شوق دا مول منفی مشاغل سے جان چھڑانا ضروری ہے

شوق سے شوق اور تجربے سے تجربے کا دیا جلتا رہے گا اور زندگی کا کارواں، ہمارا اور آپ کا اور سب کا چلتا رہے گا


شوق سے شوق اور تجربے سے تجربے کا دیا جلتا رہے گا اور زندگی کا کارواں، ہمارا اور آپ کا اور سب کا چلتا رہے گا۔ فوٹو : فائل

سیانے، شاید، صحیح کہتے ہیں۔ شوق کا کوئی مول نہیں اور تجربے کا کوئی بدل نہیں۔ شوق کی خاطر آدمی بڑی سے بڑی دولت خرچ کرڈالتا ہے۔ وقت، توجہ اور توانائی الگ استعمال کرتا ہے۔ اور عملی و خالص ذاتی تجربے کو، جس کی واردات دل و دماغ کی تجوریوں میں انمول جواہر بھردیتی ہے، بڑی سے بڑی دولت بھی نہیں خرید سکتی۔ ہر فرد کا تجربہ اس کا خالص ذاتی تجربہ ہوتا ہے۔ علم اور مشاہدہ تو بہت سے لوگوں کا ایک جیسا ہوسکتا ہے لیکن کسی ایک خاص بات، واقعے یا ردعمل اور عمل کے نتیجے میں جو اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ ہر فرد کے حصے میں ایک الگ ہی تجربے کا ذائقہ ڈالتے ہیں اور پھر جس طرح شوق، آدمی کو، کوچہ بہ کوچہ آوارہ گردی اور دشت نوردی پر اُکساتا رہتا ہے اسی طرح ہر فرد کے خالص ذاتی تجربات اور ان کی آگ سے پیدا ہونے والے جذبات و نظریات و احساسات اور رویے بھی، جیبوں میں پڑے سکوں کی طرح، ہمہ وقت کھنکتے رہتے ہیں۔ چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھے، بار بار جیب میں ہاتھ ڈال کر ان سکوں سے کھیلنے کو بھی جی چاہتا ہے اور ان کو خرچ کرنے کو بھی طبیعت اُکساتی ہے۔

شوق کیسا بھی ہو، کسی بھی چیز کا ہو، ایک حد میں رہے تو اچھا رہتا ہے۔ من کو بھی اچھا لگتا ہے اور دوسروں کی راہ کا کانٹا بھی نہیں بنتا۔ زندگی کی گاڑی کو آگے چلانے کے لیے حسب ضرورت و حسب استطاعت، تجربات، بھٹی سے بھی گزرنا ضروری ہوتا ہے لیکن اس ضمن میں بھی اپنے دائرے اور دائرہ کار کی حدوں کے اندر ہی رہنا پڑتا ہے۔ اپنی Field اپنے کام کو مدنظر رکھتے ہوئے قدم بڑھانا ہوتا ہے۔ وہی تجربہ فائدہ مند ہوتا ہے جو زندگی کے کسی معاملے میں معاون ہو۔ ایک ٹریفک کانسٹیبل، جہاز اڑانے کے تجربے سے گزرنے کے باوجود بھی اسے اپنی زندگی یا اپنے کام میں استعمال نہیں کر پائے گا۔ نہ ہی ہاکی کا کھلاڑی کسی سرجن کے ساتھ آپریشن تھیٹر میں اس کا معاون بن کر کوئی قابل ذکر و فائدہ مند تجربہ حاصل کرپاتا ہے۔

مسئلہ اس وقت پیش آتا ہے یا یوں کہہ لیں زیادہ گمبھیر ہوجاتا ہے جب کوئی بھی شوق حد سے بڑھ جائے اور اس کے اثرات کے سائے ہر معاملے میں پڑاؤ ڈالنے لگیں۔ پھر شوق کی چھاؤں میں بھی آدمی جھلسنے لگتا ہے۔ اسی طرح اگر رنگ برنگے تجربات کی سیپیوں کی ان گنت مالائیں گلے میں لٹکتی رہیں اور بجتی رہیں تو سفر کی رفتار مدھم پڑنے لگتی ہیں اور غیرضروری بوجھ کی تھکن سے آدمی بار بار رُکتا بھی رہتا ہے اور گھبراکر پے در پے راستے بھی بدلتا رہتا ہے اور اپنی منزل پر پہنچنے کی بجائے بیچ شاہراہ پر کھڑا ہوکر خود اپنا راستہ بھی کھوٹا کرلیتا ہے اور دوسروں کی راہ کی رکاوٹ بھی بننے لگتا ہے۔

