وہ کون تھا اور ابھی ہے بھی
ہمارے میڈیا کے وقایع نگاروں تجزیہ کاروں اور دانشوروں نے حضرت کو جی بھر کر الوداع کہا ہے
نہایت احتیاط کے ساتھ کہ لاکھوں پریشان حال پاکستانی شیخ الاسلام (خود ساختہ) کے زیر اثر ہیں، میں گزشتہ دنوں لاہور کے جلسے کے بعد اسلام آباد کے دھرنے تک کچھ نہ کچھ عرض کرتا رہا۔ اس دوران شیخ الاسلام مسلسل بولتے رہے، ان کی ہمت اور اسٹیمنا کی داد دینی پڑتی ہے کہ وہ کئی گھنٹوں تک اپنے جوش خطابت کو قائم رکھتے ہوئے بولتے رہے اور یقین دلا دیا، ہمارے جیسے لوگوں کو وہ بلاشبہ ایک پیشہ ور خطیب ہیں۔ سنا ہے وہ تحریر میں بھی اتنی ہی فضول خرچی کرتے ہیں جتنی ان کی تقریر میں تھی اور پاکستان میں ان کے پاس جو کچھ تھا، وہ سب ہمارے حکمرانوں کے کرتوت اور بد اعمالیاں تھیں جس سے پاکستانی نکو نک آئے ہوئے ہیں اور ان کا بس نہیں چلتا کہ ان سے گن گن اپنے مصائب کے بدلے لے سکیں۔
اب قادری نے یہ بدلے لینے کا صرف عندیہ دیا تو وہ نعرے لگاتے اس کے گرد جمع ہو گئے قادری صاحب یعنی شیخ الاسلام کا کمال یہ تھا کہ وہ صورت حال کو بھانپ کر اس سے فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہو گئے لیکن چونکہ موصوف کے اندر کچھ نہیں تھا اس لیے وہ سیاسی اسمگلروں سے بری طرح مار کھا گئے، ان کی مرضی کے مطابق انھیں لکھ کر دے گئے، یوں بھرے بازار میں اپنے ہاتھ کٹوا دیتے اور اب اطلاع یہ ہے کہ وہ اپنے وطن مالوف کینیڈا کے لیے مائل پرواز ہونے والے ہیں اور اندازہ یہی ہے کہ وہ قیام پاکستان کے ان دنوں میں تضادات اور خواہشات سے بھری ہوئی تقریریں مزید کریں گے اور جاتے جاتے اپنی شہرت بچانے کی کوشش کریں گے، وہ شہرت جو اسلام آباد کے ڈی چوک میں ان کے اپنے لانگ مارچ تلے کچلی گئی ہے۔
ہمارے میڈیا کے وقایع نگاروں تجزیہ کاروں اور دانشوروں نے حضرت کو جی بھر کر الوداع کہا ہے اور یہ وداعی کلمات ابھی جاری ہیں۔ اتنے اخبارات اور ٹی وی چینلز نہیں جتنے یہ الوداعی جذبات ہیں۔ ان جذبات کے بھی کنٹینر بھر کر ان کے سامان میں شامل کیے جا رہے ہیں اور پاکستان کے ان تحفوں کو وہ اپنی یورپی تنہائیوں میں پڑھتے رہیں گے۔ پاکستان کے ٹھنڈے مزاج اور متوازن سوچ والے دانشووں کے ذہنوں سے ان کی مشکوک پاکستانیت ایک لمحے کے لیے بھی نہیں نکلی۔ وہ ان کے اعتراف اور دوسرے مستند حقائق کے مطابق ملک کینیڈا کے شہری بھی ہیں۔ اس ملک کی یہ شہریت خریدی بھی جا سکتی ہے اور اس کے بعض سیاسی اسباب بھی ہو سکتے ہیں۔
بہر حال جس طرح بھی انھوں نے اس مسیحی عقیدے اور ملکہ برطانیہ کے زیر حکومت ملک کی شہریت حاصل کر لی۔ ملکہ معظمہ کے لاتعداد القاب میں دین مسیح کی محافظ کے الفاظ بھی ہیں، ہمارے شیخ الاسلام نے اس ملک کی وفاداری کا حلف لیا ہے اور ضرورت پڑی تو پاکستان کے خلاف جنگ کا حلف بھی اس میں شامل ہے اور بھی بہت کچھ دوسری طرف پاکستان ہے، ایک سو فی صد نظریاتی ملک جس کے وجود کی سوائے نظریات کے کوئی وجہ نہیں۔ یہ ملک متحدہ ہندوستان سے الگ کر کے بنایا گیا، صرف اس لیے کہ یہاں مسلمانوں کی ثقافت اور بطور مسلمان زندگی محفوظ نہیں تھی۔
قیام پاکستان کے دور میں یہ بات بالکل واضح تھی کہ پاکستان کیوں بنایا جا رہا ہے، دنیا کی تاریخ کا پہلا ملک جو صرف کسی نظریے کی وجہ سے ہی وجود میں آیا۔ اگرچہ قیام پاکستان کے بعد ہماری ایک سے زیادہ حکومتوں نے کسی نظرئیے سے انکار کیا اب بھی جو حکومت ہے وہ سیکولر ہونے کی دعوے دار ہے لیکن پاکستان کی بھاری اکثریت اپنے آپ کو پاکستانی نظریات کا پیروکار سمجھتی رہی۔ تعلیمی اداروں میں اگرچہ نظریہ پاکستان کی تعلیم قریباً موقوف ہی رہی لیکن ایک نسل سے دوسری نسل تک یہ تعلیم زبانی کلامی ہی سہی پہنچتی رہی۔ ایک ایسے نظریاتی ملک سے جو اپنے نظرئیے کی برتری پر اصرار کرتا ہے اور اسے خدا و رسول کا فضل و کرم سمجھتا ہے اور اس کی بنیاد قرآن و سنت کی تعلیم پر رکھتا ہے اس کا شہری اپنی اس برتر شہریت کو کسی بھی دوسرے ملک کی شہریت پر قربان اور اسے داغدار کیسے کر سکتا ہے اگر فقہی اصولوں کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ دوسری شہریت شاید غیر شرعی ٹھہرے۔
مسلمانوں کو کسی غیر مسلم ملک میں مستقل قیام کی اجازت نہیں الا یہ کہ وہ جہاد میں مصروف ہوں، تبلیغ کر رہے ہوں یا تجارت کی کوئی مصروفیت ہو۔ کسی آسائش اور خاص پر لطف زندگی بسر کرنے کے لیے کسی غیر مسلم ملک کی شہریت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ میں نے برطانیہ میں ان پاکستانیوں سے جن کی نسلیں بھی اب اس ملک کی شہری ہیں خود سنا ہے کہ خدا ہمیں شاید معاف کر دے کہ کسی دور میں کسی مجبوری کے تحت ترک وطن پر آمادہ ہوئے اور پھر اسی ملک کے ہو کر رہ گئے۔ ایک پاکستانی پراپرٹی ڈیلر نے مجھے پیش کش کی کہ میں تمہیں یہاں کوئی فلیٹ لے کر دے سکتا ہوں، قیمت حکومت ادا کرے گی، تم کچھ تھوڑا بہت پیشگی دے دینا۔
میں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اللہ کے فضل سے میرے مسلمان ملک میں میرا گھر بار ہے اور بہت کچھ ہے، میں یہاں کیوں کچھ خریدوں، اس پاکستانی نے بھیگی ہوئی آنکھوں سے مجھ سے کہا کہ یہاں جائیداد کی قیمت کی قسطیں کوئی پچیس برس میں ادا ہوتی ہیں اور پھر وہ شخص یہیں کا ہو کر رہ جاتا ہے، یہ انگریزوں کی ایک حکمت عملی ہے۔ تم پہلے پاکستانی ہو جو انکار کر رہے ہو اور میں اس پر فخر کرتا ہوں کہ میرے بعض بھائی کتنے پاکستانی ہیں۔
عرض یہ کر رہا تھا کہ قادری صاحب کی دوسری غیر مسلم ملک کی شہریت میرے خیال میں ان کو نصف دائرہ اسلام سے خارج کرتی ہے، وہ زیادہ سے زیادہ آدھے پاکستانی ہیں، اب غور کیجیے کہ ہمارے پاکستانی کن گونا گوں مصائب کے شکار ہیں کہ ایسے لوگوں کو لیڈر سمجھتے ہیں، رہنما اور نجات دہندہ جو شدید سردی میں ٹھٹھرتے بچوں اور ان کے ساتھ خواتین کو سردی اور بارش کے حوالے کر کے خود ان کی آنکھوں کے سامنے ایک بند زبردست پُر آسائش کمرہ نما کنٹینر میں بند ہے اور ہیٹروں کی وجہ سے پسینہ خشک کر رہا ہے اور اللہ معاف کرے اپنے آپ کو حسینی لشکر میں اور دوسروں کو یزیدی قرار دیتا ہے، پھر ان یزیدیوں سے معاہدہ کر کے نعرے لگاتا ہے۔ اس شخص کی بعض دوسری جراتیں کربلا سے بڑھ کر ہیں مگر میں ان کا ذکر نہیں کرتا کہ کوئی مسلمان ایسی کارروائی کر دے گا اور اکسانے میں پکڑا میں جائوں گا۔ سوائے اس کے کیا عرض کر سکتا ہوں میرے ہم وطنو ہوش کرو اور الیکشن میں اپنے حقوق چھیننے والوں سے حکومت چھین لو۔ خوشنما باتیں کرنے والوں کو دیکھو کہ وہ کون ہیں۔
اب قادری نے یہ بدلے لینے کا صرف عندیہ دیا تو وہ نعرے لگاتے اس کے گرد جمع ہو گئے قادری صاحب یعنی شیخ الاسلام کا کمال یہ تھا کہ وہ صورت حال کو بھانپ کر اس سے فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہو گئے لیکن چونکہ موصوف کے اندر کچھ نہیں تھا اس لیے وہ سیاسی اسمگلروں سے بری طرح مار کھا گئے، ان کی مرضی کے مطابق انھیں لکھ کر دے گئے، یوں بھرے بازار میں اپنے ہاتھ کٹوا دیتے اور اب اطلاع یہ ہے کہ وہ اپنے وطن مالوف کینیڈا کے لیے مائل پرواز ہونے والے ہیں اور اندازہ یہی ہے کہ وہ قیام پاکستان کے ان دنوں میں تضادات اور خواہشات سے بھری ہوئی تقریریں مزید کریں گے اور جاتے جاتے اپنی شہرت بچانے کی کوشش کریں گے، وہ شہرت جو اسلام آباد کے ڈی چوک میں ان کے اپنے لانگ مارچ تلے کچلی گئی ہے۔
ہمارے میڈیا کے وقایع نگاروں تجزیہ کاروں اور دانشوروں نے حضرت کو جی بھر کر الوداع کہا ہے اور یہ وداعی کلمات ابھی جاری ہیں۔ اتنے اخبارات اور ٹی وی چینلز نہیں جتنے یہ الوداعی جذبات ہیں۔ ان جذبات کے بھی کنٹینر بھر کر ان کے سامان میں شامل کیے جا رہے ہیں اور پاکستان کے ان تحفوں کو وہ اپنی یورپی تنہائیوں میں پڑھتے رہیں گے۔ پاکستان کے ٹھنڈے مزاج اور متوازن سوچ والے دانشووں کے ذہنوں سے ان کی مشکوک پاکستانیت ایک لمحے کے لیے بھی نہیں نکلی۔ وہ ان کے اعتراف اور دوسرے مستند حقائق کے مطابق ملک کینیڈا کے شہری بھی ہیں۔ اس ملک کی یہ شہریت خریدی بھی جا سکتی ہے اور اس کے بعض سیاسی اسباب بھی ہو سکتے ہیں۔
بہر حال جس طرح بھی انھوں نے اس مسیحی عقیدے اور ملکہ برطانیہ کے زیر حکومت ملک کی شہریت حاصل کر لی۔ ملکہ معظمہ کے لاتعداد القاب میں دین مسیح کی محافظ کے الفاظ بھی ہیں، ہمارے شیخ الاسلام نے اس ملک کی وفاداری کا حلف لیا ہے اور ضرورت پڑی تو پاکستان کے خلاف جنگ کا حلف بھی اس میں شامل ہے اور بھی بہت کچھ دوسری طرف پاکستان ہے، ایک سو فی صد نظریاتی ملک جس کے وجود کی سوائے نظریات کے کوئی وجہ نہیں۔ یہ ملک متحدہ ہندوستان سے الگ کر کے بنایا گیا، صرف اس لیے کہ یہاں مسلمانوں کی ثقافت اور بطور مسلمان زندگی محفوظ نہیں تھی۔
