سیاست کرپشن سے پاک کیوں نہیں
سیاست جسے کبھی عوام کی خدمت کا ذریعہ کہا جاتا تھا اور بعض لوگ سیاست بھی عبادت کی طرح کرتے تھے
سیاست جسے کبھی عوام کی خدمت کا ذریعہ کہا جاتا تھا اور بعض لوگ سیاست بھی عبادت کی طرح کرتے تھے، جس میں کبھی جھوٹ اور دھوکا نہیں ہوتا تھا، جس کی وجہ سے لوگ بھی ایسے سیاست دانوں کا احترام اور عزت دل سے کرتے تھے۔
سیاست کو جن لوگوں نے ملک و قوم کی خدمت سمجھا اور ایک سیاسی جماعت مسلم لیگ نے قائداعظم کی قیادت میں انگریزوں اور ہندوؤں کی غلامی سے نجات دلاکر اسلام کے نام پر ایک علیحدہ ملک پاکستان قائم کرایا، اسی مسلم لیگ کے سرکردہ رہنماؤں کو 70 سال ہونے کے بعد بھی عزت و احترام سے اب بھی یاد کیا جاتا ہے کیونکہ ملک و قوم سے مخلص ان رہنماؤں نے نہ صرف آزادی کی تحریک میں حصہ لیا بلکہ نئی اسلامی مملکت کے لیے تن من ہی نہیں وارا، بلکہ اپنا مال بھی قربان کیا۔ متعدد نے ہندوستان میں اپنی آبائی جائیدادیں چھوڑیں اور اپنی خدمات نئے ملک کی تعمیر و ترقی اور استحکام کے لیے وقف کردی تھیں، ہندوستان میں شامل مسلمان ریاستوں کے سربراہوں نے اپنا اقتدار اور دولت تک اس ملک کے لیے قربان کردی تھیں۔
ملک و قوم کی خدمت کے لیے سیاست کرنے والے رہنما وقت کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوتے رہے اور سیاست کو مفادات، کاروبار اور اقتدار کا ذریعہ سمجھنے والے سیاست میں آتے رہے اور سیاست خدمت کے بجائے کاروبار، دولت مند اور ملکیت بڑھانے کا ذریعہ بنتی رہی، سندھ کے ایک بزرگ سیاست دان حاجی مولابخش سومرو 1970 کے انتخابات میں آزاد حیثیت میں رکن قومی اسمبلی شکارپور سے منتخب ہوئے تھے اور وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے اختلاف کے باعث پیپلزپارٹی میں شامل نہیں ہوئے تھے۔ بھٹو دور کو کرپشن کی ابتدا قرار دیتے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ بھٹو دور سے قبل جس کے پاس دو گدھے بھی نہیں تھے، بھٹو دور میں کرپشن کرکے دو دو مہنگی کاروں کا مالک بن گیا تھا۔
بھٹو دور کو عوامی دور کہا جاتا تھا اور پیپلزپارٹی کے بانی نے پہلی بار ملک میں روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا تھا اور اسلامی سوشلزم کو پی پی کا منشور قرار دے کر نئے لوگوں کو انتخابی ٹکٹ دیے تھے، جن میں اکثریت نے کامیابی حاصل کی تھی اور مغربی پاکستان میں پنجاب اور سندھ میں خصوصی طور پر نئے سیاست دان منظر عام پر آئے تھے اور ملک کی روایتی جماعتوں جس میں مسلم لیگ بھی شامل تھی کے رہنماؤں کو شکست ہوئی تھی اور صوبہ سرحد اور بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام اور اپوزیشن کے مشہور شہر کراچی سے جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے پاکستان نے کامیابی حاصل کی تھی۔
بھٹو دور جس میں ذوالفقار علی بھٹو نہایت با اختیار وزیراعظم تھے اور 1973 کے آئین کے تحت منتخب ہوئے تھے۔ 1977 تک برسر اقتدار رہے۔ 1977 ہی میں قبل از وقت متنازعہ انتخابات میں خود کو دوبارہ وزیراعظم منتخب کراچکے تھے، اے این پی کی ملک گیر موثر تحریک کے نتیجے میں اسی سال 5 جولائی کو جنرل ضیاالحق کے مارشل لا لگانے کے باعث اقتدار سے محروم ہوئے اور بعد میں قتل کے ایک مقدمہ میں پھانسی چڑھادیے گئے، نے اپوزیشن کے تعاون سے ملک کو متفقہ آئین دینے میں کامیاب رہے تھے مگر بعد میں اپوزیشن کو ساتھ لے کر نہ چل سکے اور انھوں نے سرحد اور بلوچستان کی منتخب حکومتوں کی جگہ اپوزیشن کے ارکان توڑ کر اور انھیں سیاسی ترغیبات کے ذریعے پی پی کی حکومتیں قائم کرالی تھیں، جس کے بعد سیاست میں کرپشن اور سیاسی وفاداری کی تبدیلی شروع ہوئی جس میں پی پی کی چاروں صوبائی حکومتوں میں شامل نئے سیاست دانوں کو ملکی دولت لوٹنے کا بھرپور موقع ملا اور وہ مالی طور پر کہیں سے کہیں پہنچ گئے تھے۔
وزیراعظم بھٹو پر کرپشن کے الزامات نہیں لگے تھے مگر وہ اپنے دور میں شروع ہونے والی کرپشن روکنے میں شاید دلچسپی بھی نہیں رکھتے تھے اور انھیں صرف اپنے اقتدار سے دلچسپی تھی اور ان کے دور میں کرپشن کرنے والوں کو کھل کر کرپشن کا موقع دیاگیا۔ بھٹو دور میں غریبوں کو تو روٹی، کپڑا اور مکان نہیں ملا اور پی پی اپنے منشور سے پھر گئی، جس پر پی پی میں شامل نظریاتی سیاست دان پارٹی چھوڑ گئے اور پی پی سرداروں، جاگیرداروں اور وڈیروں کے ہاتھ آگئی۔ جنھوں نے اپنی اولاد، عزیزوں اور اپنے حامیوں کو ملازمتیں دلائیں، جنھوں نے ملکی دولت کو لوٹا تو پی پی میں نچلی سطح کے جیالے کیوں خاموش رہتے انھوں نے بھی مال بنایا اور غریب سے امیر ہوتے گئے۔
پیپلزپارٹی میں آج بھی بے شمار ارکان اسمبلی اور رہنما ہیں جو غریب تھے مگر حکومت میں شامل ہوکر امیر ترین بن گئے اور ان سے کسی نے نہیں پوچھا کہ ان کے پاس اتنی دولت کہاں سے آگئی اور ان پر یہ ہن کہاں سے برسا۔ بھٹو دور کے بعد مارشل لا حکومت نے اپنی سیاسی ضرورت کے لیے پی پی کے کرپٹ لوگوں کو تحفظ دیا جو پی پی چھوڑ گئے تھے۔ متعدد سیاست دان اپنی کرپشن بچانے کے لیے پی پی میں موجود رہے اور انھوں نے فوجی حکومت کی اپنے خلاف کارروائی کو حکومت کا سیاسی انتقام قرار دیا اور مال بچانے میں کامیاب رہے۔
1985 کے فوجی حکومت کے کرائے گئے غیرجماعتی انتخابات مسلم لیگیوں اور پی پی رہنماؤں کو ملاکر وزیراعظم جونیجو کو منتخب کرایا گیا جو ماضی میں حکومت میں رہے اور اچھی شہرت رکھتے تھے لیکن انھیں اپنی مرضی سے کام کا موقع نہیں دیا گیا ، ہاں البتہ انھوں نے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک وزیر کو کرپشن کے الزام میں ضرور برطرف کیا تھا اور جنرل ضیا کے کہنے پر نہ چلنے کی وجہ سے انھیں بھی برطرف کردیا گیا تھا۔
1985کے بعد 1988 میں جماعتی انتخابات ہوئے اور بھٹو سے ہمدردی کا ووٹ پیپلزپارٹی کو ملا مگر پی پی کو اکثریت نہ مل سکی، مفاد پرست اور کرپٹ سیاست دانوں کا پی پی اور مسلم لیگ میں آنا جانا لگا رہا۔ انھوں نے دونوں حکومتوں میں مال کمایا کیونکہ دونوں بڑی پارٹیوں کو ان کی ضرورت تھی اور دونوں باریاں لیتے تھے اور کرپشن کو فروغ دیتے رہے اس دوران احتساب کے ڈرامے چلتے رہے، کرپشن کرنے والوں کی گرفتاریاں اور رہائی ہوتی رہی اور کرپٹ سیاست دانوں کی سیاست بھی محفوظ رہی اور مال بھی، کیونکہ کرپشن کا ثبوت نہیں چھوڑا جاتا۔ مسلم لیگ اور پی پی کے کرپٹ سیاست دانوں نے بچاؤ کے لیے اس تحریک انصاف کی چھتری میں پناہ لے لی جس کے قائد اب بھی دونوں پارٹیوں کی ماضی کی کرپشن کو بنیاد بناکر مہم چلارہے ہیں جب کہ ان کی پارٹی میں کرپٹ لوگ پی پی اور ن لیگ سے ہی آئے ہوئے ہیں۔
دولت کے زور پر الیکشن جیتنے والے اپنی دولت کے تحفظ اور مزید کمانے کے شوقین سیاسی قوت بن جائیں تو وہ ہر سیاسی پارٹی کی ضرورت بن جاتے ہیں اور ان کی دولت کے متعلق آج تک کسی نے نہیں پوچھا اور اسی لیے سیاست کرپشن سے پاک ہے نہ مستقبل میں ہوسکتی ہے۔ حیرت تو یہ ہے کہ کرپشن میں غرق لوگ اپنی کرپشن چھپانے کے لیے اپنے مخالفوں پر کرپشن کے سنگین الزامات لگاتے آرہے ہیں کیونکہ کرپشن سیاست کا مضبوط ہتھیار ہے۔