قرارداد پاکستان کا خالق کون
سر ظفر اللہ خان، سر سکندر حیات خان یا کوئی اور رہنما…منفرد تحقیقی داستان
٭٭
پچھلے ماہ ہم وطنوں نے ''یوم پاکستان'' روایتی جوش و جذبے سے منایا۔ اس دن ستتر سال قبل ہمارے بزرگ ایک قرارداد سامنے لائے تھے جس میں انگریز حکومت اور ہندو لیڈروں کو باور کرایا گیا کہ ہندوستان میں آباد مسلمان ایک ''قوم'' ہیں،اقلیت نہیں! چناںچہ مسلم اکثریتی علاقوں میں خود مختار ریاستیں تشکیل دی جائیں تاکہ وہ آزادانہ اپنے مذہبی اعتقادات اوررسوم و رواج پر عمل پیرا ہوسکیں۔ مسلمانان ہند نے اسی قرارداد کی روشنی میں تحریک آزادی پاکستان کا آغاز کیا اور سات برس بعد منزل مراد حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔
یوم پاکستان کی مناسبت سے مختلف ٹی وی چینلوں نے پروگرام دکھائے جن میں دانشور، مورخ اور مدبر شریک ہوئے۔ ایک پروگرام میں مشہور مورخ، ڈاکٹر مبارک علی بھی تشریف لائے۔ دوران گفتگو انہوں نے فرمایا کہ قرارداد پاکستان کے مصنف چودھری محمد ظفر اللہ خان تھے جنھوں نے انگریز وائسرائے ہند، لارڈ لنلتھگو کے کہنے پر اس کو قلمبند کیا۔بعد ازاں انہوں نے یکم اپریل کو معاصر اخبار میں ایک خط شائع کرایا جس کا لب لباب یہ ہے :''قرارداد لاہور (پاکستان) ایک غیر اہم دستاویز تھی جسے قیام پاکستان کے بعد دلکش داستان کی صورت پیش کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ قرارداد انگریز وائسرائے کی تخلیق ہے جو اس نے اپنے ایک وزیر (ظفر اللہ خان) سے تحریر کرائی۔ انٹرنیٹ پر یہ ساری معلومات موجود ہیں۔ ریاستی مورخین نے حقائق کو مسخ کردیا ہے۔''
اتفاق کی بات کہ میرا بیٹا بھی میرے ساتھ بیٹھا وہ ٹی وی پروگرام دیکھ رہا تھا۔ اگلے دن اس کا میٹرک امتحان میں ''مطالعہ پاکستان'' کا پیپر تھا۔ جب ڈاکٹر مبارک علی کا دعویٰ سنا، تو مجھ سے پوچھنے لگا ''پاپا! قرارداد پاکستان ظفر اللہ خان نے لکھی ہے؟یہ کون ہیں؟ ہماری کتاب میں تو کچھ اور لکھا ہے۔'' بیٹے کو بتایا کہ سر محمد ظفر اللہ خان(1893ء۔1985ء) ایک بڑے وکیل گزرے ہیں۔پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ رہے۔لیکن یہ واضح نہیں کہ کیاوہ قرارداد لاہور کے خالق ہیں۔تبھی سوچا کہ اس موضوع پر تحقیق کر کے سچائی وطن عزیز کی نئی نسل تک پہنچائی جائے۔
محترم ڈاکٹر مبارک علی نے اشارہ دیا تھا کہ ''انٹرنیٹ پرساری معلومات موجود ہیں''۔سو سب سے پہلے دور ہے جدید کے طلسم ہوشربا میں داخل ہوا جہاں گوگل عمر و عیار کی زنبیل بن چکا۔ بس اسے کوئی حکم دیجیے، پلک جھپکنے میں مطلوبہ شے حاضر ۔ قرارداد پاکستان لکھتے ہی وکی پیڈیا کا مضمون ''لاہور ریزولیشن'' سامنے آگیا۔ اور واقعی اس کے آغاز ہی میں درج تھا کہ قرارداد پاکستان محمد ظفر اللہ خان کی تخلیق ہے۔مضمون میں یہ بھی پڑھنے کو ملا کہ لارڈ لنلتھگو نے ان کو ایسی قرارداد تحریر کرنے کا حکم دیا تھا جو انگریز حکومت کے مفادات کو تحفظ دے سکے۔وکی پیڈیا کا متن پڑھ کر حیرانی ہوئی۔ حوالہ دیکھا، تو انکشاف ہوا کہ یہ دعوی مشہور سیاست داں،ولی خان مرحوم نے اپنی انگریزی کتاب ''Facts are facts: The untold story of India's partition'' میں کررکھا ہے جو پہلی بار1987ء میں طبع ہوئی تھی۔دعویٰ ایک خط پر مبنی ہے جو وائسرائے ہند، لارڈ لنلتھگو نے لارڈ زیٹ لینڈ، انڈیا سیکرٹری(یعنی برطانوی حکومت میں ہندوستان کے امور دیکھنے والے وزیر) کے نام لکھا تھا ۔ نیٹ سے راقم کو جو کتاب ملی،اس میں یہ ذکر عنقا ہے کہ ولی خان نے خط کہاں دیکھا اور اب وہ کس جگہ موجود ہے؟ حوالے کے بغیر خط کا ذکر ایسے ہی ہے کہ کوئی ہوا میں ٹامک ٹوئیاں مارنے لگے۔دنیائے انٹرنیٹ کی خاک چھانی، تو افشا ہوا کہ جن تحریروں میں سر ظفر اللہ خان کو قرارداد پاکستان کا خالق بتایا گیا ہے، ان سبھی نے بطور حوالہ ولی خان صاحب کی کتاب درج کررکھی ہے۔ بچپن سے تاریخی کتب پڑھنے کی چاٹ لگنے کے باعث ناچیز بھی علم تاریخ سے دلچسپی رکھتا ہے۔ والد مرحوم کی لائبریری اور دیگر کتب خانوں میں موجود تاریخ کی سیکڑوں کتب دیمک کی طرح چاٹ چکا۔ اب بھی تواریخ عالم کا مطالعہ پسندیدہ ترین مشغلہ ہے۔ فیصلہ کیا کہ تاریخ کے بے پناہ سمندر میں غوطہ زن ہو کر تلاش کیا جائے، قرارداد پاکستان کا خالق کون ہے؟
پس منظر
آغاز میں قرارداد کا مختصر پس منظر جان لیجیے تاکہ اس زمانے کا سیاسی منظر نامہ ذہن میں آ سکے۔ مسلمان لیڈروں کے باہمی اختلافات سے تنگ آکر قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں لندن چلے گئے تھے۔ تاہم قائد کی صلاحیتوں کے معترف مسلم لیگی لیڈران پر زور ڈالتے رہے کہ واپس ہندوستان آجائیے۔ آخر اپریل1934ء میں قائد واپس آئے اور مسلم لیگ کو مسلمانان ہند کی نمائندہ جماعت بنانے کا بیڑا اٹھالیا۔1937ء میں برطانوی ہند کی تاریخ میں پہلی بار گیارہ صوبوں میں صوبائی الیکشن منعقد ہوئے جن میں عوام نے جوق در جوق ووٹ دئیے۔ اس الیکشن میں مسلم لیگ بنگال کے علاوہ کسی صوبے میں متاثر کن کارکردگی نہیں دکھاپائی۔گو وہ ہندوستان کی دوسری بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری تاہم ہزیمت نے یہی آشکارا کیا کہ مسلم لیگ ہندوستانی مسلمانوں کی نمائندہ پارٹی نہیں۔ چناںچہ مسلم لیگی کارکنوں میں بے دلی پھیل گئی اور حتی کہ جماعت کا مستقبل مخدوش نظر آنے لگا۔
اُدھرالیکشن میں کانگریس کو زبردست فتح ملی اور اس نے بنگال، پنجاب اورسندھ کے علاوہ بقیہ آٹھ صوبوں (صوبہ سرحد، اترپردیش، مہاراشٹر،بہار،بمبئی،مدراس،اڑیسہ اور آسام )میں اپنی حکومتیں قائم کرلیں۔حکومتیں سنبھالتے ہی کانگریسی ہندو خصوصاً متحدہ صوبہ جات(اترپردیش)،بہار اور مہاراشٹر میں اپنا اصل روپ سامنے لانے لگے۔ انہوں نے ''ہندی'' کو صوبوں کی سرکاری زبان بنا دیا۔ سکولوں میں ''ودیا مندر سکیم'' اور ''واردھا سکیم'' لاگو کردیں تاکہ نظام تعلیم ہندوانہ بنایا جاسکے۔ سکولوں میں نہایت اشتعال انگیز گیت ''بندے ماترم'' بطور قومی ترانہ گایا جانے لگا۔ گائے کے ذبیح پر رکاوٹیں کھڑی کردیں۔ غرض کانگریسی حکومتوں نے اپنے عمل سے ثابت کردیا کہ اگر انگریز ہندوستان کی باگ دوڑ ہندوؤں کو دے کر رخصت ہوئے، تو وہ مملکت کو ''ہندوراج'' میں تبدیل کردیں گے ۔ہندوستان میں ہندو راج آنے کا خطرہ محسوس کرتے ہوئے مسلم لیگ ایسا لائحہ عمل اختیار کرنے پر غور کرنے لگی جو مسلمانان ہند کے حقوق کا تحفظ کر سکے۔
پہلے انگریز اور ہندوؤں کو یہ بتانا ضروری تھا کہ ہندوستان میں ایک تیسری طاقت... مسلمان بھی بستے ہیں۔ چناں چہ10 اکتوبر 1938ء کو کراچی میں سندھ مسلم لیگ کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس میں پہلی بار یہ قرار داد منظور کی گئی: ''مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں اور ہندوستان میں ایک نہیں دو قومیں آباد ہیں۔ لہٰذا مسلم لیگ کو ایسی سکیم تیار کرنی چاہیے جو مسلمانان ہند کو آزادی و خود مختاری دلوا سکے۔'' یہ قرار داد شیخ عبدالمجید سندھی نے پیش کی جبکہ اس کی تیاری میں صدر سندھ مسلم لیگ، عبداللہ ہارون نے اہم کردار ادا کیا۔اس وقت سندھ، بلوچستان، سرحد اور کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ پنجاب، بنگال اور متحدہ صوبہ جات میں بھی ان کی بڑی تعداد بستی تھی۔بقیہ صوبوں میں مسلمان کم یا زیادہ تعداد میں آباد تھے۔ قائداعظم اور دیگر مسلم لیگی لیڈروں کے سامنے پہلے پہل یہ مسئلہ آن کھڑا ہوا کہ ہندوستان میں آباد سبھی مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ کیونکر یقینی بنایا جائے؟ کیا مسلمان ہندوؤں کے ساتھ مل کر ایسی وفاقی حکومت بنائیں جن میں انھیں بھی متوازی قوت حاصل ہو؟ یا پھر مسلم اکثریتی صوبوں کی علیحدہ ریاست یا ریاستیں بن جائیں؟ یا ایسا وفاق عمل میں لایا جائے جس میں صوبے خود مختار ہوں اور وفاقی حکومت صرف دفاع، امور خارجہ اور خزانہ سنبھال لے؟
درج بالا سوالات پر غور کرنے کے لیے ہی مسلم لیگ نے دو کمیٹیاں تشکیل دیں۔ پہلی کمیٹی'' مجلس امورخارجہ'' (فارن کمیٹی)کی بنیاد 4 دسمبر 1938ء کو رکھی گئی۔ کمیٹی کو یہ ذمے داری سونپی گئی کہ وہ ہندوستان اور بیرون ممالک سے متعلق مسلم لیگ کی پالیسیاں تیار کرے۔کمیٹی کے صدر، عبداللہ ہارون بنائے گئے۔ دیگر ارکان میں سرشاہنواز ممدوٹ، پیر محمد علی راشدی، مولانا غلام رسول مہر، مولانا عرفان اللہ، ڈاکٹر سید عبدالطیف، سید رضوان اللہ، ڈاکٹر افضال حسین قادری اور سید اختر حسین شامل رہے۔
دوسری کمیٹی '' مجلس آئینی'' (کونسٹینیوشنل سب کمیٹی) 26 مارچ 1939ء کو وجود میں آئی۔ اسے یہ ذمے داری دی گئی کہ (انگریز حکومت ختم ہونے کے بعد) مستقبل کی حکومت بنانے کے سلسلے میں اب تک جو مختلف آئینی سکیمیں و تجاویز سامنے آئی ہیں، ان کا جائزہ لے کر ایک رپورٹ مرتب کرے۔ اس کمیٹی کے ارکان میں قائداعظم، نواب اسماعیل خان، عبداللہ ہارون، خواجہ ناظم الدین،سرسکندر حیات خان، عبدالمتین چودھری، سردار اورنگزیب خان اور سید عبدالعزیز شامل تھے۔ لیاقت علی خان کمیٹی کے کنوینئر مقرر ہوئے۔
اب یہ دونوں کمیٹیاں ایسی اسکیم وضع کرنے کی خاطر غوروفکر اور تحقیق کرنے لگیں جو مستقبل میں ہندوستانی مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ کرسکے۔اس ضمن میں پہلا سوال یہ درپیش تھا کہ مسلم اقلیت کو ہندو اکثریت کے غلبے سے کیونکر محفوظ رکھا جائے؟ ہندو مسلم اختلافات نیا عجوبہ نہیں تھے تاہم ان میں شدت اٹھارہویں صدی عیسوی سے آئی جب انگریز ہندوستان کی باگ دوڑ سنبھالنے لگے۔ انہوں نے اپنی حکومت مستحکم بنانے کے لیے ہندو اور مسلمانوں کو لڑانے کی پالیسی تخلیق کر ڈالی۔ چناںچہ انیسویں صدی کے اواخر تک ہندومسلم اختلافات ہندوستانی معاشرے میں جڑ پکڑ چکے تھے۔ 23 اگست 1890ء کو مشہور ادیب و ناول نگار، مولانا عبدالحلیم شرر نے اپنے رسالے ''تہذیب'' کے اداریے میں لکھا: ''نوبت یہاں تک پہنچ چکی کہ اب مسلمان اپنی مذہبی رسومات آزادانہ طور پر ادا نہیں کرسکتے۔
اس عالم میں بہتر یہ ہے کہ ہندوستان کو ہندو اور مسلم صوبوں میں تقسیم کرکے تبادلہ آبادی کرلیا جائے۔''اس سے قبل سر سید احمد خان بھی کہہ چکے تھے کہ ہندوستان میں دو اقوام آباد ہیں، مسلمان اور ہندو!تاریخ ِمسلم لیگ پر لکھی جانے والی کتب سے عیاں ہے کہ مجلس امور خارجہ اور مجلس آئینی عام طور مل کر کام کرتی رہیں۔ دونوں کمیٹیوں نے مختلف سکیموں کا جائزہ لیا جن میں ''علی گڑھ سکیم'' (ڈاکٹر ظفر الحسن اور ڈاکٹر افضال حسین قادری)، ''ثقافتی منطقوں کی وفاقی ریاست برائے ہند'' (ڈاکٹر سید عبدالطیف)، ''ہندوستانی فیڈریشن اسکیم'' (سرسکندر حیات خان)، ''چودھری رحمت علی کی سکیم'' اور ''ہندوستان کا اتحاد'' (میجر میاں کفایت علی) قابل ذکر ہیں۔
جنگ عظیم کا آغاز
ایک جامع سکیم وضع کرنے کے سلسلے میں غور و خوض جاری تھا کہ ایک عالمی واقعہ ہندوستانی سیاست میں انقلاب لے آیا۔ یکم ستمبر 1939ء کو دوسری جنگ عظیم چھڑگئی۔ 3 ستمبر کو برطانوی ہند کی حکومت نے بھی جرمنی کے خلاف اعلان جنگ کردیا۔ یہ اعلان کرتے وقت کانگریس سے کوئی مشورہ نہیں لیا گیا۔ کانگریسی لیڈروں نے اسے اپنی سبکی قرار دیا اور اکتوبر 1939ء میں سبھی صوبائی حکومتیں ختم کرڈالیں۔ کانگریسی حکومتوں کے خاتمے پر قائداعظم کی ہدایت پر مسلمانوں نے 22 دسمبر 1939ء کو ''یوم نجات'' دھوم دھام سے منایا۔ انگریز پچھلے ایک سو برس سے ہندوؤں کے سرپرست بنے بیٹھے تھے۔ انہی کی سرپرستی کے باعث معاشرے میں ہندو سیاسی، معاشی اور معاشرتی طور پر سب سے زیادہ طاقتور قوم بن گئے۔ مگر اس طاقت نے انہیں مغرور و متکبر بھی بنادیا۔چناں چہ انگریز حاکموں نے بعض معاملات بالا بالا طے کیے، تو کانگریسی ہندو لیڈروں کو آگ لگی گئی۔اب وہ انگریزوں پرزور ڈالنے لگے کہ ہندوستان کی حکومت ان کے حوالے کردی جائے۔ کانگریس نے انگریز حکومت سے تعاون کی شرط ہی یہ رکھی کہ خاتمہ جنگ کے بعد اقتدار اس کے حوالے کردیا جائے گا۔
تاہم دوسری جنگ چھڑتے ہی مسلمانانِ ہند بھی انگریز حاکموں کی نظر میں اہم بن گئے۔ وجہ یہ کہ برطانوی ہند کی فوج میں مسلمان شامل تھے یا سکھ! جنگ کے باعث اب مزید فوجیوں کی ضرورت تھی جو انہیں خصوصاً مسلم اکثریتی صوبوں، پنجاب اور سرحد سے ملنے تھے۔ لہٰذا اب وہ مسلمانوں کو ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے تھے۔ تب تک مسلم لیگ پنجاب میں سب سے بڑی مقامی جماعت، یونینسنٹ پارٹی سے اتحاد کرچکی تھی۔گو کئی مسلم لیگی لیڈر اس اتحاد پر خوش نہیں تھے مگر اس نے مسلم لیگ کو مسلمانان ہند کی اہم ترین سیاسی جماعت میں تبدیل کردیا۔
دوسری جنگ کی وجہ سے بدلتے ماحول میں لارڈ لنلتھگو اب قائداعظم کے مطالبات اور نکات پر زیادہ دھیان دینے لگا۔ قائداعظم کئی بار کہہ چکے تھے کہ برطانیہ کا ''ایک آدمی ایک ووٹ والا'' پارلیمانی و جمہوری نظام ہندوستان میں نہیں چل سکتا۔مخالفت کی وجہ عیاںہے۔ اس نظام میں ہندو اکثریت ہر شعبے میں مسلمان اقلیت پر حاوی ہو جاتی(بھارت میں یہ عمل جنم لے چکا)۔لارڈ لنلتھگو نے قائداعظم سے فرمائش کی کہ اگر آپ برطانوی جمہوری نظام اپنانے کے خواہش مند نہیں، تو کوئی جامع متبادل نظام پیش کیجیے۔قائداعظم نے ہامی بھرلی۔
سکیم کی تیاری
مسلم لیگ کی دونوں کمیٹیاں ہندوستان کے مستقبل کے سلسلے میں مختلف سکیموں پر غور کررہی تھیں۔ اب قائداعظم جلد از جلد کوئی متفقہ لائحہ عمل اختیار کرنا چاہتے تھے تاکہ مسلمانانِ ہند کے حقوق کی جنگ تیز تر ہوسکے۔ ان کی ہدایت پر کمیٹی امور خارجہ فعال ہوگئی۔ 1فروری 1940ء کو ارکان کمیٹی نے مختلف سکیموں کے خالقوں سے ملاقات کی ۔بعد ازاں سرعبداللہ ہارون کی قیادت میں ارکان کمیٹی نے ''مسلم لیگی سکیم'' وضع کرنے کے لیے ایک نوٹ تیار کیا جس میں مختلف سکیموں کے چیدہ چیدہ نکات جمع کردیئے گئے ۔
دہلی میں 3 تا 6 فروری 1940ء ...مسلسل چار روز مسلم لیگ کی مجلس عاملہ (ورکنگ کمیٹی) کے اجلاس ہوئے۔ یاد رہے، یہ مسلم لیگ کا سب سے طاقتور ادارہ تھا۔ اکیس رہنما اس کے مستقل رکن تھے۔ جب مسلم لیگ کا کوئی سالانہ اجلاس منعقد ہوتا، تو ایک دن پہلے اسی مجلس عاملہ کو تین چار ارکان کے اضافے سے ''مجلس انتخاب مضامین'' (سبجیکٹس کمیٹی) میں تبدیل کردیا جاتا۔ یہی مجلس سالانہ اجلاس میں پیش ہونے والی قراردادوں کے متن کی حتمی منظوری دیتی ۔مجلس عاملہ کے بعد ''مسلم لیگ کونسل'' دوسرا اہم ذیلی ادارہ تھی۔ اس کے تقریباً پانچ سو رکن تھے جو مسلم آبادی کے لحاظ سے مختلف ہندوستانی صوبوں سے منتخب کیے جاتے۔اس کے بعد مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کے مندوبین (ڈیلی گیٹس) اہمیت رکھتے تھے۔ ان کی تعداد تقریباً پانچ ہزار تھی۔ یہ تینوں ذیلی ادارے ہی جس قرارداد کو منظور کرتے، وہ ایک اٹل حقیقت بن جاتی۔
چناں چہ اوائل فروری 1940ء میں مجلس عاملہ کے اجلاس ہوئے، تو ان میں مجلس امور خارجہ کے نوٹ پر غور و فکر ہوا۔ اب یہ نوٹ تاریخ پاکستان میں ''عبداللہ ہارون سکیم'' کہلاتا ہے ۔اس میں مسلمانان ِہند کو ''ایک قوم'' بتا کر ''آزاد مسلم ریاست ''کا تصور پیش کیا گیا ۔(بحوالہ: The Haroon Reportاز اے جی نورانی،سہ ماہیCriterion اسلام آباد،جلد سوم،شمارہ چار) مزید براں دیگر سبھی سکیموں کو بھی دیکھا بھالا گیا اور ان کی خوبیاں و خامیاں زیر بحث آئیں۔ دراصل اگلے ماہ لاہور میں مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس منعقد ہورہا تھا۔ قائداعظم سمیت سبھی لیڈر چاہتے تھے کہ اس اجلاس میں ''مسلم لیگی سکیم'' کا اعلان کردیا جائے۔ چناں چہ اس کی تیاری پر زور و شور سے کام جاری تھی۔
21 مارچ کی صبح قائداعظم مع ساتھیوں کے لاہور پہنچ گئے۔ ریلوے سٹیشن پر انہوں نے صحافیوں کو بتایا ''مسلم لیگ اپنے اس سالانہ اجلاس میں تاریخی اعلان کرنے والی ہے۔'' اسی دن شام کو مسلم لیگ کونسل کا اجلاس ہوا۔ قائداعظم یونیورسٹی میں شعبہ تاریخ سے منسلک اسسٹنٹ پروفیسر، ڈاکٹر فاروق احمد ڈار کا ایک مضمون''Jinnah and the Lahore Resolution''نیٹ پر موجود ہے جو پنجاب یونیورسٹی،لاہور کے کسی جرنل میں شائع ہوا ۔ اس میں ڈاکٹر صاحب نے دعویٰ کیا ہے کہ اسی اجلاس میں طے پایا کہ مسلم لیگی سکیم یعنی قرارداد لاہور تیار کرنے کی ذمہ داری قائداعظم اور وزیراعظم پنجاب ،سرسکندر حیات خان کو سونپی گئی ۔ چونکہ قائداعظم بہت مصروف تھے لہٰذا اسی قرارداد کا ابتدائی متن سرسکندر نے تیار کیا۔ اس دعویٰ کی خامی یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے کوئی حوالہ نہیں دیا۔21 مارچ کے اجلاس ہی میں مجلس انتخاب مضامین کے چار نئے ارکان کا انتخاب عمل میں آیا۔ 22 مارچ کی سہ پہر مسلم لیگ کا کھلا اجلاس منعقد ہوا جس میں مندوبین بھی شریک ہوئے۔ دلچسپ بات یہ کہ اس اجلاس میں جب سرسکندر کا ذکر آیا، تو کئی مندوبین ان پر تنقید کرنے لگے۔ موصوف اتنے زیادہ گھبرائے کہ پنڈال کے عقبی دروازے سے باہر چلے گئے۔(بحوالہ ''یادوں کے چراغ'' از عبداللہ ملک)۔ 22 مارچ کی شام ہی ممدوٹ ولا میں مجلس انتخاب مضامین کا اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس کی تفصیل تحریک پاکستان کے بعض لیڈروں نے اپنی کتب اور مضامین میں بیان کی ہے۔
