پاکستان میں مذہبی سیاست
ہماری سرمایہ دارانہ روایات کی حامل پاکستانی سیاست میں غریب کے لیے کوئی جگہ نہیں
PESHAWAR:
جمعیت علمائے اسلام کے کامیاب اجتماع کے بعد ایک بار پھر پاکستان میں مذہبی سیاست زیر بحث ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے جے یو آئی کے صد سالہ اجتماع میں تقریباً تمام مکاتب فکر کے افراد کو ایک اسٹیج پر اکٹھا کر کے آیندہ الیکشن کی تیاری کا آغاز بھرپور طریقے سے کیا ہے۔
اجتماع میں تمام مکاتب فکر کے رہنماؤں کی شرکت سے سیاسی مبصرین یہ اندازہ لگا رہے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن آیندہ الیکشن میں مذہبی سیاسی جماعتوں کے ایم ایم اے کی طرز کے کسی اتحاد کے متمنی ہیں۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے اجتماع میں اپنی تقریر کے دوران مذہبی جماعتوں کے اتحاد کا اختیار مولانا فضل الرحمن کو سونپا ہے، جس کے بعد قوی امکان ہے کہ مذہبی سیاسی جماعتیں آیندہ الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے کوئی اتحاد قائم کرلیں، مگر اس سے پہلے اسلام پسند سیاسی جماعتوں کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ اگر وہ اتحاد کر لیتی ہیں تو ان کو مطلوبہ کامیابی مل سکے گی یا نہیں؟
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ماضی میں بھرپور تگ و دو کے بعد بھی مذہبی جماعتوں کو بہت ہی کم کامیابی ملتی رہی ہے۔ مذہبی سیاسی قوتوں کو ان عوامل پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے، جو آج تک ان کی شکست کا باعث بنتے آرہے ہیں۔
پاکستان میں مذہبی سیاست کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ مذہبی جماعتوں کے منشور اور دستور میں عوامی مسائل کے حل سے متعلق کوئی واضح نصب العین نظر نہیں آتا، اس حوالے سے ترک حکومت پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعتوں کے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ طیب اردگان نے ترکی میں یہ ثابت کیا ہے کہ اگر حکمت عملی کے ساتھ مسلسل جدوجہد کی جائے تو عوام کے دلوں میں جگہ بنا کر کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔
ترکی میں ملک کی کٹر سیکولر اور عالمی قوتوں کی سازشوں اور رکاوٹوں کے باوجود ''انصاف اور ترقی پارٹی'' کامیابیاں سمیٹ رہی ہے، جب کہ پاکستان میں اسلام پسند سیاسی جماعتوں کو ایک عرصے سے تمام تر کوششوں کے باوجود ایسی کامیابیاں نہیں مل سکیں، حالانکہ پاکستان ایک مذہبی معاشرہ ہے، جہاں ہر شخص مذہب اور مذہبی شخصیات سے محبت کرتا ہے، مساجد اور مدارس کا احترام کرتا ہے، علماء کی دل سے عزت کرتا ہے، لیکن اس کے باوجود مذہبی سیاسی جماعتیں کامیاب نہیں ہوپاتیں۔
اسلام پسند سیاسی جماعتوں کا المیہ یہ ہے کہ یہ نچلی سطح پر عوام اور ان کے مسائل سے تقریباً لاتعلق ہوتی ہیں۔ صرف مسجد، مدارس اور جلسے جلوسوں تک محدود رہتی ہیں، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عوام ان کو عزت تو بہت زیادہ دیتے ہیں، لیکن ووٹ نہیں دیتے۔ عوام ووٹ ان کو ہی دیتے ہیں، جو عوام کے ساتھ گھل مل کر رہتے اور ان کے مسائل حل کرنے میں دلچسپی لیتے ہیں۔
ترکی میں اسلام پسندوں کو زیادہ ووٹ ملنے کی وجہ نظریاتی بنیاد کے بجائے عوامی خدمت ہے اور پاکستان میں بھی لوگ ووٹ نظریاتی بنیاد پر نہیں دیتے، بلکہ عوام میں کیے گئے کاموں کی بنیاد پر دیتے ہیں۔ لوگ نظریات کی بنیاد پر جان تو دے دیتے ہیں، لیکن ووٹ نہیں دیتے، کیونکہ ووٹ اس کا ہی حق ہوتا ہے، جو ان کے مسائل حل کرے۔ اگر ہماری مذہبی سیاسی جماعتیں خدمت کی سیاست کو اپنی اولین ترجیح بنا کر عوامی مسائل کے حل کے لیے میدان میں اتر کر اپنی اہلیت ثابت کردیں تو ترکی کی طرح یہاں بھی وہ عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہیں۔
اسلام پسند سیاسی جماعتوں کی ایک بہت بڑی خامی مسلکی تعصب اور آپسی اختلاف ہے۔ نظریاتی و مسلکی اختلاف پائے جانے کے باوجود ملک میں تمام مذہبی جماعتوں کا دعویٰ ملک کو اسلامی نظام کے تابع کرنا ہی ہے۔ اگر یہ تمام جماعتیں آپس میں دست و گریباں ہونے کے بجائے متحد ہوکر بہتر اور پرامن طریقے سے جدوجہد کریں تو کامیابی ان کے قدم چوم سکتی ہے، مگر ہوتا اس کے برعکس ہے۔ پاکستان کی سیاست میں شریک مختلف جماعتیں مختلف مسالک کی بنیاد پر حصہ لیتی ہیں، جو قوم کے بدن پارہ پارہ کو مزید ریزہ ریزہ کرنے کے مترادف ہے۔
اگر اسلام پسند سیاسی جماعتیں اگر اسلام اور پاکستان سے محبت کے نعروں میں واقعی سچی ہیں تو اپنی جماعتوں میں بھی غیر مسکی بنیاد پر افراد کو دعوت دیں اور شریک کریں، مسلکی تقسیم سے بالاتر ہو کر کھلے دل سے دیگر مسالک کے افراد کی آرا اور تحفظات کو بھی ملحوظ رکھیں، مگر یہاں اسٹیج پر تو تمام مسالک کے رہنما متحد دکھائی دیتے ہیں، لیکن اسٹیج سے اترنے کے بعد ان کی راہیں جدا ہو جاتی ہیں۔ مذہبی جماعتوں کی اس مسلکی روش سے اپنے مسلک کا ووٹ تو مل جاتا ہے، مگر مجموعی طور پر یہ بات پورے معاشرے کے لیے نقصان دہ ہے۔
مذہبی سیاسی جماعتوں کے کارکنان کے رویوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ مذہبی جماعتیں اپنے کارکنان کو سیاست میں نہ رواداری سکھاتی ہیں، نہ کسی اختلاف کو برداشت کرنے کی وسعت قلبی اور نہ ہی دوسرے مسلک کو برداشت کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ عدم برداشت اور تنگ نظری دوسری سیاسی جماعتوں میں بھی ہے، مگر مذہبی جماعتوں میں یہ ہرگز نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ یہ لوگ مذہب کی تعلیمات کا درس دیتے ہیں اور مذہب تو رواداری اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ اگر ان میں عدم برداشت اور تنگ نظری ہوگی تو بہت ہی بری بات ہے۔
اس کے ساتھ مذہبی سیاسی جماعتوں کو ملا و مسٹر کی تقسیم ختم کرنا ہوگی اور مسٹرز کے لیے اپنی صفوں میں اتنی محبت پیدا کرنا ہوگی کہ وہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے خوشی کے ساتھ ان کی جماعتوں میں شامل ہوں۔ پاکستانی معاشرہ میں ملا و مسٹر کے درمیان مشرق و مغرب کی دوریاں ہیں، جس کو پاٹنے کے لیے مذہبی سیاسی جماعتوں کو کوشش کرنا ہوگی۔
