لو خوش حالی آگئی
حزب اختلاف کے فرائض میں دو فرائض سب سے اہم ہیں ایک ہر بات سے اختلاف کرنا اور دوسرے ڈھونڈ ڈھانڈ کر الزام لگانا
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار وقتاً فوقتاً ایسے بیانات دیتے رہتے ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کی اقتصادی حالت بہتر ہوتی جارہی ہے اور وہ دن دور نہیں کہ پاکستان ایشیا میں شیر کی حیثیت حاصل کرے گا۔ شیر سے ان کی مراد تو اقتصادی بہتری ہوتی ہے مگر چونکہ یہ مسلم لیگ (ن) کا انتخابی نشان بھی ہے اس لیے اکثر حضرات اس ایشیائی شیر والی بات کو خاطر میں نہیں لاتے۔
ہم نے اقتصادیات کی الف بے بھی نہیں پڑھی۔ اقتصادیات سے ہماری واقفیت بس اسی قدر ہے کہ ایک مقررہ تعداد میں تنخواہ حاصل کریں اور اسی کے اندر رہتے ہوئے اپنے اخراجات کو محدود رکھیں۔ بعض حضرات اسے کفایت شعاری اور بعض خستہ حالی قرار دیتے ہیں مگر ہمیں اس کی پرواہ اس لیے نہیں ہے کہ ہم اقتصادیات سے الحمدﷲ نابلد ہیں۔
ایک طرف اشیائے صرف کی بڑھتی ہوئی فلک بوس قیمتوں کو دیکھتے ہیں اور دوسری طرف حکومت کے دعوؤں پر غور کرتے ہیں تو عجیب مخمصے میں پڑجاتے ہیں۔ یا اﷲ اگر ملک کے اقتصادی حالات دن بدن بہتر ہوتے جا رہے ہیں تو پھر یہ مہنگائی چہ معنی دارد۔ مگر اس صورت حال کو ہم کبھی سمجھ نہ سکے۔ یہ ہمارے لیے چیستاں ہی بنی رہی۔ نہ ہم میں اس قدر اقتصادی فہم ہے کہ ہم حکومت کے دعوؤں کو غلط کہہ سکیں نہ اتنی لیاقت ہے کہ ان کی صداقت پر مہر تصدیق ثبت کرسکیں۔
حکومت کے دعوے پر مہر تصدیق ثبت کرنے کا اعزاز پارلیمان میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کو حاصل ہوا اور انھوں نے قولاً نہیں تو فعلاً ثابت کیا کہ حکومت جو دعوے کررہی ہے وہ واقعی درست ہیں۔ حزب اختلاف کا کام بقول عمران خان کے الزام لگانا ہے اور حزب اقتدار کا کام الزام کو غلط قرار دینے کے لیے ثبوت مہیا کرنا اور ان کی روشنی میں اپنی برأت حاصل کرنے کی کوشش کرنا ہے، بعض دوسرے لیڈران کرام کھلم کھلا کہتے ہیں کہ حزب اختلاف کا کام محض اختلاف کرنا ہے، اس لیے حکومت کو اختلاف سے گھبرانا نہیں چاہیے۔
اس سے یہ تو ثابت ہوگیا کہ حزب اختلاف کے فرائض میں دو فرائض سب سے اہم ہیں ایک ہر بات سے اختلاف کرنا اور دوسرے ڈھونڈ ڈھانڈ کر الزام لگانا۔ مگر خورشید شاہ سید زادے ہیں وہ کسی پر بلاوجہ الزام تراشی کے قائل نہیں اور وہ خود کہہ چکے ہیں کہ وہ اختلاف برائے اختلاف پر یقین نہیں رکھتے۔ چنانچہ اس بار جب پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کو سادھو بیلا جانا پڑا تو ان کا پہلا پڑاؤ سکھر میں تھا، جو خورشید شاہ کا وطن مالوف ہے۔ شاہ صاحب نے سندھی مہمان نوازی کے تحت ان رہنماؤں کے لیے اپنی طرف سے دوپہر کے کھانے کا بندوبست کیا، اس کھانے میں اخباری اطلاعات کے مطابق 45 اقسام کی ڈشیں شامل تھیں، جن میں مختلف اقسام کی روٹیاں، پراٹھے، وضع وضع کے کھانے اور انواع و اقسام کے فواکہات شامل تھے۔
یہ ظہرانہ اپنے منہ سے بول رہا تھا بلکہ چلارہا تھا کہ یہ کسی غریب ملک کے سیاست دانوں کا کھاجا نہیں، بلکہ ایک خوش حال، ترقی یافتہ اور اقتصادی طور پر مستحکم ملک کے لیڈروں کے لیے ہے جو اللے تللے کے عادی ہوں۔
اس ظہرانے کے نتیجے میں عمران خان کی بن آئی ہوگی۔ وہ ہر موقع پر کہتے رہے ہیں کہ پیپلزپارٹی، ن لیگ کی حزب اختلاف نہیں بلکہ دونوں کے درمیان مک مکا ہے۔ اب اس ظہرانے سے وہ جو نتائج بھی اخذ کریں، اﷲ لگتی بات یہ ہے کہ حکومت جو ملکی اقتصادیات کی بحالی کا راگ الاپتے رہتے ہیں اس کی تصدیق خورشید شاہ نے اپنے عمل سے کردی ہے۔ اور اس غریب ملک کو پیٹ بھروں کا ملک قرار دے دیا ہے۔ اب اگر عمران خان اپنی تنقید کی لاٹھی گھماتے اور کہتے ہیں کہ خورشید شاہ نے بالواسطہ حکومت کی حمایت کردی ہے اور یہ مک مکا کا عملی ثبوت ہے تو زرداری صاحب کو اس پر قطعاً کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ ہم جیسے کتنے ہی عوام الناس نے بھی یہی نتیجہ اخذ کیا ہوگا۔
ابھی ہم نے اس تذکرے کے بعد بمشکل سانس لی ہوگی کہ ایک نجی ٹی وی نے ایک اور خبر نشر کی۔ ظاہر ہے ٹی وی کی خبر مع ثبوت کے نشر ہوتی ہے یعنی خبر مصور ہوتی ہے۔
خورشید شاہ اپنے ناتے پوتوں کو سیر کرانے کے لیے اپنے شہر ہی میں نکلے، وہ خود مع متعلقین مذکورہ بالا ایک بگھی میں سوار تھے مگر ان کے پیچھے پیچھے جو کچھ تھا اسے آج کل کی اصطلاح میں سیکیورٹی اور جہانگیر کے عہد میں لاؤ لشکر کہا جاتا تھا۔ اس خبر کو دیکھ کر فتح پور سیکری اور آگرہ کی یاد آجانا فطری بات تھی۔ وہی ہٹو بچو، وہی نگاہ روبرو، جہاں پناہ تشریف لاتے ہیں، والی کیفیت تھی۔ ہمارے ایک دوست اس پر معترض ہوئے تو ان کے ساتھ بیٹھے ایک اور صاحب نے کہا یہ تنقید فضول ہے، دراصل شاہ صاحب یہ بتانا چاہتے تھے کہ حزب اختلاف کے لیڈر ہوتے ہوئے جب وہ اس کروفر کے ساتھ نکل سکتے ہیں تو نواز شریف جو پوری پارلیمان کے لیڈر ہیں، اگر اپنے ناتے پوتوں کے ساتھ نکل پڑے تو شہر کا کیا حال ہوگا۔ ان کی یہ دلیل ہمارے دل کو بھی لگی اور خیال ہوا کہ یہ بھی ایک طرح حکومت وقت کی حمایت ہی ہے۔ کیا یہ تفریح کے لیے نکلنا بھی مک مکے کا حصہ ہے۔
