ہم ایک قوم

ہم بحیثیت ایک قوم اسی قدر ذمے دار ہیں کہ ٹوکریاں بھر بھر نوٹ رکھنے کے شوقین ہیں

اچانک آدھی رات بلڈوزر کے گڑگڑانے اور کرین کی بھیانک آوازیں دیواروں کے گرنے کا شور تاریکی کو چیرتا ہے، خدا خیر... کیا ہوا؟ اہل محلہ پریشان باہر نکلے تو قدیم تاریخی اسکول کو شکستہ ہوتے دیکھتے ہیں۔ یہ وہ تاریخی اسکول تھا جسے 1928 میں جیفل ہرسٹ نامی خاتون نے تعلیم کے فروغ کے لیے تعمیر کروایا تھا اور 1933 سے اس اسکول میں تعلیم دی جا رہی تھی۔

یہ ایک ایسا روشن چراغ تھا جو اس وقت غیر منقسم ہندوستان میں اس علاقے میں قائم رکھا گیا تھا جسے تاریخی ورثہ بھی قرار دیا گیا تھا اور جس کے لیے کروڑوں کی رقم مختص کی گئی تھی۔ پر جس طرح ہمارے ہاں فائل در فائل کام چلتے چلتے سالہا سال لگ جاتے ہیں اسی طرح اس کے ساتھ بھی ہوا، لیکن چند مفاد پرست عناصر نے اس کو محفوظ رکھنے کے ہر عمل کو اپنے بلڈوزر تلے روند ڈالا۔ شاید یہی سمجھا گیا تھا کہ جیسے کہ ہوتا چلا آیا ہے قبضہ سچا وعدہ جھوٹا۔ تو اس بار بھی ایسا ہی ہوگا، لیکن ایسا ہوا نہیں اور موقع پر ہی تمام کارروائی کو رکوا دیا گیا، لیکن پھر بھی اسکول کا ایک حصہ گرادیا گیا۔

چند معمولی گریڈ کے افسران کتنی آسانی سے ایک قدیم علاقے کی فائلیں کھنگالتے ہیں اور پتا چلاتے ہیں کہ اس پرانے اسکول کے حدود اربع سے وہ کس قدر فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ سننے میں یہ بہت عجیب سا لگتا ہے لیکن کرنے والوں نے کر دکھایا۔

ہم سب بحیثیت قوم کس قدر ذمے دار ہیں، ہمارے پارک، کھیلوں کے میدان، کوڑے دان، فٹ پاتھ، بس اسٹاپ، سڑکوں کے اطراف لگے درخت، کیا وہاں انڈرپاسز، فلائی اوورز اور اسی طرح کے بہت سے مقامات جو ہم میں سے کسی ایک شخص کے بھی نہیں ہیں لیکن وہ ہم سب کے ہیں، اس ملک کے ہیں، ہم سب کو ان تمام مقامات کا خیال رکھنا چاہیے، ہمیں پتا ہونا چاہیے کہ سڑک کے کنارے بڑے بڑے فٹ پاتھوں پر اچانک یہ ڈیرے کس نے ڈالے ہیں، بڑے بڑے پلوں کے نیچے یہ نئی بستیاں کیسے آباد ہوئیں، خوبصورت اور مہنگے بس اسٹاپ شکستہ حال اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار کیسے ہوئے۔ ہم نہ جانتے ہیں اور نہ ہی جاننا چاہتے ہیں، اس لیے کہ وہ تمام پراپرٹی ذاتی طور پر ہمارے مصرف میں نہیں، ہمارے نام نہیں، ہم سب بڑے آرام سے خاموش تماشائی بنے ان تمام مقامات کو تباہ و برباد ہوتے دیکھتے ہیں کہ ہم کیا کریں؟

بحیثیت قوم ہم بابائے قوم قائداعظم کی قبر کے نزدیک اس قدر گھناؤنے کام کہ جنھیں تحریر کرتے بھی قلم لرزے، کروانے دیتے ہیں کہ چند نوٹ مل جاتے ہیں، جن پر میرے پیارے بابا کی تصویر ہوتی ہے۔ ہم بحیثیت قوم کیسے ہیں؟ کچھ عجیب، خودغرض... اپنی انا کے خول میں مقید، لیکن جب بٹورنے کی باری آتی ہے تو دوڑ کر آگے بڑھتے ہیں، چاہے وہ پلاٹوں کی تقسیم ہو یا سیاسی جلسوں میں کھانے کی دیگیں، بس دوڑ کر جانا ہے اور بے دردی سے نوچ کر کھسوٹ کر لے لینا ہے، چاہے اس بھاگ دوڑ میں نجانے کتنے حق دار کچلے جائیں، چاہے سارا کھانا ہی زمین پر گرا دیا جائے، پر مفت میں تو سب چلتا ہے جی۔