مسئلہ شوق یا شوق کے مول کی وجہ سے پیدا ہورہا ہو یا پھر بے ثمر تجربے یا تجربات کی بہتات کی وجہ سے ہو۔ ہر دو صورتوں میں اچھا بھلا کام کا آدمی بس ناکام رہ جاتا ہے۔ گو ہر دو طرح کے لوگوں کا کام چلتا بھی رہتا ہے۔ زندگی کی گاڑی بظاہر آگے بھی بڑھتی رہتی ہے لیکن ایک عجب طرح کی گھچ پچ بھی ساتھ رہتا ہے اور چیزیں اتنی گڈ مڈ ہوتی رہتی ہیں کہ ان کو سلجھانے کا سوچ کر بھی گھبراہٹ طاری ہونے لگتی ہے اور عام طور پر بہت سی باتیں، بہت سے ضروری کام آدھے اور ادھورے ہی رہ جاتے ہیں۔

ہر فرد کے شوق بھی الگ الگ ہوتے ہیں اور تجربات بھی جُدا جُدا۔ دونوں کے درمیان مناسب تناسب قائم رہے تو ذرا اچھا گزارا ہوتا ہے اور کسی ایک پلڑے میں وزن زیادہ ہو تو ذرا مشکل پیش آتی ہے۔

شوق اور تجربے کے معاملے میں بھیانک صورت حال اس وقت پیش آتی ہے۔ جب کسی کا شوق ہی نت نئے تجربات کرنا ہو اور خود کو مختلف النوع تجربات کے دائروں سے گزارنا ہو۔ ایسے میں معاملہ خطرناک حد تک سنگین ہوجاتا ہے۔ اور کبھی کبھی تو ہاتھوں سے نکلتا ہوا بھی محسوس ہوتا ہے۔ گو، زندگی کے معاملات میں آدمی عام طور پر اتنا الجھ جاتا ہے کہ اسے اپنے شوق کی تسکین اور تجربات کو آگے بڑھ کر گلے لگانے کا نہ تو وقت ملتا ہے اور نہ ہی فرصت۔ لیکن پھر بھی کچھ سودائی کچھ سر پھرے اپنا سب کچھ بالائے طاق رکھ کر محض تجربات کے شوق میں ایک عمر بتا دیتے ہیں۔ اپنے وقت، اپنی طاقت، اپنی دولت کا کثیر حصہ تجربات کے شوق کی نذر کر ڈالتے ہیں۔ کسی ظاہری فائدے کی تمنا کے بغیر، کسی طمع یا لالچ کے بنا۔ اور پھر بے پناہ و بے انت نفع کی خواہش ان کے تجربات کے شوق کے پیچھے کار فرما ہوتی ہے۔

ہر دو صورتوں میں تجربوں کے شائق کسی بڑے دل والے جواری سے کم نہیں ہوتے۔ تجربات اگر خالص ذاتی نوعیت کے ہوں تو یہ بڑے دل والے بڑی بڑی بازیاں ہارتے اور جیتتے رہتے ہیں۔ لیکن بہت کم لوگوں کو ان کی کام یابی یا ناکامی کا علم ہو پاتا ہے۔ مگر، ایسے لوگوں کی تجربہ گاہ دیگر انسان ہوں اور کسی نہ کسی زاویے سے دیگر لوگ ان کے تجربات کا حصہ بن رہے ہوں تو دست قدرت کے نادیدہ لمس سے مثبت یا منفی، کسی نہ کسی حوالے سے لوگوں کی کثیر تعداد متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتی۔

ریاضی کی مد میں صفر دریافت کرنے والا ہو یا عہدنو کے ایٹم پر تجربے کرنے والے ہوں یا پھر پنیسلین (Penicillin) سے لے کر پروزیک (Prozac) جیسی ادویات کو عوام تک پہنچانے والے ہوں اور یا پھر ہارس پاور (Horse Power) پر تجربے کرکے، دنیا میں جگہ جگہ ہوائی جہاز اور کاروں کو عام کرنے والے ہوں۔ یہ سب کے سب تجربات کے شوقین تھے۔ اپنی تمام عمر اور تمام توانائی تجربے در تجربے میں صرف کرکے ایسی چیزیں دریافت اور ایجاد کرنے میں کام یاب ہوگئے، جنھوں نے دنیا کا نقشہ بدل ڈالا۔ پہیے سے لے کر سی ڈی تک اور کاغذ سے لے کر کمپیوٹر تک...میرے ہاتھ کی انگلیوں میں دبے پار کرکے نیلے قلم سے لے کر اخبار کے اس صفحے تک، جسے آپ پڑھ رہے ہیں... یہ سب اور ان جیسی اور کروڑوں چیزیں، جن کے بیچ ہم سب سانس لینے پر مجبور ہیں، ایسے ہی بڑے دل والے، اپنی ہر چیز کو داؤ پر لگا دینے والے، اپنی نگاہ کو دور تک پھیلانے والے، کوئی نیا کچھ اچھا، کچھ انوکھا، کچھ اوکھا، کچھ اچھوتا خیال اور خواب اور کام اور بات سوچنے اور کرنے والے، گریٹ گیمبلرز (Great Gamblers) کی دین ہیں۔ جنھوں نے اپنی عمر اپنے عہد میں اپنے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور رہنے والے لوگوں کی اور لوگوں کی باتوں کی پروا کیے بغیر اپنے اپنے میدان میں اپنے تجربات کے شوق کو اتنا رنگ دار اور پرکشش بنالیا کہ پھر آخری سانس تک وہ بنی نوع انسان کی بہتری کے لیے، کچھ نیا کرنے کی جستجو میں لگے رہے۔

تجربات کے شوقین، دوسری طرح کے لوگوں کی فہرست کے ڈانڈ سے ظالم، جابر اور غاصب بادشاہوں، حکم رانوں اور سیاست دانوں سے شروع ہوکر مہلک ہتھیاروں کے موجدوں اور عصر حاضر کے دہشت گردوں تک جا ملتے ہیں، جن کے تجربات کے شوق نے انسان کو ہی نہیں بلکہ انسانیت تک کو بھی کچل کر رکھ دیا۔ پتنگ بازی، کبوتر بازی، قمار بازی، جوئے، منشیات اور جنسیات کے شوق سے تو انفرادی اور خاندانی اور یا پھر ایک محدود حد تک معاشرتی خرابی کے جراثیم پیدا ہوتے ہیں، جو جلد یا بدیر فرد اور خاندان کو نیست و نابود کردیتے ہیں۔

لیکن اپنے جیسے انسانوں پر حکومت کرنے، ان پر اپنی برتری ثابت کرنے اور ہمہ وقت اپنی طاقت، دولت اور اختیارات کو بڑھاتے رہنے کے جنون میں مبتلا ہوکر، ایسے لوگ ایسے ایسے تجربات کے شوق میں ملوث ہوجاتے ہیں، جن کے اثرات پورے قبیلے، پوری قوم پر پڑتے ہیں اور کوئی ایک نسل نہیں بلکہ نسل در نسل تباہ و برباد ہوجاتی ہے۔ عام طور پر Power اور Absolute Powerکے حصول کے شوق میں مبتلا افراد، معاشرے کے تقریباً ہر گروپ میں ملتے ہیں۔ جو چاہتے ہیں کہ خاندان یا آفس یا فیکٹری یا یونیورسٹی یا کسی بھی ڈپارٹمنٹ میں، بس ان کی ہی سنی اور مانی جائے۔ ایسے لوگ اگر سیاست اور اقتدار میں آجائیں تو پھر ان کی شخصیت پر ایک چوکھا رنگ آجاتا ہے جو ہر قسم کی بارش کے باوجود نہیں دھل پاتا۔ اور وقت کے ساتھ اور پختہ ہوتا جاتا ہے۔

دراصل شوق اگر حد سے بڑھ جائے اور آدمی کو چاروں طرف سے اپنی لپیٹ میں لے لے تو نشہ بن جاتا ہے۔ اور کسی بھی نشے کا عادی فرد، بظاہر اس نشے سے نجات کے باوجود، اس ایک نشے کی بجائے اور کئی طرح کے نشوں کا غیرمحسوس طرح سے شکار ہوتا چلا جاتا ہے۔