ہمیں پاکستانی سیاسی اور سیاست دانوں سے کچھ زیادہ دلچسپی نہیں کہ ان لوگوں نے سیاست کو بدنام کرکے ایک ایسی گھٹیا چیز بنادیا ہے جس طرف کسی معقول آدمی کے حائل ہونے کی گنجائش نہیں۔ البتہ ان اللے تللوں سے خیال ہوتا ہے کہ ہمارے مغل حکمراں بلا وجہ بدنام تھے۔
ہم نے اقتصادیات کی الف بے بھی نہیں پڑھی۔ اقتصادیات سے ہماری واقفیت بس اسی قدر ہے کہ ایک مقررہ تعداد میں تنخواہ حاصل کریں اور اسی کے اندر رہتے ہوئے اپنے اخراجات کو محدود رکھیں۔ بعض حضرات اسے کفایت شعاری اور بعض خستہ حالی قرار دیتے ہیں مگر ہمیں اس کی پرواہ اس لیے نہیں ہے کہ ہم اقتصادیات سے الحمدﷲ نابلد ہیں۔
ایک طرف اشیائے صرف کی بڑھتی ہوئی فلک بوس قیمتوں کو دیکھتے ہیں اور دوسری طرف حکومت کے دعوؤں پر غور کرتے ہیں تو عجیب مخمصے میں پڑجاتے ہیں۔ یا اﷲ اگر ملک کے اقتصادی حالات دن بدن بہتر ہوتے جا رہے ہیں تو پھر یہ مہنگائی چہ معنی دارد۔ مگر اس صورت حال کو ہم کبھی سمجھ نہ سکے۔ یہ ہمارے لیے چیستاں ہی بنی رہی۔ نہ ہم میں اس قدر اقتصادی فہم ہے کہ ہم حکومت کے دعوؤں کو غلط کہہ سکیں نہ اتنی لیاقت ہے کہ ان کی صداقت پر مہر تصدیق ثبت کرسکیں۔
حکومت کے دعوے پر مہر تصدیق ثبت کرنے کا اعزاز پارلیمان میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کو حاصل ہوا اور انھوں نے قولاً نہیں تو فعلاً ثابت کیا کہ حکومت جو دعوے کررہی ہے وہ واقعی درست ہیں۔ حزب اختلاف کا کام بقول عمران خان کے الزام لگانا ہے اور حزب اقتدار کا کام الزام کو غلط قرار دینے کے لیے ثبوت مہیا کرنا اور ان کی روشنی میں اپنی برأت حاصل کرنے کی کوشش کرنا ہے، بعض دوسرے لیڈران کرام کھلم کھلا کہتے ہیں کہ حزب اختلاف کا کام محض اختلاف کرنا ہے، اس لیے حکومت کو اختلاف سے گھبرانا نہیں چاہیے۔
اس سے یہ تو ثابت ہوگیا کہ حزب اختلاف کے فرائض میں دو فرائض سب سے اہم ہیں ایک ہر بات سے اختلاف کرنا اور دوسرے ڈھونڈ ڈھانڈ کر الزام لگانا۔ مگر خورشید شاہ سید زادے ہیں وہ کسی پر بلاوجہ الزام تراشی کے قائل نہیں اور وہ خود کہہ چکے ہیں کہ وہ اختلاف برائے اختلاف پر یقین نہیں رکھتے۔ چنانچہ اس بار جب پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کو سادھو بیلا جانا پڑا تو ان کا پہلا پڑاؤ سکھر میں تھا، جو خورشید شاہ کا وطن مالوف ہے۔ شاہ صاحب نے سندھی مہمان نوازی کے تحت ان رہنماؤں کے لیے اپنی طرف سے دوپہر کے کھانے کا بندوبست کیا، اس کھانے میں اخباری اطلاعات کے مطابق 45 اقسام کی ڈشیں شامل تھیں، جن میں مختلف اقسام کی روٹیاں، پراٹھے، وضع وضع کے کھانے اور انواع و اقسام کے فواکہات شامل تھے۔
