کیا پیدل چلنا منع ہے

آخر ہم جو پیدل چلنے والے لوگ ہیں یہ کہاں چلیں؟ کوئی ہے جو ہمیں اِس کا جواب دے؟


حمیرا زکریا April 19, 2017
یہ پہلی مصروف ترین سڑک تو نہ تھی، جسے میں نے اِس طرح پار کیا بلکہ سڑکوں، پُلوں کا جدید ترین جال بچھنے کے باوجود، پیدل سڑک پار کرنے والوں کا مناسب انداز سے کہیں بھی انتظام نہیں ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

سڑک کنارے کھڑی میں سوچ ہی رہی تھی کہ اِس سڑک کو کیسے پار کروں کہ میرے ساتھ 2 خواتین جن کے ساتھ بچے بھی تھے وہ بھی آکر کھڑی ہوگئیں مگر ہم میں سے کوئی بھی سڑک پار کرنے کی جرات کوئی نہیں کر رہا تھا۔ گاڑیاں، موٹر سائیکل، رکشے سب ایک دوسرے کے سر پر سوار تیز رفتاری سے دوڑے چلے آرہے تھے، خیر میں نے ہمت کی اور ایک بار اپنا پاؤں سڑک پر رکھا مگر اگلے ہی لمحے تیز ہارن سے گھبرا کر واپس چلی آئی۔ کچھ دیر تک یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا، مگر اب بہت ہوچکا تھا، میں نے تنگ آکر ہمت کی اور قدم رکھ کر واپس نہیں اُٹھایا، ہارن ایک بار پھر بجے مگر اِس بار میں واپس نہیں ہوئی۔ جب میں نے ہمت کی تو میرے پیچھے کھڑی خواتین اور مرد حضرات نے بھی ہمت کی اور یوں ہمارے جتھے نے بالآخر انارکلی کی اِس مرکزی سڑک کو تیزی سے پار کر ہی لیا۔

یہ پہلی مصروف ترین سڑک تو نہ تھی، جسے میں نے اِس طرح پار کیا بلکہ سارے لاہور میں ہی سڑکوں، پُلوں کا جدید ترین جال بچھنے کے باوجود، پیدل سڑک پار کرنے والوں کا مناسب انداز سے کہیں بھی انتظام نہیں ہے۔ ہاں بلند و بالا سیڑھیوں کے چوکھٹے بنا کر اِکا دُکا جگہ ضرور سجا دئیے ہیں مگر جب عمر رسیدہ افراد اِن پُلِ صراط پر چڑھنے کی کوشش کرتے ہیں تو چند سیڑھیوں کے بعد اُن کی سانسیں اُکھڑ جاتی ہیں اور وہ ٹیک لگائے اپنی سانسیں متوازن کرنے کی جنگ میں دکھائی دیتے ہیں۔

ہم نے پیدل چلنے والوں کو سڑک پار کرنے سے دور رکھنے کے لئے سڑکوں کے درمیان کہیں لوہے کی جالیاں سجا دی ہیں، تو کہیں درمیان میں دیواریں اُٹھا دی ہیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے جب میں ڈرائیونگ لائسنس کے حصول کے لئے ٹریفک ڈپارٹمنٹ میں گئی تو مجھے وہاں ایسے ایسے ٹریفک سائن دکھائی دیے جن میں سے بیشتر میں نے صرف وہیں دیکھے تھے، اِن ٹریفک سائن میں سے ایک زیبرا کراسنگ کا سائن بھی تھا۔ جی ہاں وہی لکیریں سی بنی ہوئی تھی، جہاں سے پیدل سڑک پار کرنے کا حق ہر شہری کو حاصل ہے، مگر حیرت کی بات یہ تھی کہ اِن لکیروں کو میں نے کسی سڑک پر نہیں دیکھا تھا۔ ممکن ہے شاید دھوپ اور بارشوں نے انہیں مِٹادیا ہو۔

ہمارے اسکول، کالجز، جامعات اور بہت سے ادارے مرکزی شاہراہوں پر ہوتے ہیں مگر اِن کے سامنے بھی آپ کو واضح طور پر ایسا راستہ مختص کیا ہوا دکھائی نہیں دے گا، جہاں سے پیدل ہم آر پار جاسکیں۔ آخر ہم جو پیدل چلنے والے لوگ ہیں یہ کہاں چلیں؟ کوئی ہے جو ہمیں اِس کا جواب دے؟

فُٹ پاتھ بھی اخلاقی طور پر بنائے جاتے ہیں جبکہ اِن پر ناجائز تجاوزات کی بھرمار ہمیں دھکیلتی ہوئی سڑک کے بیچ و بیچ تیز رفتار ٹریفک کے درمیان لا پھینکتی ہے، اور اِسی وجہ سے بہت سے حادثات بھی ہوتے ہیں۔ اِن حادثات میں بہت سی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں اور ہم صرف اِس لیے خاموش رہ جاتے ہیں کہ خدا کی یہی مرضی تھی بقول ابراہیم ذوق؎
لائی حیات آئے قضاء لے چلی چلے
نہ اپنی خوشی آئے نہ اپنی خوشی چلے

ایک بار ایک ادارے کی جانب سے اسکول میں ٹریفک ضوابط سے آگاہی کے لئے ایک ٹیم آئی۔ انہوں نے بہت مفید معلومات دیں، آخر میں جب سوالات کا سیشن ہوا تو ایک بچے نے اُٹھ کر کہا کہ جب چھٹی ہوتی ہے تو اسکول کے باہر بے پناہ رش ہوتا ہے اور بہت سے بچوں کو سڑک کے دوسری طرف جانے میں بہت ڈر بھی لگتا ہے، کئی بار حادثات بھی ہوتے ہیں، کیا کوئی ایسا قانون ہے جو اِن کا مسئلہ حل کرسکے؟

ایک اہلکار نے بہت نرمی سے کہا کہ جی بیٹا، آپ کے اسکول کی دونوں اطراف میں سائن بورڈ لگے ہیں جہاں ایک بچہ اسکول بیگ تھامے قدم اُٹھاتا دکھائی دے رہا ہے، آپ وہاں سے پار کرسکتے ہیں۔ اِس پر بچے نے اِسی معصومیت سے کہا کہ ہم تو اُس کے پاس جاکر کھڑے ہوجاتے ہیں مگر آنے جانے والی گاڑیوں کو وہ دکھائی ہی نہیں دیتا۔

ہم حکومتِ وقت کو ہی الزام دے کر بیٹھ جاتے ہیں، لیکن ہم میں سے کتنے افراد نے باقاعدہ طور پر متعلقہ اداروں سے یہ گزارش کی ہے کہ وہ ٹریفک قوانین میں پیدل چلنے والوں کو تحفظ فراہم کرنے کی طرف توجہ دیں اور مناسب قانون سازی کے ساتھ ساتھ سڑک پار کرنے کیلئے مخصوص پوائنٹس مختص کئے جائیں اور اِس جگہ ٹریفک کو ایسے انداز میں کنٹرول کیا جائے کہ سب محفوظ انداز سے سڑک پار کرسکیں، بلکہ اگر پیدل چلنے والے ضوابط کی خلاف ورزی کریں تو اِن پر بھی جرمانہ عائد کیا جائے۔ اِس خلاف ورزی کو بھی دوسرے سنگین جرائم کی طرح ایک جرم ہی سمجھا جائے ورنہ پھر پیدل چلنے پر ہی پابندی لگا دینی چاہیئے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔



اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں