پاکستانی نوجوان اقوام عالم میں کہاں کھڑا ہے

پاکستان میں نوجوانوں کی ابتر حالت سے متعلق صورت حال کو زیادہ عیاں کیا ہے۔

دنیا بھر میں قانون ساز اسمبلیوں میں معمر یا ادھیڑ عمر افراد کا غلبہ ہے۔ فوٹو : فائل

آج سے چند ماہ قبل دولت مشترکہ سیکریٹریٹ کی جانب سے جاری کردہ ''یوتھ ڈیویلپمنٹ انڈیکس 2016'' میں پاکستان سے متعلق اعداد و شمار نہ صرف ہمارے نوجوانوں کی ترقی اور استحکام کے بارے میں سرکاری دعوؤں کی نفی کرتے محسوس ہورہے ہیں بلکہ عمومی طور پر ان تمام کاوشوں کو بھی کار زیاں قرار دیتے نظر آتے ہیں جو ڈونر اداروں، بین الاقوامی این جی اوز اور کاروباری شعبے کی معاونت سے برس ہا برس سے جاری ہیں۔

اگر اس رپورٹ میں پاکستان کے نوجوان کی حالت سے متعلق اعداد و شمار اور تجزیے کو سنجیدگی سے دیکھا جائے تو یہ کہنا قطعاً غلط نہ ہوگا کہ پاکستانی نوجوان کو اپنی بقاء، خوش حالی اور مستقبل میں ترقی کے امکانات کے حوالے سے سنگین ترین چیلنجوں کا سامنا ہے جنہیں ملک کے قیام کے 70 سال گزرنے کے بعد بھی خاطر خواہ اہمیت نہیں دی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج پاکستانی نوجوان مسابقت، صلاحیت اور پرامیدی کے حوالے سے دنیا کے نحیف ترین امکانات کے ساتھ بقا کی دوڑ میں شامل ہونے والوں میں سے ایک بن گیا ہے۔ یہ رپورٹ پاکستانی نوجوانوں کے بارے میں ایک تاریک تصویر پیش کررہی ہے۔

٭رپورٹ کیا کہتی ہے:

اس رپورٹ میں دنیا کے 183ء ممالک کا جائزہ لیا گیا جن میں پاکستان کو 0.470کے ساتھ 154 ویں درجے پر رکھاگیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2010ء تا 2015ء کے دوران نوجوانوں کی حالت میں دنیا میں سب سے زیادہ تیز تر خرابی ہوئی ہے جس کا سبب ماحولیاتی تبدیلیوں سے جڑی آفات، داخلی شورش اور اندرونی خانہ بدوشی بھی ہے، تاہم مجموعی طور پر 18 فی صد کی تنزلی کے ساتھ نوجوانوں کی عمومی حالت میں تباہی کے حوالے سے پاکستان اس مدت میں سرفہرست رہا ہے۔

پاکستان کے قریب ترین ممالک میں انگولا، چاڈ اور ہیٹی شامل ہیں۔ رپورٹ کو تعلیم، صحت، اور خوش حالی، ملازمت اور امکانات، سیاسی شمولیت اور سماجی شمولیت کے پانچ موضوعات کے حوالے سے 18 اشاریوں میں ترتیب دیا گیا تھا، جن اشاریوں نے پاکستان میں نوجوانوں کی ابتر حالت سے متعلق صورت حال کو زیادہ عیاں کیا ہے، وہ یہ ہیں: کسی سرکاری نمائندے کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے مواقع کا فقدان، یوتھ پالیسی کا نہ ہونا، رضاکارانہ خدمات کے محدود مواقع اور کسی اجنبی کی امداد کرنا۔

جنوب ایشیائی ممالک میں بھی پاکستان کا اوسط (ماسوائے صحت اور خوش حالی) تمام ملکوں سے کم ہے۔ انڈیکس میں ہمارے پڑوسی ممالک بہت بہتر پوزیشن کے ساتھ موجود ہیں۔ جن میں سری لنکا (31) بھوٹان (69) نیپال (77) ایران (94) برما (123) بھارت (133) اور بنگلہ دیش (164) ویں نمبر پر موجود ہیں۔ صرف افغانستان (167) ہم سے نیچے ہے۔

رپورٹ کے مطابق پاکستانی نوجوانوں کو تعلیم کے میدان میں عالمی معیار کے مواقع میسر نہیں ہیں۔ صرف 42 فی صد پاکستانی نوجوان سیکنڈری اسکولوں میں پڑھ رہے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں یہ تناسب 68 اور عالمی سطح پر 81 فی صد ہے۔


رپورٹ کے مطابق ماضی میں پاکستانی نوجوان کو سیاسی عمل میں فعال شرکت کے خاطر خواہ مواقع حاصل تھے، تاہم تیس برس قبل طلبہ تنظیموں پر پابندی کے نتیجے میں نوجوانوں میں منظم ذرائع سے سیاسی عمل میں شمولیت کی خواہش معدوم ہوگئی ہے۔ رپورٹ میں نوجوانوں کو ترقی کے لیے مواقع تک رسائی میں عدم توازن کی جانب بھی اشارہ کیاگیا ہے۔ بہت سے نوجوانوں کو اپنی نسل، سماجی رتبے یعنی کلاس، رہائش کے مقام، معذوری اور صنف کی بنیاد پر امتیازی رویوں کا سامنا ہے جس کی وجہ سے وہ ترقی کے زینے پر مساوی سفر نہیں کرپاتے اور یوں خوش حالی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔

خاص طور پر لڑکیوں کو ایک اور طرح کی اور نسبتاً زیادہ شدید تفریق کا سامنا ہے۔ اسکولوں میں لڑکیوں کی تعلیم کی شرح لڑکوں سے کم ہے اور ان کے لیے اعلیٰ تعلیم تک رسائی کے مواقع محدود تر ہیں۔ بیش تر لڑکیوں کی شادی 16تا18برس کی عمر تک ہوجاتی ہے جس کے بعد وہ گھریلو ذمے داریوں اور حمل کے مسائل کا شکار ہوکر تعلیم اور کسی بھی قسم کے معاشی عمل میں شرکت کے امکانات سے زندگی بھر کے لیے دور ہوجاتی ہیں۔

مقام فکر:

دولت مشترکہ سیکریٹریٹ کی یہ رپورٹ تسلیم کرتی ہے کہ اسے کئی موضوعات پر تحقیق کے لیے مستند مواد اور اعداد و شمار نہیں ملے جس کی وجہ سے رپورٹ کے کچھ مندرجات کو حتمی نہیں قرار دیا جاسکتا تاہم یہ محدودات ہر تحقیق کو درپیش ہوتے ہیں اور کوئی تحقیق بھی کلیتاً مکمل نہیں ہوتی۔ غور طلب بات یہ ہے کہ اس رپورٹ کو دنیا کی بیش تر حکومتوں اور بین الاقوامی اداروں نے تسلیم کیا ہے اور اس کی سفارشات سے متفق ہیں۔

اس پورٹ میں جا بہ جا ایسے سوالات اٹھائے گئے ہیں جن کو پاکستان میں سنجیدگی سے زیر بحث لایا جانا چاہیے۔ بدقسمتی سے یہ رپورٹ اس درجے کی توجہ حاصل نہیں کرسکی جو اسے ملنی چاہیے تھی۔ مثال کے طور پر رپورٹ میں بتایاگیا کہ دنیا بھر میں قانون ساز اداروں کی مجموعی رکنیت تقریباً 45 ہزار افراد پر مشتمل ہے۔ تاہم ان میں سے 30 سال سے کم عمر افراد یعنی نوجوانوں کی تعداد صرف1.9 فی صد ہے۔ اگر عمر کی یہ حد بڑھا کر 40 سال تک بھی کرلی جائے تو بھی نوجوانوں کی قانون ساز اسمبلیوں میں شرح 14.2 فی صد سے زیادہ نہیں بڑھتی۔ گویا دنیا بھر میں قانون ساز اسمبلیوں میں معمر یا ادھیڑ عمر افراد کا غلبہ ہے۔

پاکستان جیسے ملک میں تو یہ صورت حال مزید توجہ طلب ہوجاتی ہے جہاں عام نوجوانوں کے لیے براہ راست منتخب ہونا تقریباً ناممکن بنادیا گیا ہے۔ بہ لحاظ عمر جو نوجوان بھی اس وقت اسمبلیوں میں موجود ہیں، ان کے پس پشت یا تو خاندانی اور موروثی، سیاسی اثاثہ کام کرتا رہا ہے جس کی بنا پر وہ خاندانی نشستوں پر براہ راست منتخب ہوکر اسمبلیوں میں پہنچے ہیں۔ دوسری طرف کچھ ایسے نوجوان بھی اسمبلی میں آئے ہیں جو مخصوص نشستوں پر منتخب ہوئے ہیں۔ نچلے اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوان کے لیے کسی قسم کی بیساکھی کے بغیر قانون ساز ایوانوں میں پہنچنا اس وقت کسی خواب سے کم نہیں ہے۔

اس مختصر تحریر میں ان مقام، نکات کو تفصیلاً زیر بحث لانا ممکن نہیں جن کا رپورٹ میں احاطہ کیاگیا ہے۔ قارئین مزید آگہی کے لیے مکمل رپورٹ کو انٹرنیٹ پر ملاحظہ کرسکتے ہیں، اہم اجمالی جائزے سے قارئین یقیناً یہ اخذ کرسکتے ہیں کہ پاکستان میں نوجوانوں کی سیاسی، سماجی، معاشی، اور ذہنی صورت حال تسلی بخش نہیں ہے۔ اگر جلد ہی اس ضمن میں سنجیدہ کوششیں نہیں کی گئیں تو آج کا سرمایہ کل کا بوجھ بن جائے گا۔ پاکستانی نوجوان کو روزگار، سماجی ترقی اور خوش حالی کے حوالے سے زیادہ وسیع اور مساوی امکانات کی ضرورت ہے۔ اس نوجوان کو صرف ووٹ کے لیے ہی استعمال نہ کیا جائے، بلکہ اسے وہ حقوق اور آزادیاں بھی دی جائیں جن کے سہارے وہ دنیا کے دیگر ممالک کے نوجوانوں کے درمیان اعتماد اور عزت نفس کے ساتھ کھڑا ہوسکے۔
Load Next Story