صرف 30 روپے میں کراچی کا کچرا کم
کراچی کے کچرے پہ ایک شورمچا ہوا ہے اور ہرکوئی اپنی اپنی ہانکنے میں لگا ہوا ہے
KARACHI:
کراچی کے کچرے پہ ایک شورمچا ہوا ہے اور ہرکوئی اپنی اپنی ہانکنے میں لگا ہوا ہے مگر خالی خولی باتوں سے چونکہ مسئلے حل نہیں ہوتے لہٰذا کراچی کا کچرا ہے کہ سندھ میں کرپشن کی طرح ہر سو پھیلتا ہی چلا جاتا ہے۔ کراچی کے کچرے کے مسئلے سے بھی بڑا مسئلہ ہمارا یہ ہے کہ ہم اس مسئلے کے اصل اور مستقل حل کی طرف نہیں آتے جوکہ بہت ہی سادہ ہے ''شاپر کو ختم کردو'' اورکراچی کے کچرے کا تقریباً 60 سے 70 فیصد تک کا مسئلہ خود ہی ختم ہوجائے گا۔ ''شاپر'' دراصل وہ شیطانی پولی تھن کی تھیلی ہے جسے ہمارے ہاں پیالے کو انگریزی میں ''بول'' کے بجائے ''باؤل'' پکارنے والے ''پڑھے لکھوں'' نے ''شاپر'' بنادیا۔
پولی تھن کی یہ بدصورت تھیلیاں کراچی کے لینڈ اسکیپ کو کسی مکروہ عفریت کی طرح نگل چکی ہیں۔ کراچی میں ہر روز ہزاروں یا لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں پولی تھن کی یہ تھیلیاں استعمال کی جاتی اور پھینکی جاتی ہیں۔ ایک جانب شہرکی گٹر لائنیں اور نالے ان ''شاپرز'' سے گلے گلے تک بھرے ہوئے ہیں تو دوسری جانب انھوں نے پورے شہر کو ایک عظیم الشان کچرا کنڈی میں تبدیل کردیا ہے، شہر کی سڑکیں اور گلیاں ان سے اٹی پڑی ہیں۔ پلاسٹک کی یہ تھیلیاں صرف شہرکے انفرااسٹرکچر کو ہی نقصان نہیں پہنچاتیں بلکہ یہ انسانی صحت کے لیے بھی کئی طرح سے نہایت مضر ہیں۔ انھوں نے کراچی کے کوڑے کو ایک ناقابل تسخیر چیلنج میں تبدیل کردیا ہے۔
یہ ''شاپر'' اپنی موت آپ مرجائیں گے اگر ہم خود سے ان کا استعمال بند کردیں یا کوئی زبردستی ہم سے ان کا استعمال بند کرا دے۔ سچ پوچھیے تو دونوں ہی صورتیں اٹل ناممکنات میں سے ہیں کیونکہ پچھلے تین چار عشروں میں حکومت کا ادارہ اس ملک میں اپنی رٹ تقریباً کھو چکا ہے اور ہماشا توکیا خود حکمراں بھی اب اپنی باتوں کو سنجیدگی سے نہیں لیتے چنانچہ اسمبلیوں سے چاہے کتنی ہی قراردادیں کیوں نہ پاس ہوجائیں حکومت نہ عوام کو نہ ہی دکانداروں کو پولی تھن کی تھیلیاں استعمال کرنے سے روک سکتی ہے۔
دوسری طرف انھی تین چار عشروں میں لوگ بھی شہری آداب اور سماجی قرینوں سے تقریباً مادر پدر آزاد ہوچکے ہیں چنانچہ ناممکن ہے کہ وہ تہذیب یافتہ مخلوق کی طرح سوچیں اور خود سے یہ پولی تھن کی تھیلیاں استعمال کرنا بند کردیں۔ یہ ساری صورتحال خاصی مایوس کن نظر آتی ہے بہرحال مگر اتنی بھی نہیں کہ ہمیں کراچی کے کوڑے کے خلاف چین جیسی سپرپاورکی ضرورت پڑے۔ ہمیں تو بس صرف 30 روپوں کی ضرورت ہے، جی ہاں فی گھر صرف 30 روپوں کی۔ صرف 30 روپے کے آس پاس کی قیمت کا ایک سادہ سا کاٹن کا تھیلا کراچی کے کچرے کے ناقابل حل مسئلے کو بڑی حد تک حل کرسکتا ہے وہ بھی مستقل بنیادوں پہ۔
پچھلے وقتوں یعنی 1980 کی دہائی تک روزمرہ کے سودا سلف کے لیے کاٹن کا تھیلا یا بان کی ٹوکری استعمال ہوتے تھے۔ یہ نہ صرف استعمال میں آسان اور آرام دہ تھے بلکہ انسانی صحت، قدرتی ماحول اورشہری سہولیات کے لیے بھی خطرہ نہیں تھے۔
ہمیں یہ دور واپس لانا ہوگا۔ ہمیں روزمرہ کے سودا سلط کے لیے اپنے گھروں میں کاٹن کے تھیلے کو لانا ہوگا۔ آپ روزمرہ سودا سلف کی زیادہ تر چیزیں پولی تھن کی تھیلیوں میں ڈالے بغیرکاٹن کے تھیلے میں رکھ سکتے ہیں مثلاً پھل، سبزیاں، انڈے، روٹی، ڈبل روٹی، پیک شدہ اشیا مثلاً مصالحے، صابن، واشنگ پاؤڈر وغیرہ کے پیکٹ۔ صرف کھلی دال اور چاول و آٹا اور گوشت وغیرہ کو آپ کو پلاسٹک (پولی تھن) کی تھیلی یا کاغذ کے لفافے میں رکھ کر کاٹن کے تھیلے میں رکھنا ہوگا۔
کاٹن کے تھیلے کو آپ دھو بھی سکتے ہیں اور یہ مہینوں بلکہ سالوں چل جاتا ہے۔ آپ اس کاٹن بیگ کی اہمیت اور افادیت کا اس بات سے اندازہ لگائیے کہ اگر کراچی کے صرف ایک ملین گھروں میں ہی روزمرہ کا سودا وغیرہ کاٹن کے تھیلے میں لایا جانے لگے تو فی گھر کم سے کم چھ پولی تھن کی تھیلیوں کے حساب سے بھی یہ روز کی ساٹھ تھیلیاں بنیں گی جو کراچی کے کوڑے میں شامل نہیں ہوں گی۔ مزید یہ کہ قدرتی ماحول اور انسانی صحت بھی ان تھیلیوں کے زہریلے اثرات سے بچیں گے۔
کاٹن بیگ کے استعمال کی عادت گھر گھر پیدا کرنے کے لیے ہمیں آگہی مہم اور کاٹن بیگز کی مفت تقسیم درکار ہوگی۔ اس سلسلے میں روز مرہ گھریلو استعمال کی پروڈکٹس تیار کرنے والی FMCG کمپنیاں بڑی تعداد میں کاٹن بیگز تیار کروا سکتی ہیں کہ جن کے ایک طرف ان کی برانڈنگ ہو اور دوسری طرف کاٹن بیگز کے فوائد پر مبنی پیغام چھپا ہو۔ یہ کاٹن بیگز اتوار بازاروں، سپراسٹورز اور محلے کی عام دکانوں کے ذریعے ان خریداروں کو مفت دیے جاسکتے ہیں جو ان کی تین چار سو روپوں سے زائد کی اشیا خریدیں۔
یہ CSR کے ساتھ ان کمپنیوں کی سیلز کو بھی سپورٹ ہوگی۔ سماجی بہبود کی قومی تنظیمیں جیسے کہ فکس اٹ، شہری وغیرہ اور بین الاقوامی تنظیمیں جیسے کہ DFID, USAID اور CIDA وغیرہ بھی گھر گھرکاٹن بیگز کی مفت تقسیم کے پروگرام چلا سکتی ہیں۔ یونی ورسٹیز،کالجز اور اسکول بھی اپنے ہاں کاٹن بیگز کے بارے میں آگہی اور تقسیم کے پروگرام چلا سکتے ہیں جب کہ طلبا بھی گروپ بناکر اور چندہ اکٹھا کرکے اپنے دوستوں اور رشتے داروں کے گھروں میں کاٹن بیگز مفت تقسیم کرسکتے ہیں۔ طلبا نے زلزلوں اور سیلاب جیسی قدرتی آفات کے خلاف قابل تعریف کردار ادا کیا ہے وہ پولی تھن تھیلیوں کی اس مین میڈآفت کے مقابلے میں بھی موثرکام کرسکتے ہیں۔
مزید یہ کہ بڑی بڑی رہائشی اسٹیٹس بھی اپنے رہائشیوں میں کاٹن بیگز مفت تقسیم کرسکتی ہیں۔ نیز ہمارے میڈیا کا مختلف کمپنیوں اور تنظیموں کے اشتراک سے کاٹن بیگزکی آگہی مہم چلانا لازمی ہوگا جو سال بہ سال گاہے بگاہے جاری رہے تاکہ لوگوں میں کاٹن شاپنگ بیگز کے استعمال کی عادت پکی ہوجائے۔اس میڈیا آگہی مہم سے نہ صرف کراچی بلکہ پورے ملک کو فائدہ پہنچے گا۔ مائیکرو فنانس بینک اور تنظیمیں کاٹن بیگز بنانے کے گھریلو یونٹ لگانے میں عام افراد خصوصاً خواتین کی مدد کرسکتے ہیں۔
ذرا سوچیے کہ جب روزکی 70-80 لاکھ بلکہ اس سے بھی زیادہ یعنی ہر مہینے کی کوئی بیس پچیس کروڑ پولی تھن تھیلیوں کے پہاڑکے پہاڑ کراچی کے کوڑے میں شامل نہیں ہوں گے توکراچی کے کچرے کا مسئلہ کتنا کم رہ جائے گا۔
کراچی کے کچرے پہ ایک شورمچا ہوا ہے اور ہرکوئی اپنی اپنی ہانکنے میں لگا ہوا ہے مگر خالی خولی باتوں سے چونکہ مسئلے حل نہیں ہوتے لہٰذا کراچی کا کچرا ہے کہ سندھ میں کرپشن کی طرح ہر سو پھیلتا ہی چلا جاتا ہے۔ کراچی کے کچرے کے مسئلے سے بھی بڑا مسئلہ ہمارا یہ ہے کہ ہم اس مسئلے کے اصل اور مستقل حل کی طرف نہیں آتے جوکہ بہت ہی سادہ ہے ''شاپر کو ختم کردو'' اورکراچی کے کچرے کا تقریباً 60 سے 70 فیصد تک کا مسئلہ خود ہی ختم ہوجائے گا۔ ''شاپر'' دراصل وہ شیطانی پولی تھن کی تھیلی ہے جسے ہمارے ہاں پیالے کو انگریزی میں ''بول'' کے بجائے ''باؤل'' پکارنے والے ''پڑھے لکھوں'' نے ''شاپر'' بنادیا۔
پولی تھن کی یہ بدصورت تھیلیاں کراچی کے لینڈ اسکیپ کو کسی مکروہ عفریت کی طرح نگل چکی ہیں۔ کراچی میں ہر روز ہزاروں یا لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں پولی تھن کی یہ تھیلیاں استعمال کی جاتی اور پھینکی جاتی ہیں۔ ایک جانب شہرکی گٹر لائنیں اور نالے ان ''شاپرز'' سے گلے گلے تک بھرے ہوئے ہیں تو دوسری جانب انھوں نے پورے شہر کو ایک عظیم الشان کچرا کنڈی میں تبدیل کردیا ہے، شہر کی سڑکیں اور گلیاں ان سے اٹی پڑی ہیں۔ پلاسٹک کی یہ تھیلیاں صرف شہرکے انفرااسٹرکچر کو ہی نقصان نہیں پہنچاتیں بلکہ یہ انسانی صحت کے لیے بھی کئی طرح سے نہایت مضر ہیں۔ انھوں نے کراچی کے کوڑے کو ایک ناقابل تسخیر چیلنج میں تبدیل کردیا ہے۔