تاہم ان میں سب سے مفصل بیان سید شمس الحسن (1892ء۔1981ء) نے سپرد قلم کیا۔ سید صاحب 1914ء سے 1947ء تک مسلم لیگ کے سیکرٹری رہے۔ جماعت کی روزمرہ تمام تنظیمی کارروائیاں انہی کی وساطت سے انجام پاتی تھیں۔ سید شمس الحسن کئی اخبارات ورسائل میں طبع شدہ اپنی یادداشتوں میں رقم طراز ہیں:''مجلس انتخاب مضامین کے اجلاس میں مختلف سکیموں کا جائزہ لیا گیا اور متفرق آئینی مسائل زیر بحث آئے جن کا ذکر قائداعظم نے اپنی تقریر میں کیا تھا۔ آخر اس نے فیصلہ کیا کہ مجلس عاملہ قرارداد کا متن تیار کرے تاکہ بعدازاں اسے برائے منظوری مجلس انتخاب مضامین کے سامنے پیش کیا جاسکے۔ چونکہ وقت کم تھا، اس لیے اسی رات مجلس عاملہ کا اجلاس منعقد ہوا۔ وہاں طویل مباحثے کے بعد قرارداد کے مندرجات تیار کیے گئے۔ آخر میں مجلس عاملہ نے لیاقت علی خان، نواب اسماعیل خان اور ملک برکت علی کو قرارداد لاہور کا متن لکھنے کی ذمے داری سونپی۔ ملک برکت علی نے متن کو تحریر کیا۔''
دیگر مسلم لیگی رہنما اپنی تحریروں میں لکھتے ہیں کہ یہ متن انگریزی میں تھا جسے مولانا ظفر علی خان نے اردو کا جامہ پہنایا۔یہ کام انجام پاتے ہوئے رات کے بارہ بج گئے تھے۔ اگلی صبح دس بجے مجلس انتخاب مضامین کا دوسرا اجلاس منعقد ہوا۔تب متن میں مزید کچھ تبدیلیاں کی گئیں۔ اسی دن سہ پہر کو مسلم لیگ کا عام اجلاس منعقد ہوا۔ اس میں باقاعدہ طور پر قرارداد لاہور عوام و خواص کے سامنے پیش کردی گئی جو اب قرارداد پاکستان کہلاتی ہے۔اگلے دن مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی وکونسل کے ارکان اور مندوبین نے قرارداد لاہور منظور کر کے اسے اٹل صورت دے دی۔
٭٭
قرارداد پاکستان کی تاریخ سے عیاں ہے کہ اس کو نامور علمی و سیاسی شخصیات کے نظریات، خیالات اور تصّورات سے استفادہ کرتے ہوئے تخلیق کیا گیا...کسی ایک فرد کو اس کا خالق نہیں کہا جا سکتا!رنگارنگ اور ہمہ نوعی نظریات کا جوہر نکال لیناآسان کام نہ تھا۔ مسلم اکثریتی صوبوں اور مسلم اقلیتی صوبوں میں آباد مسلمانوں کی اپنی اپنی مخصوص ضروریات تھیں۔ لہٰذا مسلم لیگی لیڈروں پر ایسی قرارداد وضع کرنے کی بھاری ذمے داری آن پڑی جو سبھی مسلمانوں کے مفادات کا خیال رکھ سکے۔ نہایت کٹھن کام کے سبب ہی قرارداد میں کچھ ابہام بھی رہ گئے جنہوں نے آگے چل کر مسائل کھڑے کیے۔اور یہی وجہ ہے کہ بدلتے اور نت نئے تقاضوں کے تحت قرارداد کا متن کئی بار تبدیل بھی ہوا۔ تاہم قائداعظم کی زیر قیادت مسلم لیگی رہنما مسلمانان ہند کا مستقبل محفوظ کرنے کیلئے قرارداد لاہور کی صورت پہلا ٹھوس قدم اٹھانے میں ضرور کامیاب رہے۔ اس قرارداد نے دنیا والوں پر آشکارا کردیا:
-1 مسلمانان ہند ایک قوم ہیں۔
-2 ہندوستان میں مخصوص مذہبی' سیاسی و معاشرتی حالات کے باعث برطانوی جمہوری نظام کامیابی سے نہیں چل سکتا۔
-3 جن ہندوستانی صوبوں میں مسلمان اکثریت میں ہیں، وہاں آزاد ریاستیں تشکیل دی جائیں۔
-4 ہندوستان کے جن صوبوں میں مسلمان اقلیت میں ہیں، وہاں ان کے حقوق کو پورا تحفظ دیا جائے۔
کیا سر سکندر خالق ہیں؟
بعض مورخین نے سر سکندر حیات خان کو قرارداد لاہور کا خالق قرار دیا ہے۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کی وفاقی سکیم میں خودمختار مسلم ریاستوں کا تصور عنقا تھا بلکہ سبھی مسلم ریاستیں وفاق کے تابع تھیں جن پر بعد از آزادی ہندوؤں کا قبضہ ہوجانا تھا۔ سرسکندر نے اپریل 1939ء میں اپنی سکیم پیش کی تھی۔
تحریک پاکستان کے رہنما،سید شریف الدین پیرزادہ اپنی کتاب''Quaid-i-Azam Mohammad Ali Jinnah and Pakistan'' کے باب''Jinnah, the Two Nation theory and the demand for Pakistan'' میں لکھتے ہیں ''انگریز وائسرائے نے سرسکندر کو اپنی سکیم پیش کرنے کا حکم دیا تھا تاکہ مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی میں اسے عبداللہ ہارون سکیم کے مقابلے میں پیش کیا جاسکے۔ اس ضمن میں پیرزادہ صاحب نے گورنر پنجاب کا خط بنام وائسرائے ہند بطور ثبوت پیش کیا ہے۔ یہ انکشاف واضح کرتا ہے کہ سرسکندر انگریز ایجنٹ تھے جو مسلم لیگ میں شامل ہونے کے بعد بھی اپنے آقاؤں کے مفادات کا تحفظ کرنے کی پوری سعی کرتے رہے۔
مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کے رکن اور مشہور سیاست داں، چوہدری خلیق الزماں اپنی خود نوشت ''شاہراہ پاکستان'' میں رقم طراز ہیں :''4 فروری (1940ء) کو مجلس عاملہ میں سرسکندر حیات نے اپنی سکیم کی پر زور وکالت کی۔لیکن دو گھنٹے تک بحث مباحثے کے بعد جناح کی تائید سے سکیم نامنظور کردی گئی۔''
حقائق سے عیاں ہے کہ اوائل میں سرسکندر نے انگریز حکمرانوں کے کہنے پر یا اپنی مرضی سے قرارداد لاہور کی تیاری میں حصّہ لیا۔وہ مسلم اکثریتی صوبوں کی خود مختاری کے تو خواہش مند تھے، مگر انیںر غیر مسلم وفاق کے ساتھ نتھی کرنا چاہتے تھے۔ جب مسلم لیگ کی مجلس عاملہ نے ان کی سکیم مسترد کردی، تو وہ قرارداد لاہور سے لاتعلق ہوگئے۔ 23 مارچ کے عام جلسے میں وہ موجود نہیں تھے۔سرسکندر ویسے بھی اندرون خانہ مسلم لیگ کے مخالف تھے۔ ان کی تا عمر سعی رہی کہ مسلم لیگ پنجاب میں قدم نہ جمانے پائے۔11 مارچ 1941ء کو پنجاب اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے سرسکندرنے خود کہا تھا''میں نے جو قرارداد (لاہور) تیار کی تھی، اس میں (مسلم لیگ) کی مجلس عاملہ انقلابی تبدیلیاں لے آئی تھی۔ لہٰذا میری قرارداد اور منظور ہونے والی قرارداد میں بہت فرق تھا۔''(بحوالہ Lahore Resolution and question of provincial autonomy ازپروفیسر شریف المجاہد،ڈیلی بزنس ریکارڈر،23 مارچ،2007ء)
سرظفراللّٰہ خان کا قصہ
یہ دسمبر 1981ء کی بات ہے،ممتاز سیاستدان ولی خان نے لاہور کے مشہور ہفت روزہ ''چٹان'' کو انٹرویو دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ قرارداد پاکستان سرظفراللہ خان کی تخلیق ہے اور یہ کہ برطانوی وائسرے ہند، لارڈ لنلتھگو نے یہ قرارداد ان سے لکھوائی تھی۔ بعدازاں اس دعویٰ کو ولی خان نے اپنی انگریزی کتاب کا بھی حصہ بنا دیاجس کا ذکر درج بالا ہو چکا۔کتاب میں بغیر حوالہ مصنف نے انڈیا سیکرٹری کے نام لارڈ لنلتھگو کے خط کا ذکر کچھ یوں کیا ہے:
Upon my instruction Zafarullah wrote a memorandum on the subject. Two Dominion States. I have already sent it to your attention. I have also asked him for further clarification, which, he says, is forthcoming. He is anxious, however, that no one should find out that he has prepared this plan. He has, however, given me the right to do with it what I like, including sending a copy to you. Copies have been passed on to Jinnah, and, I think, to Sir Akbar Hydari. While he, Zafarullah, cannot admit its authorship, his document has been prepared for adoption by the Muslim League with a view to giving it the fullest publicity.
یہ خط عیاں کرتا ہے کہ برطانوی حاکموں کے حکم پر ایک متنازع مذہبی پس منظر رکھنے والی اہم شخصیت نے وہ قرارداد تحریر کی جو تحریک پاکستان کے ضمن میں مسلم لیگ کا ''میگناکارٹا''بن گئی۔ لیکن حقائق کچھ اور افشا کرتے ہیں۔ہفت روزہ چٹان میں ولی خان کا انٹرویو شائع ہوا، تو ملک بھر میں ہلچل مچ گئی اور دانشور اپنی آرا پیش کرنے لگے۔ حقیقت جاننے کی خاطر روزنامہ پاکستان ٹائمز، راولپنڈی نے 13 فروری 1982ء کو سرظفراللہ خان کا انٹرویو شائع کیا جو تب حیات تھے۔ اس انٹرویو میں سر ظفر اللہ نے دعویٰ کیا کہ نوٹ انہوں نے اپنی مرضی سے تحریر کیا تھا۔ اسی انٹرویو میں انڈیا سیکرٹری کے نام لارڈ لنلتھگو کا خط بھی شائع ہوا جس کا متن ظفر اللہ خان نے اخبار کو مہیا کیا تھا۔ وہ ملاحظہ فرمائیے:
'I sent by the last bag a copy of Zafarullah's note on dominion Status which I remarked purported to be statement of the position from extremer point of view. I introduced that qualification because I have not at that time had an opportunity of discussing its precise nature with him and certain of the propositions contained in it, were likely to appear formally under the name of a Member of my council, might, I think, have justified a description in those terms.