بات ہو رہی تھی سولجر بازار کے اس قدیم اسکول کی جس کے دعویدار کہتے ہیں کہ باقاعدہ سیل ڈیڈ کے ذریعے خریدا گیا ہے، حصے بخرے کی تفصیل درج ہے۔ ہائے ہائے اے خدا! یہ کیسا اندھیر سا چھا رہا ہے، پر سلام ہے ان تمام لوگوں کو کہ جنھوں نے روکا، ٹوکا، پکڑا اور اس ظلم کے دھندے کے سامنے ڈٹ گئے۔ یہ ان نیک لوگوں کی نیک نیتی کا اثر ہے جسے گرا کر بھی ناپاک خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے۔

ذرا سوچیے کہ کس طرح بے درد لوگ اس ملک اس شہر کے سرکاری اسکولوں اور درسگاہوں کو اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے ترکیبیں بننے لگے، اس سے پہلے بھی فیڈرل بی ایریا کے ایک اسکول کے پیچھے اسی طرح کی کہانی سنی گئی اور اب سولجر بازار جیسے قیمتی علاقے کے سرکاری اسکول کی۔ واقعی قیامت قریب ہے کہ پرانی درس گاہیں توڑ دو، اپنے بزرگوں کو بیچ راستوں میں بھٹکتا چھوڑ دو، تاکہ ان کی ذمے داریوں سے تو شانے ہلکے ہوں، آخر کب تک ہم اپنے ہاتھوں سے اپنے لیے آگ جمع کرتے رہیں گے، آخر کسی بھی انسان کو زندگی گزارنے کے لیے کس قدر دولت چاہیے، اسی قدر کہ ہمارا نفس پھر بھی غربت کے اندھیروں سے ڈراتا دھمکاتا ہے۔

ہوسکتا ہے کہ سوچا گیا ہو کہ آج کل سرکاری اسکولوں میں کون اپنے بچوں کو پڑھاتا ہے، سب انگریزی میڈیم کے مارے پرائیویٹ اسکولز کی جانب دوڑتے ہیں، چلیے یہی سہی تو پھر حکومتی سطح پر اس سرکاری اساتذہ کی بھرتی کہ نہ پوچھیے پڑھنے والے اس قدر اور پڑھانے والے نہ پوچھیے، لیکن جن سرکاری اسکولوں نے اپنی ساکھ کو بنانے سنوارنے میں محنت کی ہے اور وہاں طلبا کی تعداد اطمینان بخش ہے پھر ان پر ہاتھ کی صفائی دکھانا ناجائز ہے۔

ہم بحیثیت ایک قوم اسی قدر ذمے دار ہیں کہ ٹوکریاں بھر بھر نوٹ رکھنے کے شوقین ہیں، چاہے ضرورت پڑنے پر باتھ روم میں ہی چھپانے پڑ جائیں، لیکن نوٹوں کی خوشبو سونگھنے میں سرور آتا ہے اور خرچ کرنے میں حلال ہی رہتا ہے۔

ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے بیرون ملک بڑی بڑی اعلیٰ درس گاہوں میں تعلیم حاصل کریں اور ہم ٹوکریاں بھر بھر کے باہر بھجواتے رہیں اور پھر ہماری اولاد یا تو اپنے ملک پلٹنا پسند ہی نہ کریں یا پلٹ کر اپنے ہم وطنوں کو تحقیر آمیز نظروں سے دیکھیں اور کہیں کیسے سِلی والدین کی اولاد ہیں ان کے والدین نے ان کے لیے کچھ بھی نہ کیا۔ ہماری اور ان کی کیا برابری ہونہہ۔ ہم اپنے لیے اور اپنی آیندہ نسلوں کے لیے دیواریں بڑھاتے ہی جا رہے ہیں۔ تعصب کی دیوار، امیری کی دیوار، تعلقات اور اقربا پروری کی دیوار، نفرتوں کی دیوار، جلن و حسد کی دیوار۔ دعا ہے کہ ہم دیواریں اونچی کرنے کے بجائے گرانا شروع کردیں (آمین)۔
Load Next Story