قیام پاکستان کے دور میں یہ بات بالکل واضح تھی کہ پاکستان کیوں بنایا جا رہا ہے، دنیا کی تاریخ کا پہلا ملک جو صرف کسی نظریے کی وجہ سے ہی وجود میں آیا۔ اگرچہ قیام پاکستان کے بعد ہماری ایک سے زیادہ حکومتوں نے کسی نظرئیے سے انکار کیا اب بھی جو حکومت ہے وہ سیکولر ہونے کی دعوے دار ہے لیکن پاکستان کی بھاری اکثریت اپنے آپ کو پاکستانی نظریات کا پیروکار سمجھتی رہی۔ تعلیمی اداروں میں اگرچہ نظریہ پاکستان کی تعلیم قریباً موقوف ہی رہی لیکن ایک نسل سے دوسری نسل تک یہ تعلیم زبانی کلامی ہی سہی پہنچتی رہی۔ ایک ایسے نظریاتی ملک سے جو اپنے نظرئیے کی برتری پر اصرار کرتا ہے اور اسے خدا و رسول کا فضل و کرم سمجھتا ہے اور اس کی بنیاد قرآن و سنت کی تعلیم پر رکھتا ہے اس کا شہری اپنی اس برتر شہریت کو کسی بھی دوسرے ملک کی شہریت پر قربان اور اسے داغدار کیسے کر سکتا ہے اگر فقہی اصولوں کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ دوسری شہریت شاید غیر شرعی ٹھہرے۔
مسلمانوں کو کسی غیر مسلم ملک میں مستقل قیام کی اجازت نہیں الا یہ کہ وہ جہاد میں مصروف ہوں، تبلیغ کر رہے ہوں یا تجارت کی کوئی مصروفیت ہو۔ کسی آسائش اور خاص پر لطف زندگی بسر کرنے کے لیے کسی غیر مسلم ملک کی شہریت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ میں نے برطانیہ میں ان پاکستانیوں سے جن کی نسلیں بھی اب اس ملک کی شہری ہیں خود سنا ہے کہ خدا ہمیں شاید معاف کر دے کہ کسی دور میں کسی مجبوری کے تحت ترک وطن پر آمادہ ہوئے اور پھر اسی ملک کے ہو کر رہ گئے۔ ایک پاکستانی پراپرٹی ڈیلر نے مجھے پیش کش کی کہ میں تمہیں یہاں کوئی فلیٹ لے کر دے سکتا ہوں، قیمت حکومت ادا کرے گی، تم کچھ تھوڑا بہت پیشگی دے دینا۔
میں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اللہ کے فضل سے میرے مسلمان ملک میں میرا گھر بار ہے اور بہت کچھ ہے، میں یہاں کیوں کچھ خریدوں، اس پاکستانی نے بھیگی ہوئی آنکھوں سے مجھ سے کہا کہ یہاں جائیداد کی قیمت کی قسطیں کوئی پچیس برس میں ادا ہوتی ہیں اور پھر وہ شخص یہیں کا ہو کر رہ جاتا ہے، یہ انگریزوں کی ایک حکمت عملی ہے۔ تم پہلے پاکستانی ہو جو انکار کر رہے ہو اور میں اس پر فخر کرتا ہوں کہ میرے بعض بھائی کتنے پاکستانی ہیں۔
عرض یہ کر رہا تھا کہ قادری صاحب کی دوسری غیر مسلم ملک کی شہریت میرے خیال میں ان کو نصف دائرہ اسلام سے خارج کرتی ہے، وہ زیادہ سے زیادہ آدھے پاکستانی ہیں، اب غور کیجیے کہ ہمارے پاکستانی کن گونا گوں مصائب کے شکار ہیں کہ ایسے لوگوں کو لیڈر سمجھتے ہیں، رہنما اور نجات دہندہ جو شدید سردی میں ٹھٹھرتے بچوں اور ان کے ساتھ خواتین کو سردی اور بارش کے حوالے کر کے خود ان کی آنکھوں کے سامنے ایک بند زبردست پُر آسائش کمرہ نما کنٹینر میں بند ہے اور ہیٹروں کی وجہ سے پسینہ خشک کر رہا ہے اور اللہ معاف کرے اپنے آپ کو حسینی لشکر میں اور دوسروں کو یزیدی قرار دیتا ہے، پھر ان یزیدیوں سے معاہدہ کر کے نعرے لگاتا ہے۔ اس شخص کی بعض دوسری جراتیں کربلا سے بڑھ کر ہیں مگر میں ان کا ذکر نہیں کرتا کہ کوئی مسلمان ایسی کارروائی کر دے گا اور اکسانے میں پکڑا میں جائوں گا۔ سوائے اس کے کیا عرض کر سکتا ہوں میرے ہم وطنو ہوش کرو اور الیکشن میں اپنے حقوق چھیننے والوں سے حکومت چھین لو۔ خوشنما باتیں کرنے والوں کو دیکھو کہ وہ کون ہیں۔