I asked him yesterday to put me a little more in the picture, and he told me first that this is a first draft only; secondly that, provided he is protected on that point and the paper is not used publicly, I may do what I like with it, including sending a copy to you; thirdly that copies have been passed to Jinnah and I think to Hydari and fourthly that while he, Zafarullah cannot of course admit its authorship, his document has been prepared for adoption by the Muslim League with a view to its being given the fullest publicity.I cannot claim even yet to have had time to absorb it fully, and I would prefer to suspend my comments on it until later. But it is a substantial and trenchant piece of work and I shall be greatly interested in your own reaction to it.
ولی خان صاحب کی کتاب میں دیئے گئے خط اور درج بالا خط میں واضح فرق ہے۔ یہ عیاں کرتا ہے کہ ولی خان نے اپنا دعویٰ سچ ثابت کرنے کی خاطر خط کا متن توڑ مروڑ کے پیش کیا جو ایک قسم کی علمی بددیانتی ہے۔
دور جدید کی ممتاز مورخ، ڈاکٹر عائشہ جلال نے حیات ِقائد پہ لکھی اپنی انگریزی کتاب ''The Sole Spokesman'' میں سر ظفر اللہ خان کے نوٹ پر تفصیلی بحث کی ہے۔ چونکہ ان کا شمار ''ریاستی مورخین'' میں نہیں ہوتا لہٰذا ڈاکٹر صاحبہ کے افکار اہمیت رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ کتاب کے دوسرے باب ''Jinnah and the League's search for survival'' میں رقم طراز ہیں:
''وسط فروری 1940ء میں ظفر اللہ خان نے اپنا نوٹ وائسرائے ہند کو بھجوایا۔ انہوں نے اس میں تین سکیموں کا ذکر کیا۔ اول سکیم چودھری رحمت علی سکیم سے مشابہ تھی جسے انہوں نے ''نہایت غیر عملی'' قرار دیا۔ دوسری ''فیڈرل سکیم'' تھی۔ اس کے تحت انہوں نے اسلامی ریاستیں قائم کرنے کی تجویز دی جو وفاق کے ماتحت ہوں۔ تیسری ''علیحدگی سکیم'' تھی۔ اس کے تحت مسلم اکثریتی صوبوں کی دو اسلامی ریاستیں قائم کردی جاتیں۔جناح نے یہ نوٹ دیکھا۔ مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی میں بھی اسے پیش کیا ہوگا۔ مگر سرظفراللہ کی دونوں سکیموں کو قبولیت نہ ملی۔ فیڈرل سکیم کی رو سے دونوں اسلامی ریاستیں کئی معاملات میں انگریزوں (یا ہندوؤں) کی محتاج بن جاتیں۔ جبکہ علیحدگی سکیم میں مسلم اقلیتی صوبوں میں آباد مسلمانوں کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا۔مزید براں جناح اسلامی ریاستوں (یا ریاست) میں مضبوط مرکز (وفاق) چاہتے تھے تاکہ ازحد صوبائی خود مختاری کی خرابیوں سے بچا جاسکے۔''
گویاقائداعظم اور مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی نے سر ظفر اللہ خان کے نوٹ کا جائزہ ضرور لیا اور ممکن ہے کہ کچھ نکات سے استفادہ بھی کیا ہو۔ مگر آخر کار اسے بھی بقیہ سکیموں کا حصہ بنا دیا گیا۔ یہ نوٹ ''لنلتھگو پیپرز'' میں محفوظ ہے۔ اس کا نمبرMSS EUR,F /125/9 ہے۔ ساتھ لارڈ لنلتھگو کا خط بھی ہے جو 12 مارچ 1940ء کو لکھا گیا۔ لارڈ لنلتھگو 1936ء تا 1943ء وائسرے ہند رہا ۔ اس دوران لارڈ نے جو سرکاری خط کتابت کی، وہ لنلتھگو پیپرز کے نام سے برٹش لائبریری میں موجود ہے۔
یہ عین ممکن ہے کہ جب مسلم لیگ نے دانش وروں سے سکیمیں طلب کیں، تو سرظفراللہ نے بھی ایک سکیم تیار کر کے بھجوادی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ انگریز حکومت نے سرسکندر کی طرح سرظفراللہ کو بھی بطور ایجنٹ استعمال کیا تاکہ مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی پر حاوی ہوا جاسکے۔ آخر سرظفراللہ کی بنیادی سکیم میں انگریز کے مفادات کو بخوبی تحفظ دیا گیا۔
2005ء میں برطانوی مورخ، لیونل کارٹر کی کتاب ''Punjab Politics, Strains of War'' شائع ہوئی۔ اس میں 1940ء تا 1943ء گورنر پنجاب اور وائسرائے ہند کی خط کتابت محفوظ ہے۔ 25 مارچ 1940ء کو گورنر پنجاب، سرہنری کریک نے وائسرائے ہند کو یہ مراسلہ بھجوایا
:''آج صبح میری ملاقات رکن (پنجاب) اسمبلی،پیر اکبر علی سے ہوئی۔ وہ احمدی فرقے سے تعلق رکھتے ہیں۔وہ (مسلم لیگ کی) مجلس انتخاب مضامین کے اجلاس میں شریک نہیں تھے مگر دوسروں نے انہیں بتایا کہ اس میں سرسکندر نے طویل تقریر کی تھی۔ اکبر علی نے مجھے دو اہم باتیں بتائیں۔ پہلی یہ کہ احمدی خاکسار تحریک کو بہت خطرناک سمجھتے ہیں۔ اسی لیے کوئی احمدی تحریک کا حصہ نہیں بنا۔ دوسری یہ کہ قائد فرقہ نے احمدیوں کو مسلم لیگ میں شامل ہونے سے منع کررکھا ہے۔ مجھے خود بھی صرف چھ ماہ کے لیے یونینسٹ پارٹی کا حصہ بننے کی اجازت ملی ہے۔''
خط سے عیاں ہے کہ جس زمانے میں قرارداد لاہور منظور ہوئی، مرزا بشیر الدین نے اپنے پرںوکاروں کو مسلم لیگ سے دور رکھا ہوا تھا۔ گویا سر ظفر اللہ نے ازخود نوٹ تیار نہیں کیا بلکہ انگریز حکومت کی جانب سے انہیں یہ ہدایت ملی کیونکہ وہ وائسرائے کی کابینہ (ایگزیکٹو کونسل) میں وزیر (رکن) تھے۔ مزید براں انہوں نے بو وجوہ جناح صاحب سے اچھے تعلقات قائم کررکھے تھے۔
1971ء میں لاہور کے اشاعتی ادارے، نگارشات نے ایک انگریزی کتاب ''Selected Speeches and Statements of Mian Iftikhar-ud-din'' طبع کی تھی۔ یہ مشہور سوشلسٹ سیاسی رہنما، میاں افتخار الدین کی تقاریر کا انتخاب ہے جو نامور ادیب و صحافی، عبداللہ ملک مرحوم نے کیا تھا۔ صفحہ 103 پر میاں صاحب کی وہ تقریر درج ہے جو انہوں نے پاکستان کی آئین ساز اسمبلی میں کی تھی۔ اس کا اقتباس ملاحظہ فرمائیے:
''میں یہ اعلان کرتے ہوئے مسرت محسوس کرتا ہوں کہ سر محمد ظفر اللہ خان جارہے ہیں۔ ارکان اسمبلی میرے ساتھ انہیں اس افواہ پر بھی مبارک باد دینا چاہیں گے کہ انھیں ''آئزن ہاور پرائز'' اور ''چرچل میڈل'' دیا جارہا ہے۔ وجہ یہ کہ انہوں نے نہایت کامیابی سے عوامی طور پر نہ سہی، ذاتی حیثیت سے اپنے ملک کو برطانوی استعمار اور امریکا کی ابھرتی شہنشاہیت کا مستقل غلام بنا دیا ہے۔ اب انہیں ہمارے امور خارجہ کنٹرول کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ مستقبل میں ہماری وزارت خارجہ عنقا ہوگی۔ ہمارے امور خارجہ کو برطانوی اور ساتھ ساتھ امریکی کنٹرول کریں گے۔ اب ان عظیم طاقتوں نے سر ظفر اللہ کو یہ ذمے داری سونپی ہے کہ وہ دیگر اسلامی ممالک کو بھی ان کا غلام بنادیں۔ سر ظفر اللہ تجربے کار آدمی ہیں۔ پھر وہ بین الاقوامی معاملات میں سب سے بڑی اسلامی مملکت کی نمائندگی کرتے ہوئے نہایت عزت و احترام حاصل کرچکے ہیں۔ لہٰذا وہ اپنے آقاؤں کے اعتماد پر پورا اتریں گے اور یقینا اپنی بدقسمت سرزمین کی طرح اسلامی اور ایشیائی ممالک کو بھی مستقل طور پر ان کا غلام بنادیں گے۔''
یاد رہے، سر ظفر اللہ 27 دسمبر 1947ء تا 24 اکتوبر 1954ء وزیر خارجہ پاکستان رہے تھے۔ پھر وہ عالمی عدالت انصاف سے بہ حیثیت جج منسلک ہوگئے۔ درج بالا تقریر اسی موقع پر 1954ء میں کی گئی تھی۔ عالم اسلام کو درپیش مسائل حل کرنے کے سلسلے میں عالمی عدالت انصاف کے منافقانہ رویّے سے سبھی پاکستانی واقف ہیں۔
9 نومبر 2011ء کو روزنامہ ڈان میں'' Two ends of Ravi Road and how our freedom fared'' کے نام سے ماجد شیخ کا ایک مضمون شائع ہوا۔ اس میں مصنف نے یہ نظریہ پیش کیا :''لارڈ لنلتھگو مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی کی پیش کردہ سکیم سے متفق نہ تھا۔ وہ ہندوستان کو تین حصّوں... ہندو، مسلم اور شاہی ریاستوں میں تقسیم کرنا چاہتا تھا۔ لہٰذا اس نے سرظفراللہ خان کو ہدایت دی کہ ایک نئی سکیم تیار کریں ۔ جب سیکرٹری انڈیا نے موصوف کی سکیم منظور کرلی، تو 23 مارچ 1940ء کو اسے ہی قرارداد لاہور کی صورت پیش کیاگیا۔'' اس نظریے کی خامی یہ ہے کہ مصنف نے کسی قسم کے حوالہ جات نہیں دیئے۔ تعجب ہے، روزنامہ ڈان جیسے معتبر اخبار نے حوالوں کے بغیر نہایت اہم دعویٰ کرنے والا مضمون کس طرح شائع کردیا؟پاکستان کے بعض مورخین سر ظفر اللہ خان یا سر سکندر حیات خان کو قرار داد لاہور کا خالق بتاتے ہوئے عموماً برٹش لائبریری میں محفوظ دستاویزات کا حوالہ دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسی دستاویزات موجود ہیں تو انہیں سامنے آنا چاہیے۔ بھارتی مورخین تو یہی چاہتے ہیں کہ پاکستان کو انگریزوں کی تخلیق قرار دیا جائے لیکن ان کی کتب میں بھی واضح طور اس امر کا تذکرہ نہیں ملتا کہ قرار داد لاہور انگریزوں کے دو سچے پکے ایجنٹوں کی تخلیق ہے۔تیاری میں دونوں صاحبان کا کردار ضرور رہا مگر وہ بھی متنازع ومشکوک حیثیت رکھتا ہے۔
اب ذرا وکی پیڈیا کی بات ہو جائے۔اس نیٹ انسائیکلوپیڈیا نے ہرکس وناکس کو اپنے متون ایڈٹ کرنے کی چھوٹ دے رکھی ہے۔مگر اس شتر بے مہار نما آزادی کا نتیجہ یہ نکلا کہ وکی پیڈیا کے کئی مضامین سچ وجھوٹ کا عجب ملغوبہ بن چکے۔قرارداد پاکستان کا متن اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
پچھلے ماہ ہم وطنوں نے ''یوم پاکستان'' روایتی جوش و جذبے سے منایا۔ اس دن ستتر سال قبل ہمارے بزرگ ایک قرارداد سامنے لائے تھے جس میں انگریز حکومت اور ہندو لیڈروں کو باور کرایا گیا کہ ہندوستان میں آباد مسلمان ایک ''قوم'' ہیں،اقلیت نہیں! چناںچہ مسلم اکثریتی علاقوں میں خود مختار ریاستیں تشکیل دی جائیں تاکہ وہ آزادانہ اپنے مذہبی اعتقادات اوررسوم و رواج پر عمل پیرا ہوسکیں۔ مسلمانان ہند نے اسی قرارداد کی روشنی میں تحریک آزادی پاکستان کا آغاز کیا اور سات برس بعد منزل مراد حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔
یوم پاکستان کی مناسبت سے مختلف ٹی وی چینلوں نے پروگرام دکھائے جن میں دانشور، مورخ اور مدبر شریک ہوئے۔ ایک پروگرام میں مشہور مورخ، ڈاکٹر مبارک علی بھی تشریف لائے۔ دوران گفتگو انہوں نے فرمایا کہ قرارداد پاکستان کے مصنف چودھری محمد ظفر اللہ خان تھے جنھوں نے انگریز وائسرائے ہند، لارڈ لنلتھگو کے کہنے پر اس کو قلمبند کیا۔بعد ازاں انہوں نے یکم اپریل کو معاصر اخبار میں ایک خط شائع کرایا جس کا لب لباب یہ ہے :''قرارداد لاہور (پاکستان) ایک غیر اہم دستاویز تھی جسے قیام پاکستان کے بعد دلکش داستان کی صورت پیش کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ قرارداد انگریز وائسرائے کی تخلیق ہے جو اس نے اپنے ایک وزیر (ظفر اللہ خان) سے تحریر کرائی۔ انٹرنیٹ پر یہ ساری معلومات موجود ہیں۔ ریاستی مورخین نے حقائق کو مسخ کردیا ہے۔''
اتفاق کی بات کہ میرا بیٹا بھی میرے ساتھ بیٹھا وہ ٹی وی پروگرام دیکھ رہا تھا۔ اگلے دن اس کا میٹرک امتحان میں ''مطالعہ پاکستان'' کا پیپر تھا۔ جب ڈاکٹر مبارک علی کا دعویٰ سنا، تو مجھ سے پوچھنے لگا ''پاپا! قرارداد پاکستان ظفر اللہ خان نے لکھی ہے؟یہ کون ہیں؟ ہماری کتاب میں تو کچھ اور لکھا ہے۔'' بیٹے کو بتایا کہ سر محمد ظفر اللہ خان(1893ء۔1985ء) ایک بڑے وکیل گزرے ہیں۔پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ رہے۔لیکن یہ واضح نہیں کہ کیاوہ قرارداد لاہور کے خالق ہیں۔تبھی سوچا کہ اس موضوع پر تحقیق کر کے سچائی وطن عزیز کی نئی نسل تک پہنچائی جائے۔
محترم ڈاکٹر مبارک علی نے اشارہ دیا تھا کہ ''انٹرنیٹ پرساری معلومات موجود ہیں''۔سو سب سے پہلے دور ہے جدید کے طلسم ہوشربا میں داخل ہوا جہاں گوگل عمر و عیار کی زنبیل بن چکا۔ بس اسے کوئی حکم دیجیے، پلک جھپکنے میں مطلوبہ شے حاضر ۔ قرارداد پاکستان لکھتے ہی وکی پیڈیا کا مضمون ''لاہور ریزولیشن'' سامنے آگیا۔ اور واقعی اس کے آغاز ہی میں درج تھا کہ قرارداد پاکستان محمد ظفر اللہ خان کی تخلیق ہے۔مضمون میں یہ بھی پڑھنے کو ملا کہ لارڈ لنلتھگو نے ان کو ایسی قرارداد تحریر کرنے کا حکم دیا تھا جو انگریز حکومت کے مفادات کو تحفظ دے سکے۔وکی پیڈیا کا متن پڑھ کر حیرانی ہوئی۔ حوالہ دیکھا، تو انکشاف ہوا کہ یہ دعوی مشہور سیاست داں،ولی خان مرحوم نے اپنی انگریزی کتاب ''Facts are facts: The untold story of India's partition'' میں کررکھا ہے جو پہلی بار1987ء میں طبع ہوئی تھی۔دعویٰ ایک خط پر مبنی ہے جو وائسرائے ہند، لارڈ لنلتھگو نے لارڈ زیٹ لینڈ، انڈیا سیکرٹری(یعنی برطانوی حکومت میں ہندوستان کے امور دیکھنے والے وزیر) کے نام لکھا تھا ۔ نیٹ سے راقم کو جو کتاب ملی،اس میں یہ ذکر عنقا ہے کہ ولی خان نے خط کہاں دیکھا اور اب وہ کس جگہ موجود ہے؟ حوالے کے بغیر خط کا ذکر ایسے ہی ہے کہ کوئی ہوا میں ٹامک ٹوئیاں مارنے لگے۔دنیائے انٹرنیٹ کی خاک چھانی، تو افشا ہوا کہ جن تحریروں میں سر ظفر اللہ خان کو قرارداد پاکستان کا خالق بتایا گیا ہے، ان سبھی نے بطور حوالہ ولی خان صاحب کی کتاب درج کررکھی ہے۔ بچپن سے تاریخی کتب پڑھنے کی چاٹ لگنے کے باعث ناچیز بھی علم تاریخ سے دلچسپی رکھتا ہے۔ والد مرحوم کی لائبریری اور دیگر کتب خانوں میں موجود تاریخ کی سیکڑوں کتب دیمک کی طرح چاٹ چکا۔ اب بھی تواریخ عالم کا مطالعہ پسندیدہ ترین مشغلہ ہے۔ فیصلہ کیا کہ تاریخ کے بے پناہ سمندر میں غوطہ زن ہو کر تلاش کیا جائے، قرارداد پاکستان کا خالق کون ہے؟
پس منظر
آغاز میں قرارداد کا مختصر پس منظر جان لیجیے تاکہ اس زمانے کا سیاسی منظر نامہ ذہن میں آ سکے۔ مسلمان لیڈروں کے باہمی اختلافات سے تنگ آکر قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں لندن چلے گئے تھے۔ تاہم قائد کی صلاحیتوں کے معترف مسلم لیگی لیڈران پر زور ڈالتے رہے کہ واپس ہندوستان آجائیے۔ آخر اپریل1934ء میں قائد واپس آئے اور مسلم لیگ کو مسلمانان ہند کی نمائندہ جماعت بنانے کا بیڑا اٹھالیا۔1937ء میں برطانوی ہند کی تاریخ میں پہلی بار گیارہ صوبوں میں صوبائی الیکشن منعقد ہوئے جن میں عوام نے جوق در جوق ووٹ دئیے۔ اس الیکشن میں مسلم لیگ بنگال کے علاوہ کسی صوبے میں متاثر کن کارکردگی نہیں دکھاپائی۔گو وہ ہندوستان کی دوسری بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری تاہم ہزیمت نے یہی آشکارا کیا کہ مسلم لیگ ہندوستانی مسلمانوں کی نمائندہ پارٹی نہیں۔ چناںچہ مسلم لیگی کارکنوں میں بے دلی پھیل گئی اور حتی کہ جماعت کا مستقبل مخدوش نظر آنے لگا۔
اُدھرالیکشن میں کانگریس کو زبردست فتح ملی اور اس نے بنگال، پنجاب اورسندھ کے علاوہ بقیہ آٹھ صوبوں (صوبہ سرحد، اترپردیش، مہاراشٹر،بہار،بمبئی،مدراس،اڑیسہ اور آسام )میں اپنی حکومتیں قائم کرلیں۔حکومتیں سنبھالتے ہی کانگریسی ہندو خصوصاً متحدہ صوبہ جات(اترپردیش)،بہار اور مہاراشٹر میں اپنا اصل روپ سامنے لانے لگے۔ انہوں نے ''ہندی'' کو صوبوں کی سرکاری زبان بنا دیا۔ سکولوں میں ''ودیا مندر سکیم'' اور ''واردھا سکیم'' لاگو کردیں تاکہ نظام تعلیم ہندوانہ بنایا جاسکے۔ سکولوں میں نہایت اشتعال انگیز گیت ''بندے ماترم'' بطور قومی ترانہ گایا جانے لگا۔ گائے کے ذبیح پر رکاوٹیں کھڑی کردیں۔ غرض کانگریسی حکومتوں نے اپنے عمل سے ثابت کردیا کہ اگر انگریز ہندوستان کی باگ دوڑ ہندوؤں کو دے کر رخصت ہوئے، تو وہ مملکت کو ''ہندوراج'' میں تبدیل کردیں گے ۔ہندوستان میں ہندو راج آنے کا خطرہ محسوس کرتے ہوئے مسلم لیگ ایسا لائحہ عمل اختیار کرنے پر غور کرنے لگی جو مسلمانان ہند کے حقوق کا تحفظ کر سکے۔
پہلے انگریز اور ہندوؤں کو یہ بتانا ضروری تھا کہ ہندوستان میں ایک تیسری طاقت... مسلمان بھی بستے ہیں۔ چناں چہ10 اکتوبر 1938ء کو کراچی میں سندھ مسلم لیگ کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس میں پہلی بار یہ قرار داد منظور کی گئی: ''مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں اور ہندوستان میں ایک نہیں دو قومیں آباد ہیں۔ لہٰذا مسلم لیگ کو ایسی سکیم تیار کرنی چاہیے جو مسلمانان ہند کو آزادی و خود مختاری دلوا سکے۔'' یہ قرار داد شیخ عبدالمجید سندھی نے پیش کی جبکہ اس کی تیاری میں صدر سندھ مسلم لیگ، عبداللہ ہارون نے اہم کردار ادا کیا۔اس وقت سندھ، بلوچستان، سرحد اور کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ پنجاب، بنگال اور متحدہ صوبہ جات میں بھی ان کی بڑی تعداد بستی تھی۔بقیہ صوبوں میں مسلمان کم یا زیادہ تعداد میں آباد تھے۔ قائداعظم اور دیگر مسلم لیگی لیڈروں کے سامنے پہلے پہل یہ مسئلہ آن کھڑا ہوا کہ ہندوستان میں آباد سبھی مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ کیونکر یقینی بنایا جائے؟ کیا مسلمان ہندوؤں کے ساتھ مل کر ایسی وفاقی حکومت بنائیں جن میں انھیں بھی متوازی قوت حاصل ہو؟ یا پھر مسلم اکثریتی صوبوں کی علیحدہ ریاست یا ریاستیں بن جائیں؟ یا ایسا وفاق عمل میں لایا جائے جس میں صوبے خود مختار ہوں اور وفاقی حکومت صرف دفاع، امور خارجہ اور خزانہ سنبھال لے؟
درج بالا سوالات پر غور کرنے کے لیے ہی مسلم لیگ نے دو کمیٹیاں تشکیل دیں۔ پہلی کمیٹی'' مجلس امورخارجہ'' (فارن کمیٹی)کی بنیاد 4 دسمبر 1938ء کو رکھی گئی۔ کمیٹی کو یہ ذمے داری سونپی گئی کہ وہ ہندوستان اور بیرون ممالک سے متعلق مسلم لیگ کی پالیسیاں تیار کرے۔کمیٹی کے صدر، عبداللہ ہارون بنائے گئے۔ دیگر ارکان میں سرشاہنواز ممدوٹ، پیر محمد علی راشدی، مولانا غلام رسول مہر، مولانا عرفان اللہ، ڈاکٹر سید عبدالطیف، سید رضوان اللہ، ڈاکٹر افضال حسین قادری اور سید اختر حسین شامل رہے۔
دوسری کمیٹی '' مجلس آئینی'' (کونسٹینیوشنل سب کمیٹی) 26 مارچ 1939ء کو وجود میں آئی۔ اسے یہ ذمے داری دی گئی کہ (انگریز حکومت ختم ہونے کے بعد) مستقبل کی حکومت بنانے کے سلسلے میں اب تک جو مختلف آئینی سکیمیں و تجاویز سامنے آئی ہیں، ان کا جائزہ لے کر ایک رپورٹ مرتب کرے۔ اس کمیٹی کے ارکان میں قائداعظم، نواب اسماعیل خان، عبداللہ ہارون، خواجہ ناظم الدین،سرسکندر حیات خان، عبدالمتین چودھری، سردار اورنگزیب خان اور سید عبدالعزیز شامل تھے۔ لیاقت علی خان کمیٹی کے کنوینئر مقرر ہوئے۔
اب یہ دونوں کمیٹیاں ایسی اسکیم وضع کرنے کی خاطر غوروفکر اور تحقیق کرنے لگیں جو مستقبل میں ہندوستانی مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ کرسکے۔اس ضمن میں پہلا سوال یہ درپیش تھا کہ مسلم اقلیت کو ہندو اکثریت کے غلبے سے کیونکر محفوظ رکھا جائے؟ ہندو مسلم اختلافات نیا عجوبہ نہیں تھے تاہم ان میں شدت اٹھارہویں صدی عیسوی سے آئی جب انگریز ہندوستان کی باگ دوڑ سنبھالنے لگے۔ انہوں نے اپنی حکومت مستحکم بنانے کے لیے ہندو اور مسلمانوں کو لڑانے کی پالیسی تخلیق کر ڈالی۔ چناںچہ انیسویں صدی کے اواخر تک ہندومسلم اختلافات ہندوستانی معاشرے میں جڑ پکڑ چکے تھے۔ 23 اگست 1890ء کو مشہور ادیب و ناول نگار، مولانا عبدالحلیم شرر نے اپنے رسالے ''تہذیب'' کے اداریے میں لکھا: ''نوبت یہاں تک پہنچ چکی کہ اب مسلمان اپنی مذہبی رسومات آزادانہ طور پر ادا نہیں کرسکتے۔
اس عالم میں بہتر یہ ہے کہ ہندوستان کو ہندو اور مسلم صوبوں میں تقسیم کرکے تبادلہ آبادی کرلیا جائے۔''اس سے قبل سر سید احمد خان بھی کہہ چکے تھے کہ ہندوستان میں دو اقوام آباد ہیں، مسلمان اور ہندو!تاریخ ِمسلم لیگ پر لکھی جانے والی کتب سے عیاں ہے کہ مجلس امور خارجہ اور مجلس آئینی عام طور مل کر کام کرتی رہیں۔ دونوں کمیٹیوں نے مختلف سکیموں کا جائزہ لیا جن میں ''علی گڑھ سکیم'' (ڈاکٹر ظفر الحسن اور ڈاکٹر افضال حسین قادری)، ''ثقافتی منطقوں کی وفاقی ریاست برائے ہند'' (ڈاکٹر سید عبدالطیف)، ''ہندوستانی فیڈریشن اسکیم'' (سرسکندر حیات خان)، ''چودھری رحمت علی کی سکیم'' اور ''ہندوستان کا اتحاد'' (میجر میاں کفایت علی) قابل ذکر ہیں۔
جنگ عظیم کا آغاز
ایک جامع سکیم وضع کرنے کے سلسلے میں غور و خوض جاری تھا کہ ایک عالمی واقعہ ہندوستانی سیاست میں انقلاب لے آیا۔ یکم ستمبر 1939ء کو دوسری جنگ عظیم چھڑگئی۔ 3 ستمبر کو برطانوی ہند کی حکومت نے بھی جرمنی کے خلاف اعلان جنگ کردیا۔ یہ اعلان کرتے وقت کانگریس سے کوئی مشورہ نہیں لیا گیا۔ کانگریسی لیڈروں نے اسے اپنی سبکی قرار دیا اور اکتوبر 1939ء میں سبھی صوبائی حکومتیں ختم کرڈالیں۔ کانگریسی حکومتوں کے خاتمے پر قائداعظم کی ہدایت پر مسلمانوں نے 22 دسمبر 1939ء کو ''یوم نجات'' دھوم دھام سے منایا۔ انگریز پچھلے ایک سو برس سے ہندوؤں کے سرپرست بنے بیٹھے تھے۔ انہی کی سرپرستی کے باعث معاشرے میں ہندو سیاسی، معاشی اور معاشرتی طور پر سب سے زیادہ طاقتور قوم بن گئے۔ مگر اس طاقت نے انہیں مغرور و متکبر بھی بنادیا۔چناں چہ انگریز حاکموں نے بعض معاملات بالا بالا طے کیے، تو کانگریسی ہندو لیڈروں کو آگ لگی گئی۔اب وہ انگریزوں پرزور ڈالنے لگے کہ ہندوستان کی حکومت ان کے حوالے کردی جائے۔ کانگریس نے انگریز حکومت سے تعاون کی شرط ہی یہ رکھی کہ خاتمہ جنگ کے بعد اقتدار اس کے حوالے کردیا جائے گا۔
تاہم دوسری جنگ چھڑتے ہی مسلمانانِ ہند بھی انگریز حاکموں کی نظر میں اہم بن گئے۔ وجہ یہ کہ برطانوی ہند کی فوج میں مسلمان شامل تھے یا سکھ! جنگ کے باعث اب مزید فوجیوں کی ضرورت تھی جو انہیں خصوصاً مسلم اکثریتی صوبوں، پنجاب اور سرحد سے ملنے تھے۔ لہٰذا اب وہ مسلمانوں کو ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے تھے۔ تب تک مسلم لیگ پنجاب میں سب سے بڑی مقامی جماعت، یونینسنٹ پارٹی سے اتحاد کرچکی تھی۔گو کئی مسلم لیگی لیڈر اس اتحاد پر خوش نہیں تھے مگر اس نے مسلم لیگ کو مسلمانان ہند کی اہم ترین سیاسی جماعت میں تبدیل کردیا۔
دوسری جنگ کی وجہ سے بدلتے ماحول میں لارڈ لنلتھگو اب قائداعظم کے مطالبات اور نکات پر زیادہ دھیان دینے لگا۔ قائداعظم کئی بار کہہ چکے تھے کہ برطانیہ کا ''ایک آدمی ایک ووٹ والا'' پارلیمانی و جمہوری نظام ہندوستان میں نہیں چل سکتا۔مخالفت کی وجہ عیاںہے۔ اس نظام میں ہندو اکثریت ہر شعبے میں مسلمان اقلیت پر حاوی ہو جاتی(بھارت میں یہ عمل جنم لے چکا)۔لارڈ لنلتھگو نے قائداعظم سے فرمائش کی کہ اگر آپ برطانوی جمہوری نظام اپنانے کے خواہش مند نہیں، تو کوئی جامع متبادل نظام پیش کیجیے۔قائداعظم نے ہامی بھرلی۔
سکیم کی تیاری
مسلم لیگ کی دونوں کمیٹیاں ہندوستان کے مستقبل کے سلسلے میں مختلف سکیموں پر غور کررہی تھیں۔ اب قائداعظم جلد از جلد کوئی متفقہ لائحہ عمل اختیار کرنا چاہتے تھے تاکہ مسلمانانِ ہند کے حقوق کی جنگ تیز تر ہوسکے۔ ان کی ہدایت پر کمیٹی امور خارجہ فعال ہوگئی۔ 1فروری 1940ء کو ارکان کمیٹی نے مختلف سکیموں کے خالقوں سے ملاقات کی ۔بعد ازاں سرعبداللہ ہارون کی قیادت میں ارکان کمیٹی نے ''مسلم لیگی سکیم'' وضع کرنے کے لیے ایک نوٹ تیار کیا جس میں مختلف سکیموں کے چیدہ چیدہ نکات جمع کردیئے گئے ۔
دہلی میں 3 تا 6 فروری 1940ء ...مسلسل چار روز مسلم لیگ کی مجلس عاملہ (ورکنگ کمیٹی) کے اجلاس ہوئے۔ یاد رہے، یہ مسلم لیگ کا سب سے طاقتور ادارہ تھا۔ اکیس رہنما اس کے مستقل رکن تھے۔ جب مسلم لیگ کا کوئی سالانہ اجلاس منعقد ہوتا، تو ایک دن پہلے اسی مجلس عاملہ کو تین چار ارکان کے اضافے سے ''مجلس انتخاب مضامین'' (سبجیکٹس کمیٹی) میں تبدیل کردیا جاتا۔ یہی مجلس سالانہ اجلاس میں پیش ہونے والی قراردادوں کے متن کی حتمی منظوری دیتی ۔مجلس عاملہ کے بعد ''مسلم لیگ کونسل'' دوسرا اہم ذیلی ادارہ تھی۔ اس کے تقریباً پانچ سو رکن تھے جو مسلم آبادی کے لحاظ سے مختلف ہندوستانی صوبوں سے منتخب کیے جاتے۔اس کے بعد مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کے مندوبین (ڈیلی گیٹس) اہمیت رکھتے تھے۔ ان کی تعداد تقریباً پانچ ہزار تھی۔ یہ تینوں ذیلی ادارے ہی جس قرارداد کو منظور کرتے، وہ ایک اٹل حقیقت بن جاتی۔
چناں چہ اوائل فروری 1940ء میں مجلس عاملہ کے اجلاس ہوئے، تو ان میں مجلس امور خارجہ کے نوٹ پر غور و فکر ہوا۔ اب یہ نوٹ تاریخ پاکستان میں ''عبداللہ ہارون سکیم'' کہلاتا ہے ۔اس میں مسلمانان ِہند کو ''ایک قوم'' بتا کر ''آزاد مسلم ریاست ''کا تصور پیش کیا گیا ۔(بحوالہ: The Haroon Reportاز اے جی نورانی،سہ ماہیCriterion اسلام آباد،جلد سوم،شمارہ چار) مزید براں دیگر سبھی سکیموں کو بھی دیکھا بھالا گیا اور ان کی خوبیاں و خامیاں زیر بحث آئیں۔ دراصل اگلے ماہ لاہور میں مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس منعقد ہورہا تھا۔ قائداعظم سمیت سبھی لیڈر چاہتے تھے کہ اس اجلاس میں ''مسلم لیگی سکیم'' کا اعلان کردیا جائے۔ چناں چہ اس کی تیاری پر زور و شور سے کام جاری تھی۔
21 مارچ کی صبح قائداعظم مع ساتھیوں کے لاہور پہنچ گئے۔ ریلوے سٹیشن پر انہوں نے صحافیوں کو بتایا ''مسلم لیگ اپنے اس سالانہ اجلاس میں تاریخی اعلان کرنے والی ہے۔'' اسی دن شام کو مسلم لیگ کونسل کا اجلاس ہوا۔ قائداعظم یونیورسٹی میں شعبہ تاریخ سے منسلک اسسٹنٹ پروفیسر، ڈاکٹر فاروق احمد ڈار کا ایک مضمون''Jinnah and the Lahore Resolution''نیٹ پر موجود ہے جو پنجاب یونیورسٹی،لاہور کے کسی جرنل میں شائع ہوا ۔ اس میں ڈاکٹر صاحب نے دعویٰ کیا ہے کہ اسی اجلاس میں طے پایا کہ مسلم لیگی سکیم یعنی قرارداد لاہور تیار کرنے کی ذمہ داری قائداعظم اور وزیراعظم پنجاب ،سرسکندر حیات خان کو سونپی گئی ۔ چونکہ قائداعظم بہت مصروف تھے لہٰذا اسی قرارداد کا ابتدائی متن سرسکندر نے تیار کیا۔ اس دعویٰ کی خامی یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے کوئی حوالہ نہیں دیا۔21 مارچ کے اجلاس ہی میں مجلس انتخاب مضامین کے چار نئے ارکان کا انتخاب عمل میں آیا۔ 22 مارچ کی سہ پہر مسلم لیگ کا کھلا اجلاس منعقد ہوا جس میں مندوبین بھی شریک ہوئے۔ دلچسپ بات یہ کہ اس اجلاس میں جب سرسکندر کا ذکر آیا، تو کئی مندوبین ان پر تنقید کرنے لگے۔ موصوف اتنے زیادہ گھبرائے کہ پنڈال کے عقبی دروازے سے باہر چلے گئے۔(بحوالہ ''یادوں کے چراغ'' از عبداللہ ملک)۔ 22 مارچ کی شام ہی ممدوٹ ولا میں مجلس انتخاب مضامین کا اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس کی تفصیل تحریک پاکستان کے بعض لیڈروں نے اپنی کتب اور مضامین میں بیان کی ہے۔
