ہی اضافہ نہیں ہوتا بلکہ لفظوں کا ذخیرہ بھی ہمارے ہاتھ لگتا ہے جسے ہم جا بجا، گرد و پیش میں احسن طریقے سے استعمال کرسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زندہ قومیں کتب خانوں کو بہت اہمیت دیتی ہیں۔ کہتے ہیں لائبریری بچے کے دماغ کی بہترین میزبان ہوتی ہے اور وہ اپنے مزاج کے مطابق کتابوں کا انتخاب کرکے اپنی دماغی صلاحیتیں اجاگر کرسکتا ہے۔ نوجوان ویسے بھی کسی بھی قوم کا مستقبل اورکتابیں قومی ترقی کی ضامن ہوتی ہیں، لہٰذا ہم نسل نو کو کتابوں سے قریب کرکے انھیں زندگی میں ایک بہترین دوست فراہم کرسکتے ہیں۔