پاک بھارت تعلقات کی پیچیدگیاں

بھارت کا مسئلہ یہ ہے کہ اگروہ کلبھوشن کےالزامات کومانتا ہے تو اس سے اس کی داخلی اور خارجی دونوں محاذ پر خاصی سبکی ہوگی


سلمان عابد April 17, 2017
[email protected]

پاکستان اور بھارت کے تعلقات کی بہتری میں سب سے اہم رکاوٹ دونوں اطراف پائی جانے والی بداعتمادی کی فضا ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ دونوں طرف سے موجود ڈیڈ لاک دو طرح کے مسائل پیدا کررہا ہے۔ اول مستقل بنیادوں پر ڈیڈ لاک کی کیفیت کو مضبوط کرنا اور دوئم پہلے سے موجود مسائل، مشکلات، تعصب اور الزام تراشیوں پر مبنی سیاست کو طاقت فراہم کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ اگرچہ پاکستان نے پچھلے کچھ عرصہ میں بھارت سے بہتر تعلقات کے لیے کئی قدم اٹھائے ہیں، لیکن بھارت کی سیاسی قیادت اس میں کسی پیشرفت یا آگے بڑھنے کے لیے تیار نہیں۔

حال ہی میں کلبھوشن یادیوں کی پھانسی کے فیصلے پر جو ردعمل بھارت کی طرف سے آیا ہے وہ بھی مستقبل میں بہتر تعلقات میں رکاوٹ پیدا کریگا۔ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج ،وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے راجیہ سبھا اور لوک سبھا میں جو خطاب کیا ہے وہ بھارت کے سخت ردعمل کو ظاہر کرتا ہے۔ ان کے بقول کلبھوشن بھارت کا بیٹا ہے، اس کو بچانے کے لیے بھارت آخری حد تک جائے گا۔بھارت کے میڈیا پر بھی جو سخت گیر انداز اختیار کیا گیا ہے وہ صورتحال کی سنگینی کو سمجھنے کے ہمیں مدد فراہم کرسکتا ہے، بھارت آنیوالے دنوں میں اس واقعہ کو بنیاد بنا کرپاکستان کو داخلی اور خارجی محاذ دونوں اطراف سے سخت ٹائم دیگا۔

بھارت کا مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت بھارت کی سیاسی قیادت مجموعی طو ر پر سیکولر بھارت سے نکل کر ہندواتہ پر مبنی ریاست کے نقش قدم پر چل رہی ہے۔ بھارت کی ترقی کا انحصار سیکولر سیاست پر نہیں بلکہ ہندواتہ پر مبنی سیاست سے جڑا ہوا ہے۔بھارت کی اس وقت کوشش ہے کہ وہ سفارتی اور ڈپلومیسی کے محاذ پرہر طرح سے اپنے دوست ممالک کی مدد سے کلبھوشن بچاو مہم کو طاقت دے۔

بھارت کو اگر کلبھوشن کو ملنے والی سزا پر اعتراض ہے تو اس سے نمٹنے کے لیے جو حکمت عملی اختیار کی جائے اس میں بھی سیاسی، قانونی فہم ہونا چاہیے۔ اگر بھارت یہ سمجھتا ہے کہ اس مسئلہ کا حل پاکستان کو سنگین نتائج کی دھمکیوں، الزامات اور پاکستان کو نقصان پہنچانے سے جڑ ا ہوا ہے تو یہ اس کی غلط حکمت کا حصہ ہوگا۔بھارت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت سمیت ایک بڑا طبقہ یہ سمجھتا ہے اور یقین رکھتا ہے کہ پاکستان کے داخلی استحکام کو غیر مستحکم کرنے میں بھارت کی بلوچستان او رکراچی میں مداخلت ہے۔

پاکستان کے بقول اس کے تمام شواہد بھی ہم عالمی سطح سمیت خود بھارت کو بھی کئی بار باور کرواچکے ہیں۔ایسے میں اگر کلبھوشن کی گرفتاری ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں شواہد کی بنیاد پر ان کی سزا کا فیصلہ ہوتا ہے تو اصولی طور پر تو بھارت کو اس معاملے میں خود تعاون کرنا چاہیے، لیکن اسی صورت میں ممکن ہوتا جب خود بھارت کی ریاست یا حکومت اس فیصلے میں شفاف ہوتی۔یہ شواہد موجود ہیں کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی را اور افغانستان کی خفیہ ایجنسی کا گٹھ جو ڑ پاکستان دشمنی اور پاکستان کو غیر مستحکم کرنے سے جڑا ہوا ہے۔

جہاں تک فوجی عدالت سے کلبھوشن کی سزائے موت کا تعلق ہے تو یہ سمجھنا ہوگا کہ اس مجرم کو فوجی قوائد وضوابط اور آرمی ایکٹ کے تحت کورٹ مارشل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔پاکستان کا موقف ہے کہ وہ گرفتاری کے وقت بھارت کی بحریہ کا افسر تھا اور را کے لیے کام کرتا تھا۔اس بات کا خود انکشاف کلبھوشن نے دوران تفتیش کیا ہے۔اس لیے فوجی عدالت میں مقدمہ چلانا اور سزا دینا مسلمہ عالمی اصولوں کے عین مطابق ہے۔

ویسے بھی ہماری سیاسی قیادت نے دو سال کے لیے فوجی عدالتوں میں توسیع کی ہوئی ہے اور ہم دہشتگردی کے خلاف غیر معمولی اقدام کے عمل سے گزررہے ہیں۔بھارت کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر وہ کلبھوشن کے الزامات کو مانتا ہے تو اس سے اس کی داخلی اور خارجی دونوں محاذ پر خاصی سبکی ہوگی، جس کے لیے وہ تیار نہیں۔

کچھ دن قبل امریکا کی جانب سے پاک بھارت تعلقات کی بہتری میں ثالثی کا کردار پیش کرنے کی بات سامنے آئی لیکن بھارت نے اس کو بھی کچھ سوچے سمجھے بغیر ہی رد کردیا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ اگر بھارت اور پاکستان نے بہتری کی جانب آگے بڑھنا ہے تو اس کی پہل کیا ہوگی اور کون اس کی ابتدا کریگا۔بھارت کو یہ بات اچھی طرح سمجھنی ہوگی کہ پاکستان اس وقت خود داخلی محاذ پر انتہا پسندی و دہشتگردی سے نمٹنے کی بڑی جنگ لڑرہا ہے۔ اس جنگ کی اہمیت داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر ہے۔ ایسے میں بھارت کا یہ الزام کہ پاکستان کی ریاست خود دہشتگردوں کی سرپرستی کرتی ہے، حقیقت پر مبنی نہیں۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان سے ماضی میں کافی غلطیاں ہوئی ہیں اور ان غلطیوں کا ہمیں بڑا خمیازہ بھگتنا پڑا ہے، لیکن یہ اعتراف بھی کیا جانا چاہیے کہ کافی حد تک اب ہماری ریاست سمیت دیگر فریقین کو اپنی غلطیوں کا احساس بھی ہے، وہ اس کا ازالہ بھی کرنا چاہتی ہے۔ اس لیے نریندر مودی، سشما سوراج، سبرا منیم سوامی، راج ناتھ سنگھ اور سخت گیر ہندو قیادت کو سمجھنا ہوگا کہ پاکستان کے خلاف الزام تراشیوں کی سیاست سے خطہ کی سیاست میں استحکام پیدا نہیں ہوگا۔

بھارت کے موجودہ طرز عمل نے پاکستان میں موجود ان طبقوں کو بھی سخت مایوس کیا ہے جو پاکستان میں بیٹھ کر بھارت سے بہتر تعلقات استوار کرنے کے لیے ریاست اورحکومت پر دباو ڈالتے تھے۔ اس دباو کے عوض میں ان لوگوں کو بھارت نواز ہونے کا خطاب ملتا تھا، لیکن اب یہ لوگ بھی موجودہ بھارتی قیادت کے طرز عمل سے خاصے نالاں نظر آتے ہیں اور ان کے بقول مودی قیادت نے امن کے امکانات کو اور زیاد ہ محدود کردیا ہے۔

یہ بات بجا ہے کہ پاکستان دشمنی کا ایجنڈا پورے بھارت کا نہیں بلکہ اس کے مقابلے میں وہاں بھی ا یسے لوگ اور جماعتیں موجود ہیں جو مودی سرکار کی انتہا پسندی کو خود ملکی سلامتی کے لیے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں، لیکن اس ہندواتہ کی سیاست اور میڈیا پر پاکستان دشمنی کے ایجنڈے میں یہ آوازیں پیچھے رہ گئی ہیں۔اب تو ایک قدم آگے بڑھ کر بھارت کے آرمی چیف کے بقول وہ پاکستان کے خلاف فوری اور تباہ کن حکمت عملی پر مشتمل ''ڈاکٹرائن کولڈ اسٹارٹ'' کا آپشن بھی استعمال کرسکتے ہیں، یعنی وہ جنگ میں پہل کا آپشن ہوگا۔

پاکستان کو موجودہ صورتحال میں زیادہ سنجیدگی اور تدبر پر مبنی پالیسی اختیار کرنی چاہیے۔ ہمیں اپنے ملک میں اور ملک سے باہر لوگوں کو سفارتکاری کی مدد سے یہ باو رکروانا ہے کہ کلبھوشن کی پھانسی سیاسی نہیں قانونی اور عدالتی فیصلہ ہے۔اسی طرح اب ہمیں بھارت کی مخالفانہ مہم کے مقابلے میں خود ایک ایسی مہم کی ضرورت ہے جو ہر سطح پر لوگوں کو باور کرواسکے کہ کلبھوشن یا دیگر افراد اس ملک میں دہشتگردی کو تقویت دے رہے ہیں۔

یہ کام سیاسی نعروں، جذباتی تقریروں سے نہیں بلکہ ٹھوس شواہد اور حقایق کی بنیاد پر اختیار کی جانے والی ڈپلومیسی سے جڑا ہوا ہے ۔پاکستان کی عسکری قیادت نے حالیہ کورکمانڈر کانفرنس کے اعلامیہ میں واضح کر دیا ہے کہ وہ کسی بھی طور پر کلبھوشن یادیو سمیت ریاست مخالف سرگرمیوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی۔

لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان کا جو داخلی بحران ہے یا جو ہم سفارتی اور ڈپلومیسی کے محاذ پر سنگین غلطیاں کرتے ہیں، ایسے میں کیا ہماری سیاسی قیادت وہ فہم اور تدبررکھتی ہے کہ وہ بھارت کی اس جنگی جنون پر مبنی پالیسی کا سفارتی محاذ پر دنیا کو یہ باور کرواسکے گی کہ بھارت کا موجودہ طرز عمل پاک بھارت تعلقات میں خود ایک بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے ، خود ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں