اردو یا انگریزی
انگریزی ضرور پڑھیں، لیکن قومی زبان کو نظر انداز نہ کریں۔
BERLIN:
پاکستان میں رائج تعلیمی نظام میں انگریزی زبان کو خاص اہمیت دی جاتی ہے۔ ہمارے بیش تر نجی اسکول یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہمارا تعلیمی معیار دوسروں سے اس لیے بہتر ہے، کیوں کہ ہم انگریزی زبان میں تعلیم دیتے ہیں۔
اب تو یہ حال ہوگیا ہے کہ ہر گلی محلے میں کھلنے والے اسکولوں میں پہلی ترجیح انگریزی زبان کو ہی دی جاتی ہے اور بورڈ پر جلی حروف میں انگریزی میڈیم لکھوایا جاتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ پوش علاقوں میں قائم اسکولوں میں داخلے کے وقت اب صرف بچوں کا ٹیسٹ نہیں لیا جاتا، بلکہ ان کے والدین سے بھی انگریزی زبان میں انٹرویو کیا جاتا ہے۔ جو والدین روانی سے انگریزی نہیں بول پاتے، وہ بے جا شرم کے مارے ان اسکولوں کا رخ ہی نہیں کرتے۔
اس طرح ایک معصوم بچہ جو ابھی تک اسکول کی بنیادی منزل تک پہنچا بھی نہیں ہوتا، وہ معاشرے کے اس عجیب تعلیمی نظام کا شکار ہوجاتا ہے یعنی نام نہاد ''بڑے'' اسکول کہلانے والی درس گاہیں در حقیقت پڑھے لکھے والدین کے بچوں کو تعلیم دینے کی ضامن بن گئی ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہمارے معاشرے میں ڈاکٹر کا بیٹا ڈاکٹر اور مزدور کا بیٹا مزدور ہی بنے گا۔ یہ اسکول کسی غریب غیر تعلیم یافتہ انسان کے بچے کو معاشرے کا ایک قابل انسان بنانا ہی نہیں چاہتے۔
دوسری جانب ایسے اسکول بھی ہیں جہاں چھوٹے بچوں کو مونٹیسوری سے ہی انگریزی زبان کی تعلیم دی جاتی ہے اور ان کے لیے اردو زبان کا استعمال ممنوع قرار دے دیا جاتا ہے، ایسے اسکولوں میں بچہ اپنی قومی زبان کو نہ تو سمجھ سکتا ہے اور نہ ہی ٹھیک طرح سے بول سکتا ہے۔ کچھ اسکولوں میں اردو بولنے پر جرمانہ بھی کردیا جاتا ہے چاہے وہ بچہ ابھی سیکھنے کے بالکل ابتدائی مراحل میں ہو۔ موجودہ دور میں بچوں کے لیے پہلی درس گاہ ماں کی گود یا گھر کو نہیں بلکہ اسکول ہی کو تصور کیا جاتا ہے۔
ڈھائی سال تک کی عمر سے اسکولوں میں بچوں کو داخلے دیے جارہے ہیں لیکن یہ معصوم بچے اسکول میں قدم رکھتے ہی اردو اور انگریزی کی جنگ میں اس قدر پھنس جاتے ہیں کہ ان کی کچھ سمجھ میں نہیں آتا کیا کریں۔ معصوم بچوں کے کچے ذہنوں کو اس انداز سے اردو کا باغی بنایا جارہا ہے کہ وہ انگریزی اور اردو دونوں ہی سے مکمل طور پر آشنا نہیں ہوپاتے۔ قومی زبان قوموں کی پہچان ہوتی ہے، ان کی عزت، فخر اور ترقی کا باعث ہوتی ہے۔ ہماری قومی زبان اردو بھی ہمارا فخر ہے، لیکن ہم اب اس حقیقت کو بھول چکے ہیں اور
انگریزی زبان کی طرف مائل ہوگئے ہیں۔ عام تاثر یہ بھی قائم ہو چکا ہے کہ آج کے دور میں جسے انگریزی زبان پر عبور حاصل ہو گا، صرف وہی شخص اچھی نوکری حاصل کرسکے گا، کیوں کہ اردو زبان میں نہ تو اچھی مارکیٹنگ کی جاسکتی ہے اور نہ ہی بلند و بالا عمارتیں اردو کے سہارے بنائی جاسکتی ہیں، بلکہ صرف انگریزی کا مضبوط سیمنٹ ہی کیرئر کی اونچی عمارتوں کی پائیداری کی ضامن ہو گا۔
دوسری جانب ایک قابل انجینئر اگر کسی غیر معروف اردو میڈیم سرکاری جامعہ سے تعلیم حاصل کر کے اپنی قابلیت سے خود کو ثابت کرنا چاہتا ہے تو اسے معاشرے کی جانب سے مسترد کردیا جاتا ہے۔ طلبہ و طالبات نہ صرف اسکول بلکہ گھروں میں بھی انگریزی زبان کا استعمال کرتے ہیں۔ اس کے بعد ان کے والدین فخریہ کہتے ہیں کہ ہمارے بچے کو تو اردو آتی ہی نہیں ہے۔ لوگوں کو انگریزی زبان کی غلامی میں پھنسے دیکھ کے لگتا ہے کہ ظاہری طور پر تو ہم انگریز سے آزاد ہو چکے ہیں، مگر ہمارے ذہن آج بھی ان کے قبضے میں ہیں جبھی تو ہم آج بھی انگریزی زبان کو اتنی اہمیت دے رہے ہیں۔
انگریزی زبان کو نصاب کا حصہ ضرور بنایا جائے، مگر اسے بچوں پر مسلط نہ کیا جائے۔ اگر وہ اردو زبان میں پیپر دینا چاہتے ہیں تو انھیں اس بات کی اجازت ہونی چاہیے کہ وہ اردو میں اپنا پیپر دیں۔ ہمارے ملک میں اردو کے نفاذ اور انگریزی کی اجارہ داری کو ختم کرنے کے لیے ہمیں اردو پڑھنی، لکھنی اور بولنی ہوگی۔ ضروری نہیں ہم صرف انگریزی کے ذریعے ہی پڑھے لکھے کہلائیں، بلکہ ہم اردو زبان کے ذریعے بھی خود کو تعلیم یافتہ ثابت کرسکتے ہیں۔
پاکستان میں رائج تعلیمی نظام میں انگریزی زبان کو خاص اہمیت دی جاتی ہے۔ ہمارے بیش تر نجی اسکول یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہمارا تعلیمی معیار دوسروں سے اس لیے بہتر ہے، کیوں کہ ہم انگریزی زبان میں تعلیم دیتے ہیں۔
اب تو یہ حال ہوگیا ہے کہ ہر گلی محلے میں کھلنے والے اسکولوں میں پہلی ترجیح انگریزی زبان کو ہی دی جاتی ہے اور بورڈ پر جلی حروف میں انگریزی میڈیم لکھوایا جاتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ پوش علاقوں میں قائم اسکولوں میں داخلے کے وقت اب صرف بچوں کا ٹیسٹ نہیں لیا جاتا، بلکہ ان کے والدین سے بھی انگریزی زبان میں انٹرویو کیا جاتا ہے۔ جو والدین روانی سے انگریزی نہیں بول پاتے، وہ بے جا شرم کے مارے ان اسکولوں کا رخ ہی نہیں کرتے۔
اس طرح ایک معصوم بچہ جو ابھی تک اسکول کی بنیادی منزل تک پہنچا بھی نہیں ہوتا، وہ معاشرے کے اس عجیب تعلیمی نظام کا شکار ہوجاتا ہے یعنی نام نہاد ''بڑے'' اسکول کہلانے والی درس گاہیں در حقیقت پڑھے لکھے والدین کے بچوں کو تعلیم دینے کی ضامن بن گئی ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہمارے معاشرے میں ڈاکٹر کا بیٹا ڈاکٹر اور مزدور کا بیٹا مزدور ہی بنے گا۔ یہ اسکول کسی غریب غیر تعلیم یافتہ انسان کے بچے کو معاشرے کا ایک قابل انسان بنانا ہی نہیں چاہتے۔
دوسری جانب ایسے اسکول بھی ہیں جہاں چھوٹے بچوں کو مونٹیسوری سے ہی انگریزی زبان کی تعلیم دی جاتی ہے اور ان کے لیے اردو زبان کا استعمال ممنوع قرار دے دیا جاتا ہے، ایسے اسکولوں میں بچہ اپنی قومی زبان کو نہ تو سمجھ سکتا ہے اور نہ ہی ٹھیک طرح سے بول سکتا ہے۔ کچھ اسکولوں میں اردو بولنے پر جرمانہ بھی کردیا جاتا ہے چاہے وہ بچہ ابھی سیکھنے کے بالکل ابتدائی مراحل میں ہو۔ موجودہ دور میں بچوں کے لیے پہلی درس گاہ ماں کی گود یا گھر کو نہیں بلکہ اسکول ہی کو تصور کیا جاتا ہے۔
ڈھائی سال تک کی عمر سے اسکولوں میں بچوں کو داخلے دیے جارہے ہیں لیکن یہ معصوم بچے اسکول میں قدم رکھتے ہی اردو اور انگریزی کی جنگ میں اس قدر پھنس جاتے ہیں کہ ان کی کچھ سمجھ میں نہیں آتا کیا کریں۔ معصوم بچوں کے کچے ذہنوں کو اس انداز سے اردو کا باغی بنایا جارہا ہے کہ وہ انگریزی اور اردو دونوں ہی سے مکمل طور پر آشنا نہیں ہوپاتے۔ قومی زبان قوموں کی پہچان ہوتی ہے، ان کی عزت، فخر اور ترقی کا باعث ہوتی ہے۔ ہماری قومی زبان اردو بھی ہمارا فخر ہے، لیکن ہم اب اس حقیقت کو بھول چکے ہیں اور
انگریزی زبان کی طرف مائل ہوگئے ہیں۔ عام تاثر یہ بھی قائم ہو چکا ہے کہ آج کے دور میں جسے انگریزی زبان پر عبور حاصل ہو گا، صرف وہی شخص اچھی نوکری حاصل کرسکے گا، کیوں کہ اردو زبان میں نہ تو اچھی مارکیٹنگ کی جاسکتی ہے اور نہ ہی بلند و بالا عمارتیں اردو کے سہارے بنائی جاسکتی ہیں، بلکہ صرف انگریزی کا مضبوط سیمنٹ ہی کیرئر کی اونچی عمارتوں کی پائیداری کی ضامن ہو گا۔
دوسری جانب ایک قابل انجینئر اگر کسی غیر معروف اردو میڈیم سرکاری جامعہ سے تعلیم حاصل کر کے اپنی قابلیت سے خود کو ثابت کرنا چاہتا ہے تو اسے معاشرے کی جانب سے مسترد کردیا جاتا ہے۔ طلبہ و طالبات نہ صرف اسکول بلکہ گھروں میں بھی انگریزی زبان کا استعمال کرتے ہیں۔ اس کے بعد ان کے والدین فخریہ کہتے ہیں کہ ہمارے بچے کو تو اردو آتی ہی نہیں ہے۔ لوگوں کو انگریزی زبان کی غلامی میں پھنسے دیکھ کے لگتا ہے کہ ظاہری طور پر تو ہم انگریز سے آزاد ہو چکے ہیں، مگر ہمارے ذہن آج بھی ان کے قبضے میں ہیں جبھی تو ہم آج بھی انگریزی زبان کو اتنی اہمیت دے رہے ہیں۔
انگریزی زبان کو نصاب کا حصہ ضرور بنایا جائے، مگر اسے بچوں پر مسلط نہ کیا جائے۔ اگر وہ اردو زبان میں پیپر دینا چاہتے ہیں تو انھیں اس بات کی اجازت ہونی چاہیے کہ وہ اردو میں اپنا پیپر دیں۔ ہمارے ملک میں اردو کے نفاذ اور انگریزی کی اجارہ داری کو ختم کرنے کے لیے ہمیں اردو پڑھنی، لکھنی اور بولنی ہوگی۔ ضروری نہیں ہم صرف انگریزی کے ذریعے ہی پڑھے لکھے کہلائیں، بلکہ ہم اردو زبان کے ذریعے بھی خود کو تعلیم یافتہ ثابت کرسکتے ہیں۔