یہ ''شاپر'' اپنی موت آپ مرجائیں گے اگر ہم خود سے ان کا استعمال بند کردیں یا کوئی زبردستی ہم سے ان کا استعمال بند کرا دے۔ سچ پوچھیے تو دونوں ہی صورتیں اٹل ناممکنات میں سے ہیں کیونکہ پچھلے تین چار عشروں میں حکومت کا ادارہ اس ملک میں اپنی رٹ تقریباً کھو چکا ہے اور ہماشا توکیا خود حکمراں بھی اب اپنی باتوں کو سنجیدگی سے نہیں لیتے چنانچہ اسمبلیوں سے چاہے کتنی ہی قراردادیں کیوں نہ پاس ہوجائیں حکومت نہ عوام کو نہ ہی دکانداروں کو پولی تھن کی تھیلیاں استعمال کرنے سے روک سکتی ہے۔
دوسری طرف انھی تین چار عشروں میں لوگ بھی شہری آداب اور سماجی قرینوں سے تقریباً مادر پدر آزاد ہوچکے ہیں چنانچہ ناممکن ہے کہ وہ تہذیب یافتہ مخلوق کی طرح سوچیں اور خود سے یہ پولی تھن کی تھیلیاں استعمال کرنا بند کردیں۔ یہ ساری صورتحال خاصی مایوس کن نظر آتی ہے بہرحال مگر اتنی بھی نہیں کہ ہمیں کراچی کے کوڑے کے خلاف چین جیسی سپرپاورکی ضرورت پڑے۔ ہمیں تو بس صرف 30 روپوں کی ضرورت ہے، جی ہاں فی گھر صرف 30 روپوں کی۔ صرف 30 روپے کے آس پاس کی قیمت کا ایک سادہ سا کاٹن کا تھیلا کراچی کے کچرے کے ناقابل حل مسئلے کو بڑی حد تک حل کرسکتا ہے وہ بھی مستقل بنیادوں پہ۔
پچھلے وقتوں یعنی 1980 کی دہائی تک روزمرہ کے سودا سلف کے لیے کاٹن کا تھیلا یا بان کی ٹوکری استعمال ہوتے تھے۔ یہ نہ صرف استعمال میں آسان اور آرام دہ تھے بلکہ انسانی صحت، قدرتی ماحول اورشہری سہولیات کے لیے بھی خطرہ نہیں تھے۔
ہمیں یہ دور واپس لانا ہوگا۔ ہمیں روزمرہ کے سودا سلط کے لیے اپنے گھروں میں کاٹن کے تھیلے کو لانا ہوگا۔ آپ روزمرہ سودا سلف کی زیادہ تر چیزیں پولی تھن کی تھیلیوں میں ڈالے بغیرکاٹن کے تھیلے میں رکھ سکتے ہیں مثلاً پھل، سبزیاں، انڈے، روٹی، ڈبل روٹی، پیک شدہ اشیا مثلاً مصالحے، صابن، واشنگ پاؤڈر وغیرہ کے پیکٹ۔ صرف کھلی دال اور چاول و آٹا اور گوشت وغیرہ کو آپ کو پلاسٹک (پولی تھن) کی تھیلی یا کاغذ کے لفافے میں رکھ کر کاٹن کے تھیلے میں رکھنا ہوگا۔
کاٹن کے تھیلے کو آپ دھو بھی سکتے ہیں اور یہ مہینوں بلکہ سالوں چل جاتا ہے۔ آپ اس کاٹن بیگ کی اہمیت اور افادیت کا اس بات سے اندازہ لگائیے کہ اگر کراچی کے صرف ایک ملین گھروں میں ہی روزمرہ کا سودا وغیرہ کاٹن کے تھیلے میں لایا جانے لگے تو فی گھر کم سے کم چھ پولی تھن کی تھیلیوں کے حساب سے بھی یہ روز کی ساٹھ تھیلیاں بنیں گی جو کراچی کے کوڑے میں شامل نہیں ہوں گی۔ مزید یہ کہ قدرتی ماحول اور انسانی صحت بھی ان تھیلیوں کے زہریلے اثرات سے بچیں گے۔
کاٹن بیگ کے استعمال کی عادت گھر گھر پیدا کرنے کے لیے ہمیں آگہی مہم اور کاٹن بیگز کی مفت تقسیم درکار ہوگی۔ اس سلسلے میں روز مرہ گھریلو استعمال کی پروڈکٹس تیار کرنے والی FMCG کمپنیاں بڑی تعداد میں کاٹن بیگز تیار کروا سکتی ہیں کہ جن کے ایک طرف ان کی برانڈنگ ہو اور دوسری طرف کاٹن بیگز کے فوائد پر مبنی پیغام چھپا ہو۔ یہ کاٹن بیگز اتوار بازاروں، سپراسٹورز اور محلے کی عام دکانوں کے ذریعے ان خریداروں کو مفت دیے جاسکتے ہیں جو ان کی تین چار سو روپوں سے زائد کی اشیا خریدیں۔
یہ CSR کے ساتھ ان کمپنیوں کی سیلز کو بھی سپورٹ ہوگی۔ سماجی بہبود کی قومی تنظیمیں جیسے کہ فکس اٹ، شہری وغیرہ اور بین الاقوامی تنظیمیں جیسے کہ DFID, USAID اور CIDA وغیرہ بھی گھر گھرکاٹن بیگز کی مفت تقسیم کے پروگرام چلا سکتی ہیں۔ یونی ورسٹیز،کالجز اور اسکول بھی اپنے ہاں کاٹن بیگز کے بارے میں آگہی اور تقسیم کے پروگرام چلا سکتے ہیں جب کہ طلبا بھی گروپ بناکر اور چندہ اکٹھا کرکے اپنے دوستوں اور رشتے داروں کے گھروں میں کاٹن بیگز مفت تقسیم کرسکتے ہیں۔ طلبا نے زلزلوں اور سیلاب جیسی قدرتی آفات کے خلاف قابل تعریف کردار ادا کیا ہے وہ پولی تھن تھیلیوں کی اس مین میڈآفت کے مقابلے میں بھی موثرکام کرسکتے ہیں۔
مزید یہ کہ بڑی بڑی رہائشی اسٹیٹس بھی اپنے رہائشیوں میں کاٹن بیگز مفت تقسیم کرسکتی ہیں۔ نیز ہمارے میڈیا کا مختلف کمپنیوں اور تنظیموں کے اشتراک سے کاٹن بیگزکی آگہی مہم چلانا لازمی ہوگا جو سال بہ سال گاہے بگاہے جاری رہے تاکہ لوگوں میں کاٹن شاپنگ بیگز کے استعمال کی عادت پکی ہوجائے۔اس میڈیا آگہی مہم سے نہ صرف کراچی بلکہ پورے ملک کو فائدہ پہنچے گا۔ مائیکرو فنانس بینک اور تنظیمیں کاٹن بیگز بنانے کے گھریلو یونٹ لگانے میں عام افراد خصوصاً خواتین کی مدد کرسکتے ہیں۔
ذرا سوچیے کہ جب روزکی 70-80 لاکھ بلکہ اس سے بھی زیادہ یعنی ہر مہینے کی کوئی بیس پچیس کروڑ پولی تھن تھیلیوں کے پہاڑکے پہاڑ کراچی کے کوڑے میں شامل نہیں ہوں گے توکراچی کے کچرے کا مسئلہ کتنا کم رہ جائے گا۔