مشال کے دوست عبداللہ نے توہین آمیز کلمات کے الزامات مسترد کر دیئے
مشال کے منہ سے کبھی توہین آمیز گفتگو نہیں سنی، عبداللہ
NEW DELHI:
چند روز قبل مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں توہین آمیز کلمات کے الزام میں بے دردی سے قتل کئے جانے والے نوجوان مشال خان کے دوست عبداللہ نے خود پر لگے الزامات مسترد کر دیئے ہیں۔
مشال خان کے دوست عبداللہ نے عدالت میں اپنا بیان ریکارڈ کرا دیا ہے جس میں اس نے اپنے اوپر لگنے والے توہین آمیز کلمات کے حوالے سے لگنے والے الزامات کی سختی سے تردید کر دی ہے۔ عبداللہ کا کہنا ہے کہ مجھے دوستوں نے فون کر کے گھر سے بلایا اور جب یونیورسٹی پہنچا تو مجھے پتہ چلا کہ مجھ پر توہین آمیز کلمات کا الزام ہے، مجھے چیرمین کے کمرے میں بند کیا گیا، میں نے کلمہ پڑھ کر سنایا تو مجھے کہا گیا کہ مشال کے خلاف گواہی دو کہ اس نے توہین آمیز کلمات ادا کئے ہیں لیکن میں نے ایسا کرنے سے انکار کردیا جس پر مجھے اساتذہ کی موجودگی میں ایک واش روم میں بند کر دیا گیا، میں سمجھا کہ اساتذہ نے مجھے بچانے کے لئے یہ اقدام اٹھایا ہے لیکن تھوڑی دیر پر ایک مشتعل ہجوم واش روم میں گھس آیا اور مجھ پر تشدد شروع کر دیا گیا، پولیس اہلکاروں نے مجھے مشتعل ہجوم سے بچا کر اسپتال منتقل کیا۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: مشال خان کو صفائی کا موقع ملنے سے پہلے ہی قتل کردیاگیا، آئی جی خیبر پختونخوا
عبداللہ کا اپنے بیان میں کہنا تھا کہ مشال خان انتہائی ذہین اور ہونہار طالبعلم تھا اور اسے انگریزی پر عبور حاصل تھا، میری مشال سے گزشتہ 2 ماہ سے گہری دوستی تھی اور اس کے منہ سے کبھی توہین آمیز گفتگو نہیں سنی۔ عبداللہ نے مزید کہا کہ مشال اکثر یونیورسٹی انتظامیہ کی پالیسیوں کے خلاف بھی آواز اٹھاتا رہتا تھا جس کی وجہ سے شبہ ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ بھی اس معاملے میں ملوث ہے۔
چند روز قبل مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں توہین آمیز کلمات کے الزام میں بے دردی سے قتل کئے جانے والے نوجوان مشال خان کے دوست عبداللہ نے خود پر لگے الزامات مسترد کر دیئے ہیں۔
مشال خان کے دوست عبداللہ نے عدالت میں اپنا بیان ریکارڈ کرا دیا ہے جس میں اس نے اپنے اوپر لگنے والے توہین آمیز کلمات کے حوالے سے لگنے والے الزامات کی سختی سے تردید کر دی ہے۔ عبداللہ کا کہنا ہے کہ مجھے دوستوں نے فون کر کے گھر سے بلایا اور جب یونیورسٹی پہنچا تو مجھے پتہ چلا کہ مجھ پر توہین آمیز کلمات کا الزام ہے، مجھے چیرمین کے کمرے میں بند کیا گیا، میں نے کلمہ پڑھ کر سنایا تو مجھے کہا گیا کہ مشال کے خلاف گواہی دو کہ اس نے توہین آمیز کلمات ادا کئے ہیں لیکن میں نے ایسا کرنے سے انکار کردیا جس پر مجھے اساتذہ کی موجودگی میں ایک واش روم میں بند کر دیا گیا، میں سمجھا کہ اساتذہ نے مجھے بچانے کے لئے یہ اقدام اٹھایا ہے لیکن تھوڑی دیر پر ایک مشتعل ہجوم واش روم میں گھس آیا اور مجھ پر تشدد شروع کر دیا گیا، پولیس اہلکاروں نے مجھے مشتعل ہجوم سے بچا کر اسپتال منتقل کیا۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: مشال خان کو صفائی کا موقع ملنے سے پہلے ہی قتل کردیاگیا، آئی جی خیبر پختونخوا
عبداللہ کا اپنے بیان میں کہنا تھا کہ مشال خان انتہائی ذہین اور ہونہار طالبعلم تھا اور اسے انگریزی پر عبور حاصل تھا، میری مشال سے گزشتہ 2 ماہ سے گہری دوستی تھی اور اس کے منہ سے کبھی توہین آمیز گفتگو نہیں سنی۔ عبداللہ نے مزید کہا کہ مشال اکثر یونیورسٹی انتظامیہ کی پالیسیوں کے خلاف بھی آواز اٹھاتا رہتا تھا جس کی وجہ سے شبہ ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ بھی اس معاملے میں ملوث ہے۔