اسے کیا کہئے

مسلم لیگ (ن) جمہوریت کے تمامتر دعوؤں کے باجود گھٹی میں پڑی آمرانہ سوچ سے دامن نہ چھڑا سکی


Muqtida Mansoor April 17, 2017
[email protected]

ISLAMABAD: سابق صدر آصف علی زرداری کے تین ساتھیوں کی گمشدگی کے بعد پیپلز پارٹی ہر سطح پر احتجاج کررہی ہے۔ گزشتہ بدھ کو اس مسئلہ پر گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ نے اعلان بھی کیا ''ایم کیو ایم کے لاپتہ کارکنوں کا معاملہ اب میں اٹھاؤں گا''۔ گویا تین برسوں تک انھیں اس کا خیال نہیں آیا مگر جب اپنے تین کارکن غائب ہوئے، تو ایم کیوایم کے لاپتہ کارکن بھی یاد آگئے۔

اگر سیاسی جماعتیں اس سیاسی عزم وبصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ابتدا ہی میں یک زبان ہوکر ردعمل دکھاتیں، تو شاید یہ عمل مزید آگے نہ بڑھ پاتا مگر سیاسی مصلحتیں انھیں خاموش رہنے پر مجبور کردیتی ہیں۔ جس کا خمیازہ جلد یا بدیر خود انھیں بھگتنا پڑتا ہے۔

سیاسی کارکنوں کو غائب یا لاپتہ کرنے کاحالیہ سلسلہ پرویز مشرف کے دور اقتدار کے آخری دنوں میں بلوچستان آپریشن کے دوران شروع ہوا۔ بیشتر نوجوان کئی برس گزر جانے کے باوجود ہنوز غائب ہیں۔ اس سلسلے میں جب سبین محمود نے اپنے فورم پر بات کرنے کی کوشش کی، تو زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔

سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے بیٹے بھی کئی برس تک غائب رہنے کے بعد بہرحال واپس آگئے۔ لیکن 2013ء میں کراچی میں دہشت گردوں اور جرائم پیشہ گروہوں کے خلاف رینجرز آپریشن کا آغاز ہوا تو اس دوران ایم کیو ایم کی جانب سے کارکنوں کے اٹھائے جانے کی شکایات موصول ہونا شروع ہوئیں۔ ان کی جانب سے مہیا کردہ اعداد وشمار کے مطابق ان کارکنوں کی تعداد سیکڑوں میں ہے، جن میں سے بیشتر ہلاک بھی کیے جاچکے ہیں۔

ہم نے اپنے اظہاریوں اور ٹیلی ویژن مذاکروں میں مسلسل اس بات پر زور دیا کہ جب ملک میں آئین اور قانون موجود ہے، تو اس پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔ ہر وہ فرد یا افراد جن پر کسی جرم کے ارتکاب کا الزام ہو، انھیں قانون کے مطابق گرفتار کرکے عدلیہ کے سامنے پیش کیا جائے۔ یہ فیصلہ عدلیہ کرتی ہے کہ مبینہ جرم کا ارتکاب مذکورہ فرد یا افراد نے کیا ہے یا نہیں۔ اس کے بعد سزا کا تعین بھی عدلیہ ہی کرتی ہے۔

کسی معاشرے کے مہذب اور شائستہ ہونے کا انحصار بھی اس بات پر ہوتا ہے کہ اس میں آئین و قانون کی بالادستی کا معیار کیا ہے۔ مگر نقارخانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے۔ کیونکہ جس ملک میں آئین کو چند صفحات کی ایک کتاب سے زیادہ اہمیت حاصل نہ ہو، قانون بااثر لوگوں کی لونڈی بنادیا گیا ہو، وہاں آئین وقانون پر عملدر آمد کی بات کرنا مضحکہ خیز معاملہ بن جاتا ہے۔ ایسے معاشروں میں تحمل مزاجی، رواداری اور شائستگی کی توقع عبث ہوتی ہے۔