مذہبی سیاست کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ موجودہ مذہبی جماعتوں کے پاس کوئی واضح قومی ایجنڈہ نہیں ہے۔ موجودہ سیاسی فضا میں دینی سیاسی قوتیں دو الگ فریقوں میں بٹی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ایک طرف مولانا فضل الرحمن، عمران خان کے سخت مخالف ہیں، جب کہ جماعت اسلامی کے پی کے میں عمران خان کے ساتھ کھڑی ہے۔
دوسری جانب امیر جماعت اسلامی سراج الحق کرپشن کے خلاف ریلیاں نکالتے ہیں اور مولانا فضل الرحمن پاناما لیکس کے معاملے میں نواز حکومت کے ساتھ کندھا ملائے کھڑے ہیں۔ ہماری سرمایہ دارانہ روایات کی حامل پاکستانی سیاست میں غریب کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ ایسے میں اسلام پسند سیاسی جماعتوں کو غریب کی جنگ لڑنی چاہیے تھی، لیکن یہ عوام کو صرف نظریے اور مذہب کا نعرہ دے کر مطمئن ہوجاتی ہیں، حالانکہ اس وقت عوام کی اکثریت کا مسئلہ غربت ہے، اگر انھیں پیٹ بھرنے، بدن ڈھانپنے اور سر چھپانے کے لیے کچھ ملے گا تو ہی یہ کسی نظریاتی نعرے کی جانب توجہ دیں گے۔
ملک میں اسلام پسندوں کے لیے سیاست کی بہت جگہ ہے، اگر وہ طریقے سے کریں۔ اگر مذہبی جماعتیں بلاتفریق عوام کو خدمت اور محبت دے کر ان کے دلوں میں اپنی قدروقیمت پیدا کریں تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ ایسی کوئی وجہ نہیں کہ عوام انھیں مسترد کریں، کیونکہ عوام آج بھی سب سے زیادہ دیانت دار اور صالح مذہبی نمایندوں کو تصور کرتے ہیں۔
جمعیت علمائے اسلام کے کامیاب اجتماع کے بعد ایک بار پھر پاکستان میں مذہبی سیاست زیر بحث ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے جے یو آئی کے صد سالہ اجتماع میں تقریباً تمام مکاتب فکر کے افراد کو ایک اسٹیج پر اکٹھا کر کے آیندہ الیکشن کی تیاری کا آغاز بھرپور طریقے سے کیا ہے۔
اجتماع میں تمام مکاتب فکر کے رہنماؤں کی شرکت سے سیاسی مبصرین یہ اندازہ لگا رہے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن آیندہ الیکشن میں مذہبی سیاسی جماعتوں کے ایم ایم اے کی طرز کے کسی اتحاد کے متمنی ہیں۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے اجتماع میں اپنی تقریر کے دوران مذہبی جماعتوں کے اتحاد کا اختیار مولانا فضل الرحمن کو سونپا ہے، جس کے بعد قوی امکان ہے کہ مذہبی سیاسی جماعتیں آیندہ الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے کوئی اتحاد قائم کرلیں، مگر اس سے پہلے اسلام پسند سیاسی جماعتوں کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ اگر وہ اتحاد کر لیتی ہیں تو ان کو مطلوبہ کامیابی مل سکے گی یا نہیں؟
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ماضی میں بھرپور تگ و دو کے بعد بھی مذہبی جماعتوں کو بہت ہی کم کامیابی ملتی رہی ہے۔ مذہبی سیاسی قوتوں کو ان عوامل پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے، جو آج تک ان کی شکست کا باعث بنتے آرہے ہیں۔
