ایک دم بڑھیا فلم
سردی میں ٹھٹھرتے ہوئے وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ پاکستان میں جنت کی تازہ ہوا چلنے والی ہے۔
www.facebook.com/syedtalathussain.official
اگلی مرتبہ ہالی وڈ کے آسکر ایوارڈ کی تقریب میں ان تمام اداکاروں، صداکاروں اور فن کاروں کے نام ایوارڈ کے لیے ضرور نامزد ہونے چاہئیں جو کل کنٹینر اسکینڈل کے مرکزی کرداروںکے طور پر سامنے آ ئے۔ اتنے کم وقت میں اتنی اچھی فلم کو ترتیب دینا بین الاقوامی تربیت یافتہ ڈائریکٹرز کے بغیر ممکن نہیں تھا اور پھر یہ کوئی کم بجٹ والی فلم نہیں تھی۔ اس کے لیے کینیڈا، امریکا، لندن سے مالی مدد حاصل کی گئی تاکہ یہ ایک شاہکار فن پارے کے طور پر ہمیشہ یاد رکھی جائے۔
اس فلم کی تشہیر کرنے کے لیے ذرایع ابلاغ کی مدد حاصل کی گئی اور چن چن کے ان سے تعریفی اور طویل مکالمے لکھوائے گئے جو ماضی میں بھی ایسے کاموں کے لیے عظیم شہرت کما چکے ہیں۔ تماش بینوں کی تعداد کم نہیں تھی۔ آدھی قوم کو ٹیلی ویژن اسکرین کے سامنے بٹھائے جانے کا احسن اہتمام کیا گیا تھا۔ اس طرح کی دوسری فلموں کی طرح اس میں ایکسٹرا کا کردار بہت اہم تھا، یعنی وہ لوگ جو اپنی مجبوریوں اور خواہشات کے حصول میں مسلسل ناکامی کے باوجود ہر تجویز کو اپنے لیے ایک بڑا بریک تھرو سمجھتے ہیں۔ لہٰذا بچیاں، بچے، عورتیں، مر د، بز رگ، لا غر اور جوان پا کستا ن بچانے اور ا نقلاب لا نے کی تجویز کو سچ سمجھ کر کمر کستے ہوئے اسلام آباد کی طرف رواں دواں ہو گئے۔
وہاں پر سڑک پر بیٹھے ہوئے بھی ان کو اپنی ذلت و رسوائی اور استحصال کا احساس نہیں ہو رہا تھا، سردی میں ٹھٹھرتے ہوئے وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ پاکستان میں جنت کی تازہ ہوا چلنے والی ہے جو اس وقت تک صرف قادری صا حب کو کنٹینر میں مہیا تھی جہاں پر وہ فرحت بخش مشروبوں سے خود کو ترو تازہ کر رہے تھے اور سامنے موجود ایکسٹراز کو ماہرانہ ہدایات جاری کر رہے تھے۔ فلم بین صرف آپ لوگ ہی نہیں تھے میرے اپنے حلقہ احباب میں بیرون ملک سے پڑھے ہوئے اور اپنے شعبوں میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے تعلیم یافتہ طبقات کے نمایندے بھی شامل تھے۔
فلم کے مرکزی کردار کی کارکردگی اتنی بڑھیا تھی کی ذہانت و دانش سے بھر پور نکتہ نظر رکھنے والے یہ احباب توقع کر رہے تھے کی کنٹینر کی اسکرین پھٹے گی اور ملک میں صالح جنات اس سر زمین کی سرخ مٹی کو امید کے سبزے میں تبدیل کر دیں گے، ہر طرف لہلہاتے ہوئے کھیت ہوں گے اور ترقی کے چشمے ہر طرف سے پھوٹ رہے ہوںگے مگر پھر آخر میں فلم کا ڈراپ سین کچھ ایسا ڈرامائی تھا کہ یہ تمام امیدیں ڈھیر ہونے کے باوجود بہت سے لوگ ابھی تک اسی یقین کے ساتھ یہ رائے قائم کیے ہوئے ہیں کہ اس کے بعد بھی کچھ اور ہو گا۔ ان کے ذہن یہ ماننے کو تیار ہی نہیں ہیں کہ کسی تھیٹرمیں منعقد کیے جانے والے شو اور دکھائی جانے والی فلم کی طرح یہ کردار بھی جعلی تھے جن کا حقیقی زندگی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
وہ سب تو لکھا لکھایا اسکرپٹ پڑھ رہے تھے جس کا مقصد ترسے ہوئے عوام کو محظوظ کرنا اور اپنے مخالفین کو ذہنی اذیت میں مبتلا کرنا تھا ۔ اس سارے ڈرامے میں حسن کارکردگی کے امیدوار بہت سے ہیں۔ ان کا تذکرہ کرنے سے پہلے، متا ثرین ڈرامہ کا ذکر کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نواز متاثرین میں سے اول درجے پر ہے۔ طاہرا لقادری اب پنجاب میں سیاسی حیثیت حاصل کر چکے ہیں۔ ذرایع ابلاغ پر ایسی اشتہاری مہم کسی اور پارٹی کو نصیب ہو تو اس کی سیاسی زندگی سنور جائے۔ ڈاکٹر طاہر القادری سیاست نہ کرنے کے دعویٰ کے باوجود تشہیرکے اس موقع سے فائدہ اٹھا چکے ہیں، نام نہاد لانگ مارچ معاہدہ، جو پہلے سے انگریزی میں تحریر شدہ تھا اور اتحادی اداکاروں کی کنٹینر کی طرف روانگی سے پہلے درجنوں کاپیوں میں پرنٹ بھی ہو چکا تھا۔ اس کا مقصد طاہر القادری کو سیاسی مرکزیت دینے کے سوا کچھ اور نہیں تھا۔
انتخابات کے انتظامات، نگران حکو مت کا قیام، امیدواروں کی چھان بین وہ کام ہے جو سیاسی قوتوں نے الیکشن کمیشن کے ساتھ مل کر کرنا ہے، اتحادی اداکار اور کنٹینر فن کار رضاکارانہ طور پر یا مجبوری کے تحت آئین سے بالا معاہدے نہیں کر سکتے لہٰذا اس معاہدے کو ہر جگہ پر زیر بحث لا کر صرف ایک ہی مقصد حاصل ہوتا ہے اور وہ پنجاب میں مدرستہ المنہاج اور پاکستان عوامی تحریک کو سیاسی قوت کے طور پر نواز لیگ کے مد مقابل لا کر چوہدری برادران کو سیاسی راحت فراہم کرنا ہے۔ متاثرین کی فہرست میں دوسرا نمبر پاکستان تحریک انصاف کا ہے عمران خان کی پارٹی ایک مرتبہ پھر مخمصہ کا شکار نظر آئی آدھوں نے ٹکٹ خریدا اور آدھے ٹکٹ سے باہر رہے۔
عمران خان خود ایک ہاتھ سے اس فلم کی داد دے رہے تھے اور دوسرے ہاتھ سے اس پر تنقید کر رہے تھے۔ ایک ایسا کپتان جو فرنٹ فٹ پر بیٹنگ کرنے کے لیے مشہور تھا، اس مرتبہ بارہواں کھلاڑی نظر آ یا جو گرائونڈ میں اسی وقت نظر آتا ہے جب حالات دعوت دیں ورنہ خود سے کرسی پر بیٹھ کر مقابلے کو حسرت سے تکتا رہتا ہے۔ اگرچہ پاکستان تحریک انصاف نے اس فلم میں شرکت نہیں کی مگر پرسوں ڈراپ سین والے روز ان کی پارٹی کے جھنڈے جگہ جگہ نظر آ رہے تھے۔ اسلام آباد میں چلنے والی اس فلم نے عمران خان کا اسکرپٹ چوری کر لیا، اب نہ جانے ان کے پاس کوئی اسکرپٹ ہے بھی یا نہیں۔ متاثرین کا ایک اور طبقہ اس ملک کے عوام ہیں جو ایک مرتبہ پھر اجتماعی طور پر بے وقوف بنے۔
ملک کی صحا فت کی ساکھ بھی بری طرح متاثر ہوئی' اسکرین پر براجمان اینکرز فنکاروں کے چیلے نظر آئے اور ان کے مسلسل ہلتے ہوئے جبڑوں میں سے سچ کم اور پہلے سے طے شدہ جملے زیادہ ادا ہوئے۔ کسی نے اس کو انقلاب کہا ،کسی نے تاریخ ساز واقعہ کوئی ڈاکٹر طاہر القادری کو ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے درجے سے بھی اوپر لے گیا اور کوئی اس کو قائد اعظم ثانی کا خطاب دے کر خوش ہوا۔ یہ طویل دورانیے کی صحافت نہیں تھی بلکہ خجا لت کی وہ داستاں تھی جو تجزیوں اور رپورٹنگ کے نام پر پگھلے ہوئے سیسوں کی طرح ہمارے کانوں میں ڈالی گئی۔اب آخر میں سب سے بڑا سوال' بہترین کارکردگی کا یوارڈ کس کو ملنا چاہیے؟ میرے خیال میں اول حق دار ڈاکٹر طاہر القادری ہیں جنہوں نے جوش خطابت میں فرمایا تھا کہ ان کے پیچھے حضورﷺ کی ذات مبارک اور خداوند تعالٰی کی پاک ذات کھڑی ہے۔ مگر پرسوں جب ڈراپ سین چل رہا تھا تو ان کے پیچھے خورشید شاہ، چوہدری شجاعت حسین اور بابر غوری وغیرہ نظر آ رہے تھے۔
عشق قاتل سے بھی، مقتول سے ہمدردی بھی
یہ بتا کس سے محبت کی جزا مانگے گا
سجدہ خالق کو بھی، ابلیس سے یارانہ بھی
حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا