ہم شہری بھی
زیبرا کراسنگ پر کاریں، ویگنیں، موٹرسائیکلیں چڑھا دینا دہشت گردی نہیں
زیبرا کراسنگ پر کاریں، ویگنیں، موٹرسائیکلیں چڑھا دینا دہشت گردی نہیں۔ زیبرا کراسنگ پیدل چلنے والوں کی ملکیت ہوتی ہے۔ کیا ٹریفک سگنل توڑنا دہشت گردی نہیں۔ کیا ون وے کی خلاف ورزی کرنا دہشت گردی نہیں۔ یہ سب وہ مناظر ہیں جو ہم روزانہ دیکھتے ہیں۔ اور دیکھیے کہ ہم یہی خلاف ورزیاں اپنے ملک میں کرتے ہوئے صرف ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت طے کرکے دبئی چلے جاتے ہیں اور وہاں یہ خلاف ورزیاں نہیں کرتے۔
پان کا اب یہ حال ہے کہ یہ پورے ملک میں بکثرت کھایا جاتا ہے۔ پان کی دکانیں قدم قدم پر موجود ہیں، اگر دکان نہیں تو خوانچہ فروش پان سگریٹ بیچتا نظر آتا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ پان صرف کراچی یا پھر حیدرآباد تک محدود تھا، مگر آج کراچی کے برابر لاہور، فیصل آباد، ملتان شریف، راولپنڈی میں جگہ جگہ پان کی دکانیں ہیں اور یہ خوب کھایا جارہا ہے۔ روزانہ کا مشاہدہ ہے، پان منہ میں ڈالا، کاغذ زمین پر پھینکا اور جہاں موقع لگا پیک دیا۔ اپنے کراچی ہی کو لے لیجیے، بڑی بڑی بلڈنگوں کی سیڑھیاں، پان کی پیکوں سے رنگین ہیں۔ یہی حال پشاور، کوئٹہ اور پنجاب کے چھوٹے بڑے شہروں کا ہے۔
ایک زمانہ تھا جب یہ کہا جاتا تھا کہ سڑکوں پر بھوکے لوگ پھرتے ہیں، مگر آج ایسا نہیں ہے۔ آج سیلانی، ایدھی، چھیپا کے دسترخوانوں نے سڑکوں پر بھوکے پھرنے والوں کے لیے کھانے کا انتظام کر دیا ہے۔ اور بھی ادارے یہ کام کر رہے ہیں، مگر مجھے ان کے نام معلوم نہیں ہیں۔ یہ سب تو ہوگیا، مگر سڑکوں پر مٹر گشت کا خاتمہ نہیں ہوا۔ آج بھوکوں کی جگہ سڑکوں پر پولیتھین کی تھیلیاں گھومتی پھرتی نظر آتی ہیں۔
حال یہ ہے کہ برگر لیا، کھایا اور تھیلی کو سڑک پر آوارہ گردی کرنے کے لیے پھینک دیا۔ کراچی کے ساحل ہوں، کلفٹن کے شاپنگ مال ہوں، طارق روڈ، زیب النسا اسٹریٹ، بوہری بازار، حیدری وغیرہ وغیرہ پورے شہر کی سڑکوں پر یہ پلاسٹک کی تھیلیاں اڑتی پھرتی نظر آئیں گی۔ کبھی درختوں کے جھڑے پتے ہوا اڑائے لیے پھرا کرتی تھی، آج پتوں کی جگہ تھیلیوں نے لے لی ہے۔
''یہ تھیلیاں/ یہ راستوں کی شاہ زادیاں/ پوچھتی ہیں، کیا بگاڑ لوگے تم۔'' اور میں لاچار سا، ہارا ہوا سا، فقط دیکھتا سا رہ جاتا ہوں اور یہ تھیلیاں ہیں کہ ریل میں سفر کیجیے، کھڑکی سے باہر کا نظارہ کیجیے، جیسے ہی کوئی چھوٹا بڑا شہر آئے گا سب سے پہلے یہی تھیلیاں آپ کا استقبال کریں گی۔ گندگی اور کوڑے کے ڈھیروں میں سنی ہوئی یہ تھیلیاں، جنھیں ہم شہری ہی سڑکوں، رستوں میں پھینک دیتے ہیں، یہی ''خونی''، ''قاتل'' تھیلیاں قبر تک ہمارا پیچھا کرتی ہیں۔ بہت پہلے ایک دوست کے والد کی تدفین میں قبرستان جانا ہوا۔ قبر تیار تھی تقریباً چار فٹ گہری قبر۔ اور میں نے دیکھا قبر کی اطراف میں زندہ تھیلیاں مردہ انسانوں کو سمیٹنے کے لیے بے تاب تھیں۔