پاکستان میں مذہبی سیاست کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ مذہبی جماعتوں کے منشور اور دستور میں عوامی مسائل کے حل سے متعلق کوئی واضح نصب العین نظر نہیں آتا، اس حوالے سے ترک حکومت پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعتوں کے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ طیب اردگان نے ترکی میں یہ ثابت کیا ہے کہ اگر حکمت عملی کے ساتھ مسلسل جدوجہد کی جائے تو عوام کے دلوں میں جگہ بنا کر کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔
ترکی میں ملک کی کٹر سیکولر اور عالمی قوتوں کی سازشوں اور رکاوٹوں کے باوجود ''انصاف اور ترقی پارٹی'' کامیابیاں سمیٹ رہی ہے، جب کہ پاکستان میں اسلام پسند سیاسی جماعتوں کو ایک عرصے سے تمام تر کوششوں کے باوجود ایسی کامیابیاں نہیں مل سکیں، حالانکہ پاکستان ایک مذہبی معاشرہ ہے، جہاں ہر شخص مذہب اور مذہبی شخصیات سے محبت کرتا ہے، مساجد اور مدارس کا احترام کرتا ہے، علماء کی دل سے عزت کرتا ہے، لیکن اس کے باوجود مذہبی سیاسی جماعتیں کامیاب نہیں ہوپاتیں۔
اسلام پسند سیاسی جماعتوں کا المیہ یہ ہے کہ یہ نچلی سطح پر عوام اور ان کے مسائل سے تقریباً لاتعلق ہوتی ہیں۔ صرف مسجد، مدارس اور جلسے جلوسوں تک محدود رہتی ہیں، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عوام ان کو عزت تو بہت زیادہ دیتے ہیں، لیکن ووٹ نہیں دیتے۔ عوام ووٹ ان کو ہی دیتے ہیں، جو عوام کے ساتھ گھل مل کر رہتے اور ان کے مسائل حل کرنے میں دلچسپی لیتے ہیں۔
ترکی میں اسلام پسندوں کو زیادہ ووٹ ملنے کی وجہ نظریاتی بنیاد کے بجائے عوامی خدمت ہے اور پاکستان میں بھی لوگ ووٹ نظریاتی بنیاد پر نہیں دیتے، بلکہ عوام میں کیے گئے کاموں کی بنیاد پر دیتے ہیں۔ لوگ نظریات کی بنیاد پر جان تو دے دیتے ہیں، لیکن ووٹ نہیں دیتے، کیونکہ ووٹ اس کا ہی حق ہوتا ہے، جو ان کے مسائل حل کرے۔ اگر ہماری مذہبی سیاسی جماعتیں خدمت کی سیاست کو اپنی اولین ترجیح بنا کر عوامی مسائل کے حل کے لیے میدان میں اتر کر اپنی اہلیت ثابت کردیں تو ترکی کی طرح یہاں بھی وہ عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہیں۔
اسلام پسند سیاسی جماعتوں کی ایک بہت بڑی خامی مسلکی تعصب اور آپسی اختلاف ہے۔ نظریاتی و مسلکی اختلاف پائے جانے کے باوجود ملک میں تمام مذہبی جماعتوں کا دعویٰ ملک کو اسلامی نظام کے تابع کرنا ہی ہے۔ اگر یہ تمام جماعتیں آپس میں دست و گریباں ہونے کے بجائے متحد ہوکر بہتر اور پرامن طریقے سے جدوجہد کریں تو کامیابی ان کے قدم چوم سکتی ہے، مگر ہوتا اس کے برعکس ہے۔ پاکستان کی سیاست میں شریک مختلف جماعتیں مختلف مسالک کی بنیاد پر حصہ لیتی ہیں، جو قوم کے بدن پارہ پارہ کو مزید ریزہ ریزہ کرنے کے مترادف ہے۔
اگر اسلام پسند سیاسی جماعتیں اگر اسلام اور پاکستان سے محبت کے نعروں میں واقعی سچی ہیں تو اپنی جماعتوں میں بھی غیر مسکی بنیاد پر افراد کو دعوت دیں اور شریک کریں، مسلکی تقسیم سے بالاتر ہو کر کھلے دل سے دیگر مسالک کے افراد کی آرا اور تحفظات کو بھی ملحوظ رکھیں، مگر یہاں اسٹیج پر تو تمام مسالک کے رہنما متحد دکھائی دیتے ہیں، لیکن اسٹیج سے اترنے کے بعد ان کی راہیں جدا ہو جاتی ہیں۔ مذہبی جماعتوں کی اس مسلکی روش سے اپنے مسلک کا ووٹ تو مل جاتا ہے، مگر مجموعی طور پر یہ بات پورے معاشرے کے لیے نقصان دہ ہے۔
مذہبی سیاسی جماعتوں کے کارکنان کے رویوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ مذہبی جماعتیں اپنے کارکنان کو سیاست میں نہ رواداری سکھاتی ہیں، نہ کسی اختلاف کو برداشت کرنے کی وسعت قلبی اور نہ ہی دوسرے مسلک کو برداشت کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ عدم برداشت اور تنگ نظری دوسری سیاسی جماعتوں میں بھی ہے، مگر مذہبی جماعتوں میں یہ ہرگز نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ یہ لوگ مذہب کی تعلیمات کا درس دیتے ہیں اور مذہب تو رواداری اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ اگر ان میں عدم برداشت اور تنگ نظری ہوگی تو بہت ہی بری بات ہے۔
اس کے ساتھ مذہبی سیاسی جماعتوں کو ملا و مسٹر کی تقسیم ختم کرنا ہوگی اور مسٹرز کے لیے اپنی صفوں میں اتنی محبت پیدا کرنا ہوگی کہ وہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے خوشی کے ساتھ ان کی جماعتوں میں شامل ہوں۔ پاکستانی معاشرہ میں ملا و مسٹر کے درمیان مشرق و مغرب کی دوریاں ہیں، جس کو پاٹنے کے لیے مذہبی سیاسی جماعتوں کو کوشش کرنا ہوگی۔
مذہبی سیاست کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ موجودہ مذہبی جماعتوں کے پاس کوئی واضح قومی ایجنڈہ نہیں ہے۔ موجودہ سیاسی فضا میں دینی سیاسی قوتیں دو الگ فریقوں میں بٹی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ایک طرف مولانا فضل الرحمن، عمران خان کے سخت مخالف ہیں، جب کہ جماعت اسلامی کے پی کے میں عمران خان کے ساتھ کھڑی ہے۔
دوسری جانب امیر جماعت اسلامی سراج الحق کرپشن کے خلاف ریلیاں نکالتے ہیں اور مولانا فضل الرحمن پاناما لیکس کے معاملے میں نواز حکومت کے ساتھ کندھا ملائے کھڑے ہیں۔ ہماری سرمایہ دارانہ روایات کی حامل پاکستانی سیاست میں غریب کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ ایسے میں اسلام پسند سیاسی جماعتوں کو غریب کی جنگ لڑنی چاہیے تھی، لیکن یہ عوام کو صرف نظریے اور مذہب کا نعرہ دے کر مطمئن ہوجاتی ہیں، حالانکہ اس وقت عوام کی اکثریت کا مسئلہ غربت ہے، اگر انھیں پیٹ بھرنے، بدن ڈھانپنے اور سر چھپانے کے لیے کچھ ملے گا تو ہی یہ کسی نظریاتی نعرے کی جانب توجہ دیں گے۔
ملک میں اسلام پسندوں کے لیے سیاست کی بہت جگہ ہے، اگر وہ طریقے سے کریں۔ اگر مذہبی جماعتیں بلاتفریق عوام کو خدمت اور محبت دے کر ان کے دلوں میں اپنی قدروقیمت پیدا کریں تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ ایسی کوئی وجہ نہیں کہ عوام انھیں مسترد کریں، کیونکہ عوام آج بھی سب سے زیادہ دیانت دار اور صالح مذہبی نمایندوں کو تصور کرتے ہیں۔