ہم اس ملک کے باسی ہیں، جہاں دیدہ اور نادیدہ متوازی حکمرانی کا تصور قیام پاکستان کے وقت ہی سے چلا آرہا ہے۔ ہم نے 70 برسوں کے دوران جمہوریت کو اس کی صحیح شکل میں آج تک نہیں دیکھا۔ 32 برس چار آمریتیں بھگتیں۔ جو ادوار سویلین کہلائے جاتے ہیں، وہ بظاہر سیاسی نظر آرہے ہوتے ہیں، مگر حقیقتاً ''ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ'' کے مصداق معاملہ دیگر ہوتا ہے۔

اس سلسلے میں معروف سیاسی دانشور حمزہ علوی مرحوم کا کہنا ہے کہ ملک کی پہلی سیاسی حکومت کے سربراہ لیاقت علی خان تھے، مگر چوہدری محمد علی مرحوم کی قیادت میں سینئر بیوروکریٹس پر مشتمل ایک نادیدہ متوازی حکومت بھی کام کررہی تھی، جو لیاقت علی خان کی سیاسی حکومت سے زیادہ طاقتور اور بااثر تھی۔ ریاستی منصوبہ سازی اور اہم فیصلہ سازی پر اس کا مکمل کنٹرول تھا۔ اس کی مرضی ومنشا کے بغیر وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے وزرا کوئی فیصلہ کرنے کے مجاز نہیں تھے۔

لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد جب ملک غلام محمد کو گورنر جنرل مقرر کیا گیا، تو سیاسی حکومتوں کی رہی سہی اہمیت بھی ختم ہوگئی۔ لہٰذا اکتوبر 1951ء سے اکتوبر 1958ء کے درمیان جس قسم کے کھیل کھیلے گئے، وہ سیاست، جمہوریت اور نظم حکمرانی کے ساتھ انتہائی بھونڈا مذاق تھے۔ کیونکہ تمامتر فیصلے گورنر جنرل ہاؤس (بعد میں ایوانِ صدر) میں کیے جاتے تھے۔ وزیراعظم کی حیثیت محض کٹھ پتلی جیسی ہوا کرتی تھی، جسے جب چاہا اٹھاکر باہر پھینک دیا۔

اس ماحول میں بنگال سے تعلق رکھنے والے چند سیاسی رہنماؤں اور ان کی زیر قیادت کچھ سیاسی جماعتوں نے خود کو Assert کرنے کی کوشش ضرور کی۔ لیکن اقتدار کے ایوانوں پر قابض بیوروکریسی کی مضبوط گرفت کے باعث سیاسی پنچھیوں کے لیے سوائے پھڑپھڑانے کے کوئی چارا نہیں تھا۔

پاکستان کی تاریخ میں ذوالفقار علی بھٹو کا دور حکمرانی سب سے زیادہ بااختیار تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ دور کس حد تک بااختیار تھا، اس کا اندازہ بھٹو مرحوم کی آخری کتاب If I am Assassinated میں درج ایک واقعے سے لگایا جاسکتا ہے۔ 1977ء میں جب ان کے خلاف PNA کی تحریک عروج پر تھی، ان دنوں کا ایک واقعہ بھٹو یوں بیان کرتے ہیں کہ ایک روز ان کے مشیر رفیع رضا ان کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ Sir, the government has turned against us.۔ میں نے ہنستے ہوئے پوچھا کہ رفیع رضا، تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے؟

حکومت تو ہماری ہے، میں تمہارا وزیراعظم ہوں، تم میرے مشیر۔ ہم کس طرح اپنے ہی مخالف ہوسکتے ہیں؟ اس نے جواباً کہا کہ No Sir, the government is somewhere else۔ اس کے بعد اس نے میری طرف ایک ماہ چھٹی کی درخواست بڑھادی۔ میں نے اس کی طبیعت کے اضمحلال کو محسوس کرتے ہوئے اس کی چھٹی منظور کرلی۔ مگر اب اس کال کوٹھری میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ رفیع رضا نے جو کچھ کہا تھا، وہ بالکل درست تھا۔

جنرل ضیا کے گیارہ سالہ سخت ترین دور اقتدار کے بعد سیاسی جماعتوں کو اقتدار سنبھالنے کا موقع ملا۔ سیاسی جماعتیں تین بدترین آمریتوں کے تجربات سے گزرنے کے بعد اقتدار میں آئی تھیں۔ اگر اس گیارہ سالہ دور کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتوں نے آمرانہ طرز حکمرانی سے کچھ نہیں سیکھا۔ بلکہ ان کا طرز عمل 1947ء سے 1958ء والے دور سے بھی بدتر ہوچکا تھا۔

اس دور میں دو جماعتیں آمنے سامنے تھیں۔ ایک جماعت نے گیارہ برس صعوبتیں برداشت کی تھیں، جب کہ دوسری نے اسی آمریت کے بطن سے جنم لیا تھا۔ فرق صرف اتنا ہوا تھا کہ جس جماعت کی بنیاد اربن مڈل کلاس کے سیاسی دانشوروں اور کارکنوں نے رکھی تھی، وہ جاگیرداروں کے ہتھے چڑھ گئی تھی، جب کہ آمریت کے بطن سے جنم لینے والی جماعت نے وسطی پنجاب کی اس اربن مڈل کلاس کو اپنی جانب متوجہ کرلیا، جو کبھی پیپلز پارٹی بنانے میں پیش پیش تھی۔

اب اسے تاریخ کا المیہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ وہ پیپلز پارٹی جس کے بانی چیئرمین نے تاریخ کے ہاتھوں قتل ہونے کے بجائے ایک آمر کے ہاتھوں قتل ہونے کو ترجیح دی، ان کی جماعت ان نظریات، تصورات اور اہداف کو فراموش کربیٹھی، جو اس جماعت کا کبھی تفاخر ہوا کرتے تھے، جب کہ مسلم لیگ (ن) جمہوریت کے تمامتر دعوؤں کے باجود گھٹی میں پڑی آمرانہ سوچ سے دامن نہ چھڑا سکی۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ اپنے دوسرے دور میں اس نے 14 ویں ترمیم کے ذریعے اپنے سربراہ کو مطلق العنان حکمران بنانے کی کوشش کی۔

امید یہ تھی کہ آٹھ برس کی آمرانہ صعوبتوں سے بہت کچھ سیکھ لیا ہوگا۔ مگر اندازہ ہورہا ہے کہ اس کا طرز عمل مزید آمرانہ ہوچکا ہے۔ فوجی عدالتوں کا قیام ہو یا خارجہ پالیسی کی تشکیل، اس نے کوئی کام جمہوری طریقے سے نہ کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔

جدید دنیا میں سیاسی قیادتوں اور حکمرانوں میں تین صفات یعنی اہلیت، سیاسی عزم وبصیرت اور استعداد کا ہونا ضروری تصور کیا جاتا ہے۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ملک کی سیاسی قیادتوں میں ان میں سے ایک بھی صفت نہیں پائی جاتی۔ کہنے کو ملک میں جمہوریت ہے، مگر جمہوری نظر حکمرانی کہیں نظر نہیں آرہی۔ ملک میں آئین و قانون موجود ہے، مگر ان کی بالادستی اور پاسداری کا دور دور تک تصور تک نظر نہیں آرہا۔

لوگوں کا یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ بنگلہ دیش کی علیحدگی کے بعد ہماری سیاست تیزی کے ساتھ روبہ زوال ہوئی ہے۔ اس پر قبائلی اور فیوڈل سوچ اور سرمایہ دارانہ ذہنیت کی گرفت مزید مضبوط ہوئی ہے۔ ایسے ماحول میں کسی کو عوام کو درپیش مسائل اور ان کے حل میں کیا دلچسپی ہوسکتی ہے۔ لہٰذا جن خدشات کا اظہار مختلف صاحب الرائے اور متوشش شہریوں کی ایک بڑی تعداد کرتی چلی آرہی ہے، وہ مسلسل سروں پہ منڈلارہے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں