کھیل ختم پیسہ ہضم
قبل ازیں بدھ کی شام 16 جنوری کو اندھیرے میں دھرنے پر شب خون مارنے کا منصوبہ تیار تھا۔
KARACHI:
شطرنج کی بساط پر شاطروں نے اپنا پیادہ بچا لیا۔ حضرت مولاناطاہرالقادری کو پسپائی کے لیے محفوظ راستہ کسی اور نے نہیں، حکمران پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں نے فراہم کیا تھا جو صرف دو دن پہلے سپریم کورٹ کے ایک فیصلے پر جناب طاہر القادری کی اُچھل کود کا مذاق اُڑا رہے تھے، اسی طرح جناب طاہر القادری اپنے ہی احکامات سے برطرف کیے جانے والے حکمرانوں کا جس والہانہ انداز سے استقبال کر رہے تھے، وہ مناظر ساری قوم نے برا ہ راست دیکھے خاص طور پر جناب طاہر القادری کی وفاقی وزیر اطلاعات قمر الزمان کائرہ کے لیے والہانہ محبت کا مظاہرہ قابل دید تھا۔کہتے ہیں کہ بدن بولی Body Language میں جھوٹ کی ملاوٹ نہیں کی جا سکتی۔ صرف چند گھنٹے پہلے کوفہ اسلام آباد کے ''یزیدوں اور نمرودوں'' کی راہوں میں جس طرح حضرت مولانا مولوی طاہر القادری نے پلکیں بچھائیں وہ سب کچھ تو ہمیشہ کے لیے تاریخ میں رقم ہوا۔
جمعرات 17 جنوری کی صبح لاہور میں متحارب سیاسی جماعتوں کے دو چوٹی کے رہنمائوں سے ناشتے کی میز پر طویل گفتگو کا موقع ملا، مطلع صحافت پر اُبھرتے ہوئے کالم نگار حذیفہ رحمٰن قریشی بھی میرے ہمراہ تھے۔ وہاں ہونے والی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ طاہر القادری کو محفوظ راستہ فراہم کرنے کے لیے بعض طاقتیں سر گرم عمل ہو چکی ہیں۔ جن میں الطاف بھائی کے ساتھ ساتھ جناب عمران خان بھی پیش پیش تھے۔
خواتین اور شیر خوار بچوں کو مزید مشکلات سے بچانے کے لیے عمران خان فیصلہ کر چکے تھے کہ وہ تین بجے پریس کانفرنس کر کے شاہ محمود قریشی اور مخدوم جاوید ہاشمی پر مشتمل وفد حضرت مولانا طاہر القادری کی خدمت اقدس میں ارسال کریں گے اور ان سے دھرنا ختم کرنے کی درخواست کی جائے گی کہ وہ ایک ہفتے کی نئی ڈیڈ لائن دے کر دھرنا برخاست کر دیں اور اگر اُن کے مطالبات منظور نہ کیے گئے تو تحریک انصاف ان کے ساتھ مل کر مشترکہ لانگ مارچ کرے گی۔کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کی قیادت پر لانگ مارچ میں کودنے کے لیے بے پناہ دبائو تھا جونہی وفاقی حکومت کے بعض ذمے داروں کو عمران خان کی اس سیاسی پیش قدمی کا علم ہوا تو انھوں نے ہنگامی طور پر مولانا طاہر القادری سے مذاکرات کے لیے وفد بھجوانے کا اعلان کر دیا، ہمیشہ کے متذبذب عمران خان اور ان کے ضرورت سے زیادہ محتاط مشیر باہم صلاح مشورے ہی کرتے رہ گئے اور حکمران اتحاد نے میلہ لوٹ لیا۔ پانچ گھنٹے طویل مذاکرات کے بعد چار نکاتی لاحاصل اور بے مقصد معاہدے کا اعلان کر دیا۔
قبل ازیں بدھ کی شام 16 جنوری کو اندھیرے میں دھرنے پر شب خون مارنے کا منصوبہ تیار تھا۔ قوم کو اعصابی جھٹکے سے بچانے کے لیے اعصابی جنگ کے ماہرین نے بریکنگ نیوز بھی جاری کرا دی تھی جس کی توثیق رات گئے وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے کرتے ہوئے اعلان کیا تھاــ '' عمل جراحی کیا جائے گا'' جس کو پیپلز پار ٹی کے چیئر پرسن بلاول علی زرداری نے فوری مداخلت کر کے بر وقت رکوا دیا ورنہ خواتین اور شیر خوار بچوں کی انسانی ڈھال میں شگاف کر کے حضرت مولانا طاہر القادری تک رسائی کے منصوبے کا المناک انجام ہوتا۔ اسی طرح وزارت داخلہ میں براجمان شاہ دماغوں کا خیال تھا کہ رات کے اندھیرے میں پانی کی بوچھاڑ کر کے مجمعے کے قدم اکھاڑ دیے جائیں لیکن بھگڈر میں ننھے منھے بچوں کے کچلے جانے کے خوف نے اس احمقانہ منصوبے پر بھی عملدرآمد نہ ہونے دیا۔
انتخابی اصلاحات اور الیکشن کمیشن کی از سر نو تشکیل کے مطالبے میں حضرت مولانا مولوی طاہر القادری تن تنہا بروئے کار نہیں تھے بلکہ ایم کیو ایم اور تحریک انصاف بھی بالکل مختلف وجوہات کی بناء پر اسی طرح کے مطالبات کر رہی تھیں جس کا حاصل مقصد متوقع عام انتخابات میں تاخیر اور التواء کے سوا کچھ نہیں تھا۔ اللہ بھلا کرے تحریک انصاف کے آزمودہ کار رہنمائوں کا جنہوں نے خاصی مشکل سے عمران خان کو اسی طرح کے سراسر غیر آئینی اور غیر قانونی مطالبات سے پسپائی پر مجبور کر دیا۔ ورنہ وہ تو صاف شفاف انتخابات کے نام پر الیکشن کمیشن کی بخیہ گری کرنے پر تُلے ہوئے تھے۔
اقتدار کے ایوانوں میں 5 مئی کو عام انتخابات کے انعقاد کے بارے میں سرگوشیوں کی بازگشت اب دُور دُور تک سنائی دے رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ 21جنوری کو عام انتخابات کے لیے روڈ میپ کا اعلان کر دیا جائے گا۔
حکمران اتحاد اور جناب قادری کے درمیان ہونے والا معاہدہ مذاق بن کر رہ گیا ہے جسے عملیت پسند حضرت مولانا فضل الرحمٰن نے مردہ چوہا قرار دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کا نفاذ کر دیا گیا تو سب سے پہلے حضرت مولانا طاہر القادری سمیت ہماری ساری مذہبی قیادت ہمیشہ کے لیے سیاسی عمل میں حصہ لینے کی اہل نہیں رہے گی کہ صادق اور امین کے مقررہ آئینی معیار کو پورا کرنا ان کے بس کا روگ نہیں ہے۔
باقی رہا عبوری وزیراعظم کے لیے قائد ایوان کا ان کی رضا مندی سے دو ناموں کا پینل بنانا تو یہ کوئی مشکل مرحلہ نہیں ہے کیونکہ آئین کے مطابق متفقہ عبور ی وزیر اعظم کے لیے قائد حزب اختلاف چوہدری نثار کی رضا مندی ضروری ہے، جناب طاہر القادری کی نہیں، جو بیگانوں کی شادی میں عبد اللہ دیوانے کا کردار ادا کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگائے جا رہے ہیں۔ ویسے اس معاہدے کی اہم ترین شق 27 جنوری کو منہاج القرآن میں انتخابی اصلاحات کے لیے ہونے والا مجوزہ اجلاس ہے جس میں حکمران اتحاد کے تمام قائدین کی شرکت متوقع ہے، ان قائدین کی خدمت میں قبل از وقت عرض کر رہا ہوں کہ انھیں حضرت مولانا طاہر القادری ہیڈکوارٹرز کے بیت الخلائوں کا دورہ ہر حال میں کرائیں گے کیونکہ معزز مہمانوں کو صفائی ستھرائی کے اعلیٰ معیار سے روشناس کرانا اب روایت بن چکا ہے۔
حرف آخر یہ کہ عجلت میں حضرت مولانا طاہر القادری کے کروڑوں روپے مالیت کے بم پروف موبائل بنکر میں حاضر ہونے والے سرکاری وفد میں پر اسرار شخصیت کے مالک آقائے مرتضی پویا بھی شامل تھے، یہ کس کی نمایندگی کر رہے تھے تا حال واضح نہیں ہو سکا۔ آقائے مرتضی پویا، شیعہ برادری کے ممتاز رہنما اور سابق مدیر شہیر بھی رہے ہیں۔ ان کا ''دی مسلم'' مرحوم کبھی وفاقی دارالحکومت سے شایع ہونے والا واحد انگریزی روزنامہ تھا جہاں سے آج کے بڑے بڑے جغادری اخبار نویسوں نے اپنا کیرئیر شروع کیا تھا۔
آقائے مرتضی پویا نے حزب اللہ کے نام سے ایک تنظیم کھڑی کر کے سیاست کرنے کی ناکام کوشش کی تھی۔ وہ حکمران اتحاد کے وفد اور حضرت مولانا طاہر القادری کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے حتمی مسودے کی منظوری تک وہاں موبائل بنکر میں موجود تھے لیکن اعلان اسلام آباد کے دوران منظر سے غائب ہو گئے۔ وفاقی دارالحکومت کے تحقیقاتی وقایع نگاروں کے لیے آقائے مرتضی پویا کے اس دھرنے میں کردار کا سراغ لگانا چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔
شطرنج کی بساط پر شاطروں نے اپنا پیادہ بچا لیا۔ حضرت مولاناطاہرالقادری کو پسپائی کے لیے محفوظ راستہ کسی اور نے نہیں، حکمران پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں نے فراہم کیا تھا جو صرف دو دن پہلے سپریم کورٹ کے ایک فیصلے پر جناب طاہر القادری کی اُچھل کود کا مذاق اُڑا رہے تھے، اسی طرح جناب طاہر القادری اپنے ہی احکامات سے برطرف کیے جانے والے حکمرانوں کا جس والہانہ انداز سے استقبال کر رہے تھے، وہ مناظر ساری قوم نے برا ہ راست دیکھے خاص طور پر جناب طاہر القادری کی وفاقی وزیر اطلاعات قمر الزمان کائرہ کے لیے والہانہ محبت کا مظاہرہ قابل دید تھا۔کہتے ہیں کہ بدن بولی Body Language میں جھوٹ کی ملاوٹ نہیں کی جا سکتی۔ صرف چند گھنٹے پہلے کوفہ اسلام آباد کے ''یزیدوں اور نمرودوں'' کی راہوں میں جس طرح حضرت مولانا مولوی طاہر القادری نے پلکیں بچھائیں وہ سب کچھ تو ہمیشہ کے لیے تاریخ میں رقم ہوا۔
جمعرات 17 جنوری کی صبح لاہور میں متحارب سیاسی جماعتوں کے دو چوٹی کے رہنمائوں سے ناشتے کی میز پر طویل گفتگو کا موقع ملا، مطلع صحافت پر اُبھرتے ہوئے کالم نگار حذیفہ رحمٰن قریشی بھی میرے ہمراہ تھے۔ وہاں ہونے والی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ طاہر القادری کو محفوظ راستہ فراہم کرنے کے لیے بعض طاقتیں سر گرم عمل ہو چکی ہیں۔ جن میں الطاف بھائی کے ساتھ ساتھ جناب عمران خان بھی پیش پیش تھے۔
خواتین اور شیر خوار بچوں کو مزید مشکلات سے بچانے کے لیے عمران خان فیصلہ کر چکے تھے کہ وہ تین بجے پریس کانفرنس کر کے شاہ محمود قریشی اور مخدوم جاوید ہاشمی پر مشتمل وفد حضرت مولانا طاہر القادری کی خدمت اقدس میں ارسال کریں گے اور ان سے دھرنا ختم کرنے کی درخواست کی جائے گی کہ وہ ایک ہفتے کی نئی ڈیڈ لائن دے کر دھرنا برخاست کر دیں اور اگر اُن کے مطالبات منظور نہ کیے گئے تو تحریک انصاف ان کے ساتھ مل کر مشترکہ لانگ مارچ کرے گی۔کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کی قیادت پر لانگ مارچ میں کودنے کے لیے بے پناہ دبائو تھا جونہی وفاقی حکومت کے بعض ذمے داروں کو عمران خان کی اس سیاسی پیش قدمی کا علم ہوا تو انھوں نے ہنگامی طور پر مولانا طاہر القادری سے مذاکرات کے لیے وفد بھجوانے کا اعلان کر دیا، ہمیشہ کے متذبذب عمران خان اور ان کے ضرورت سے زیادہ محتاط مشیر باہم صلاح مشورے ہی کرتے رہ گئے اور حکمران اتحاد نے میلہ لوٹ لیا۔ پانچ گھنٹے طویل مذاکرات کے بعد چار نکاتی لاحاصل اور بے مقصد معاہدے کا اعلان کر دیا۔
قبل ازیں بدھ کی شام 16 جنوری کو اندھیرے میں دھرنے پر شب خون مارنے کا منصوبہ تیار تھا۔ قوم کو اعصابی جھٹکے سے بچانے کے لیے اعصابی جنگ کے ماہرین نے بریکنگ نیوز بھی جاری کرا دی تھی جس کی توثیق رات گئے وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے کرتے ہوئے اعلان کیا تھاــ '' عمل جراحی کیا جائے گا'' جس کو پیپلز پار ٹی کے چیئر پرسن بلاول علی زرداری نے فوری مداخلت کر کے بر وقت رکوا دیا ورنہ خواتین اور شیر خوار بچوں کی انسانی ڈھال میں شگاف کر کے حضرت مولانا طاہر القادری تک رسائی کے منصوبے کا المناک انجام ہوتا۔ اسی طرح وزارت داخلہ میں براجمان شاہ دماغوں کا خیال تھا کہ رات کے اندھیرے میں پانی کی بوچھاڑ کر کے مجمعے کے قدم اکھاڑ دیے جائیں لیکن بھگڈر میں ننھے منھے بچوں کے کچلے جانے کے خوف نے اس احمقانہ منصوبے پر بھی عملدرآمد نہ ہونے دیا۔
انتخابی اصلاحات اور الیکشن کمیشن کی از سر نو تشکیل کے مطالبے میں حضرت مولانا مولوی طاہر القادری تن تنہا بروئے کار نہیں تھے بلکہ ایم کیو ایم اور تحریک انصاف بھی بالکل مختلف وجوہات کی بناء پر اسی طرح کے مطالبات کر رہی تھیں جس کا حاصل مقصد متوقع عام انتخابات میں تاخیر اور التواء کے سوا کچھ نہیں تھا۔ اللہ بھلا کرے تحریک انصاف کے آزمودہ کار رہنمائوں کا جنہوں نے خاصی مشکل سے عمران خان کو اسی طرح کے سراسر غیر آئینی اور غیر قانونی مطالبات سے پسپائی پر مجبور کر دیا۔ ورنہ وہ تو صاف شفاف انتخابات کے نام پر الیکشن کمیشن کی بخیہ گری کرنے پر تُلے ہوئے تھے۔
اقتدار کے ایوانوں میں 5 مئی کو عام انتخابات کے انعقاد کے بارے میں سرگوشیوں کی بازگشت اب دُور دُور تک سنائی دے رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ 21جنوری کو عام انتخابات کے لیے روڈ میپ کا اعلان کر دیا جائے گا۔
حکمران اتحاد اور جناب قادری کے درمیان ہونے والا معاہدہ مذاق بن کر رہ گیا ہے جسے عملیت پسند حضرت مولانا فضل الرحمٰن نے مردہ چوہا قرار دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کا نفاذ کر دیا گیا تو سب سے پہلے حضرت مولانا طاہر القادری سمیت ہماری ساری مذہبی قیادت ہمیشہ کے لیے سیاسی عمل میں حصہ لینے کی اہل نہیں رہے گی کہ صادق اور امین کے مقررہ آئینی معیار کو پورا کرنا ان کے بس کا روگ نہیں ہے۔
باقی رہا عبوری وزیراعظم کے لیے قائد ایوان کا ان کی رضا مندی سے دو ناموں کا پینل بنانا تو یہ کوئی مشکل مرحلہ نہیں ہے کیونکہ آئین کے مطابق متفقہ عبور ی وزیر اعظم کے لیے قائد حزب اختلاف چوہدری نثار کی رضا مندی ضروری ہے، جناب طاہر القادری کی نہیں، جو بیگانوں کی شادی میں عبد اللہ دیوانے کا کردار ادا کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگائے جا رہے ہیں۔ ویسے اس معاہدے کی اہم ترین شق 27 جنوری کو منہاج القرآن میں انتخابی اصلاحات کے لیے ہونے والا مجوزہ اجلاس ہے جس میں حکمران اتحاد کے تمام قائدین کی شرکت متوقع ہے، ان قائدین کی خدمت میں قبل از وقت عرض کر رہا ہوں کہ انھیں حضرت مولانا طاہر القادری ہیڈکوارٹرز کے بیت الخلائوں کا دورہ ہر حال میں کرائیں گے کیونکہ معزز مہمانوں کو صفائی ستھرائی کے اعلیٰ معیار سے روشناس کرانا اب روایت بن چکا ہے۔
حرف آخر یہ کہ عجلت میں حضرت مولانا طاہر القادری کے کروڑوں روپے مالیت کے بم پروف موبائل بنکر میں حاضر ہونے والے سرکاری وفد میں پر اسرار شخصیت کے مالک آقائے مرتضی پویا بھی شامل تھے، یہ کس کی نمایندگی کر رہے تھے تا حال واضح نہیں ہو سکا۔ آقائے مرتضی پویا، شیعہ برادری کے ممتاز رہنما اور سابق مدیر شہیر بھی رہے ہیں۔ ان کا ''دی مسلم'' مرحوم کبھی وفاقی دارالحکومت سے شایع ہونے والا واحد انگریزی روزنامہ تھا جہاں سے آج کے بڑے بڑے جغادری اخبار نویسوں نے اپنا کیرئیر شروع کیا تھا۔
آقائے مرتضی پویا نے حزب اللہ کے نام سے ایک تنظیم کھڑی کر کے سیاست کرنے کی ناکام کوشش کی تھی۔ وہ حکمران اتحاد کے وفد اور حضرت مولانا طاہر القادری کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے حتمی مسودے کی منظوری تک وہاں موبائل بنکر میں موجود تھے لیکن اعلان اسلام آباد کے دوران منظر سے غائب ہو گئے۔ وفاقی دارالحکومت کے تحقیقاتی وقایع نگاروں کے لیے آقائے مرتضی پویا کے اس دھرنے میں کردار کا سراغ لگانا چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