انسان کی انفرادی کام یابی اور معاشرے کی مجموعی ترقی کے لیے اور انفرادی و اجتماعی ذہانت و ذکاوت کو پروان چڑھانے کے لیے شوق کی موجودگی سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ نہ ہی تجربات کے بنا ترقی کی بیل اوپر چڑھتی ہے، لیکن جو چیز کسی بھی معاملے یا کسی بھی دائرے میں انمٹ کام یابی کی بنیاد بنتی ہے وہ اپنے اپنے Domains(دائروں یا حلقوں) میں کسی خاص سمت میں کسی خاص Goal یا مشن کو مدنظر رکھتے ہوئے تجربات کا شوق ہوتا ہے۔ ان گنت اور نت نئے۔ اپنے مقصد کے حصول کے لیے راستے کی رکاوٹوں اور مسئلوں کی دیواروں کو عبور کرنے کے نت نئے طریقوں کو Apply کرنا اور کام یابی اور ناکامی ہر دو صورتوں میں اپنی Strategy کو بار بار Revise کرتے رہنا اور نئے خوابوں اور نئے خیالوں سے اپنے منصوبوں میں جان ڈالتے رہنے کا شوق ہی کسی بھی فرد، قبیلے یا قوم کو مضبوط و مثبت ترقی کی ضمانت فراہم کرتا ہے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے شوق پورے کے پورے ہمارے تجربات سے Match ہوں اور اس طرح ہماری زندگی میں گھل چکے ہوں کہ پھر وہ ہماری ذات کا حصہ بن کر ہر قدم پر ہمیں آگے بڑھنے کی جستجو میں ہمیں طاقت و توانائی فراہم کر رہے ہوں۔

یہ طاقت ہی ہمیں تجربات کی تھکن اور ناکامیوں کے احساس محرومی سے نمٹنے اور مایوسی سے بچنے کے لیے ایندھن فراہم کرتی ہے۔ زندگی میں زیادہ تجربات، عام طور پر، زیادہ ناکامیوں کی شکل میں ڈھلتے ہیں لیکن یہی زیادہ ناکامیاں ہمیں ایک ایسی مضبوط کامیابی کی طرف لے جاتی ہیں جو ہماری زندگی کو بدل ڈالتی ہے۔

اپنی زندگی کو بدل ڈالنے اور فطرت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ہمیں اپنے اپنے شوقوں کو بھی ذرا بدلنا ہوگا۔ انھیں زندگی کے عملی مظاہروں کے ساتھ مربوط کرنا ہوگا۔ گھنٹوں ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر نامور سیاست دانوں اور صحافیوں اور مفکروں کے ٹاک شوز دیکھنے اور سننے سے لے کر چائے کے ایک کپ اور دس بارہ سگریٹوں کے دھوئیں میں ملک و قوم کو سدھارنے اور سدھارنے والوں کی حرکتوں اور باتوں پر گھنٹوں باتیں کرتے رہنے تک۔ اور یا پھر ڈراموں اور فلموں اور گانوں اور کھیلوں کے دیکھنے کے شوق تک... ان سب شوقوں کے بجائے ایسے صحت مند اور مثبت شوق Adopt کرنے ہوں گے، جو ہمیں واقعتاً روزانہ بس ایک قدم اور آگے بڑھانے میں معاون و مددگار ثابت ہوں۔ ہمیں تفریح کے نظریے کو Modify کرنا ہوگا اور کھیل ہی کھیل میں ایسی باتوں کو چکھنا اور سیکھنا ہوگا جو ہمارے عملی تجربات اور ہمارے نظریات کو پالش کرسکیں۔

ایک دفعہ، جب اور جوں ہی، ہماری زندگی کا دائرہ تجربات، نظریات اور شوقوں کو اپنے اندر کھینچ لائے اور ہمیں اس ذائقے کی عادت پڑ جائے تو پھر ہم اپنے کام، اپنی تفریح اپنے Goal سے ہٹ کر بھی کچھ بھی کر رہے ہوں، ہمارا اعصابی نظام، کسی بھی کام یا بات یا تفریح سے اخذ کردہ پیغام ازخود اس طرح Store کرتا چلا جائے گا کہ پھر ہمارے شوق اور شوقوں کی انواع و اقسام بھی ہمیں اپنے تجربات کے لیے ایندھن فراہم کرتی رہیں گی اور ہم میں سے کوئی بھی اپنے کسی بھی شوق اور اپنے کسی بھی تجربے کو بڑے مزے اور آرام سے جاری رکھ کر، قدم بہ قدم آگے بڑھ کر دوسرے لوگوں کے شوقوں اور تجربوں کے لیے توانائی کا سامان فراہم کرتا رہے گا۔

شوق سے شوق اور تجربے سے تجربے کا دیا جلتا رہے گا اور زندگی کا کارواں، ہمارا اور آپ کا اور سب کا چلتا رہے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