تاہم ان میں سب سے مفصل بیان سید شمس الحسن (1892ء۔1981ء) نے سپرد قلم کیا۔ سید صاحب 1914ء سے 1947ء تک مسلم لیگ کے سیکرٹری رہے۔ جماعت کی روزمرہ تمام تنظیمی کارروائیاں انہی کی وساطت سے انجام پاتی تھیں۔ سید شمس الحسن کئی اخبارات ورسائل میں طبع شدہ اپنی یادداشتوں میں رقم طراز ہیں:''مجلس انتخاب مضامین کے اجلاس میں مختلف سکیموں کا جائزہ لیا گیا اور متفرق آئینی مسائل زیر بحث آئے جن کا ذکر قائداعظم نے اپنی تقریر میں کیا تھا۔ آخر اس نے فیصلہ کیا کہ مجلس عاملہ قرارداد کا متن تیار کرے تاکہ بعدازاں اسے برائے منظوری مجلس انتخاب مضامین کے سامنے پیش کیا جاسکے۔ چونکہ وقت کم تھا، اس لیے اسی رات مجلس عاملہ کا اجلاس منعقد ہوا۔ وہاں طویل مباحثے کے بعد قرارداد کے مندرجات تیار کیے گئے۔ آخر میں مجلس عاملہ نے لیاقت علی خان، نواب اسماعیل خان اور ملک برکت علی کو قرارداد لاہور کا متن لکھنے کی ذمے داری سونپی۔ ملک برکت علی نے متن کو تحریر کیا۔''
دیگر مسلم لیگی رہنما اپنی تحریروں میں لکھتے ہیں کہ یہ متن انگریزی میں تھا جسے مولانا ظفر علی خان نے اردو کا جامہ پہنایا۔یہ کام انجام پاتے ہوئے رات کے بارہ بج گئے تھے۔ اگلی صبح دس بجے مجلس انتخاب مضامین کا دوسرا اجلاس منعقد ہوا۔تب متن میں مزید کچھ تبدیلیاں کی گئیں۔ اسی دن سہ پہر کو مسلم لیگ کا عام اجلاس منعقد ہوا۔ اس میں باقاعدہ طور پر قرارداد لاہور عوام و خواص کے سامنے پیش کردی گئی جو اب قرارداد پاکستان کہلاتی ہے۔اگلے دن مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی وکونسل کے ارکان اور مندوبین نے قرارداد لاہور منظور کر کے اسے اٹل صورت دے دی۔
٭٭
قرارداد پاکستان کی تاریخ سے عیاں ہے کہ اس کو نامور علمی و سیاسی شخصیات کے نظریات، خیالات اور تصّورات سے استفادہ کرتے ہوئے تخلیق کیا گیا...کسی ایک فرد کو اس کا خالق نہیں کہا جا سکتا!رنگارنگ اور ہمہ نوعی نظریات کا جوہر نکال لیناآسان کام نہ تھا۔ مسلم اکثریتی صوبوں اور مسلم اقلیتی صوبوں میں آباد مسلمانوں کی اپنی اپنی مخصوص ضروریات تھیں۔ لہٰذا مسلم لیگی لیڈروں پر ایسی قرارداد وضع کرنے کی بھاری ذمے داری آن پڑی جو سبھی مسلمانوں کے مفادات کا خیال رکھ سکے۔ نہایت کٹھن کام کے سبب ہی قرارداد میں کچھ ابہام بھی رہ گئے جنہوں نے آگے چل کر مسائل کھڑے کیے۔اور یہی وجہ ہے کہ بدلتے اور نت نئے تقاضوں کے تحت قرارداد کا متن کئی بار تبدیل بھی ہوا۔ تاہم قائداعظم کی زیر قیادت مسلم لیگی رہنما مسلمانان ہند کا مستقبل محفوظ کرنے کیلئے قرارداد لاہور کی صورت پہلا ٹھوس قدم اٹھانے میں ضرور کامیاب رہے۔ اس قرارداد نے دنیا والوں پر آشکارا کردیا:
-1 مسلمانان ہند ایک قوم ہیں۔
-2 ہندوستان میں مخصوص مذہبی' سیاسی و معاشرتی حالات کے باعث برطانوی جمہوری نظام کامیابی سے نہیں چل سکتا۔
-3 جن ہندوستانی صوبوں میں مسلمان اکثریت میں ہیں، وہاں آزاد ریاستیں تشکیل دی جائیں۔
-4 ہندوستان کے جن صوبوں میں مسلمان اقلیت میں ہیں، وہاں ان کے حقوق کو پورا تحفظ دیا جائے۔
کیا سر سکندر خالق ہیں؟
بعض مورخین نے سر سکندر حیات خان کو قرارداد لاہور کا خالق قرار دیا ہے۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کی وفاقی سکیم میں خودمختار مسلم ریاستوں کا تصور عنقا تھا بلکہ سبھی مسلم ریاستیں وفاق کے تابع تھیں جن پر بعد از آزادی ہندوؤں کا قبضہ ہوجانا تھا۔ سرسکندر نے اپریل 1939ء میں اپنی سکیم پیش کی تھی۔
تحریک پاکستان کے رہنما،سید شریف الدین پیرزادہ اپنی کتاب''Quaid-i-Azam Mohammad Ali Jinnah and Pakistan'' کے باب''Jinnah, the Two Nation theory and the demand for Pakistan'' میں لکھتے ہیں ''انگریز وائسرائے نے سرسکندر کو اپنی سکیم پیش کرنے کا حکم دیا تھا تاکہ مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی میں اسے عبداللہ ہارون سکیم کے مقابلے میں پیش کیا جاسکے۔ اس ضمن میں پیرزادہ صاحب نے گورنر پنجاب کا خط بنام وائسرائے ہند بطور ثبوت پیش کیا ہے۔ یہ انکشاف واضح کرتا ہے کہ سرسکندر انگریز ایجنٹ تھے جو مسلم لیگ میں شامل ہونے کے بعد بھی اپنے آقاؤں کے مفادات کا تحفظ کرنے کی پوری سعی کرتے رہے۔
مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کے رکن اور مشہور سیاست داں، چوہدری خلیق الزماں اپنی خود نوشت ''شاہراہ پاکستان'' میں رقم طراز ہیں :''4 فروری (1940ء) کو مجلس عاملہ میں سرسکندر حیات نے اپنی سکیم کی پر زور وکالت کی۔لیکن دو گھنٹے تک بحث مباحثے کے بعد جناح کی تائید سے سکیم نامنظور کردی گئی۔''
حقائق سے عیاں ہے کہ اوائل میں سرسکندر نے انگریز حکمرانوں کے کہنے پر یا اپنی مرضی سے قرارداد لاہور کی تیاری میں حصّہ لیا۔وہ مسلم اکثریتی صوبوں کی خود مختاری کے تو خواہش مند تھے، مگر انیںر غیر مسلم وفاق کے ساتھ نتھی کرنا چاہتے تھے۔ جب مسلم لیگ کی مجلس عاملہ نے ان کی سکیم مسترد کردی، تو وہ قرارداد لاہور سے لاتعلق ہوگئے۔ 23 مارچ کے عام جلسے میں وہ موجود نہیں تھے۔سرسکندر ویسے بھی اندرون خانہ مسلم لیگ کے مخالف تھے۔ ان کی تا عمر سعی رہی کہ مسلم لیگ پنجاب میں قدم نہ جمانے پائے۔11 مارچ 1941ء کو پنجاب اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے سرسکندرنے خود کہا تھا''میں نے جو قرارداد (لاہور) تیار کی تھی، اس میں (مسلم لیگ) کی مجلس عاملہ انقلابی تبدیلیاں لے آئی تھی۔ لہٰذا میری قرارداد اور منظور ہونے والی قرارداد میں بہت فرق تھا۔''(بحوالہ Lahore Resolution and question of provincial autonomy ازپروفیسر شریف المجاہد،ڈیلی بزنس ریکارڈر،23 مارچ،2007ء)
سرظفراللّٰہ خان کا قصہ
یہ دسمبر 1981ء کی بات ہے،ممتاز سیاستدان ولی خان نے لاہور کے مشہور ہفت روزہ ''چٹان'' کو انٹرویو دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ قرارداد پاکستان سرظفراللہ خان کی تخلیق ہے اور یہ کہ برطانوی وائسرے ہند، لارڈ لنلتھگو نے یہ قرارداد ان سے لکھوائی تھی۔ بعدازاں اس دعویٰ کو ولی خان نے اپنی انگریزی کتاب کا بھی حصہ بنا دیاجس کا ذکر درج بالا ہو چکا۔کتاب میں بغیر حوالہ مصنف نے انڈیا سیکرٹری کے نام لارڈ لنلتھگو کے خط کا ذکر کچھ یوں کیا ہے:
Upon my instruction Zafarullah wrote a memorandum on the subject. Two Dominion States. I have already sent it to your attention. I have also asked him for further clarification, which, he says, is forthcoming. He is anxious, however, that no one should find out that he has prepared this plan. He has, however, given me the right to do with it what I like, including sending a copy to you. Copies have been passed on to Jinnah, and, I think, to Sir Akbar Hydari. While he, Zafarullah, cannot admit its authorship, his document has been prepared for adoption by the Muslim League with a view to giving it the fullest publicity.
یہ خط عیاں کرتا ہے کہ برطانوی حاکموں کے حکم پر ایک متنازع مذہبی پس منظر رکھنے والی اہم شخصیت نے وہ قرارداد تحریر کی جو تحریک پاکستان کے ضمن میں مسلم لیگ کا ''میگناکارٹا''بن گئی۔ لیکن حقائق کچھ اور افشا کرتے ہیں۔ہفت روزہ چٹان میں ولی خان کا انٹرویو شائع ہوا، تو ملک بھر میں ہلچل مچ گئی اور دانشور اپنی آرا پیش کرنے لگے۔ حقیقت جاننے کی خاطر روزنامہ پاکستان ٹائمز، راولپنڈی نے 13 فروری 1982ء کو سرظفراللہ خان کا انٹرویو شائع کیا جو تب حیات تھے۔ اس انٹرویو میں سر ظفر اللہ نے دعویٰ کیا کہ نوٹ انہوں نے اپنی مرضی سے تحریر کیا تھا۔ اسی انٹرویو میں انڈیا سیکرٹری کے نام لارڈ لنلتھگو کا خط بھی شائع ہوا جس کا متن ظفر اللہ خان نے اخبار کو مہیا کیا تھا۔ وہ ملاحظہ فرمائیے:
'I sent by the last bag a copy of Zafarullah's note on dominion Status which I remarked purported to be statement of the position from extremer point of view. I introduced that qualification because I have not at that time had an opportunity of discussing its precise nature with him and certain of the propositions contained in it, were likely to appear formally under the name of a Member of my council, might, I think, have justified a description in those terms.