یہی تھیلیاں جنھیں ہم شہری ہی فالتو کچرا سمجھ کر لاپرواہی سے زمین پر پھینک کر فارغ ہوجاتے ہیں، اگر ہم ایسا کرنے کے بجائے ان تھیلیوں کو اپنے، جی ہاں اپنے گھر کے ڈسٹ بن میں ڈال دیں اور پھر یہ ڈسٹ بن کچرے والا خالی کرکے لے جائے، اگر ایسا ہو جائے، کاش سچ مچ ایسا ہی ہوجائے تو ہمارے شہروں کی گٹر لائنیں کبھی بند نہ ہوں، ہمارے گندے گندے نالوں کی روانی کبھی نہ رکے۔ مگر ایسا نہیں ہو رہا۔ گٹروں کے ڈھکن غائب ہیں اور یہ تھیلیاں بلا جھجک و رکاوٹ کھلے گٹروں میں چلی جاتی ہیں ۔ گندے پانی کے نالوں کا یہ حال ہے کہ ہم شہری اپنے گھروں کا کوڑا کرکٹ ان میں پھینک کر صفائی کا عمل پورا کرلیتے ہیں جب کہ ایسا نہیں ہے، ہم دراصل صفائی نہیں بلکہ کہیں زیادہ گندگی کا بندوبست کر دیتے ہیں۔
میں نے دیکھا صبح فجر کی نماز کے لیے نمازی گھر سے نکلا، اس کے دونوں ہاتھوں میں گھر کے کچرے سے بھرے پلاسٹک بیگ تھے، رات کی سیاہی ابھی موجود تھی، نمازی نے مناسب موقع ملنے پر دونوں بیگ سائیڈ میں پھینکے اور مسجد میں اللہ اکبر کہہ کر نماز کی نیت باندھ لی۔ نماز سے واپسی پر خاصا سویرا ہوجاتا ہے اور سڑک پر پھینکے ہوئے کچرے کے تھیلے پڑے نظر آتے ہیں۔ یہ تھیلے آدھی رات کے بعد فلیٹوں سے نیچے سڑک پر پھینکے جاتے ہیں۔ حکمران تو ظالم ہوتے ہی ہیں، ہم شہری بھی کچھ کم ظالم نہیں ہیں۔
کراچی شہر کچرے کا شہر بنا ہوا ہے۔ ڈھائی کروڑ آبادی کے اس شہر کا حال بہت خراب ہے۔ مگر اس خرابی میں خود ہم شہریوں کا بھی حصہ ہے۔
ایک زمانہ تھا جب لوگ گوشت، سبزی دالیں لینے کے لیے گھر سے ٹوکری لے کر نکلتے تھے، گوشت، دالیں کاغذ کے لفافوں میں ملتے تھے، سبزی ویسے ہی ٹوکری میں رکھ لیتے تھے، دودھ دہی کے لیے گھر سے برتن لے جایا جاتا تھا، مگر آج نہ وہ ٹوکری نہ کاغذ کے لفافے رہے اور نہ دودھ دہی کے لیے برتن۔ اب یہ سارے کام یہ قاتل، خونی، دہشت گرد تھیلیاں کرتی ہیں۔ حتیٰ کہ گرم گرم چائے بھی انھی تھیلیوں میں لائی جاتی ہے اور ہمارے مکینک، راج مزدور، کارپینٹر، سفیدی کرنے والے تھیلیوں والی چائے پیتے ہیں۔ ہوٹلوں کے گرم سالن بھی انھی تھیلیوں میں لائے جاتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ مہلک بیماریاں پھیلتی ہیں، ہیپاٹائٹس اور خارش، جسم پر دانے۔
کیا ہم شہری مل کر ان خونی تھیلیوں کا بائیکاٹ نہیں کرسکتے! ذرا سی تکلیف اٹھائیں اور گھر سے ٹوکری لے کر بازار جانے کی باپ دادا والی عادت اپنالیں۔ یقین جانیں ہمارا بھلا ہوجائے گا۔ خود میں بھی اس برائی میں شامل ہوں اور اس تحریر کے لکھنے کے بعد گھر سے ٹوکری لے کر بازار جانے کا عہد کرتا ہوں۔ ہم شہریوں کو ہی ہمت کرنا ہوگی، کیونکہ حکومتیں ان قاتل، خونی، دہشت گرد تھیلیوں پر پابندی نہیں لگا سکیں۔ کروڑوں روپے ان تھیلیوں کے کاروبار میں لگے ہوئے ہیں، بھتے بندھے ہوئے ہیں۔
''رولے'' تو اور بھی ہیں، مگر چلو! ان تھیلیوں سے ہی نجات مل جائے۔