یہ ظہرانہ اپنے منہ سے بول رہا تھا بلکہ چلارہا تھا کہ یہ کسی غریب ملک کے سیاست دانوں کا کھاجا نہیں، بلکہ ایک خوش حال، ترقی یافتہ اور اقتصادی طور پر مستحکم ملک کے لیڈروں کے لیے ہے جو اللے تللے کے عادی ہوں۔
اس ظہرانے کے نتیجے میں عمران خان کی بن آئی ہوگی۔ وہ ہر موقع پر کہتے رہے ہیں کہ پیپلزپارٹی، ن لیگ کی حزب اختلاف نہیں بلکہ دونوں کے درمیان مک مکا ہے۔ اب اس ظہرانے سے وہ جو نتائج بھی اخذ کریں، اﷲ لگتی بات یہ ہے کہ حکومت جو ملکی اقتصادیات کی بحالی کا راگ الاپتے رہتے ہیں اس کی تصدیق خورشید شاہ نے اپنے عمل سے کردی ہے۔ اور اس غریب ملک کو پیٹ بھروں کا ملک قرار دے دیا ہے۔ اب اگر عمران خان اپنی تنقید کی لاٹھی گھماتے اور کہتے ہیں کہ خورشید شاہ نے بالواسطہ حکومت کی حمایت کردی ہے اور یہ مک مکا کا عملی ثبوت ہے تو زرداری صاحب کو اس پر قطعاً کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ ہم جیسے کتنے ہی عوام الناس نے بھی یہی نتیجہ اخذ کیا ہوگا۔
ابھی ہم نے اس تذکرے کے بعد بمشکل سانس لی ہوگی کہ ایک نجی ٹی وی نے ایک اور خبر نشر کی۔ ظاہر ہے ٹی وی کی خبر مع ثبوت کے نشر ہوتی ہے یعنی خبر مصور ہوتی ہے۔
خورشید شاہ اپنے ناتے پوتوں کو سیر کرانے کے لیے اپنے شہر ہی میں نکلے، وہ خود مع متعلقین مذکورہ بالا ایک بگھی میں سوار تھے مگر ان کے پیچھے پیچھے جو کچھ تھا اسے آج کل کی اصطلاح میں سیکیورٹی اور جہانگیر کے عہد میں لاؤ لشکر کہا جاتا تھا۔ اس خبر کو دیکھ کر فتح پور سیکری اور آگرہ کی یاد آجانا فطری بات تھی۔ وہی ہٹو بچو، وہی نگاہ روبرو، جہاں پناہ تشریف لاتے ہیں، والی کیفیت تھی۔ ہمارے ایک دوست اس پر معترض ہوئے تو ان کے ساتھ بیٹھے ایک اور صاحب نے کہا یہ تنقید فضول ہے، دراصل شاہ صاحب یہ بتانا چاہتے تھے کہ حزب اختلاف کے لیڈر ہوتے ہوئے جب وہ اس کروفر کے ساتھ نکل سکتے ہیں تو نواز شریف جو پوری پارلیمان کے لیڈر ہیں، اگر اپنے ناتے پوتوں کے ساتھ نکل پڑے تو شہر کا کیا حال ہوگا۔ ان کی یہ دلیل ہمارے دل کو بھی لگی اور خیال ہوا کہ یہ بھی ایک طرح حکومت وقت کی حمایت ہی ہے۔ کیا یہ تفریح کے لیے نکلنا بھی مک مکے کا حصہ ہے۔
ہمیں پاکستانی سیاسی اور سیاست دانوں سے کچھ زیادہ دلچسپی نہیں کہ ان لوگوں نے سیاست کو بدنام کرکے ایک ایسی گھٹیا چیز بنادیا ہے جس طرف کسی معقول آدمی کے حائل ہونے کی گنجائش نہیں۔ البتہ ان اللے تللوں سے خیال ہوتا ہے کہ ہمارے مغل حکمراں بلا وجہ بدنام تھے۔