مایہ ناز فائٹر پائلٹ با اُصول گورنر مثالی منتظم ایئر مارشل ر عظیم داؤد پوتا مرحوم
انہوں نے زمبابوے کی فضائیہ کے سربراہ کی حیثیت سے بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا
6 ستمبر 1965ء کی اس صبح کو کوئی محب وطن پاکستانی کیوں کر بھلا سکتا ہے، جب بھارت نے اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے وطن عزیز کے دل لاہور اور شہر اقبال پر پوری قوت سے حملہ کر دیا۔ حملہ کے وقت بھارت کی طرف سے لاہور میں کبھی ناشتے اور کبھی مے نوشی کرنے کے دعوے کئے جا رہے تھے، لیکن اسے شائد یہ معلوم نہیں تھا کہ پاکستانی ان سے افرادی قوت اور اسلحہ و بارود میں تو کم ہو سکتے ہیں لیکن جذبہ ایمانی میں نہیں اور جنگیں افرادی قوت یا اسلحہ سے نہیں بلکہ جذبے سے جیتی جاتی ہیں۔ بھارت نے جب حملہ کیا تو اس کے خواب و خیال میں بھی نہ ہو گا کہ اس کا سامنا ایسے محافظوں سے ہو رہا ہے، جو وطن پر قربان ہونے کو اپنے لیے سعادت سمجھتے ہیں۔ جنگ ستمبر میں پاک فضائیہ کو عالمی سطح پر ممتاز مقام دلانے والے شاہینوں میں ایک نام ایئر مارشل محمد عبدالعظیم داؤدپوتا کا ہے، جنہیں اس جنگ میں بطور سکوارڈن لیڈر بہترین خدمات سرانجام دینے پر ستارہ جرأت سے نوازا گیا۔پاک فضائیہ کا یہ لڑاکا ہوا باز کئی حوالوں سے اس ملک کا نام روشن کرنے کے بعد گزشتہ دنوں اس جہانِ فانی سے کوچ کر گیا۔
پاک فضائیہ سے بطور تھری سٹار آفیسر ریٹائر ہونے والے عظیم داؤدپوتا 14 ستمبر 1933ء کو ممبئی میں کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد عمر بن محمد داؤدپوتا معروف سندھی سکالر تھے، جو اس وقت اسماعیل کالج بمبے میں عربی پڑھاتے تھے۔ عظیم داؤدپوتا نے ابتدائی تعلیم سینٹ پیٹرک سکول سے حاصل کرنے کے بعد ڈی جے کالج کراچی کا رخ کیا۔ 1951ء میں انہوں نے پاک ایئر فورس میں شمولیت اختیار کی اور 1952ء میں انہیں مزید ٹریننگ کے لئے آسٹریلیا بھیج دیا گیا، جہاں رائل آسٹریلین ایئر فورس اکیڈمی میں تقریباً تین سال گزارنے کے بعد وہ ایک ماہر اور پرعزم فائٹر پائلٹ بن کر وطن عزیز لوٹے۔ پی اے ایف سٹاف کالج کراچی سے گریجوایشن کرنے کے بعد وہ رائل کالج آف ڈیفنس سٹیڈیز لندن چلے گئے، جہاں سے واپسی پر وہ سرگودھا میں بیس کمانڈر بن گئے۔
1965ء کی جنگ میں عظیم داؤدپوتا نے بطور سکوارڈن لیڈر بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاک فضائیہ کے لئے ایک نئی تاریخ رقم کی۔ ایف- 86 سیبر کے اس فائٹر پائلٹ نے واہگہ اٹاری بارڈر پر دشمن کی صفوں کو تہس نہس کر دیا۔ اس جنگ کے دوران انہوں نے دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے 15بار فضائی حملہ کیا، جس میں بھارتی فوج کے متعدد ٹینک، گنز اور گاڑیاں تباہ ہوئیں۔ داؤدپوتا کی بے مثال دلیری، بہترین اور کامیاب حکمت عملی نے دشمن کو ناکوں چنے چبوا دیئے، جس پر انہیں حکومت پاکستان کی طرف سے ستارہ جرأت سے نوازا گیا۔
عظیم داؤدپوتا کو ایک اور منفرد امتیاز بھی حاصل ہے۔ 1983ء میں انہیں زمبابوین حکومت کی درخواست پر زمبابوین ایئر فورس کی سربراہی کے لئے منتخب کیا گیا، زمبابوین ایئر فورس کی کمانڈ کے لئے کسی بھی غیر ملکی کی یہ پہلی تعیناتی تھی۔ انہوں نے زمبابوین ایئرفورس کی سربراہی ایک چیلنج کے طور پر قبول کی اور تین سال کے عرصہ کے دوران اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا، جس پر زمبابوین صدر رابرٹ موگابے نے انہیں اپنے ملک کے سب سے بڑے میڈل یعنی آرڈر آف میرٹ سے نوازا۔ زمبابوین ایئر فورس کی تین سال کمانڈ کرنے کے بعد جنوری 1986ء میں وطن واپسی پر داؤدپوتا کی کندھوں پر عائد کرنے کے لئے ایک نئی ذمہ داری ان کی منتظر تھی۔ انہیں پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کا پہلے مینجنگ ڈائریکٹر منتخب کیا گیا، بعدازاں 1989ء میں چیئرمین بنا دیا گیا، جو ان کی آخری تعیناتی تھی۔ ایئر مارشل عظیم داؤد پوتا کی سروس 1951ء میں شروع ہوئی اور 1989ء میں باوقار طریقے سے پوری ہوگئی، جس دوران انہیں ملک کے لئے گراں قدر خدمات سرانجام دینے پر نہ صرف ستارہ جرات بلکہ ستارہ امتیاز اور ہلال امیتاز سے بھی نوازا گیا۔
بطور سپاہی ملکی سرحدوں کی حفاظت کرنے والے ایئرمارشل عظیم داؤدپوتا کو ریٹائرمنٹ سے تقریباً دس سال بعد ایک سویلین کی حیثیت سے عوامی خدمت کا بھی موقع ملا۔ جنرل مشرف نے 1999ء میں سویلین حکومت کا تختہ الٹا دیا، جس کے بعد جب گورنر سندھ کی تعیناتی کا معاملہ سامنا آیا تو سابق صدر نے عظیم داؤدپوتا کو اسلام آباد مدعو کیا اور گورنرشپ کی پیش کش کی۔ عظیم داؤدپوتا کے ایک فیملی ممبر نے اسلام آباد میں ہونے والی اس ملاقات کے دوران مشرف کے الفاظ کو کچھ یوں بیان کیا کہ '' تقریباً تمام کمانڈرز میں آپ (عظیم داؤدپوتا) کی بطور گورنر سندھ تعیناتی پر اتفاق پایا گیا ہے، جس کی وجہ آپ کا وہ شاندار ماضی ہے، جوآپ نے ایک دیانت دار اور پرعزم شخص کے طور پر گزارا۔'' یوں 25 اکتوبر 1999ء کو ایئرمارشل(ر) عظیم داؤدپوتا نے بطور گورنر سندھ حلف اٹھا لیا، لیکن یہ گورنرشپ زیادہ دیر نہ چل سکی اور صرف سات ماہ بعد ہی ان سے استعفی لے لیا گیا، جس کی وجہ ان کی وہ دیانت داری اور صداقت بیان کی جاتی ہے، جو مصلحت کا شکار نہیں ہوتی تھی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اس دور میں کالاباغ ڈیم کی حمایت میں مہم اپنے عروج پر تھی، لیکن سندھ کے باسی اس سے خوش نہ تھے اور وہاں اس کے خلاف احتجاج ہو رہے تھے۔ مشرف مسلسل اس حوالے سے رپورٹس لے رہے تھے اور گورنر نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ لوگ اس منصوبے کے خلاف ہیں۔ پھر گورنر سندھ عظیم داؤدپوتا نے سندھ میں صاف پانی کی قلت کے سنگین مسئلہ پر آواز بلند کی اور متعدد بار پنجاب حکومت کے خلاف شکایات بھیجیں، جس پر انہیں مشرف کے سٹاف آفیسر کی جانب سے ایک کال موصول ہوئی، جس میں گرمی سردی ہوئی تو کچھ روز بعد انہیں مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا گیا۔ اپنے شہریوں کے لئے آواز بلند کرنے کی پاداش میں ان سے کرسی کا چھن جانا کوئی معنی نہیں رکھتا تھا، لہٰذا انہوں نے رضاکارانہ طور پر استعفیٰ دے دیا۔
ملکی سرحدوں پر لڑنے والے ایئرمارشل عظیم داؤدپوتا رواں ماہ 3 اپریل کو کراچی میں متعدد بیماریوں سے لڑتے لڑتے 84برس کی عمر میں زندگی کی بازی ہار گئے، وہ حقیقی معنوں میں اس ملک کا سرمایہ تھے، جنہوں نے مرتے دم تک کسی نہ کسی شکل میں اپنے ملک و قوم کی خدمت کا سلسلہ جاری رکھا۔ پاک فضائیہ کے سربراہ ائیر چیف مارشل سہیل امان نے قومی ہیرو کی وفات پر گہرے رنج کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک بہادر پائلٹ، امتیازی سکالر، محبِ وطن پاکستانی اور اپنے پیشہ کے ساتھ مخلص انسان تھے۔ عظیم داؤد پوتا نہ صرف پاک فضائیہ بلکہ پوری قوم کے لئے مشعلِ راہ اور قابل تقلید ماڈل کا درجہ رکھتے تھے۔ سندھ کے وزیر اعلی سید مراد علی شاہ نے مرحوم کے اہل خانہ سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے 65ء کی جنگ کے ہیرو کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ ایئرمارشل عظیم داؤدپوتا نے اپنی زندگی جن اصولوں کے مطابق گزاری وہ نوجوان نسل کے لئے بہترین نمونہ ہے، جنگ اور امن دونوں حالتوں میں اپنے ملک و قوم کی خدمت کرنے کے باعث وہ لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
''ایئرمارشل عظیم داؤد پوتا صرف نام کے نہیں حقیقت میں بھی عظیم تھے''
دوران سروس ایئر مارشل (ر) عظیم داؤدپوتا کے ساتھ جو لوگ کام کرتے رہے، ان میں ایک نام ایئر مارشل (ر) سید شاہد ذوالفقار علی کا بھی ہے۔ 65ء کی جنگ میں بطور فائٹر پائلٹ وہ کراچی تعینات تھے، لیکن عظیم داؤدپوتا کے ساتھ ان کا کافی وقت گزرا، کئی معمول کے تربیتی مشنز پر وہ اکٹھے رہے۔ ایئر مارشل (ر) سید شاہد ذوالفقار علی نے ''ایکسپریس'' سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ عظیم داؤدپوتا ایک کرشماتی اور سحر انگیز شخصیت کے مالک تھے، ان کی طبیعت میں بڑا سکون تھا، کوئی مسئلہ چاہے جتنا بھی بڑا ہوتا ان کے چہرے سے کبھی گھبراہٹ ظاہر نہیں ہوتی تھی۔ منفی سوچ تو کبھی ان کے پاس پھٹکی ہی نہیں، جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کبھی کسی پر تنقید نہیں کرتے تھے۔
سید شاہد ذوالفقار علی نے بتایا کہ انتقال سے کچھ عرصہ قبل عظیم داؤدپوتا سے کراچی میں ایک تقریب کے دوران ملاقات ہوئی تھی، ان کے ہاتھ میں واک سٹک (لاٹھی) ضرور تھی، لیکن چہرے پر وہی مسکراہٹ اور سکون جھلک رہا تھا، جو کبھی دوران سروس ہوا کرتا تھا۔ میں نے خیریت دریافت کی تو مسکرا کر بولے '' ابھی بھی فٹ ہوں''۔ ایئرکموڈور (ر) امتیاز احمد بھٹی نے ''ایکسپریس'' سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ صرف نام کے نہیں بلکہ درحقیقت بھی عظیم تھے۔ وہ سرگودھا ایئر بیس پر میرے کمانڈر بھی رہے۔ 65ء کی جنگ کے وقت وہ رن وے کی ایک سائیڈ جبکہ میں دوسری سائیڈ پر ہوتا تھا۔ عظیم داؤدپوتا ایک دلیر شخص تھے، اسی وجہ سے جنگ کے دوران انہیں حملہ کرنے کا ٹاسک سونپا گیا، حالاں کہ ہمارا اپنے سے چار پانچ گنا بڑے دشمن سے مقابلہ تھا، پھر بھی انہوں نے بے مثال کامیابیاں سمیٹیں جس جرأت مندی اور دلیری سے انہوں نے بطور فائٹر پائلٹ دشمن کے پرخچے اڑائے، وہ یادیں ذہنوں پر نقش ہو چکی ہیں۔ عظیم داؤدپوتا سے وابستہ اپنی یاداشتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے امتیاز احمد بھٹی نے کہا کہ سرگودھا ایئر بیس پر ایک بار میں اپنی اہلیہ کے ساتھ انہیں ملنے گیا تو دیکھتے ہی بولے بھائی! بچے کہاں ہیں؟ میں نے ٹالنے کی کوشش کی تو کہنے لگے دیکھو! یہاں جھولے بھی لگے ہوئے ہیں، بچے آتے تو خوش ہوتے، تمہیں ضرور انہیں لانا چاہیے تھا۔ یونہی ایک بار میرا حج پر جانے کا ارادہ بنا، تو مجھے کہنے لگے تم نے کیا تماشا لگا رکھا ہے، حج پر کیوں نہیں جاتے؟ پھر مجھے اپنی طرف سے احرام بطور تحفہ دیا اور کہا کہ شام کو میرے پاس آنا تمھاری چھٹی کیلئے بات کروں گا۔ وہ نہات خوش مزاج اور ملنسار شخصیت تھے، جو لوگ انہیں جانتے ہیں، وہ انہیں کبھی بھلا نہیں پائیں گے۔
پاک فضائیہ سے بطور تھری سٹار آفیسر ریٹائر ہونے والے عظیم داؤدپوتا 14 ستمبر 1933ء کو ممبئی میں کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد عمر بن محمد داؤدپوتا معروف سندھی سکالر تھے، جو اس وقت اسماعیل کالج بمبے میں عربی پڑھاتے تھے۔ عظیم داؤدپوتا نے ابتدائی تعلیم سینٹ پیٹرک سکول سے حاصل کرنے کے بعد ڈی جے کالج کراچی کا رخ کیا۔ 1951ء میں انہوں نے پاک ایئر فورس میں شمولیت اختیار کی اور 1952ء میں انہیں مزید ٹریننگ کے لئے آسٹریلیا بھیج دیا گیا، جہاں رائل آسٹریلین ایئر فورس اکیڈمی میں تقریباً تین سال گزارنے کے بعد وہ ایک ماہر اور پرعزم فائٹر پائلٹ بن کر وطن عزیز لوٹے۔ پی اے ایف سٹاف کالج کراچی سے گریجوایشن کرنے کے بعد وہ رائل کالج آف ڈیفنس سٹیڈیز لندن چلے گئے، جہاں سے واپسی پر وہ سرگودھا میں بیس کمانڈر بن گئے۔
1965ء کی جنگ میں عظیم داؤدپوتا نے بطور سکوارڈن لیڈر بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاک فضائیہ کے لئے ایک نئی تاریخ رقم کی۔ ایف- 86 سیبر کے اس فائٹر پائلٹ نے واہگہ اٹاری بارڈر پر دشمن کی صفوں کو تہس نہس کر دیا۔ اس جنگ کے دوران انہوں نے دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے 15بار فضائی حملہ کیا، جس میں بھارتی فوج کے متعدد ٹینک، گنز اور گاڑیاں تباہ ہوئیں۔ داؤدپوتا کی بے مثال دلیری، بہترین اور کامیاب حکمت عملی نے دشمن کو ناکوں چنے چبوا دیئے، جس پر انہیں حکومت پاکستان کی طرف سے ستارہ جرأت سے نوازا گیا۔
عظیم داؤدپوتا کو ایک اور منفرد امتیاز بھی حاصل ہے۔ 1983ء میں انہیں زمبابوین حکومت کی درخواست پر زمبابوین ایئر فورس کی سربراہی کے لئے منتخب کیا گیا، زمبابوین ایئر فورس کی کمانڈ کے لئے کسی بھی غیر ملکی کی یہ پہلی تعیناتی تھی۔ انہوں نے زمبابوین ایئرفورس کی سربراہی ایک چیلنج کے طور پر قبول کی اور تین سال کے عرصہ کے دوران اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا، جس پر زمبابوین صدر رابرٹ موگابے نے انہیں اپنے ملک کے سب سے بڑے میڈل یعنی آرڈر آف میرٹ سے نوازا۔ زمبابوین ایئر فورس کی تین سال کمانڈ کرنے کے بعد جنوری 1986ء میں وطن واپسی پر داؤدپوتا کی کندھوں پر عائد کرنے کے لئے ایک نئی ذمہ داری ان کی منتظر تھی۔ انہیں پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کا پہلے مینجنگ ڈائریکٹر منتخب کیا گیا، بعدازاں 1989ء میں چیئرمین بنا دیا گیا، جو ان کی آخری تعیناتی تھی۔ ایئر مارشل عظیم داؤد پوتا کی سروس 1951ء میں شروع ہوئی اور 1989ء میں باوقار طریقے سے پوری ہوگئی، جس دوران انہیں ملک کے لئے گراں قدر خدمات سرانجام دینے پر نہ صرف ستارہ جرات بلکہ ستارہ امتیاز اور ہلال امیتاز سے بھی نوازا گیا۔
بطور سپاہی ملکی سرحدوں کی حفاظت کرنے والے ایئرمارشل عظیم داؤدپوتا کو ریٹائرمنٹ سے تقریباً دس سال بعد ایک سویلین کی حیثیت سے عوامی خدمت کا بھی موقع ملا۔ جنرل مشرف نے 1999ء میں سویلین حکومت کا تختہ الٹا دیا، جس کے بعد جب گورنر سندھ کی تعیناتی کا معاملہ سامنا آیا تو سابق صدر نے عظیم داؤدپوتا کو اسلام آباد مدعو کیا اور گورنرشپ کی پیش کش کی۔ عظیم داؤدپوتا کے ایک فیملی ممبر نے اسلام آباد میں ہونے والی اس ملاقات کے دوران مشرف کے الفاظ کو کچھ یوں بیان کیا کہ '' تقریباً تمام کمانڈرز میں آپ (عظیم داؤدپوتا) کی بطور گورنر سندھ تعیناتی پر اتفاق پایا گیا ہے، جس کی وجہ آپ کا وہ شاندار ماضی ہے، جوآپ نے ایک دیانت دار اور پرعزم شخص کے طور پر گزارا۔'' یوں 25 اکتوبر 1999ء کو ایئرمارشل(ر) عظیم داؤدپوتا نے بطور گورنر سندھ حلف اٹھا لیا، لیکن یہ گورنرشپ زیادہ دیر نہ چل سکی اور صرف سات ماہ بعد ہی ان سے استعفی لے لیا گیا، جس کی وجہ ان کی وہ دیانت داری اور صداقت بیان کی جاتی ہے، جو مصلحت کا شکار نہیں ہوتی تھی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اس دور میں کالاباغ ڈیم کی حمایت میں مہم اپنے عروج پر تھی، لیکن سندھ کے باسی اس سے خوش نہ تھے اور وہاں اس کے خلاف احتجاج ہو رہے تھے۔ مشرف مسلسل اس حوالے سے رپورٹس لے رہے تھے اور گورنر نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ لوگ اس منصوبے کے خلاف ہیں۔ پھر گورنر سندھ عظیم داؤدپوتا نے سندھ میں صاف پانی کی قلت کے سنگین مسئلہ پر آواز بلند کی اور متعدد بار پنجاب حکومت کے خلاف شکایات بھیجیں، جس پر انہیں مشرف کے سٹاف آفیسر کی جانب سے ایک کال موصول ہوئی، جس میں گرمی سردی ہوئی تو کچھ روز بعد انہیں مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا گیا۔ اپنے شہریوں کے لئے آواز بلند کرنے کی پاداش میں ان سے کرسی کا چھن جانا کوئی معنی نہیں رکھتا تھا، لہٰذا انہوں نے رضاکارانہ طور پر استعفیٰ دے دیا۔
ملکی سرحدوں پر لڑنے والے ایئرمارشل عظیم داؤدپوتا رواں ماہ 3 اپریل کو کراچی میں متعدد بیماریوں سے لڑتے لڑتے 84برس کی عمر میں زندگی کی بازی ہار گئے، وہ حقیقی معنوں میں اس ملک کا سرمایہ تھے، جنہوں نے مرتے دم تک کسی نہ کسی شکل میں اپنے ملک و قوم کی خدمت کا سلسلہ جاری رکھا۔ پاک فضائیہ کے سربراہ ائیر چیف مارشل سہیل امان نے قومی ہیرو کی وفات پر گہرے رنج کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک بہادر پائلٹ، امتیازی سکالر، محبِ وطن پاکستانی اور اپنے پیشہ کے ساتھ مخلص انسان تھے۔ عظیم داؤد پوتا نہ صرف پاک فضائیہ بلکہ پوری قوم کے لئے مشعلِ راہ اور قابل تقلید ماڈل کا درجہ رکھتے تھے۔ سندھ کے وزیر اعلی سید مراد علی شاہ نے مرحوم کے اہل خانہ سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے 65ء کی جنگ کے ہیرو کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ ایئرمارشل عظیم داؤدپوتا نے اپنی زندگی جن اصولوں کے مطابق گزاری وہ نوجوان نسل کے لئے بہترین نمونہ ہے، جنگ اور امن دونوں حالتوں میں اپنے ملک و قوم کی خدمت کرنے کے باعث وہ لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
''ایئرمارشل عظیم داؤد پوتا صرف نام کے نہیں حقیقت میں بھی عظیم تھے''
دوران سروس ایئر مارشل (ر) عظیم داؤدپوتا کے ساتھ جو لوگ کام کرتے رہے، ان میں ایک نام ایئر مارشل (ر) سید شاہد ذوالفقار علی کا بھی ہے۔ 65ء کی جنگ میں بطور فائٹر پائلٹ وہ کراچی تعینات تھے، لیکن عظیم داؤدپوتا کے ساتھ ان کا کافی وقت گزرا، کئی معمول کے تربیتی مشنز پر وہ اکٹھے رہے۔ ایئر مارشل (ر) سید شاہد ذوالفقار علی نے ''ایکسپریس'' سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ عظیم داؤدپوتا ایک کرشماتی اور سحر انگیز شخصیت کے مالک تھے، ان کی طبیعت میں بڑا سکون تھا، کوئی مسئلہ چاہے جتنا بھی بڑا ہوتا ان کے چہرے سے کبھی گھبراہٹ ظاہر نہیں ہوتی تھی۔ منفی سوچ تو کبھی ان کے پاس پھٹکی ہی نہیں، جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کبھی کسی پر تنقید نہیں کرتے تھے۔
سید شاہد ذوالفقار علی نے بتایا کہ انتقال سے کچھ عرصہ قبل عظیم داؤدپوتا سے کراچی میں ایک تقریب کے دوران ملاقات ہوئی تھی، ان کے ہاتھ میں واک سٹک (لاٹھی) ضرور تھی، لیکن چہرے پر وہی مسکراہٹ اور سکون جھلک رہا تھا، جو کبھی دوران سروس ہوا کرتا تھا۔ میں نے خیریت دریافت کی تو مسکرا کر بولے '' ابھی بھی فٹ ہوں''۔ ایئرکموڈور (ر) امتیاز احمد بھٹی نے ''ایکسپریس'' سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ صرف نام کے نہیں بلکہ درحقیقت بھی عظیم تھے۔ وہ سرگودھا ایئر بیس پر میرے کمانڈر بھی رہے۔ 65ء کی جنگ کے وقت وہ رن وے کی ایک سائیڈ جبکہ میں دوسری سائیڈ پر ہوتا تھا۔ عظیم داؤدپوتا ایک دلیر شخص تھے، اسی وجہ سے جنگ کے دوران انہیں حملہ کرنے کا ٹاسک سونپا گیا، حالاں کہ ہمارا اپنے سے چار پانچ گنا بڑے دشمن سے مقابلہ تھا، پھر بھی انہوں نے بے مثال کامیابیاں سمیٹیں جس جرأت مندی اور دلیری سے انہوں نے بطور فائٹر پائلٹ دشمن کے پرخچے اڑائے، وہ یادیں ذہنوں پر نقش ہو چکی ہیں۔ عظیم داؤدپوتا سے وابستہ اپنی یاداشتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے امتیاز احمد بھٹی نے کہا کہ سرگودھا ایئر بیس پر ایک بار میں اپنی اہلیہ کے ساتھ انہیں ملنے گیا تو دیکھتے ہی بولے بھائی! بچے کہاں ہیں؟ میں نے ٹالنے کی کوشش کی تو کہنے لگے دیکھو! یہاں جھولے بھی لگے ہوئے ہیں، بچے آتے تو خوش ہوتے، تمہیں ضرور انہیں لانا چاہیے تھا۔ یونہی ایک بار میرا حج پر جانے کا ارادہ بنا، تو مجھے کہنے لگے تم نے کیا تماشا لگا رکھا ہے، حج پر کیوں نہیں جاتے؟ پھر مجھے اپنی طرف سے احرام بطور تحفہ دیا اور کہا کہ شام کو میرے پاس آنا تمھاری چھٹی کیلئے بات کروں گا۔ وہ نہات خوش مزاج اور ملنسار شخصیت تھے، جو لوگ انہیں جانتے ہیں، وہ انہیں کبھی بھلا نہیں پائیں گے۔