I asked him yesterday to put me a little more in the picture, and he told me first that this is a first draft only; secondly that, provided he is protected on that point and the paper is not used publicly, I may do what I like with it, including sending a copy to you; thirdly that copies have been passed to Jinnah and I think to Hydari and fourthly that while he, Zafarullah cannot of course admit its authorship, his document has been prepared for adoption by the Muslim League with a view to its being given the fullest publicity.I cannot claim even yet to have had time to absorb it fully, and I would prefer to suspend my comments on it until later. But it is a substantial and trenchant piece of work and I shall be greatly interested in your own reaction to it.
ولی خان صاحب کی کتاب میں دیئے گئے خط اور درج بالا خط میں واضح فرق ہے۔ یہ عیاں کرتا ہے کہ ولی خان نے اپنا دعویٰ سچ ثابت کرنے کی خاطر خط کا متن توڑ مروڑ کے پیش کیا جو ایک قسم کی علمی بددیانتی ہے۔
دور جدید کی ممتاز مورخ، ڈاکٹر عائشہ جلال نے حیات ِقائد پہ لکھی اپنی انگریزی کتاب ''The Sole Spokesman'' میں سر ظفر اللہ خان کے نوٹ پر تفصیلی بحث کی ہے۔ چونکہ ان کا شمار ''ریاستی مورخین'' میں نہیں ہوتا لہٰذا ڈاکٹر صاحبہ کے افکار اہمیت رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ کتاب کے دوسرے باب ''Jinnah and the League's search for survival'' میں رقم طراز ہیں:
''وسط فروری 1940ء میں ظفر اللہ خان نے اپنا نوٹ وائسرائے ہند کو بھجوایا۔ انہوں نے اس میں تین سکیموں کا ذکر کیا۔ اول سکیم چودھری رحمت علی سکیم سے مشابہ تھی جسے انہوں نے ''نہایت غیر عملی'' قرار دیا۔ دوسری ''فیڈرل سکیم'' تھی۔ اس کے تحت انہوں نے اسلامی ریاستیں قائم کرنے کی تجویز دی جو وفاق کے ماتحت ہوں۔ تیسری ''علیحدگی سکیم'' تھی۔ اس کے تحت مسلم اکثریتی صوبوں کی دو اسلامی ریاستیں قائم کردی جاتیں۔جناح نے یہ نوٹ دیکھا۔ مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی میں بھی اسے پیش کیا ہوگا۔ مگر سرظفراللہ کی دونوں سکیموں کو قبولیت نہ ملی۔ فیڈرل سکیم کی رو سے دونوں اسلامی ریاستیں کئی معاملات میں انگریزوں (یا ہندوؤں) کی محتاج بن جاتیں۔ جبکہ علیحدگی سکیم میں مسلم اقلیتی صوبوں میں آباد مسلمانوں کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا۔مزید براں جناح اسلامی ریاستوں (یا ریاست) میں مضبوط مرکز (وفاق) چاہتے تھے تاکہ ازحد صوبائی خود مختاری کی خرابیوں سے بچا جاسکے۔''
گویاقائداعظم اور مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی نے سر ظفر اللہ خان کے نوٹ کا جائزہ ضرور لیا اور ممکن ہے کہ کچھ نکات سے استفادہ بھی کیا ہو۔ مگر آخر کار اسے بھی بقیہ سکیموں کا حصہ بنا دیا گیا۔ یہ نوٹ ''لنلتھگو پیپرز'' میں محفوظ ہے۔ اس کا نمبرMSS EUR,F /125/9 ہے۔ ساتھ لارڈ لنلتھگو کا خط بھی ہے جو 12 مارچ 1940ء کو لکھا گیا۔ لارڈ لنلتھگو 1936ء تا 1943ء وائسرے ہند رہا ۔ اس دوران لارڈ نے جو سرکاری خط کتابت کی، وہ لنلتھگو پیپرز کے نام سے برٹش لائبریری میں موجود ہے۔
یہ عین ممکن ہے کہ جب مسلم لیگ نے دانش وروں سے سکیمیں طلب کیں، تو سرظفراللہ نے بھی ایک سکیم تیار کر کے بھجوادی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ انگریز حکومت نے سرسکندر کی طرح سرظفراللہ کو بھی بطور ایجنٹ استعمال کیا تاکہ مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی پر حاوی ہوا جاسکے۔ آخر سرظفراللہ کی بنیادی سکیم میں انگریز کے مفادات کو بخوبی تحفظ دیا گیا۔
2005ء میں برطانوی مورخ، لیونل کارٹر کی کتاب ''Punjab Politics, Strains of War'' شائع ہوئی۔ اس میں 1940ء تا 1943ء گورنر پنجاب اور وائسرائے ہند کی خط کتابت محفوظ ہے۔ 25 مارچ 1940ء کو گورنر پنجاب، سرہنری کریک نے وائسرائے ہند کو یہ مراسلہ بھجوایا
:''آج صبح میری ملاقات رکن (پنجاب) اسمبلی،پیر اکبر علی سے ہوئی۔ وہ احمدی فرقے سے تعلق رکھتے ہیں۔وہ (مسلم لیگ کی) مجلس انتخاب مضامین کے اجلاس میں شریک نہیں تھے مگر دوسروں نے انہیں بتایا کہ اس میں سرسکندر نے طویل تقریر کی تھی۔ اکبر علی نے مجھے دو اہم باتیں بتائیں۔ پہلی یہ کہ احمدی خاکسار تحریک کو بہت خطرناک سمجھتے ہیں۔ اسی لیے کوئی احمدی تحریک کا حصہ نہیں بنا۔ دوسری یہ کہ قائد فرقہ نے احمدیوں کو مسلم لیگ میں شامل ہونے سے منع کررکھا ہے۔ مجھے خود بھی صرف چھ ماہ کے لیے یونینسٹ پارٹی کا حصہ بننے کی اجازت ملی ہے۔''
خط سے عیاں ہے کہ جس زمانے میں قرارداد لاہور منظور ہوئی، مرزا بشیر الدین نے اپنے پرںوکاروں کو مسلم لیگ سے دور رکھا ہوا تھا۔ گویا سر ظفر اللہ نے ازخود نوٹ تیار نہیں کیا بلکہ انگریز حکومت کی جانب سے انہیں یہ ہدایت ملی کیونکہ وہ وائسرائے کی کابینہ (ایگزیکٹو کونسل) میں وزیر (رکن) تھے۔ مزید براں انہوں نے بو وجوہ جناح صاحب سے اچھے تعلقات قائم کررکھے تھے۔
1971ء میں لاہور کے اشاعتی ادارے، نگارشات نے ایک انگریزی کتاب ''Selected Speeches and Statements of Mian Iftikhar-ud-din'' طبع کی تھی۔ یہ مشہور سوشلسٹ سیاسی رہنما، میاں افتخار الدین کی تقاریر کا انتخاب ہے جو نامور ادیب و صحافی، عبداللہ ملک مرحوم نے کیا تھا۔ صفحہ 103 پر میاں صاحب کی وہ تقریر درج ہے جو انہوں نے پاکستان کی آئین ساز اسمبلی میں کی تھی۔ اس کا اقتباس ملاحظہ فرمائیے:
''میں یہ اعلان کرتے ہوئے مسرت محسوس کرتا ہوں کہ سر محمد ظفر اللہ خان جارہے ہیں۔ ارکان اسمبلی میرے ساتھ انہیں اس افواہ پر بھی مبارک باد دینا چاہیں گے کہ انھیں ''آئزن ہاور پرائز'' اور ''چرچل میڈل'' دیا جارہا ہے۔ وجہ یہ کہ انہوں نے نہایت کامیابی سے عوامی طور پر نہ سہی، ذاتی حیثیت سے اپنے ملک کو برطانوی استعمار اور امریکا کی ابھرتی شہنشاہیت کا مستقل غلام بنا دیا ہے۔ اب انہیں ہمارے امور خارجہ کنٹرول کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ مستقبل میں ہماری وزارت خارجہ عنقا ہوگی۔ ہمارے امور خارجہ کو برطانوی اور ساتھ ساتھ امریکی کنٹرول کریں گے۔ اب ان عظیم طاقتوں نے سر ظفر اللہ کو یہ ذمے داری سونپی ہے کہ وہ دیگر اسلامی ممالک کو بھی ان کا غلام بنادیں۔ سر ظفر اللہ تجربے کار آدمی ہیں۔ پھر وہ بین الاقوامی معاملات میں سب سے بڑی اسلامی مملکت کی نمائندگی کرتے ہوئے نہایت عزت و احترام حاصل کرچکے ہیں۔ لہٰذا وہ اپنے آقاؤں کے اعتماد پر پورا اتریں گے اور یقینا اپنی بدقسمت سرزمین کی طرح اسلامی اور ایشیائی ممالک کو بھی مستقل طور پر ان کا غلام بنادیں گے۔''
یاد رہے، سر ظفر اللہ 27 دسمبر 1947ء تا 24 اکتوبر 1954ء وزیر خارجہ پاکستان رہے تھے۔ پھر وہ عالمی عدالت انصاف سے بہ حیثیت جج منسلک ہوگئے۔ درج بالا تقریر اسی موقع پر 1954ء میں کی گئی تھی۔ عالم اسلام کو درپیش مسائل حل کرنے کے سلسلے میں عالمی عدالت انصاف کے منافقانہ رویّے سے سبھی پاکستانی واقف ہیں۔
9 نومبر 2011ء کو روزنامہ ڈان میں'' Two ends of Ravi Road and how our freedom fared'' کے نام سے ماجد شیخ کا ایک مضمون شائع ہوا۔ اس میں مصنف نے یہ نظریہ پیش کیا :''لارڈ لنلتھگو مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی کی پیش کردہ سکیم سے متفق نہ تھا۔ وہ ہندوستان کو تین حصّوں... ہندو، مسلم اور شاہی ریاستوں میں تقسیم کرنا چاہتا تھا۔ لہٰذا اس نے سرظفراللہ خان کو ہدایت دی کہ ایک نئی سکیم تیار کریں ۔ جب سیکرٹری انڈیا نے موصوف کی سکیم منظور کرلی، تو 23 مارچ 1940ء کو اسے ہی قرارداد لاہور کی صورت پیش کیاگیا۔'' اس نظریے کی خامی یہ ہے کہ مصنف نے کسی قسم کے حوالہ جات نہیں دیئے۔ تعجب ہے، روزنامہ ڈان جیسے معتبر اخبار نے حوالوں کے بغیر نہایت اہم دعویٰ کرنے والا مضمون کس طرح شائع کردیا؟پاکستان کے بعض مورخین سر ظفر اللہ خان یا سر سکندر حیات خان کو قرار داد لاہور کا خالق بتاتے ہوئے عموماً برٹش لائبریری میں محفوظ دستاویزات کا حوالہ دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسی دستاویزات موجود ہیں تو انہیں سامنے آنا چاہیے۔ بھارتی مورخین تو یہی چاہتے ہیں کہ پاکستان کو انگریزوں کی تخلیق قرار دیا جائے لیکن ان کی کتب میں بھی واضح طور اس امر کا تذکرہ نہیں ملتا کہ قرار داد لاہور انگریزوں کے دو سچے پکے ایجنٹوں کی تخلیق ہے۔تیاری میں دونوں صاحبان کا کردار ضرور رہا مگر وہ بھی متنازع ومشکوک حیثیت رکھتا ہے۔
اب ذرا وکی پیڈیا کی بات ہو جائے۔اس نیٹ انسائیکلوپیڈیا نے ہرکس وناکس کو اپنے متون ایڈٹ کرنے کی چھوٹ دے رکھی ہے۔مگر اس شتر بے مہار نما آزادی کا نتیجہ یہ نکلا کہ وکی پیڈیا کے کئی مضامین سچ وجھوٹ کا عجب ملغوبہ بن چکے۔قرارداد پاکستان کا متن اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